ایک بھائی اور تین بہنوں میں تقسیم میراث

سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے والد صاحب مرحوم حکیم خان ولد سمندرخان سے ہمیں میراث میں ایک گھر ملا تھا جس کو اب ہم نے بیس لاکھ پچاس ہزار(2050000)میں فروخت کیا ہے ۔ہم ایک بھائی یعنی میں اور میری تین بہنیں ان پیسوں میں شریک ہیں۔اس رقم میں میرا اور میری بہنوں کا کتنا کتنا حصہ بنتا ہے؟شریعت کی روشنی میں واضح جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی تمریز

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب

حامداً ومصلیاً!

صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال  مرحوم حکیم خان ولد سمندرخان کے کل مال ومتاع اور جائیداد منقولہ وغیرمنقولہ میں سے مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے کے بعد،اورمرحوم کے ذمے اگرکوئی قرضہ ہو(مثلاً زندگی میں کسی سے کوئی اُدھار وغیرہ لیا ہو)توقرضہ کی ادائیگی کے بعد،اوراگرمرحوم نےکوئی جائز وصیت کی ہو توایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرنے کے بعد بقیہ کل اثاثہ جات منقولہ وغیرمنقولہ کےکل 05 حصے کیے جائیں گے جن میں سے 02 حصے آپ کو،اور 03 حصے بہنوں کو ملیں گے۔فیصدی کے اعتبار سے آپ کو 40 فیصداور بہنوں کو 60فیصد ملے گا۔ ہر ایک وارث کو ملنے والے حصے کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔

مرحوم سے رشتہ

حصہ میراث کی حیثیت

حصص کے اعتبار سے

فیصدی کے اعتبار سے

ملنے والی رقم

بیٹا

العصبہ

02

40

820000

بیٹی

العصبہ

01

20

410000

بیٹی

العصبہ

01

20

410000

بیٹی

العصبہ

01

20

410000

 

يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ

سورۃ النسآء،آیت: 176۔

حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ۔

صحیح البخاری،دارطوق النجاۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،رقم الحدیث:6732۔

العصبات وهم كل من ليس له سهم مقدر ويأخذ ما بقي من سهام ذوي الفروض وإذا انفرد أخذ جميع المال، كذا في الاختيار شرح المختار.فالعصبة نوعان: نسبية وسببية، فالنسبية ثلاثة أنواع: عصبة بنفسه وهو كل ذكر لا يدخل في نسبته إلى الميت أنثى وهم أربعة أصناف:جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده، كذا في التبيين فأقرب العصبات الابن ثم ابن الابن وإن سفل ثم الأب ثم الجد أب الأب وإن علا،ثم الأخ لأب وأم،ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم،ثم ابن الأخ لأب ثم العم لأب وأم ثم العم لأب ثم ابن العم لأب وأم، ثم ابن العم لأب ثم عم الأب لأب وأم ثم عم الأب لأب ثم ابن عم الأب لأب وأم،ثم ابن عم الأب لأب ثم عم الجد، هكذا في المبسوط.۔۔۔۔الخ

فتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:6،ص:451۔

واللہ اعلم بالصواب

مفتی ابوالاحراراُتلوی

دارالافتاء

جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی

محلہ سلیمان خیل جبر ٹوپی صوابی