پورا سال تعطیل پر رہنے والے مدرس کی تنخواہ کا شرعی حکم

سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے جامعہ معارف الاسلام میں ایک مدرس مولانا گل نواز صا حب عرصہ چار سال سے تدریس کے خدمات سرانجام دے رہا ہے۔مولانا موصوف کی مالی حالت کمزور ہے،گذشتہ دوماہ سے وہ بیمار ہیں جس کی وجہ سے وہ جامعہ میں آکرتدریس نہیں کر پائےاور اب اُن سے رابطہ ہونے پر معلوم ہوا کہ وہ آئندہ چھ سات ماہ تک گھر پر ہی رہیں گے اور جامعہ میں نہیں آئیں گے۔یہ تقریبا پورا سال ہی بن جاتا ہے کہ وہ جامعہ میں تدریس نہیں کرپائیں گے۔کیا ان کو جامعہ کی طرف سے جو ماہوار تنخواہ ملتی تھی تواس بیماری کی وجہ سے جامعہ میں نہ آنے کے باوجود ہم ان کووہ تنخواہ دے سکتے ہیں یا نہیں؟شریعت کی روشنی میں جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی ڈاکٹرمولانا محمدادریس مہتمم جامعہ معارف الاسلام کھنہ ایسٹ اسلام آباد

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب

حامداً ومصلیا!

مدارس دینیہ کا عرف یہ ہے کہ سالانہ تعطیلات شعبان اوررمضان کے مہینوں میں اپنے مدرسین کو مشاہرہ دیتے ہیں ، چونکہ مدرسین نے سارا سال تدریس کی خدمات سرانجام دی ہوئی ہوتی ہیں اس وجہ سے ایام تعطیل کو عرف کی وجہ سے ایام عمل کے تابع کرکے مدارس اپنے مدرسین کو سالانہ چھٹیوں کی تنخواہ دیتے ہیں۔سارا سال جو مدرس جامعہ میں تدریس نہیں کر پاتاتو اس کو تنخواہ دینے کا عرف مدارس کا نہیں ہے اور نہ ہی ایسا عرف بنانا جائز ہے کیونکہ مدارس کے             منتظمین مدارس کی مصلحت کے مطابق عمل پیرا ہونے کے پابند ہیں اور پورا سال جامعہ میں نہ آنے والے مدرس کو تنخواہ دینا مدرسے کی مصلحت کے خلاف ہے۔نیز فقہی اعتبار سے جب ایک مدرس سال کے اکثرحصہ میں تدریس کرتا ہے تو ایام تعطیل کو اس صورت میں ایام عمل کے تابع کیا جاتا ہے لیکن جب ایک مدرس پورا سال ہی غائب ہو تو اس کے حق میں اس کا تصور نہیں ہو سکتا۔اس وجہ سے صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال آپ کے لئے جامعہ کی طرف سے مولانا گل نواز صاحب کو تنخواہ دینا جائز نہیں ہے،البتہ اگر       آپ(جناب مہتمم صاحب)یا دیگر صاحب حیثیت ناظمین ومدرسین صاحبان اپنی ذاتی رقم سےبطیب نفس اپنی وسعت کےمطابق مولانا موصوف کے ساتھ کچھ تعاون کریں تو اس کے قابل ستائش عمل ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔ 

قال في الأشباه وقد اختلفوا في أخذ القاضي مارتب له في بيت المال في يوم بطالته، فقال في المحيط: إنه يأخذ لأنه يستريح لليوم الثاني وقيل لا.وفي المنية القاضي يستحق الكفاية من بيت المال في يوم البطالة في الأصح، وفي الوهبانية أنه أظهر فينبغي أن يكون كذلك في المدرس؛ لأن يوم البطالة للاستراحة، وفي الحقيقة تكون للمطالعة والتحرير عند ذوي الهمة، ولكن تعارف الفقهاء في زماننا بطالة طويلة أدت إلى أن صار الغالب البطالة،وأيام التدريس قليلةورده البيري بما في القنية إن كان الواقف قدر للدرس لكل يوم مبلغا فلم يدرس يوم الجمعة أو الثلاثاءلايحل له أن يأخذ ويصرف أجرهذين اليومين إلى مصارف المدرسة من المرمة وغيرها بخلاف ماإذالم يقدر لكل يوم مبلغا، فإنه يحل له الأخذ وإن لم يدرس فيهما للعرف،بخلاف غيرهمامن أيام الأسبوع حيث لا يحل له أخذ الأجرعن يوم لم يدرس فيه مطلقا سواء قدرله أجركل يوم أو لا.قلت:هذا ظاهر فيما إذا قدر لكل يوم درس فيه مبلغا أما لو قال يعطى المدرس كل يوم كذافينبغي أن يعطى ليوم البطالة المتعارفة بقرينة ما ذكره في مقابله من البناءعلى العرف،فحيث كانت البطالة معروفة في يوم الثلاثاء والجمعة وفي رمضان والعيدين يحل الأخذ،وكذا لو بطل في يوم غير معتاد لتحرير درس إلا إذا نص الواقف على تقييد الدفع باليوم الذي يدرس فيه كما قلنا.وفي الفصل الثامن عشر من التتارخانية قال الفقيه أبو الليث ومن يأخذ الأجر من طلبة العلم في يوم لا درس فيه أرجو أن يكون جائزا وفي الحاوي إذا كان مشتغلا بالكتابة والتدريس.

ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:04،ص:371۔

وفي القدوري الأجير المشترك من لا يستحق الأجر حتى يعمل، والأجير الخاص هو الذي يستحق الأجر بتسليم نفسه في المدة، وإن لم يعمل.

مجمع الانھر،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:02،ص:391۔

تنخواہ تو ایام عمل ہی کی ہے مگر تعطیل کا زمانہ تبعاً         ایام عمل کے ساتھ ملحق ہے تاکہ استراحت کرکے ایام عمل میں کام کر سکے۔

امداد الفتاویٰ جدید،زکریا بک ڈپو،انڈیا،ج:07،ص:315۔

واللہ اعلم بالصواب                     

مفتی ابوالاحراراُتلوی

دارالافتاء

جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی

محلہ سلیمان خیل جبر،ٹوپی صوابی