پشتو زبان میں بطور گالی میرمن طلاقی کے لفظ سے وقوع طلاق کا حکم
سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ عموماً ہمارے پختون معاشرے میں پٹھان حضرات بیوی کو غصہ کی حالت میں گالی کے طور پرپشتو میں
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق پشتو زبان میں گالی کے طور پر"میرمن طلاقی"کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ہمارے پختون معاشرے میں اس طرح کے بعض الفاظ گالی اور سب وشتم کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں،اس وجہ سے گالی کے لیے استعمال ہونے کی وجہ سے پختون معاشرے کی عادات،عرف ورواج اور پشتو زبان سے واقف ہمارے جید مفتیان کرام نے ان جیسے الفاظ سے گالی کے طور پر کہنے کی صورت میں طلاق کے واقع نہ ہونے کے قول کواختیار کیا ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمد فرید صاحب رحمہ اللہ کا فتویٰ
چونکہ یہ لفظ(دخر طلاق زویہ)سب یعنی گالی کے لیے استعمال ہوتا ہےنہ کہ انشاء طلاق کے لیے،لعدم الاضافۃ الیٰ المراۃلہٰذا اس شخص پر بیوی مطلقہ نہیں ہوئی ہے ۔فتاویٰ فریدیہ،طبع باراول،1430ھ،ج:05،ص:501۔
حضرت مولانامفتی رضاء الحق صاحب دامت برکاتہم کا فتویٰ
نیز یہ الفاظ اکثر سب وشتم کے طور پر استعمال ہوتے ہیں،اگر سب وشتم کی نیت ہو تو بیوی کومخاطب کرکے"طلاقن"کہہ دے تب بھی دیانۃً طلاق نہیں ہوگی۔۔۔۔۔ہاں اگراس نے سب وشتم کرتے ہوئے کہا تو دیانۃً اس کی بات مانی جائیگی اور طلاق واقع نہ ہوگی۔۔۔۔۔خلاصہ یہ ہے کہ سب وشتم کی نیت سے کہا اور بیوی کوکوئی اعتراض نہیں ہے تو مفتی طلاق نہ ہونے کا فتویٰ دے سکتا ہےکیونکہ عرف میں یہ سب وشتم میں استعمال ہوتا ہے۔
فتاویٰ دارالعلوم زکریا،زمزم پبلشرز،کراچی،2010،ج:04،ص: 150،151،152 ۔
حضرت مولانامفتی غلام الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم کا فتویٰ
یہ الفاظ(د طلاقی بچیہ)صرف سب وشتم کے طور پر استعمال کیے ہوں جیسا کہ اکثر پٹھانوں کے عرف میں اسی نیت سے یہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں تو بھی اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ یہ الفاظ خبر کے ہیں انشاء کے نہیں۔
فتاویٰ عثمانیہ،العصر اکیڈمی،پشاور،اشاعت ہفتم،2021ء،ج:06،ص:50۔
ولو أقر بالطلاق كاذبا أو هازلا وقع قضاء لا ديانة.
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:03،ص:236۔
إذا قال لامرأته: يا مطلقة وقع الطلاق عليها، ولو قال: أردت به الشتم دين فيما بينه وبين الله تعالى ولم يدين في القضاء؛ لأنه وصفها بالطلاق. وإذا قال: أردت الشتم فقد نوى شيئاً ليس بوصف لها فيكون مدعياً خلاف الظاهر فلا يصدق في القضاء، ولو قال: أردت طلاق زوج كان لها قبل ذلك إن لم يكن لها زوج قبل ذلك لا يلتفت إلى قوله، وكذا إذا كا لها زوج قبل ذلك وقد مات عنها زوجها لا يلتفت إلى قوله، وإن كان قد طلقها صدق ديانة باتفاق الروايات ويدين في القضاء في رواية أبي سليمان لأنه وصفها بطلاق واقع والطلاق لا يختص بإيقاع زوج دون زوج فيصدق في ذلك، ولو قال لها: أنت مطْلقة بالتخفيف فذلك على النية.
المحیط البرہانی،دارالکتب العلمیۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1424ھ،ج:03،ص:207۔
ومنه يا طالق أو يا مطلقة بالتشديد ولو قال أردت الشتم لا يصدق قضاء ويدين كذا في الخلاصة ولو كان لها زوج طلقها قبل فقال أردت ذلك الطلاق صدق ديانة باتفاق الروايات وقضاء في رواية أبي سليمان وهو حسن كما في فتح القدير وهو الصحيح كما في الخانية
البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیۃ،ج:03،ص:270۔
رجل قال لامرأته يا مطلقة إن لم يكن لها زوج قبل أو كان لها زوج لكن مات ذلك الزوج ولم يطلق وقع الطلاق عليها وإن كان لها زوج قبله وقد كان طلقها ذلك الزوج إن لم ينو بكلامه الإخبار طلقت وإن قال عنيت به الإخبار دين فيما بينه وبين الله تعالى وهل يدين في القضاء اختلفت الروايات فيه والصحيح أنه يدين ولو قال نويت به الشتم دين فيما بينه وبين الله تعالى لا في القضاء۔
الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:01،ص:355۔واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل جبرٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق پشتو زبان میں گالی کے طور پر"میرمن طلاقی"کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ہمارے پختون معاشرے میں اس طرح کے بعض الفاظ گالی اور سب وشتم کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں،اس وجہ سے گالی کے لیے استعمال ہونے کی وجہ سے پختون معاشرے کی عادات،عرف ورواج اور پشتو زبان سے واقف ہمارے جید مفتیان کرام نے ان جیسے الفاظ سے گالی کے طور پر کہنے کی صورت میں طلاق کے واقع نہ ہونے کے قول کواختیار کیا ہے۔
حضرت مولانا مفتی محمد فرید صاحب رحمہ اللہ کا فتویٰ
چونکہ یہ لفظ(دخر طلاق زویہ)سب یعنی گالی کے لیے استعمال ہوتا ہےنہ کہ انشاء طلاق کے لیے،لعدم الاضافۃ الیٰ المراۃلہٰذا اس شخص پر بیوی مطلقہ نہیں ہوئی ہے ۔فتاویٰ فریدیہ،طبع باراول،1430ھ،ج:05،ص:501۔
حضرت مولانامفتی رضاء الحق صاحب دامت برکاتہم کا فتویٰ
نیز یہ الفاظ اکثر سب وشتم کے طور پر استعمال ہوتے ہیں،اگر سب وشتم کی نیت ہو تو بیوی کومخاطب کرکے"طلاقن"کہہ دے تب بھی دیانۃً طلاق نہیں ہوگی۔۔۔۔۔ہاں اگراس نے سب وشتم کرتے ہوئے کہا تو دیانۃً اس کی بات مانی جائیگی اور طلاق واقع نہ ہوگی۔۔۔۔۔خلاصہ یہ ہے کہ سب وشتم کی نیت سے کہا اور بیوی کوکوئی اعتراض نہیں ہے تو مفتی طلاق نہ ہونے کا فتویٰ دے سکتا ہےکیونکہ عرف میں یہ سب وشتم میں استعمال ہوتا ہے۔
فتاویٰ دارالعلوم زکریا،زمزم پبلشرز،کراچی،2010،ج:04،ص: 150،151،152 ۔
حضرت مولانامفتی غلام الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم کا فتویٰ
یہ الفاظ(د طلاقی بچیہ)صرف سب وشتم کے طور پر استعمال کیے ہوں جیسا کہ اکثر پٹھانوں کے عرف میں اسی نیت سے یہ الفاظ استعمال ہوتے ہیں تو بھی اس سے طلاق واقع نہیں ہوگی کیونکہ یہ الفاظ خبر کے ہیں انشاء کے نہیں۔
فتاویٰ عثمانیہ،العصر اکیڈمی،پشاور،اشاعت ہفتم،2021ء،ج:06،ص:50۔
ولو أقر بالطلاق كاذبا أو هازلا وقع قضاء لا ديانة.
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:03،ص:236۔
إذا قال لامرأته: يا مطلقة وقع الطلاق عليها، ولو قال: أردت به الشتم دين فيما بينه وبين الله تعالى ولم يدين في القضاء؛ لأنه وصفها بالطلاق. وإذا قال: أردت الشتم فقد نوى شيئاً ليس بوصف لها فيكون مدعياً خلاف الظاهر فلا يصدق في القضاء، ولو قال: أردت طلاق زوج كان لها قبل ذلك إن لم يكن لها زوج قبل ذلك لا يلتفت إلى قوله، وكذا إذا كا لها زوج قبل ذلك وقد مات عنها زوجها لا يلتفت إلى قوله، وإن كان قد طلقها صدق ديانة باتفاق الروايات ويدين في القضاء في رواية أبي سليمان لأنه وصفها بطلاق واقع والطلاق لا يختص بإيقاع زوج دون زوج فيصدق في ذلك، ولو قال لها: أنت مطْلقة بالتخفيف فذلك على النية.
المحیط البرہانی،دارالکتب العلمیۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1424ھ،ج:03،ص:207۔
ومنه يا طالق أو يا مطلقة بالتشديد ولو قال أردت الشتم لا يصدق قضاء ويدين كذا في الخلاصة ولو كان لها زوج طلقها قبل فقال أردت ذلك الطلاق صدق ديانة باتفاق الروايات وقضاء في رواية أبي سليمان وهو حسن كما في فتح القدير وهو الصحيح كما في الخانية
البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیۃ،ج:03،ص:270۔
رجل قال لامرأته يا مطلقة إن لم يكن لها زوج قبل أو كان لها زوج لكن مات ذلك الزوج ولم يطلق وقع الطلاق عليها وإن كان لها زوج قبله وقد كان طلقها ذلك الزوج إن لم ينو بكلامه الإخبار طلقت وإن قال عنيت به الإخبار دين فيما بينه وبين الله تعالى وهل يدين في القضاء اختلفت الروايات فيه والصحيح أنه يدين ولو قال نويت به الشتم دين فيما بينه وبين الله تعالى لا في القضاء۔
الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:01،ص:355۔واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل جبرٹوپی صوابی
