بیوی سے یہ کہنا کہ تیرا بیٹا ہوں گا اگر ایسا کیا اس جملے کا شرعی حکم

سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ شیرین زمان ولد کچکول زمان کی بیٹی کے رشتہ کے سلسلہ میں اُن کے رشتہ دار اُن کے گھر آئے تھے۔کچھ وجوہات کی بناء پرشیرین زمان نےاپنی بیوی سےکہاکہ"اگرمیں نے ان لوگوں کو اپنی بیٹی کا رشتہ دیا تو میں تم سے پیدا ہوا ہوں گا"۔اب شیرین زمان ان لوگوں کو بیٹی کا رشتہ دینے پر راضی ہوگیاہے لیکن پوچھنا یہ ہے کہ اگر وہ ان لوگوں کو بیٹی کا رشتہ دیتا ہے تو اس جملے کا کیا ہوگا؟آیا اس جملے کا کوئی کفارہ وغیرہ ہوگا یا نہیں؟ فریقین کے اطمینان خاطرشریعت مطہرہ کی روشنی میں مدلل جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔ جزاکم اللہ خیراً المستفتی مشتاق احمد ولد عبداللہ شاہ

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب

حامداً ومصلیاً!                                                                                    

صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال اگرشیرین زمان نے یہ مذکورہ بالاجملہ طلاق کی نیت سے نہیں کہا ہو تو پھر اس کے لیے یہ جائز ہے کہ اگر وہ  اپنے اُن رشتہ داروں کو بیٹی کا رشتہ دینا چاہتا ہے تو دے سکتا ہے،اوررشتہ دینے کی صورت میں شیرین زمان  کا اپنی بیوی سے یہ کہنا کہ "اگرمیں نے ان لوگوں کو اپنی بیٹی کا رشتہ دیا تو میں تم سے پیدا ہوا ہوں گا"لغو ہو جائے گا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ شرعی نقطہ نظر سے ان الفاظ میں زیادہ سے زیادہ دو احتمالات ہو سکتے تھے ایک ظہار کا احتمال اور دوسرا طلاق بائن کا لیکن  یہ نہ تو ظہار ہے اور نہ ہی طلاق بائن ۔ظہار اس وجہ سے نہیں ہے کہ ظہار کے لیے تشبیہ کا ہونا ضروری ہے اور اس جملے میں تشبیہ نہیں ہے اور طلاق بائن اس وجہ سے نہیں کہ الفاظ کنایہ سے وقوع طلاق کے لیے نیت کا ہونا ضروری ہے اور یہاں نیت طلاق بھی مفقود ہےاور علاوہ ازیں ہمارے عرف میں یہ الفاظ طلاق کے لیے استعمال بھی نہیں ہوتے۔اس وجہ سے  شیرین زمان کا یہ جملہ عبث شمار ہو کر لغو ہوجائے گا،تاہم ایسے الفاظ اور ایسےجملوں کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔

(وإن نوى بأنت علي مثل أمي) ، أو كأمي، وكذا لو حذف علي خانية (برا، أو ظهارا، أو طلاقا صحت نيته) ووقع ما نواه لأنه كناية (وإلا) ينو شيئا، أو حذف الكاف (لغا) وتعين الأدنى أي البر، يعني الكرامة. ويكره قوله أنت أمي ويا ابنتي ويا أختي ونحوه

درمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:03،ص:470۔

لا بد في الظهار من التشبيه وإذا قال: أنت أمي لا يكون ظهاراً بل لغواً۔

العرف الشذی،دارالتراث العربی،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1425ھ،ج:02،ص:429۔

ولو قال: أنت علي كأمي أو مثل أمي يرجع إلى نيته فإن نوى به الظهار كان مظاهرا، وإن نوى به الكرامة كان كرامة، وإن نوى به الطلاق كان طلاقا، وإن نوى به اليمين كان إيلاء؛ لأن اللفظ يحتمل كل ذلك إذ هو تشبيه المرأة بالأم فيحتمل التشبيه في الكرامة والمنزلة أي أنت علي في الكرامة والمنزلة كأمي ويحتمل التشبيه في الحرمة ثم يحتمل ذلك حرمة الظهار ويحتمل حرمة الطلاق وحرمة اليمين فأي ذلك نوى فقد نوى ما يحتمله لفظه فيكون على ما نوى.وإن لم يكن له نية لا يكون ظهارا عند أبي حنيفة وهو قول أبي يوسف إلا أن عند أبي حنيفة لا يكون شيئا۔

بدائع الصنائع،دارالکتب العلمیہ،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1406ھ،ج:03،ص:231۔

(قوله لا يقسم بغير الله تعالى) عطف على قوله والقسم بالله تعالى: أي لا ينعقد القسم بغيره تعالى أي غير أسمائه وصفاته ولو بطريق الكناية كما مر، بل يحرم كما في القهستاني، بل يخاف منه الكفر في نحو وحياتي وحياتك كما يأتي.

ردالمحتار، دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:03،ص:712۔

واللہ اعلم بالصواب

مفتی ابوالاحراراُتلوی

دارالافتاء

جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی،سلیمان خیل ٹوپی صوابی