ایک جگہ کا چندہ دوسری جگہ استعمال کرنے کا شرعی حکم

سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم لوگوں نےحالیہ کلاؤڈ برسٹ کی وجہ سے بونیر اور دیگر سیلاب زدہ علاقوں کے لیے چندہ مہم کا آغاز کیا تھاجس کے نتیجے میں عوام نے نقدرقم اور دیگر ضروریات زندگی کی اشیاء کی صورت میں ہمارے ساتھ کافی تعاون کیا ہے۔ابھی تک ہم نے وہ سامان اور رقم وغیرہ بونیرنہیں پہنچایا تھا کہ ہمارے اپنے علاقہ گدون کے گاؤں دالوڑی بالا میں کلاؤڈ برسٹ کی وجہ سے کافی نقصان ہوااور 42 شہادتوں کے ساتھ ساتھ تقریبا ً 42 مکانات مکمل طور پر منہدم اور 28 مکانات کو جزوی نقصان پیش آیا۔اب سوال یہ ہے کہ چونکہ دالوڑی بالا ہمارے قریب اور پڑوس میں واقع ہے اور نقصان بھی کافی زیادہ ہوا ہے تو آیا بونیر کے لیے جو چندہ ہم نے کیا تھا ،اس رقم یا سامان کو ہم دالوڑی بالا کے متاثرین میں تقسیم کر سکتے ہیں یا نہیں؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی مولانا محمدشاہد حقانی چیئرمین الشیبانی ویلفیئر ٹرسٹ ٹوپی صوابی

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب

حامداً  ومصلیاً!

صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال اگر آپ لوگوں نے عمومی انداز میں چندہ نہ کیا ہو بلکہ مخصوص لوگوں سے چندہ لیا ہو اور اب دوبارہ اُن لوگوں سے اجازت لینا ممکن ہو تو اس صورت میں ان چندہ دینے والے لوگوں کی اجازت سے آپ دالوڑی بالا کے متاثرین کے ساتھ تعاون کر سکتے ہیں ،اور اگر آپ لوگوں نے عمومی انداز میں چندہ کیا ہو تو اس صورت میں جو رقم اور دیگر سامان بونیر کے لیے جمع کیا ہے ،اُس کو آپ دالوڑی بالا کے متاثرین میں تقسیم نہیں کر سکتے۔چندہ دینے والوں اور دیگر سامان دینے والوں نے آپ کو وہ اشیاء بونیر میں تقسیم کرنے کی نیت سے دی ہیں اور عمومی چندہ ہونے کی وجہ سے اب دوبارہ ان سے اجازت لینا ممکن نہیں ،اس وجہ سے آپ پر جمع شدہ چیزوں کو بونیر میں ہی تقسیم کرنا لازم ہے۔البتہ آپ اب دوبارہ یا تو الگ سے خصوصی طور پردالوڑی بالا کے لیے مہم کا آغاز کریں یا بونیر کے ساتھ ساتھ دالوڑی بالا کی بھی وضاحت کرتے ہوئے عمومی مہم کا آغاز کریں تو اس صورت میں آپ پھر دالوڑی بالا کے متاثرین کے ساتھ تعاون کر سکیں گے۔

فإن شرائط الواقف معتبرة إذا لم تخالف الشرع وهو مالك، فله أن يجعل ماله حيث شاء ما لم يكن معصية وله أن يخص صنفا من الفقراء ولو كان الوضع في كلهم قربة، ولا شك أن التصدق على أهل الذمة قربة حتى جاز أن يدفع إليهم صدقة الفطر والكفارات عندنا فكيف لا يعتبر شرطه في صنف دون صنف من الفقراء؟ أرأيت لو وقف على فقراء أهل الذمة ولم يذكر غيرهم أليس يحرم منه فقراء المسلمين، ولو دفع المتولي إلى المسلمين ضمن فهذا مثله والإسلام ليس سببا للحرمان بل الحرمان لعدم تحقق سبب تملكه لهذا المال وهو إعطاء الواقف المالك.

ردالمحتار،دارالفکر ،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:04،ص:343۔

ولو أن قوما بنوا مسجدا وفضل من خشبهم شيء، قالوا: يصرف الفاضل في بنائه ولا يصرف إلى الدهن والحصير، هذا إذا سلموه إلى المتولي ليبني به المسجد وإلا يكون الفاضل لهم يصنعون به ما شاءوا، كذا في البحر الرائق ناقلا عن الإسعاف.أرض وقف على مسجد صارت بحال لا تزرع فجعلها رجل حوضا للعامة لا يجوز للمسلمين انتفاع بماء ذلك الحوض، كذا في القنية۔

الفتاویٰ الہندیہ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1310ھ،ج:02،ص:464۔

أن الفتوى على أن المسجدلايعودميراثاولايجوزنقله ونقل ماله إلى مسجدآخر(قوله: وكذا الرباط) هو الذي يبنى للفقراء بحر عن المصباح (قوله: إلى أقرب مسجد أو رباط إلخ) لف ونشر مرتب وظاهره أنه لا يجوزصرف وقف مسجد خرب إلى حوض وعكسه وفي شرح الملتقى يصرف وقفها لأقرب مجانس لها. (قوله: تفريع على قولها) أي قوله فيصرف إلخ مفرع على الإمام وأبي يوسف: أن المسجد إذا خرب يبقى مسجدا أبدا لكن علمت أن المفتى به قول أبي يوسف، أنه لا يجوز نقله ونقل ماله إلى مسجد آخر كما مر عن الحاوي۔

حاشیہ ابن عابدین،دارالفکر ،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:04،ص:359۔

مسجد کے نام سے چندہ کرکے مدرسہ میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے اسی طرح مدرسہ کے نام سے چندہ کرکے مسجد میں خرچ کرنا جائز نہیں ہے۔

فتاویٰ قاسمیہ،مکتبہ اشرفیہ دیوبند،انڈیا،ج:18،ص:218۔

جس مقصد کے لیے چندہ لیا گیا ہے اور دینے والوں نے دیا ہے اسی مقصد میں وہ روپیہ  خرچ کیا جائے دوسرے مقصد          میں اس کو خرچ کرنے کی اجازت نہیں ۔

خیر الفتاویٰ،مکتبہ امدادیہ ملتان،ج:06،ص:478۔

اگر سائبان بنانے کی مصلحت نہیں ہے تو جن لوگوں نے سائبان بنانے کے لیے چندہ دیا ہے ان کی اجازت ومرضی سے اس روپیہ کو کنوئیں کی مرمت،نل وغیرہ میں صرف کردیا جائے یا دوسری مسجد میں دے دیا جائے۔

فتاویٰ محمودیہ،جامعہ فاروقیہ کراچی،ج:23،ص:197۔

جو چندہ کہ لوگوں نے زنانہ مدرسہ کی تعمیر کے لیے دیا ہے وہ ابھی تک مالکوں کی ملک میں داخل ہے۔انجمن کے کارکن ان کے وکیل ہیں۔اگر زنانہ مدرسہ کی تعمیر کسی وجہ سے ملتوی ہو گئی تو چندہ اہل چندہ کو واپس دیا جائے یا ان کی اجازت سےکسی دوسرے کام میں صرف کیا جائے۔

کفایت المفتی،دارالاشاعت کراچی،ج:07،ص:239۔

واللہ اعلم بالصواب

مفتی ابوالاحراراُتلوی

دارالافتاء

جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی

سلیمان خیل جبر ٹوپی صوابی