امام الحی کی بجائے ولی کاکسی اور سے نماز جنازہ پڑھوانے کا شرعی حکم

سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی اپنی زندگی میں پانچ وقت کی نماز محلہ کی مسجد میں امام کے پیچھے پڑھتا ہے،جمعہ اور عیدین بھی اُسی امام کی اقتداء میں ادا کرتا ہے بلکہ یہاں تک کہ اگرنکاح کاموقع آجاتا ہے تونکاح بھی اُسی امام سے پڑھواتا ہے،مگرجب یہ آدمی فوت ہوجاتا ہے تواُس کے ورثاء اوراولیاء نماز جنازہ اُسی امام سے نہیں پڑھواتے بلکہ کسی اور کو نماز جنازہ کا کہہ دیتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ ایسی صورت حال میں نماز جنازہ کی امامت کروانے کازیادہ حق دار کون ہے ؟ اوراولیاء کا کسی اور کسی نماز جنازہ پڑھوانا شریعت مطہرہ کی رُو سے درست ہے یا نہیں؟بینوافتوجرواالمستفتیمولاناسردارآمینمدرس جامعہ دارالعلوم تعلیم القرآنمحلہ کھنڈرو،اُتلہ گدون

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
نماز جنازہ کی امامت کا سب سے پہلا حق سلطان یعنی حاکم وقت کاہے،پھرسلطان کے نائب یعنی امیرشہر کا،پھراُس جگہ کے قاضی کا پھرقاضی کے نائب کااورپھراُس کے بعدجامع مسجد کے امام کا۔اگرمذکورہ حضرات میں سے کوئی بھی موجود نہ ہو یاموجود تو ہو لیکن نمازجنازہ کی امامت کرنے کی اُن میں صلاحیت نہ ہو جیسا کہ ہمارے دور عام طور پرحکام اور قضاۃ کاحال ہے توپھر محلہ کی مسجد کے امام کاحق ہےکیونکہ جب میت اپنی زندگی میں اُسی کی اقتداء میں نمازیں اداکیا کرتا تھا اور اُس پرراضی تھا تواب مرنے کے بعدبھی مستحب یہ ہے کہ اُسی امام سے نماز جنازہ پڑھوایا جائے۔البتہ یہ بات ملحوظ خاطررہے کہ وُلاۃ کی تقدیم واجب ہے اور محلہ کی امام صاحب کی تقدیم واجب نہیں بلکہ مستحب ہے اس وجہ سے اگرمیت کے اولیاء محلہ کی امام صاحب کی موجودگی میں خودنماز جنازہ پڑھائے یا کسی اور سے پڑھوائے جیسا کہ صورت مسئولہ میں بیان کیا گیا ہے تو یہ بھی درست اورجائز ہے۔
(ويقدم في الصلاة عليه السلطان) إن حضر (أو نائبه) وهو أمير المصر (ثم القاضي) ثم صاحب الشرط ثم خليفته ثم خليفة القاضي (ثم إمام الحي) فيه إيهام، وذلك أن تقديم الولاة واجب، وتقديم إمام الحي مندوب فقط بشرط أن يكون أفضل من الولي، وإلا فالولي أولى كما في المجتبى وشرح المجمع للمصنف. وفي الدراية: إمام المسجد الجامع أولى من إمام الحي: أي مسجد محلته نهر (ثم الولي) بترتيب عصوبة الإنكاح إلا الأب فيقدم على الابن اتفاقا إلا أن يكون عالما والأب جاهلا فالابن أولى. فإن لم يكن له ولي فالزوج ثم الجيران، ومولى العبد أولى من ابنه الحر لبقاء ملكه، والفتوى على بطلان الوصية بغسله والصلاة عليه(وله) أي للولي. ومثله كل من يقدم عليه من باب أولى (الإذن لغيره فيها) لأنه حقه فيملك إبطاله (إلا) أنه (إن كان هناك من يساويه فله) أي لذلك المساوي ولو أصغر سنا (المنع) لمشاركته في الحق، أما البعيد فليس له المنع۔۔۔۔۔الخ
الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:2،ص:220۔
والمختار أن الإمام الأعظم أولى، فإن لم يحضر فسلطان المصر، وإن لم يكن فإمام المصر أو القاضي، فإن لم يكن فإمام الحي،وقال الإمام العتابي: إمام مسجد الجامع أولى من إمام مسجد المحلة.
البنایۃ شرح الہدایۃ،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1420ھ،ج:3،ص:208۔
وأما إمام الحي فتقديمه على طريق الأفضل وليس بواجب بخلاف تقديم السلطان هكذا فسر ابن شجاع۔۔۔۔فللأقرب أن يقدم من شاء۔
تحفۃ الفقہاء،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1414ھ،ج:1،ص:251۔
ثم تقدم إمام الحي ليس بواجب ولكنه أفضل لما ذكر أنه رضيه في حال حياته.وأما تقديم السلطان فواجب لأن تعظيمه مأمور به؛ ولأن ترك تقديمه لا يخلو عن فساد التجاذب والتنازع على ما ذكرنا في صلاة الجمعة والعيدين.
بدائع الصنائع،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1406ھ،ج:1،ص:317۔
ذكر محمد رحمه الله في كتاب الصلاة: أن إمام الحي أولى بالصلاة، وذكر الحسن في كتاب صلاته عن أبي حنيفة أن الإمام الأعظم، وهو الخليفة أولى إن حضر، فإن لم يحضر فإمام المصر أولى فإن لم يحضر فالقاضي أولى، فإن لم يحضر فصاحب الشرطة أولى، فإن لم يحضر فخليفة الوالي أولى، فإن لم يحضر فخليفة القاضي، فإن لم يحضر فإمام الحي، فإن لم يحضر فالأقرب من ذوي قرابة، وبهذه الرواية أخذ كثير من مشايخنا رحمهم الله.ومن المشايخ من قال: لا اختلاف بين الروايتين، فما ذكر في كتاب الصلاة محمول على ما إذا لم يحضر الإمام الأعظم، ولا واحد ممن ذكر في رواية الحسن، أما لو حضر الإمام الأعظم، فهو أولى بالصلاة باتفاق الروايات؛ لأن في التقدم على السلطان ازدراء له، ونحن أمرنا بتوقيره، فإن لم يحضر الإمام الأعظم، فأمير المصر أولى؛ لأنه في معنى الإمام الأعظم من حيث أنا أمرنا بتوقيره، وبعده القاضي أولى لما ذكرنا في أمير المصر، وبعده صاحب الشرطة، وبعده خليفة الوالي، وبعده القاضي، وبعد هؤلاء الإمام الحي أولى؛ لأنه هو صلى بالميت حال حياته، فيكون هو أولى بالصلاة عليه.وإنما ذكر محمد رحمه الله إمام الحي أولاً في كتاب الصلاة؛ لأن السلطان لا يوجد في كل موضع، قال الكرخي في كتابه: وتقديم إمام الحي ليس بواجب ولكنه أفضل، فأما تقديم السلطان فواجب؛ لأن في ترك تقديم السلطان ازدراء به، وفي ذلك إفساد أمور المسلمين فيجب تقديمه. فأما ليس في ترك تقديم إمام الحي إفساد أمور المسلمين، ولكنه برضى الميت حال حياته، وهذا المعنى يقتضي تفضيله على غيره، أما لا يوجب تقديمه، ثم بعد إمام الحي فولي الميت أولى، وهذا كله قول أبي حنيفة، ومحمد رحمهما الله.
المحیط البرہانی،دارلکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1424ھ،ج:2،ص:187۔
سب سے پہلے سلطان پھراس کا نائب پھر قاضی پھر امام جامع مسجد پھرامام محلہ بشرط یہ کہ امام ولی سے افضل ہو۔وُلاۃ کی تقدیم واجب ہے اور امام کی مندوب۔پھر ولی بترتیب ولایت نکاح مگراس میں باپ بیٹے سے مقدم ہے ،پھرشوہرپھرپڑوسی۔
احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید،کراچی،ج:4،ص:217۔
خلاصہ یہ ہے اصل حقدارمیت کے اولیاء ہیں یااولیائے میت جس کواجازت دیں۔البتہ ولی میت کو چاہیئے کہ اگرامام الحی صلاح وتقویٰ میں حاضرین میں سب سے افضل ہو تواس کومقدم کرے ،لیکن امام کاحق واجب نہیں۔
فتاویٰ دارالعلوم زکریا،زم زم پبلشرز،کراچی،ج:2،ص:755۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی
فتویٰ نمبر:45/1444
تاریخ اجراء:01/05/2023