تقسیم سے پہلے میراث میں سے اپنا حصہ معاف کرنا

سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مرحومہ مسماۃ فاطم جان نے اپنی زندگی میں ہی اپنے بھائی میرمحمود کو تقسیم سے پہلے ہی بغیر کسی عوض اور معاوضہ کےمیراث میں سے اپناحصہ معاف کیا تھا۔تقریباً 20 سال پہلے مرحومہ کا انتقال ہو چکا ہے اور مرحومہ نے اپنی زندگی میں اپنے بیٹوں کو اس بات پر گواہ بھی بنایا تھا۔اب اتنا عرصہ گذرنے کے بعد بھی مرحومہ فاطم جان کے دو بیٹے گل محمد اور جمروز اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ واقعی ان کی والدہ نے اپنے بھائی یعنی ان کے ماموں کو اپنا حصہ معاف کیا تھا مگر مرحومہ کا تیسرا بیٹا نمروز اس بات سے منکر ہے۔نمروز اپنے ماموں سے اپنی والدہ کے حصے کا طلب گار ہے۔آیا مرحومہ فاطم جان کے معاف کرنے کے بعد (جس معافی پر اس کے دو بیٹے بطور گواہ بھی موجود ہیں)نمروز کا دوبارہ اپنے ماموں سے حصے کا مطالبہ درست ہے یا نہیں؟شریعت کی روشنی میں تفصیلی جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی زرتاس

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب

حامداً ومصلیاً!

سوال کا جواب دینے سے پہلے میراث کے حوالے سے چند ایک باتوں کا جاننا ضروری ہے۔

1۔میراث کی تقسیم جلد از جلد کرنی چاہیے ،عذر معقول کے بغیر تقسیم میراث میں تاخیر مناسب نہیں ،کیونکہ آگے چل کر اس سے کئی ایک مسائل جنم لیتے ہیں۔

2۔اگر تمام ورثاء   عاقل بالغ ہوں اور اُن میں سے کوئی ایک وارث تقسیم میراث کا مطالبہ کرے تو اس صورت میں میراث کی تقسیم میں تاخیر کرنا جائز نہیں ،کیونکہ وارث کے مطالبہ تقسیم کی وجہ سے اب تقسیم شرعاً لازمی ہوگی۔

3۔تقسیم کے نتیجے میں ہر ایک وارث کو اس کا حصے سے تمام موانع اور روکاوٹوں کو دور کرکےحوالے کرنا چاہیے تاکہ اس کے لیے اپنے حصے پر قبضہ کرکے اپنے حصہ میراث سے نفع اٹھانا ممکن ہو سکے۔

4۔میراث میں وارث کو جو حصہ ملتا ہے وہ وارث کااختیاری نہیں بلکہ حصہ اضطراری ہوتا ہے اس وجہ سے تقسیم میراث سے پہلے کسی وارث کابغیر عوض کے اپنے حصے کو معاف کرنے سےیااپنے حصہ میراث سے دستبردار ہونے سے وہ معاف نہیں ہوتااورنہ ہی اُس کا حصہ ساقط ہوتا ہے بلکہ حسب سابق وہ اپنے حصہ میراث کا حق دار رہتا ہے۔

5۔جو چیزیں قابل تقسیم ہوں تو اُن میں تقسیم سے پہلے کسی شریک کااپنا حصہ کسی کو ہبہ کرنادرست نہیں ہے۔

6۔ہبہ میں ضروری ہے کہ جس چیز کو ہبہ کیا جا رہاہو وہ چیز ہبہ کرنے والےکی قبضہ اور ملکیت میں ہو اور جب ہبہ کیا جائے تو ہبہ تب مکمل ہوگا کہ وہ چیز موہوب لہ کو حوالہ کرکے اس کے قبضہ میں دیا جائے۔

مذکورہ بالا باتوں کو سمجھنے کے بعدسوال کا جواب مندرجہ ذیل ہے۔

صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال مرحومہ فاطم جان نے تقسیم سے پہلے بغیر عوض کے جائیداد میں سے اپنا حصہ اپنے بھائی میرمحمود کو معاف کیا ہے اور جائیدادقابل تقسیم چیزوں میں سے ہے اور قابل تقسیم اشیاء میں تقسیم سے پہلے اپنا حصہ کسی کو ہبہ کرنا درست نہیں ہوتا اس وجہ سے ہبہ کے شرائط موجودنہ ہونے کی وجہ سےمسماۃ فاطم جان کا ہبہ تام نہیں ہوا ہے اور میراث کا حصہ چونکہ اختیاری نہیں بلکہ اضطراری ہوتا ہے اس وجہ سے اس کا حصہ اپنے بھائی کے ساتھ حسب سابق ابھی بھی باقی ہے،اس وجہ سے مسماۃ فاطم جان کے بیٹے نمروز کا اپنے ماموں سے اپنی والدہ کے حصے کا مطالبہ کرنا درست اور جائز ہے۔

عن أبي موسى الأشعري قال: قال عمر بن الخطاب رضي الله عنه: " الأنحال ميراث ما لم يقبض"وروينا عن عثمان وابن عمر وابن عباس رضي الله عنهم أنهم قالوا:لا تجوز صدقة حتى تقبض وعن معاذ بن جبل وشريح أنهما كانا لا يجيزانها حتى تقبض۔

السنن الکبریٰ،دارالکتب العلمیہ،الطبعۃ الثالثہ،1424ھ،رقم الحدیث:11951۔

لأن معنى القبض هو التمكين، والتخلي، وارتفاع الموانع عرفا وعادة حقيقة،۔۔۔۔۔۔۔(وأما) تفسير التسليم، والقبض فالتسليم، والقبض عندنا هو التخلية، والتخلي وهو أن يخلي البائع بين المبيع وبين المشتري برفع الحائل بينهما على وجه يتمكن المشتري من التصرف فيه فيجعل البائع مسلما للمبيع، والمشتري قابضا له۔

بدائع الصنائع،دارالکتب  العلمیہ،بیروت،1406ھ،ج:05، ص:148،244۔  

دار بين رجلين نصيب أحدهما أكثر فطلب صاحب الكثير القسمة وأبى الآخر فإن القاضي يقسم عند الكل وإن طلب صاحب القليل القسمة وأبى صاحب الكثير فكذلك وهو اختيار الإمام الشيخ المعروف بخواهر زاده وعليه الفتوى۔

الفتاویٰ الہندیہ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1310ھ،ج:05،ص:207۔

(وقسم)المال المشترك(بطلب أحدهم إن انتفع كل)بحصته(بعد القسمةو بطلب ذي الكثيرإن لم ينتفع الآخرلقلةحصته)وفي الخانية:يقسم بطلب كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها للعول۔

در مختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:06،ص:260۔

وأما سببها فطلب الشركاء أو بعضهم الانتفاع بملكه على وجه الخصوص كذا في التبيين. وأما ركنها فهو الفعل الذي يحصل به الإفراز والتمييز بين النصيبين كالكيل في المكيلات والوزن في الموزونات والذرع في المذروعات والعدد في العدديات كذا في النهاية.

الفتاویٰ الہندیہ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1310ھ،ج:05،ص:204۔

وفي جامع الفتاوى ولو قال تركت حقي من الميراث أو برئت منه أو من حصتي لا يصح وهو على حقه لأن الإرث جبري لا يصح تركه۔لسان الحکام،مطبعہ البابی،قاہرہ،الطبعۃ الثانیہ،1393ھ،ج:01،ص:236۔

ما يقبل الإسقاط من الحقوق وما لا يقبله، وبيان أن الساقط لا يعود: لوقال الوارث: تركت حقي لم يبطل حقه؛ إذ الملك لا يبطل بالترك، والحق يبطل به حتى لو أن أحدا من الغانمين قال قبل القسمة: تركت حقي بطل حقه، وكذا لو قال المرتهن: تركت حقي في حبس الرهن بطل، كذا في جامع الفصولين للعمادي۔

الاشباہ والنظائر،دارالکتب العلمیہ،بیروت،1419ھ، ج:01، ص:272۔

قوله: لو قال الوارث: تركت حقي۔۔۔۔ اعلم أن الإعراض عن الملك أو حق الملك ضابطه أنه إن كان ملكا لازما لم يبطل بذلك كما لو مات عن ابنين فقال أحدهما: تركت نصيبي من الميراث لم يبطل لأنه لازم لا يترك بالترك بل إن كان عينا فلا بد من التمليك وإن كان دينا فلا بد من الإبراء، وإن لم يكن كذلك بل ثبت له حق التملك صح كإعراض الغانم عن الغنيمة قبل القسمة كذا في قواعد الزركشي من الشافعية ولا يخالفنا إلا في الدين، فإنه يجوز تمليكه ممن هو عليه.

غمز عیون البصائرفی شرح الاشباہ والنظائر،دارالکتب العلمیہ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ، 1405ھ،ج:03،ص:354۔

ولا تجوز الهبة فيما يقسم إلا محوزة مقسومة، وهبة المشاع فيما لا يقسم جائزة۔

الہدایۃ،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:03،ص:223۔

(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل۔

درمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:05،ص:690۔

اگر باپ کے مرنے کے بعد بھی کسی بہن نے کہہ دیاہے کہ"ہم نہیں لیں گے"تب بھی حق ساقط نہیں ہو گا،بلکہ اس کا حق اس کے قبضہ میں آجانے کے بعد پھراپنے اختیار سے کسی بھائی کو یا کسی اور کو دیدے ،تب منتقل ہو سکتا ہے۔

فتاویٰ قاسمیہ،مکتبہ اشرفیہ،دیوبند،انڈیا،ج:25،ص:436۔

 جو اشیاء قابل تقسیم ہیں ان کا ہبہ کرنا قبل التقسیم صحیح نہیں،البتہ جن اشیاء کی تقسیم ممکن نہ ہو ان کا ہبہ کرنا شرعاً جائز ہے۔                    

فتاویٰ حقانیہ،جامعہ دارالعلوم حقانیہ،اکوڑہ خٹک،ج:06،ص:374۔

بہن اگر بالغ ہے اور شرم وحیاء ،برادری اور رسم ورواج کے دباؤ میں آئے بغیر پوری طرح  دل کی خوشی سے اپنا حصہ بھائی یا کسی اور کو دینا چاہے تو دے سکتی ہےاور لینے والا مالک ہو جائے گا بشرطیکہ بہن نے اپنا حصہ میراث  میں سے الگ کرکے باقاعدہ اپنے قبضے       میں لینے کے بعددیا ہو۔

فتاویٰ عباد الرحمٰن،دارالافتاء والتحقیق،کراچی،ج:06،ص:329۔

واللہ اعلم بالصواب

مفتی ابوالاحراراُتلوی

دارالافتاء

جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی

محلہ سلیمان خیل جبر ٹوپی صوابی