تین مہینے کے حمل کے ساقط ہونے کے بعد خون کی شرعی حیثیت

سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ آج سے 20 دن پہلے ایک خاتون کے تین ماہ کا حمل ساقط ہوا جس کی شکل خون کے ایک لتھڑے کی سی تھی۔اس کے بعد خون جاری ہوااور پھر آج سے 03 دن پہلے ایک اور خون کا لتھڑا خارج ہوا اور دونوں خون جاری ہیں۔ ان لتھڑوں کے خارج ہونے کے بعداس خون کا حکم کیا ہے اور اس خاتون کےنماز روزہ وغیرہ کا کیا حکم ہوگا؟شریعت کی روشنی میں جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی رئیس باچا

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب

حامداً ومصلیاً!

کسی خاتون کا حمل ضائع ہونے کے بعد نفاس کا حکم یہ ہےکہ اگر اس ضائع شدہ حمل یعنی بچے کے جسمانی اعضاء مثلاً ہاتھ، پیر،انگلی وغیرہ میں سے کسی عضو کی بناوٹ ظاہر ہو چکی ہوتو اس صورت میں یہ خاتون نفاس والی ہو جائے گی اور اس ضائع شدہ حمل کے بعد خارج ہونے والا خون نفاس کا شمار ہوگا۔اور اگر اس ضائع شدہ بچے کے جسمانی اعضاء میں سے کسی عضو کی بناوٹ ابھی تک ظاہر نہ ہو چکی ہو تو پھر اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے ،اس صورت میں نہ یہ خاتون نفاس والی بنے گی اور نہ ہی یہ جاری ہونے والا خون نفاس کا شمار ہو گا۔

بچے کے جسمانی اعضاء کی بناوٹ ظاہر ہونے کی مدت فقہائے کرام نے چار مہینے لکھی ہے۔لہٰذا جو حمل چار مہینے مکمل ہونے کے بعد ضائع ہوجائے تو اس کے بعد جاری ہونے والا خون نفاس کا شمار ہوگا ۔اور اگرحمل چار مہینے پورے ہونے سے پہلے ضائع ہو جائےتوشرعاً               اس حمل کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔اعتبار نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس حمل کے ضائع ہونے کے بعد جاری ہونے والا خون نفاس کا شمار نہیں ہوگااور نہ ہی اس حمل سے خاتون کی عدت پوری ہو گی۔اس صورت میں یہ دیکھا جائے گا کہ اگر یہ خون کم از کم تین دن تک آیا ہو اوراس سے پہلے ایک مکمل طہر (کم از کم پندرہ دن )بھی گزر چکا ہو تو اس صورت میں یہ خون حیض شمار ہوگا،اور اگر تین دن سے کم ہو یا اس سے پہلے ایک مکمل طہر نہ گزرا ہو تو اس صورت میں یہ استحاضہ ہوگا۔

صورت مسئولہ کے مطابق چونکہ یہ حمل 03 مہینے کا ضائع ہوا ہے اس وجہ سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس حمل کے ضائع ہونے کے بعد جو خون جاری ہوا ہے وہ نفاس کا نہیں ہے۔دوسری بات یہ کہ چونکہ یہ خون 17 دن تک جاری رہا اور پھر خون کاایک اور لتھڑا خارج ہوا ہے اور اس کے بعد سوال کے مطابق دونوں خون جاری ہیں تواس کا حکم یہ ہے کہ 20 دن پہلے جو خون جاری ہوا وہ حیض شمار ہوگا اور اس خاتون کی بیماری کے ایام کی جو عادت ہے اتنے دنوں تک یہ حیض شمار ہوگا اور عادت کے ایام کے بعد سے یہ خون استحاضہ ہوگا۔استحاضہ والی خاتون نماز بھی ادا کرے گی اور روزہ بھی رکھے گی۔البتہ اگر استحاضہ کا خون مسلسل جاری ہو اور کسی ایک نماز کا مکمل وقت اس حالت میں گزر جائے کہ نجاست کو دھو کر پاکی حاصل کرکے وقتی فرض نماز نہ ادا کرسکے تو اس صورت میں یہ عورت شرعی معذور شمار ہوگی۔ایسی صورت میں پھر اس عورت کے وضو اور طہارت کا تعلق ہر نماز کے وقت سے ہوتا ہے ،یعنی ہرنماز کا وقت داخل ہونے کے بعد یہ خاتون نیا وضو کرے گی اور اسی وضو سے اس وقت کے اندر وہ نماز بھی پڑھ سکتی ہے اور قرآن مجید کو چھو بھی سکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔مذکورہ خون کے علاوہ اگر کوئی اور نواقض وضو میں سے کوئی ناقض وضو نہ پایا جائے تو اس خون کی وجہ سے اس کاوضو نہیں ٹوٹے گا اور جب نماز کاوقت ختم ہوجائے تو اس کا وضو خود بخود ختم ہوجائے گا ۔اگلی نماز کا وقت داخل ہونے پر دوبارہ وضو کرنا ضروری ہوگا۔

(وسقط) مثلث السين: أي مسقوط (ظهر بعض خلقه كيد أو رجل) أو أصبع أو ظفر أو شعر، ولا يستبين خلقه إلا بعد مائة وعشرين يوما (ولد) حكما (فتصير) المرأة (به نفساء والأمة أم ولد ويحنث به) في تعليقه وتنقضي به العدة، فإن لم يظهر له شيء فليس بشيء، والمرئي حيض إن دام ثلاثا وتقدمه طهر تام وإلا استحاضة، ولو لم يدر حاله ولا عدد أيام حملها ودام الدم تدع الصلاة أيام حيضها بيقين ثم تغتسل ثم تصلي كمعذور.

در مختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:01،ص:302۔

(ودم استحاضة) حكمه (كرعاف دائم) وقتا كاملا (لا يمنع صوما وصلاة) ولو نفلا (وجماعا)۔۔۔۔۔ (قوله لا يمنع صوما إلخ) أي ولا قراءة ومس مصحف ودخول مسجد وكذا لا تمنع عن الطواف إذا أمنت من اللوث قهستاني عن الخزانة۔

ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:01،ص:298۔

(قوله: والسقط إن ظهر بعض خلقه ولدا) وهو بالكسر والتثليث لغة، كذا في المصباح وهو الولد الساقط قبل تمامه وهو كالساقط بعد تمامه في الأحكام فتصير المرأة به نفساء وتنقضي به العدة وتصير الأمة به أم ولد إذا ادعاه المولى ويحنث به لو كان علق يمينه بالولادة ولا يستبين خلقه إلا في مائة وعشرين يوما، كذا ذكره الشارح الزيلعي في باب ثبوت النسب والمراد نفخ الروح وإلا فالمشاهد ظهور خلقته قبلها قيد بقوله إن ظهر؛ لأنه لو لم يظهر من خلقته شيء فلا يكون ولدا ولا تثبت هذه الأحكام فلا نفاس لها لكن إن أمكن جعل المرئي من الدم حيضا بأن يدوم إلى أقل مدة الحيض ويقدمه طهر تام يجعل حيضا، وإن لم يمكن كان استحاضة، كذا في العناية۔

البحر الرائق،دارالکتاب الاسلامی،بیروت،ج:01،ص:229۔

واللہ اعلم بالصواب

مفتی ابوالاحراراُتلوی

دارالافتاء

جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی

محلہ سلیمان خیل جبر،ٹوپی صوابی