ایزی پیسہ سے متعلق ایک سوال کا جواب
سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید ایک ایزی پیسہ ایجنٹ ہے۔جب کوئی شخص زید کو ایزی پیسہ ایجنٹ والے اکاؤنٹ میں پیسے بھیجتا ہے تو اس پر سے ٹیکس کی کٹوتی ہوتی ہے اور اگر زید کواس کے ذاتی ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں بھیجتا ہے تو اس پر سے ٹیکس کی کٹوتی نہیں ہوتی۔اب زیدیہ کرتا ہے کہ جب کوئی اسے پیسے بھیجتا ہے تو وہ اسے کہتا ہے کہ مجھے میرے ذاتی اکاؤنٹ میں بھیج دو اور پھر جب اس بھیجنے والے کا کوئی دوست یا رشتہ دار وغیرہ وصولی کے لیے آتا ہے تو زید اس سے ٹیکس کے پیسوں کے بقدر کٹوتی کرکے اسے دیتا ہے۔زید کا یہ عمل جائز ہے یا ناجائز؟ شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی آصف خان ٹوپی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
ایزی پیسہ اور جاز کیش وغیرہ کے عام طور پردوکاندارحضرات مندرجہ ذیل دو قسم کے اکاؤنٹ کھولتے ہیں اور دونوں میں سے ہر ایک کا حکم دوسرے سے الگ ہے۔
1۔ریٹیلر اکاؤنٹ:اس قسم کے اکاؤنٹ میں دوکاندار درحقیقت کمپنی کا کمیشن ایجنٹ ہوتا ہے۔شرعی نقطہ نظر سے اکاؤنٹ کی یہ والی قسم کمپنی اور دوکاندار کے مابین "اجارۃ الاشخاص"کی ایک صورت ہوتی ہے۔اس قسم کے اکاؤنٹ میں دوکاندار کواپنی خدمات اورسروسز (رقم کی منتقلی،بجلی ،گیس،ٹیلی فون وغیرہ کے بلوں کی ادائیگی وغیرہ )کی فراہمی کے بدلے میں باقاعدہ کمپنی کی طرف سے متعین مقدار میں کمیشن ملتا ہے۔اس قسم کے اکاؤنٹ میں کمپنی کی طرف سے دوکاندار کو کسٹمرزسےاضافی رقم لینے کی بھی ممانعت ہوتی ہے۔شرعی حوالے سے چونکہ اس کی حیثیت اجارۃ الاشخاص کی ہے اور اجارہ میں فریقین کے مابین طے شدہ جائز شرائط کی پابندی ضروری ہوتی ہے اس وجہ سے ریٹیلر اکاؤنٹ ہونے کی صورت میں کمپنی کی کٹوتی کے علاوہ مزید کسی بھی قسم کی اضافی رقم لینا جائز نہیں ہے۔
2۔ذاتی اکاؤنٹ:ذاتی اورپرسنل اکاؤنٹ میں دوکاندار کمپنی کا کمیشن ایجنٹ نہیں ہوتا،اور نہ ہی اس اکاؤنٹ سے کسی سروس کی فراہمی کے عوض دوکاندار کو کمپنی کی طرف سے کچھ کمیشن ملتا ہے۔یہ دوکاندارکا ذاتی اکاؤنٹ ہوتا ہے جس کے استعمال میں وہ خود مختار ہوتا ہے۔اس اکاؤنٹ سے کسی بھی سروس کی فراہمی میں اس اکاؤنٹ ہولڈر اور کسٹمر کے مابین اجارۃ الاشخاص منعقد ہوتا ہے۔اکاؤنٹ ہولڈر یعنی دوکاندار اجیر اور ملازم بن کر کسٹمر کو اپنی خدمات کی فراہمی کرتا ہے۔اس صورت میں دوکاندار یعنی اکاؤنٹ ہولڈر کے لیے کسٹمر سے اپنے کام کی عوض میں مناسب اجرت لینااس شرط کے ساتھ جائز ہےکہ کسٹمر کو یہ معلوم ہو کہ دوکاندار مجھ سے اضافی رقم اپنی اجرت کے طور پر لے رہا ہے اور وہ اس پر راضی ہو۔دونوں قسم کے اکاؤنٹس کے بارے میں جاننے کے بعد سوال کا جواب مندرجہ ذیل ہے:
صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیرصحت سوال زیدکے لیے اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے رقم منتقل کرنے کی صورت میں ٹیکس کی مقدار کے بقدر اجرت لینا مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:
1۔صورت مسئولہ کے مطابق چونکہ زید کمپنی کاایجنٹ ہے اس وجہ سے کمپنی کی طرف سے اسے ذاتی اکاؤنٹ کے استعمال کی اجازت ہو۔
2۔اگر زید کمپنی آفس میں ہو تو اسے ذاتی اکاؤنٹ کے استعمال کے لیے کمپنی کی طرف سے کمپنی آفس،انٹرنیٹ وغیرہ کے استعمال کی بھی اجازت حاصل ہو۔
3۔آفس میں جو لوگ آتے ہیں وہ عموماً کمپنی کے کسٹمرز ہوتے ہیں اس وجہ سے کمپنی آفس میں آئے ہوئے کسٹمر کو اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے خدمت کی فراہمی کی بھی اسے کمپنی کی جانب سے اجازت حاصل ہو۔
4۔کسٹمر کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ اضافی رقم مجھ سے اجرت کے طور پر لی جا رہی ہےاور وہ اس پر راضی ہو۔
5۔اس عمل سے گورنمنٹ یا کمپنی کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہ ہو رہی ہو۔
نوٹ:جواب کا تعلق صرف سوال میں ذکرشدہ صورت حال سے ہے،باقی ایزی پیسہ اکاؤنٹ اورجازکیش وغیرہ سے متعلق دیگرشرعی مسائل سے اس جواب کا کوئی تعلق نہ سمجھا جائے۔
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة.
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:06،ص:63۔
(ولا يستحق) الأجير المشترك (الأجرحتى يعمل كالصباغ، والقصار) ونحوهما؛ لأن الإجارة عقد معاوضة فتقتضي المساواة بين المعوضين فما لم يسلم المعقود عليه للمستأجر وهو العمل لا يسلم للأجير العوض وهو الأجر۔
مجمع الانہر،داراحیاءالتراث العربی،بیروت،ج:02،ص:391۔
وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.(وفی ردالمحتار) (قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين.
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:04،ص:560۔
وأما شرائط الصحة فمنها رضا المتعاقدين. ومنها أن يكون المعقود عليه وهو المنفعة معلوما علما يمنع المنازعة فإن كان مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة يمنع صحة العقد وإلا فلا. ومنها بيان محل المنفعة حتى لو قال: آجرتك إحدى هاتين الدارين أو أحد هذين العبدين، أو: استأجرت أحد هذين الصانعين لم يصح العقد. ومنها بيان المدة في الدور والمنازل والحوانيت وفي استئجار الظئر. وأما بيان ما يستأجر له في إجارة المنازل فليس بشرط حتى لو استأجر شيئا من ذلك ولم يسم ما يعمل فيه جاز، وأما في إجارة الأرض فلا بد من بيان ما يستأجر له وفي إجارة الدواب من بيان المدة أو المكان ومن بيان ما يستأجر له من الحمل والركوب. ومنها بيان العمل في استئجار الضياع،وكذا بيان المعمول فيه في الأجيرالمشترك بالإشارة والتعيين،أوبيان الجنس والنوع والقدروالصفة في ثوب القصارة والخياطة، وبيان الجنس والقدر في إجارة الراعي من الخيل والإبل والبقروالغنم وعددها، وأما في حق الأجير الخاص فلايشترط بيان جنس المعمول فيه ونوعه وقدره وصفته وإنمايشترط بيان المدة فقط وبيان المدة في استئجار الظئر شرط الجواز بمنزلة استئجار العبد للخدمة.ومنها أن يكون مقدور الاستيفاءحقيقة أو شرعا فلا يجوز استئجار الآبق ولا الاستئجار على المعاصي؛لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا. ومنها أن لا يكون العمل المستأجرله فرضاولاواجبا على الأجير قبل الإجارة فإن كان فرضا أو واجبا قبلها لم يصح. ومنها أن تكون المنفعة مقصودة معتادا استيفاؤها بعقد الإجارة ولا يجري بها التعامل بين الناس فلا يجوز استئجارالأشجارلتجفيف الثياب عليها.ومنها أن يكون مقبوض المؤاجر إذا كان منقولا فإن لم يكن في قبضه فلا تصح إجارته.ومنها أن تكون الأجرة معلومة.
الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:04،ص:411۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
ایزی پیسہ اور جاز کیش وغیرہ کے عام طور پردوکاندارحضرات مندرجہ ذیل دو قسم کے اکاؤنٹ کھولتے ہیں اور دونوں میں سے ہر ایک کا حکم دوسرے سے الگ ہے۔
1۔ریٹیلر اکاؤنٹ:اس قسم کے اکاؤنٹ میں دوکاندار درحقیقت کمپنی کا کمیشن ایجنٹ ہوتا ہے۔شرعی نقطہ نظر سے اکاؤنٹ کی یہ والی قسم کمپنی اور دوکاندار کے مابین "اجارۃ الاشخاص"کی ایک صورت ہوتی ہے۔اس قسم کے اکاؤنٹ میں دوکاندار کواپنی خدمات اورسروسز (رقم کی منتقلی،بجلی ،گیس،ٹیلی فون وغیرہ کے بلوں کی ادائیگی وغیرہ )کی فراہمی کے بدلے میں باقاعدہ کمپنی کی طرف سے متعین مقدار میں کمیشن ملتا ہے۔اس قسم کے اکاؤنٹ میں کمپنی کی طرف سے دوکاندار کو کسٹمرزسےاضافی رقم لینے کی بھی ممانعت ہوتی ہے۔شرعی حوالے سے چونکہ اس کی حیثیت اجارۃ الاشخاص کی ہے اور اجارہ میں فریقین کے مابین طے شدہ جائز شرائط کی پابندی ضروری ہوتی ہے اس وجہ سے ریٹیلر اکاؤنٹ ہونے کی صورت میں کمپنی کی کٹوتی کے علاوہ مزید کسی بھی قسم کی اضافی رقم لینا جائز نہیں ہے۔
2۔ذاتی اکاؤنٹ:ذاتی اورپرسنل اکاؤنٹ میں دوکاندار کمپنی کا کمیشن ایجنٹ نہیں ہوتا،اور نہ ہی اس اکاؤنٹ سے کسی سروس کی فراہمی کے عوض دوکاندار کو کمپنی کی طرف سے کچھ کمیشن ملتا ہے۔یہ دوکاندارکا ذاتی اکاؤنٹ ہوتا ہے جس کے استعمال میں وہ خود مختار ہوتا ہے۔اس اکاؤنٹ سے کسی بھی سروس کی فراہمی میں اس اکاؤنٹ ہولڈر اور کسٹمر کے مابین اجارۃ الاشخاص منعقد ہوتا ہے۔اکاؤنٹ ہولڈر یعنی دوکاندار اجیر اور ملازم بن کر کسٹمر کو اپنی خدمات کی فراہمی کرتا ہے۔اس صورت میں دوکاندار یعنی اکاؤنٹ ہولڈر کے لیے کسٹمر سے اپنے کام کی عوض میں مناسب اجرت لینااس شرط کے ساتھ جائز ہےکہ کسٹمر کو یہ معلوم ہو کہ دوکاندار مجھ سے اضافی رقم اپنی اجرت کے طور پر لے رہا ہے اور وہ اس پر راضی ہو۔دونوں قسم کے اکاؤنٹس کے بارے میں جاننے کے بعد سوال کا جواب مندرجہ ذیل ہے:
صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیرصحت سوال زیدکے لیے اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے رقم منتقل کرنے کی صورت میں ٹیکس کی مقدار کے بقدر اجرت لینا مندرجہ ذیل شرائط کے ساتھ جائز ہے:
1۔صورت مسئولہ کے مطابق چونکہ زید کمپنی کاایجنٹ ہے اس وجہ سے کمپنی کی طرف سے اسے ذاتی اکاؤنٹ کے استعمال کی اجازت ہو۔
2۔اگر زید کمپنی آفس میں ہو تو اسے ذاتی اکاؤنٹ کے استعمال کے لیے کمپنی کی طرف سے کمپنی آفس،انٹرنیٹ وغیرہ کے استعمال کی بھی اجازت حاصل ہو۔
3۔آفس میں جو لوگ آتے ہیں وہ عموماً کمپنی کے کسٹمرز ہوتے ہیں اس وجہ سے کمپنی آفس میں آئے ہوئے کسٹمر کو اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے خدمت کی فراہمی کی بھی اسے کمپنی کی جانب سے اجازت حاصل ہو۔
4۔کسٹمر کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ اضافی رقم مجھ سے اجرت کے طور پر لی جا رہی ہےاور وہ اس پر راضی ہو۔
5۔اس عمل سے گورنمنٹ یا کمپنی کے کسی قانون کی خلاف ورزی نہ ہو رہی ہو۔
نوٹ:جواب کا تعلق صرف سوال میں ذکرشدہ صورت حال سے ہے،باقی ایزی پیسہ اکاؤنٹ اورجازکیش وغیرہ سے متعلق دیگرشرعی مسائل سے اس جواب کا کوئی تعلق نہ سمجھا جائے۔
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة.
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:06،ص:63۔
(ولا يستحق) الأجير المشترك (الأجرحتى يعمل كالصباغ، والقصار) ونحوهما؛ لأن الإجارة عقد معاوضة فتقتضي المساواة بين المعوضين فما لم يسلم المعقود عليه للمستأجر وهو العمل لا يسلم للأجير العوض وهو الأجر۔
مجمع الانہر،داراحیاءالتراث العربی،بیروت،ج:02،ص:391۔
وأما الدلال فإن باع العين بنفسه بإذن ربها فأجرته على البائع وإن سعى بينهما وباع المالك بنفسه يعتبر العرف وتمامه في شرح الوهبانية.(وفی ردالمحتار) (قوله: فأجرته على البائع) وليس له أخذ شيء من المشتري؛ لأنه هو العاقد حقيقة شرح الوهبانية وظاهره أنه لا يعتبر العرف هنا؛ لأنه لا وجه له. (قوله: يعتبر العرف) فتجب الدلالة على البائع أو المشتري أو عليهما بحسب العرف جامع الفصولين.
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:04،ص:560۔
وأما شرائط الصحة فمنها رضا المتعاقدين. ومنها أن يكون المعقود عليه وهو المنفعة معلوما علما يمنع المنازعة فإن كان مجهولا جهالة مفضية إلى المنازعة يمنع صحة العقد وإلا فلا. ومنها بيان محل المنفعة حتى لو قال: آجرتك إحدى هاتين الدارين أو أحد هذين العبدين، أو: استأجرت أحد هذين الصانعين لم يصح العقد. ومنها بيان المدة في الدور والمنازل والحوانيت وفي استئجار الظئر. وأما بيان ما يستأجر له في إجارة المنازل فليس بشرط حتى لو استأجر شيئا من ذلك ولم يسم ما يعمل فيه جاز، وأما في إجارة الأرض فلا بد من بيان ما يستأجر له وفي إجارة الدواب من بيان المدة أو المكان ومن بيان ما يستأجر له من الحمل والركوب. ومنها بيان العمل في استئجار الضياع،وكذا بيان المعمول فيه في الأجيرالمشترك بالإشارة والتعيين،أوبيان الجنس والنوع والقدروالصفة في ثوب القصارة والخياطة، وبيان الجنس والقدر في إجارة الراعي من الخيل والإبل والبقروالغنم وعددها، وأما في حق الأجير الخاص فلايشترط بيان جنس المعمول فيه ونوعه وقدره وصفته وإنمايشترط بيان المدة فقط وبيان المدة في استئجار الظئر شرط الجواز بمنزلة استئجار العبد للخدمة.ومنها أن يكون مقدور الاستيفاءحقيقة أو شرعا فلا يجوز استئجار الآبق ولا الاستئجار على المعاصي؛لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا. ومنها أن لا يكون العمل المستأجرله فرضاولاواجبا على الأجير قبل الإجارة فإن كان فرضا أو واجبا قبلها لم يصح. ومنها أن تكون المنفعة مقصودة معتادا استيفاؤها بعقد الإجارة ولا يجري بها التعامل بين الناس فلا يجوز استئجارالأشجارلتجفيف الثياب عليها.ومنها أن يكون مقبوض المؤاجر إذا كان منقولا فإن لم يكن في قبضه فلا تصح إجارته.ومنها أن تكون الأجرة معلومة.
الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:04،ص:411۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی
