(JOOM-CAT) جوم کیٹ نام کی آن لائن کمپنی کے ساتھ کاروبار کرنے کا شرعی حکم

سوال :-
استفتاء
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ JOOM-CAT نام کی ایک آن لائن کمپنی ہےجس میں آج کل بہت سارے نوجوان آن لائن کاروبار کررہے ہیں ۔اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلےاپنے موبائل فون میں ان کا ایپ انسٹال کرنا پڑتا ہےپھر اس کے بعد اپنااکاؤنٹ بنانا پڑتاہے ۔رجسٹریشن کے بعد کچھ رقم ڈالر کی صورت میں انوسٹ کرنی پڑتی ہے۔اس کے بعد کمپنی روزانہ 100پروڈکٹس کے ایڈ اس شخص کودیتی ہے جس پر Submit کے نشان پر اس شخص کو کلک کرنا پڑتا ہے اور اس کا کمپنی کی طرف سے اسے کمیشن ملتا ہے۔آپ صاحبان شریعت کی روشنی میں یہ بتائیں کہ آیا مذکورہ JOOM-CAT کمپنی کے ساتھ اس طرح کا کاروبار کرنا درست ہے یا نہیں؟ بینوافتوجروا
المستفتی
مولانانویدارشد
صابی خیل،ٹوپی

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! ایڈ(اشتہار)پرکلک کرکے آن لائن پیسے کمانے کا جوطریقہ سوال میں بتایا گیا ہے وہ مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر ناجائز ہے: 1۔اس میں ایسے لوگ بھی پراڈکٹس کے اشتہارات کو دیکھتے ہیں جن کا یہ چیزیں لینے کاکوئی ارادہ نہیں ہوتا۔بائع کوایسے دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ دکھانا جوکہ کسی طرح بھی خریدار نہیں،یہ فروخت کرنے والے کے ساتھ ایک قسم کا دھوکہ ہے۔ 2۔اگر ان اشتہارات میں جان دار کی تصویر ہو تواس کادیکھنا جائز نہیں ،لہٰذا اس پرجواجرت لی جائے گی وہ بھی جائز نہ ہوگی۔ 3۔ان اشتہارات میں اگرخواتین کی تصاویر ہوں تو ان کا دیکھنا بدنظری کی وجہ سے ایک مستقل گناہ ہوگا۔ 4۔ان ویب سائٹس میں تشہیر کے لیے یہ طریقہ بھی اختیار کیا جاتا ہے کہ پہلے اکاؤنٹ بنانے والے کو ہرنئے اکاؤنٹ بنانے پرکمیشن ملتا رہتا ہے جبکہ اس نے نئے اکاؤنٹ بنوانے میں کوئی عمل نہیں کیا،اس بلاعمل کمیشن لینے کا معاہدہ کرنا اور اس پراجرت لینا بھی جائز نہیں۔ 5۔ایڈ پرکلک کرنا کوئی منفعت مقصودہ نہیں،اس وجہ سے بھی یہ اجارہ درست نہیں ہے۔ 6۔اس میں کلک کرنے والا ایک ہی شخص کئی بار کلک کرتا ہے جس سے یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ اشتہار دیکھنے والے بہت سے لوگ ہیں،جس سے اس اشتہار دینے والوں کی ریٹنگ بڑھتی ہے،حالانکہ یہ بات بھی خلاف واقعہ اور دھوکا دہی ہے۔ 7۔ان میں کرپٹوکرنسی کا بھی معاملہ شامل ہے حالانکہ ڈیجیٹل کرنسی تاحال مشکوک ہے اور ہمارے وطن عزیز میں اسے تاحال کوئی قانونی حیثیت حاصل نہیں۔جب تک مقامی حکومت اوراسٹیٹ کی جانب سے اسے کرنسی اور ثمن تسلیم نہ کیا جائے اور عوام میں جب تک اسے رواج عام نہ مل جائے اور عوام رغبت ومیلان کے ساتھ اسے قبول نہ کریں ،اس وقت تک اس کے ساتھ معاملات سے اجتناب کیا جائے۔ 8۔آپ جو رقم انوسٹ کرتے ہیں تو اس رقم سے یہ لوگ کون سا کاروبار کرتے ہیں؟یہ بھی واضح نہیں ۔اگریہ لوگ آپ کی انویسمنٹ سے کوئی ناجائز کاروبار کرتے ہوں تو یہ بھی تعاون علیٰ المعاصی ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے۔ 9۔ان کمپنیوں کا عموماً کوئی شرعی ایڈوائزر نہیں ہوتا جو ان کے تمام کاروبار کا شرعی نقطہ نگاہ سے نگرانی کرتا ہو۔ 10۔جن چیزوں کے اشتہارات پر کلک کرنا پڑتا ہے ان کے بارے میں یہ صراحت نہیں ہوتی کہ آیا ان چیزوں کاکاروبار شریعت میں جائزبھی ہے یا نہیں؟کیونکہ جو چیزیں شرعاً حرام ہیں ان کی تشہیر کرکے پیسے کماناجائز نہیں ہے۔ 11۔مصنوعی طریقے سے پروڈکٹ کواوپر لانا ایک توناجائزاشتہاربازی کی ایک صورت ہے اوردوسرے اس میں خریدار کو دھوکہ دینا ہے ۔دھوکادہی کی وجہ سے یہ عمل "بیع نجش"کی طرح ہےجس میں مقصود خریداری نہیں ہوتی صرف قیمت بڑھا چڑھا کربیان کی جاتی ہے۔اس وجہ سے بھی ان اشتہارات پر کلک کرنے سے جو پروڈکٹ رینکنگ بڑھتی ہے ،یہ عمل ناجائز ہے۔ 12۔ان آن لائن کمپنیوں نے کمیشن کو ایک مستقل تجارتی شکل دے رکھی ہے جبکہ اسلامی نظام معیشت میں کمیشن کو مستقل تجارتی حیثیت حاصل نہیں ۔ قال اللہ تعالیٰ:وتعاونوا علیٰ البر والتقویٰ ولا تعاونوا علیٰ الاثم والعدوان۔( القرآن) وکرہ النجش بفتحتین ویسکن:ان یزید ولا یرید الشرآء اویمدحہ بمالیس فیہ لیروجہ ویجری فی النکاح وغیرہ۔۔۔۔الخ الدرالمختار،دارعالم الکتب ،ریاض،ج:7،ص:305 مطلب فی اجرۃ الدلال:قال فی التتارخانیۃ:وفی الدلال والسمسار یجب اجر المثل،وما تواضعواعلیہ ان فی کل عشرۃ دنانیر کذا فذاک حرام علیھم۔وفی الحاوی :سئل محمد بن سلمۃ عن اجرۃ السمسار فقال:ارجوانہ لاباس بہ وان کان فی الاصل فاسداً لکثرۃ التعامل وکثیر من ھٰذا غیرجائز،فجوزوہ لحاجۃ الناس الیہ کدخول الحمام ۔۔۔الخ حاشیہ ابن عابدین،دارعالم الکتب،ریاض،ج:9،ص:87 الاجارۃ علیٰ المنافع المحرمۃ کالزنیٰ والنوح والغناء والملاھی محرمۃ،وعقدھا باطل لایستحق بہ اجرۃ،ولایجوز استیجار کاتب لیکتب لہ غناء ونوحا لانہ انتفاع بمحرم۔۔۔۔ولایجوز الاستیجار علیٰ حمل الخمر لمن یشربھا ولا علیٰ حمل الخنزیر۔۔۔۔الخ الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ،1/290 ھی لغۃ:اسم للاجرۃ وھومایستحق علیٰ عمل الخیر ولذا یدعی بہ،یقال اعظم اللہ اجرک،وشرعا تملیک نفع مقصودمن العین بعوض حتیٰ لواستاجرثیابا اواوانی لیتجمل بھا او دابۃ لیجنبھا بین یدیہ اودارا لالیسکنھا اوعبدا او دراھم او غیر ذالک لالیستعملہ بل لیظن الناس انہ لہ فالاجارۃ فاسدۃ فی الکل ،ولااجرلہ لانھا منفعۃ غیر مقصودۃ من العین ۔۔۔۔الخ حاشیہ ابن عابدین،دارعالم الکتب،ریاض،ج:9،ص:5 والمالية تثبت بتمول الناس كافة أو بعضهم، والتقوم يثبت بها وبإباحة الانتفاع به شرعا؛ فما يباح بلا تمول لا يكون مالا كحبة حنطة وما يتمول بلا إباحة انتفاع لا يكون متقوما كالخمر، وإذا عدم الأمران لم يثبت واحد منهما كالدم بحر ملخصا عن الكشف الكبير. حاشیہ ابن عابدین،دارعالم الکتب،ریاض،ج:7وص:10 واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی،ٹوپی (صوابی)