گاؤں دیول گڑھی بالا گدون میں نماز جمعہ کی ادائیگی کا شرعی حکم
سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماراگاؤں دیول گڑھی بالا علاقہ گدون کاایک دورافتادہ گاؤں ہے۔نماز جمعہ کے جواز یاعدم جوازکے بارے میں موضع ھٰذا کے حالات تفصیلاً درج کرتے ہیں،آپ صاحبان فتویٰ مرحمت فرمائیں کہ آیاہمارے اس گاؤں میں جمعہ کی نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ہمارایہ گاؤں دیول گڑھی بالا مین روڈ کے قریب واقع ہے۔ویلج کونسل چنئی میں یہ دوسرا بڑا گاؤں ہےاورآس پاس کے علاقہ جات میں بھی دیول گڑھی بالا کو لوگ بڑا گاؤں ہی سمجھتے ہیں،یعنی علاقے کے عرف ورواج میں یہ ایک بڑا گاؤں ہی ہے۔گاؤں کےپانچ حصے ہیں : مرکزی گاؤں دیول گڑھی بالا،محلہ میرابانڈہ،محلہ پکراڑی،محلہ شنئی اورمحلہ جبئی بانڈہ۔کل پانچ مساجد ہیں ایک مرکزی جامع مسجد اور چار مساجد چاروں محلوں میں۔ مرکزی جامع مسجد میں اندر وباہر کل 450 افراد کی گنجائش ہے۔گاؤں میں عرصہ دراز سے عیدین کی نمازیں ہورہی ہیں ،یعنی عیدالفطر اورعیدالاضحیٰ دونوں نمازیں ہمارے گاؤں میں عرصہ درازسے اداکی جاتی ہیں اور عیدین کے موقع پر مساجدلوگوں سے کچھاکچ بھرجاتے ہیں۔2017 کی مردم شماری کے مطابق گاؤں کی کل آبادی 2032افراد پر مشتمل ہے۔بالغ افراد کی تعداد ووٹرلسٹ کے مطابق 700 ہے ۔ تعلیم وتعلم سے وابستہ افراد کی ایک کثیر تعداد اس گاؤں میں موجود ہےاورکئی ایک علمائے کرام اورحفاظ عظام کاتعلق بھی اس گاؤں سے ہے۔قرآن مجید کی تعلیم کے لیے گاؤں میں مدرسہ موجود ہے۔دوبوائزپرائمری سکولز اورایک گرلزپرائمری سکول گاؤں میں موجود ہیں جبکہ ہائی سکول آدھے کلومیٹر کے فاصلے پر دیول گڑھی پایاں میں واقع ہے۔صحت،پانی اور بجلی کی تمام سہولیات سے موضع ھٰذا مستفید ہے۔بنیادی صحت سہولیات کے لیے تین ہیلتھ ٹیکنیشنز موجود ہیں۔ضروریات زندگی پورا کرنے کے لیے گاؤں میں گیارہ کریانہ سٹورز موجود ہیں جن سے ضروریات زندگی کی تقریباً تمام اشیاء مل جاتی ہیں۔کراکری کی ایک،منیاری کی دو اورکپڑوں کی تین دوکانیں موجود ہیں۔علاوہ ازیں آٹھا پیسنے کی مشین،تین پولٹری فارمز،موٹر سائیکل مکینک،الیکٹریشن،پلمبراورکارپینٹر جیسی سہولیات بھی میسر ہیں۔موضع ھٰذا میں چار عدد ڈبل سیٹرزگاڑیاں،چھ عدد پک اپ ڈاڈسن ،متعدد ٹیکسی گاڑیاں اور بہت سارے موٹر سائیکلز لوگوں کی آمدورفت کی سہولت کے لیے موجود ہیں۔موضع ھٰذا میں بہت سارے ہنر مندافرادموجود ہیں لیکن زیادہ ترلوگ زراعت پیشہ ہیں۔اندرون اور بیرون ملک ملازمین بھی موجود ہیں۔غلے کے لحاظ سے موضع ھٰذا تقریباً خودکفیل ہے۔لوگ زیادہ تر سبزیاں بھی اُگاتے ہیں۔علاوہ ازیں کئی ایک ٹیلرزبھی موضع ھٰذا میں موجود ہیں۔گاؤں کی مذکورہ بالاصورت حال کومدنظر رکھتے ہوئے شریعت مطہرہ کی روشنی میں یہ بتائیں کہ کیا اس گاؤں میں نماز جمعہ پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟المستفتیمولاناگل ولی خان حقانیملک شیرافضل خاناستاد محمدطاہرحسین شاہ
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداًومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال اگرواقعی گاؤں دیول گڑھی بالاکی صورت حال یہی ہوجو سوال میں مذکور ہے تو پھر یہ دیول گڑھی بالا قریہ کبیرہ کے حکم میں ہے، اور یہاں پر دیگر شرائط جمعہ کے پائے جانے کی صورت میں نماز جمعہ کی ادائیگی شریعت مطہرہ کی رُو سے جائز ہے۔سوال میں مذکورہ صورت حال کے مطابق دیول گڑھی بالا کے قریہ کبیرہ ہونے کے تفصیلی دلائل مندرجہ ذیل ہیں: دلیل نمبر1:احناف کے ہاں نماز جمعہ کے شرائط میں سے ایک بنیادی شرط مصر،قصبہ یا قریہ کبیرہ کا ہونا ہے۔چھوٹے گاؤں،دیہات وغیرہ میں احناف کے ہاں جمعہ جائز نہیں ہوتا۔ لیکن خوداحناف کے ہاں اس بارے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے کہ مصر،قصبہ یاقریہ کبیرہ کااطلاق کس قسم کی آبادی پرہوگا؟ مصرکی تعریف کیا ہوگی ؟اور کس قسم کے آبادی کو قصبہ یا قریہ کبیرہ کہا جائے گا؟اس کے بارے میں فقہائے احناف کے مختلف قسم کے اقوال ہیں ،چند ایک ائمہ احناف کے اقوال مندرجہ ذیل ہیں: امام علاء الدین ابی بکربن مسعود الکاسانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں أما المصر الجامع فقد اختلفت الأقاويل في تحديده ذكر الكرخي أن المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود ونفذت فيه الأحكام، وعن أبي يوسف روايات ذكر في الإملاء كل مصر فيه منبر وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع تجب على أهله الجمعة، وفي رواية قال: إذا اجتمع في قرية من لا يسعهم مسجد واحد بنى لهم الإمام جامعا ونصب لهم من يصلي بهم الجمعة، وفي رواية لو كان في القرية عشرة آلاف أو أكثر أمرتهم بإقامة الجمعة فيها، وقال بعض أصحابنا: المصر الجامع ما يتعيش فيه كل محترف بحرفته من سنة إلى سنة من غير أن يحتاج إلى الانتقال إلى حرفة أخرى، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما قيل فيه إذا كانوا بحال لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر تقام فيه الجمعة، وقال سفيان الثوري: المصر الجامع ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة، وسئل أبو القاسم الصفار عن حد المصر الذي تجوز فيه الجمعة فقال: أن تكون لهم منعة لو جاءهم عدو قدروا على دفعه فحينئذ جاز أن يمصر وتمصره أن ينصب فيه حاكم عدل يجري فيه حكما من الأحكام، وهو أن يتقدم إليه خصمان فيحكم بينهما.وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح. بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،دارالکتب العلمیہ،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1406ھ،ج:،ص:259۔ امام برہان الدین محمود بن احمدالبخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں وإذا ثبت أن المصر شرط لإقامة الجمعة نحتاج إلى بيان حد المصر الذي تقام فيه الجمعة، وقد تكلموا فيه على أقوال: روي عن أبي حنيفة رحمه الله: أن المصر الجامع ما يجتمع فيه مرافق أهلها ديناً ودنياً، وعن أبي يوسف رحمه الله ثلاث روايات، في رواية قال: كل موضع فيه منبر وقاضي ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع، وهو رواية عن أبي حنيفة رحمه الله، وفي رواية أخرى عنه كل موضع أهلها بحيث لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك فهو مصر جامع، وفي رواية أخرى قال: كل موضع يسكن فيه عشرة آلاف نفر، فهو مصر جامع.ومن العلماء من قال: المصر الجامع ما يعيش فيه كل صانع لصنعته، ولا يحتاج إلى العود من صنعة إلى صنعة، وعن محمد رحمه الله أنه قال: كل موضع مصر للإمام فهو مصر حتى أن الإمام إذا بعث إلى قرية نائباً لإقامة الحدود فيهم وقاضياً يقضي بينهم صار ذلك الموضع مصراً، وإذا عزله ودعاه إلى نفسه عادت قرية كما كانت، وقال بعض العلماء: كل مصر بلغت مساحته مصراً جمع فيه رسول الله عليه السلام، فهو مصر جامع.ومن العلماء من قال: كل موضع كان لأهله من القوة والشوكة، ما لو توجه إليهم عدو دفعوه عن نفسهم، فهو مصر جامع.وقال سفيان الثوري رحمه الله: المصر الجامع ما يعده الناس مصراً عند ذكر الأمصار المطلقة كبخارى أو سمرقند، فعلى هذا القول لا يجوز إقامة الجمعة بكرمينة وكثانية.قال شمس الأئمة السرخسي رحمه الله: وظاهر المذهب أن المصر الجامع أن يكون فيه جماعات الناس، وجامع وأسواق للتجارات وسلطان أو قاضي يقيم الحدود، وينفذ الأحكام، ويكون فيه مفتي إذا لم يكن الوالي أو السلطان مفتياً۔۔۔۔الخ المحیط البرہانی،دارالکتب العلمیہ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1424ھ،ج:2،ص:65۔ امام محمدبن محمد بن محمود البابرتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وعرف المصر الجامع بقوله (كل موضع له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود) والمراد بالأمير وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم، وإنما قال ويقيم الحدود بعد قوله ينفذ الأحكام لأن تنفيذ الأحكام لا يستلزم إقامة الحدود، فإن المرأة إذا كانت قاضية تنفذ الأحكام وليس لها إقامة الحدود وكذاك المحكم، واكتفى بذكر الحدود عن القصاص لأنهما لا يفترقان في عامة الأحكام، فكان ذكر أحدهما مغنيا عن ذكر الآخر (وعنه) أي عن أبي يوسف (أنهم إذا اجتمعوا) أي اجتمع من تجب عليهم الجمعة لا كل من يسكن في ذلك الموضع من الصبيان والنساء والعبيد لأن من تجب عليهم مجتمعون فيه عادة. قال ابن شجاع: أحسن ما قيل فيه إذا كان أهلها بحيث لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد آخر للجمعة وهذا الاحتياج غالب عند اجتماع من عليه الجمعة، والأول اختيار الكرخي وهو ظاهر الرواية وعليه أكثر الفقهاء والثاني اختيار أبي عبد الله الثلجي. وعن أبي يوسف رواية أخرى غير هاتين الروايتين وهو كل موضع يسكنه عشرة آلاف نفر فكان عنه ثلاث روايات. العنایہ شرح الہدایہ،دارالفکر،بیروت،ج:2،ص:51۔ علامہ بدرالدین العینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ثمَّ اخْتلف أَصْحَابنَا فِي الْمصر الَّذِي تجوز فِيهِ الْجُمُعَة، فَعَن أبي يُوسُف: هُوَ كل مَوضِع يكون فِيهِ كل محترف، وَيُوجد فِيهِ جَمِيع مَا يحْتَاج إِلَيْهِ النَّاس من مَعَايشهمْ عَادَة، وَبِه قَاض يُقيم الْحُدُود. وَقيل: إِذا بلغ سكانه عشرَة آلَاف، وَقيل: عشرَة آلَاف مقَاتل، وَقيل: بِحَيْثُ أَن لَو قصدهم عَدو لأمكنهم دَفعه، وَقيل: كل مَوضِع فِيهِ أَمِير وقاض يُقيم الْحُدُود، وَقيل: أَن لَو اجْتَمعُوا إِلَى أكبر مَسَاجِدهمْ لم يسعهم، وَقيل: أَن يكون بِحَال يعِيش كل محترف بحرفته من سنة إِلَى سنة من غير أَن يشْتَغل بحرفة أُخْرَى، وَعَن مُحَمَّد: مَوضِع مصرة الإِمَام فَهُوَ مصر حَتَّى إِنَّه لَو بعث إِلَى قَرْيَة نَائِبا لإِقَامَة الْحُدُود وَالْقصاص تصير مصرا، فَإِذا عز لَهُ وَدعَاهُ يلْحق بالقرى۔۔۔الخ عمدۃ القاری،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:6ص:187۔ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب فرماتے ہیں جمعہ کے صحیح ہونے کے لیے ایک شرط احناف کے نزدیک شہر ہونا ہے۔لیکن خود احناف کے نزدیک اس بارے میں خاصا اختلاف ہےکہ شہر(مصر)کااطلاق کس طرح کی آبادی پرہوگا؟اس سلسلہ میں متداول اقوال ذکر کیے جاتے ہیں: 1۔قاضی ابویوسفؒ کہتے ہیں کہ وہ جگہ جہاں ہرپیشہ وحرفت کاآدمی موجود ہو،عام انسانی ضروریات کی تمام چیزیں دستیاب ہوں اورقاضی بھی موجود ہوجواسلامی سزا جاری کرتا ہو۔ 2۔جس کی مجموعی آبادی دس ہزار ہو۔ 3۔جہاں دس ہزار ایسے لوگ ہوں جو جنگ کے کام آئیں۔ 4۔اگردشمن حملہ آور ہوتووہ آبادی خود اپنی دفاع کی اہل ہو۔ 5۔جہاں امیروقاضی موجود ہو۔ 6۔اس آبادی کے لوگ وہاں کی بڑی مسجد میں اکٹھے ہوجائیں تومسجد ان کے لیے ناکافی ہو۔ 7۔ایسا مرکز ہوکہ ایک پیشہ کاآدمی دوسرے پیشے میں لگے بغیر ایک ایک سال تک صرف اپنے پیشے سے زندگی بسرکرے۔ 8۔امام محمدؒ سے مروی ہے کہ امیرجس کو شہر قرار دے دے وہ شہر ہے۔ 9۔امام ابوحنیفہ ؒ سے مروی ہے کہ وہ جگہ جہاں مفتی،امیراورقاضی موجود ہوں،احکام وحدود قائم ہوں یاکم ازکم بالقوۃ قائم کیے جاسکتے ہوں اوراس کے مکانات منی کے مکانات کے برابر ہوں۔ 10۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مکہ ومدینہ کی جو کیفیت تھی،جوجگہ اس کے مطابق ہووہ شہر ہے۔ 11۔جہاں کی آبادی چار ہزار ہو۔ 12۔جہاں کی آبادی ایک ہزار ہو۔ جدید فقہی مسائل،زمزم پبلشرز،کراچی،2010،ج:1،ص:114۔ مذکورہ بالااقوال سے صاف ظاہرہے کہ احناف کے ہاں مصر اورقریہ کبیرہ کی تحدید میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔حضرت مولانا مفتی غلام الرحمٰن صاحب مدظلہم نےفتاویٰ عثمانیہ میں ان سارے اقوال کو جمع کرنے کے بعد آخرمیں بطور تبصرہ وخلاصہ لکھا ہے کہ: متقدمین ومتاخرین فقہائے کرام کی آراء کومدنظر رکھ کر شہر،قصبہ یاکسی بڑے گاؤں کی تحدید کے لیے بس اتنی بات کافی ہے کہ اس میں روزمرہ کی ضروریات پوری ہوسکتی ہوں اوراس کی آبادی موجودہ دور کے اعتبار سے کم ازکم دوڈھائی ہزار تک ضرور ہو۔ فتاویٰ عثمانیہ،مکتبۃ العصر،پشاور،اشاعت ہفتم،1442ھ،ج:2،ص:402۔ اب سوال میں جو دیول گڑھی بالا کی صورت حال بیان کی گئی ہےاس سے صاف ظاہر ہے کہ اس موضع میں ضروریات زندگی تقریباً دستیاب ہیں اور آبادی بھی 2032افراد پرمشتمل ہے ،اس وجہ سے یہ جگہ قریہ کبیرہ ہےاوریہاں نماز جمعہ کی ادائیگی جائز ہے۔ دلیل نمبر2:حضرت مولاناخالدسیف اللہ رحمانی صاحب نے جدیدفقہی مسائل میں قریہ کبیرہ کی تعریف میں جو اقوال بیان کیے ہیں اُن میں بارہ نمبر پر ایک یہ بھی بیان کیا ہے کہ جہاں کی آبادی ایک ہزار ہو تووہ قریہ کبیرہ ہے۔وہ فرماتے ہیں: 12۔جہاں کی آبادی ایک ہزار ہو۔ جدید فقہی مسائل،زمزم پبلشرز،کراچی،2010،ج:1،ص:114۔ موضع دیول گڑھی بالا کی آبادی صورت مسئولہ کے مطابق 2032 ہے جو کہ ایک ہزار سے زائد ہے۔لہٰذا اس قول کی رُو سے یہ جگہ قریہ کبیرہ ہے،اورقریہ کبیرہ ہونے کی وجہ سے یہاں نماز جمعہ کی ادائیگی درست ہے۔ دلیل نمبر3:عارف باللہ حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ نے 1300آبادی پرنماز جمعہ کے جواز کا فتویٰ دیاہے ۔ سوال جواب دونوں ملاحظہ ہوں: سوال:(2489)موضع فخن پورجس کی کل آبادی تیرہ سو کی ہے اور ضروریات کی کل اشیاء مل جاتی ہے،دومسجدیں ہیں۔اس موضع میں جمعہ جائز ہے یا نہیں؟ جواب:اس موضع میں جبکہ وہ قریہ کبیرہ کی حد میں آتا ہےاور دوکانیں اوربازاراس میں ہے،جمعہ پڑھناصحیح معلوم ہوتا ہے۔فقط اس پرحاشیہ لگا کرحضرت مولانامفتی ظفیرالدین صاحب لکھتے ہیں کہ: فقہاء نے مردم شماری کی کوئی تعداد بیان نہیں کی بلکہ صرف یہ بتایا ہے کہ شہریابڑی آبادی ہوجہاں ضروریات سے متعلق چیزیں ملتی ہوں۔وتقع فرضا فی القصبات والقریٰ الکبیرۃ التی فیھا اسواق۔۔۔۔الخ(ردالمحتار،باب الجمعہ،ج:1،ص:148)آبادی کااندازہ بعد میں لگایا گیا ہے۔صرف آبادی کااندازہ تین چارہزارلکھا ہے جیسا کہ اس سے پہلے والے جواب میں موجود ہےاورشہریت بھی ہوتواس وقت آبادی بارہ تیرہ سو بھی کافی ہے۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند،دارالاشاعت،کراچی،2002،ج:5،ص:101۔ ایک اورمقام پر حضرت مفتی عزیز الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ نے 1300آبادی والے گاؤں میں جمعہ کے واجب ہونے کا فتویٰ بھی دیا ہے۔سوال وجواب دونوں ملاحظہ ہوں: سوال:(۲۵۲۶)ایک موضع کی آبادی بارہ سوتیرہ سو کی ہےاوراکثردکانیں بھی ہیں اورضروریات بھی دستیاب ہوتی ہیں اورہمیشہ سے یہاں جمعہ وعیدین ہوتے ہیں۔اس قریہ میں جمعہ وعیدین کا کیا حکم ہے؟ جواب:قریہ مذکورہ بڑا قریہ ہے اس میں جمعہ واجب واداء ہوجاتا ہے۔شامی میں ہے وتقع فرضا فی القصبات والقریٰ الکبیرۃ التی فیھا اسواق ۔قال ابوالقاسم ھٰذا بلاخلاف اذا اذن الوالی والقاضی ببناء المسجد الجامع واداء الجمعۃالخ فقط۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند،دارالاشاعت،کراچی،2002،ج:5،ص:112۔ موضع دیول گڑھی بالا کی آبادی صورت مسئولہ کے مطابق 2032 ہے جو کہ 1300 سے زائد ہے۔لہٰذا اس قول کی رُو سےبھی یہ جگہ قریہ کبیرہ ہے۔اورجب قریہ کبیرہ ہوا تونماز جمعہ جائز ہوجائے گا۔ دلیل نمبر4:شیخ المشائخ حضرت مولانامفتی محمدفرید صاحب رحمہ اللہ نے 1800 افراد کی آبادی والے مقام میں نماز جمعہ کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔سوال وجواب دونوں ملاحظہ ہوں: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ چسپن گاؤں کی آبادی اٹھارہ سوتک ہے(بشمول مردوزن بالغ ونابالغ) چھ مساجد،سکول،کمپاؤڈر،آٹامشین بھی ہے۔ایک میل کے فاصلے پرتین سو افراد پرمشتمل چندگھراور بھی ہیں۔یہاں ایک قاری صاحب نے جمعہ شروع کیا ہےکیایہ درست ہے؟حالانکہ یہاں بازار وغیرہ نہیں ہے؟بینوافتوجروا المستفتی:مولوی جانباز چسپن ٹانگ ڈی آئی خان 10-02-1988 الجواب:جس قریہ کی مردم شماری اٹھارہ سو تک ہو وہ قریہ کبیرہ ہے۔حسب تصریح قہستانی اس میں اقامت جمعہ درست ہے۔کما فی ردالمحتار560جلد1وتقع فرضا فی القصبات والقریٰ الکبیرۃ التی فیھا اسواق انتہیٰ۔اکابرفرماتے ہیں کہ صغر وکبرکامدار عرف پر ہے اور یہاں ذکراسواق قید واقعی ہے۔ فتاویٰ فریدیہ،طبع سوم،1430ھ،ج:3،ص:170۔ موضع دیول گڑھی بالا کی آبادی صورت مسئولہ کے مطابق 2032 ہے جو کہ 1800 سے زائد ہے۔لہٰذا اس قول کی رُو سےبھی یہ جگہ قریہ کبیرہ ہے،اورقریہ کبیرہ ہونے کی وجہ سے یہاں جمعہ کی نماز پڑھنا درست ہے۔ ایک اور مقام پر حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے 1500 افراد کی آبادی والی جگہ پربھی نماز جمعہ کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔سوال وجواب دونوں ملاحظہ ہوں: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری مسجد میں جمعہ پہلے سے جاری ہے ۔یہاں پرکل نمازی چھتیس ہیں ، دکانات بھی ہیں،ترکان،حجام،لوہار،حلوائی،سائیکل مستری،ڈاکٹر،موچی ،آٹامشین اورشارع عام بھی ہے۔لوگ بس وغیرہ کھڑی کرکے نماز پڑھتے ہیں۔اس جگہ جمعہ کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟بینوافتوجروا المستفتی:اہلیان سلیم خان اڈا چارسدہ روڈ مردان07/01/1990 الجواب:اگراس مقام کی مردم شماری ڈیڑھ ہزار تک ہو تو یہ مقام قریہ کبیرہ ہے،اس میں اقامت جمعہ درست ہے ورنہ نہیں۔(ماخوذ ازفتاویٰ دارالعلوم دیوبند) فتاویٰ فریدیہ،طبع سوم،1430ھ،ج:3،ص:171۔ موضع دیول گڑھی بالا کی آبادی صورت مسئولہ کے مطابق 2032 ہے جو کہ ڈیڑھ ہزارسے زائد ہے۔لہٰذا اس قول کی رُو سےبھی یہ جگہ قریہ کبیرہ ہے، اورقریہ کبیرہ ہونے کی وجہ سے یہاں جمعہ کی نماز پڑھنا درست ہے۔ دلیل نمبر5:حضرت مولانا مفتی غلام الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم کا فتویٰ حضرت مولانا مفتی غلام الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم (مدیراعلیٰ ورئیس دارالافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور)نے دوڈھائی ہزار والے افراد کی آبادی والی جگہ کو قریہ کبیرہ کہا ہے۔فتاویٰ عثمانیہ میں لکھتے ہیں: موجودہ زمانے میں جس گاؤں کی مستقل آبادی بشمول مردوزن ،چھوٹے بڑے،مسلم وغیرمسلم دوڈھائی ہزار تک پہنچتی ہواور ضروریات زندگی کا سامان بھی موجود ہوتو وہ بڑا گاؤں سمجھا جائے گا۔۔۔۔الخ فتاویٰ عثمانیہ،مکتبۃ العصر،پشاور،اشاعت ہفتم،1442ھ،ج:2،ص:435۔ صورت مسئولہ سے صاف ظاہر ہے کہ اس موضع میں ضروریات زندگی میسر ہیں اور آبادی بھی دو ہزار سے متجاوز ہے اس وجہ سے حضرت مفتی صاحب کے قول کے مطابق بھی یہ مقام قریہ کبیرہ ہے اور یہاں نماز جمعہ کی ادائیگی درست ہے۔ دلیل نمبر6:جامعہ خیرالمدارس ملتان کا فتویٰ خیرالفتاویٰ میں ایک سوال کے جواب میں مفتی محمدانور صاحب نے اڑھائی ہزار کی آبادی والی جگہ میں جمعہ کے جواز کا فتویٰ دیا ہے جس پرحضرت مولانامفتی عبدالستار صاحب کی تائید وتصویب بھی موجود ہے۔سوال وجواب دونوں مندرجہ ذیل ہیں: سوال :چک نمبر251گ ب اگی،ضلع فیصل آباد برلب سڑک پختہ ہے،آبادی اڑھائی ہزار ہے ۔چک میں بجلی،ڈاک خانہ،مڈل سکول،گرلزسکول،پرائمری سکول مردانہ،دوکارخانے جس میں آٹا پیسنے کی مشین اورلکڑی چیرنے کی مشین،روئی پینجنے والی مشین ، تیل والی مشین،بسوں کااڈا،گیارہ دکانیں،برف کاکارخانہ،اورچک میں نودوکانیں ہیں۔بسوں کااڈا چک مذکور سےدوفرلانگ پرہے ۔ چوتھے مربع پرہائی سکول اورکالج ہے۔تین مسجدیں ہیں،نیزتعلیم القرآن وتعلیم البنات بھی ہے ۔کیا یہاں جمعہ جائز ہے؟ الجواب:مذکورہ بستی کے بارے میں تقریباً بیالیس (42)سال پہلے بھی استفتاء کیا گیا تھا جس کے جواب میں جواز جمعہ کا فتویٰ دیا گیا تھا۔اب تک بستی کی آبادی ومرکزیت میں مزیداضافہ ہوا ہےجیسا کہ زیرجواب استفتاء میں مذکور ہے۔لہٰذا یہاں صحت جمعہ میں تردد نہ کیا جائے۔فقط واللہ اعلم خیرالفتاویٰ،مکتبہ امدادیہ،ملتان،ج:3،ص:41۔ خیرالفتاویٰ کےمذکورہ بالا فتویٰ کے سوال میں جو کیفیت بتائی گئی ہے اگربیالیس(42) سال پیچھے چلا جائے اور اُس وقت کی کیفیت پر غور کیا جائے تو یقیناً دیول گڑھی بالا کی موجودہ کیفیت ضروریات زندگی کی دستیابی اور آبادی کے اعتبار سے یقیناً اس سے بہتر ہوگی۔ اگربیالیس(42) سال پہلے فیصل آباد کے اس گاؤں میں نمازجمعہ صحیح تھا تو یقیناً آج چھیاسی (86)سال بعد دیول گڑھی بالا میں بطریق اولیٰ اس فتویٰ کی رُو سے نماز جمعہ کی ادائیگی درست ہوگی کیونکہ یہ فتویٰ آج سے چوالیس (44)سال پہلے 27-10-1400ھ کو لکھا گیا ہے۔ دلیل نمبر7: حضرت مولانایحییٰ کاندہلوی رحمہ اللہ کا قول شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریاکاندہلوی ؒکے والد گرامی حضرت مولانا محمد یحییٰ کاندہلوی صاحب ؒنے الکوکب الدری کے حاشیہ میں جامع الرموز کے حوالے سے لکھا ہے کہ جس جگہ میں ایک ہزار آدمی ہوتو وہ جگہ قریہ کبیرہ ہے،فرماتے ہیں: حکی فی جامع الرموز عن المضمرات قول الف رجل ایضاً۔ الکوکب الدری علیٰ جامع الترمذی،ایچ ایم سعیدکراچی،ج:1،ص:199۔ موضع دیول گڑھی بالا کی آبادی صورت مسئولہ کے مطابق 2032 ہے جو کہ ایک ہزار سے زائد ہے۔لہٰذا اس قول کی رُو سے یہ جگہ قریہ کبیرہ ہے۔ دلیل نمبر8:اس بات پرتوسب کااتفاق ہے کہ نماز جمعہ کے لیے مصر،قصبہ یاقریہ کبیرہ کا ہوناایک لازمی شرط ہے ،چھوٹے گاؤں ، دیہات وغیرہ میں احناف کے ہاں نماز جمعہ درست نہیں ہے۔البتہ اس بات میں کافی اختلاف ہے کہ مصر،قصبہ یاقریہ کبیرہ کی تعریف کیا ہے؟اس سلسلہ میں فقہائے احناف کے ہاں مختلف قسم کے اقوال موجود ہیں جن میں سے بارہ (12)اقوال کو ہم نے ماقبل میں مولاناخالدسیف اللہ رحمانی صاحب کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ان اقوال میں سے حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ کا ایک قول یہ بھی ہے کہ جس جگہ کی آبادی وہاں کی جامع مسجدمیں نہ سما سکے وہ جگہ قریہ کبیرہ ہے۔اکثر احناف نے اسی قول کو پسندکیا ہے ۔جن حنفی علمائے کرام نے اس قول کی تحسین کی ہے ان میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں: امام ابوعبداللہ البلخی رحمہ اللہ کا قول علامہ علاء الدین الکاسانی رحمہ اللہ نے بدائع الصنائع میں امام ابوعبداللہ البلخی رحمہ اللہ نے حوالے سے اس قول کی تحسین کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما قيل فيه إذا كانوا بحال لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر تقام فيه الجمعة بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،دارالکتب العلمیہ،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1406ھ،ج:1،ص:260۔ امام ابوعبداللہ الثلجی رحمہ اللہ کاقول صاحب ہدایہ نے حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ کے مذکورہ قول کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ امام ابوعبداللہ الثلجی رحمہ اللہ نے اسی قول کو اختیارکیا ہے،وہ لکھتے ہیں: والمصر الجامع كل موضع له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود وهذا عند أبي يوسف رحمه الله وعنه أنهم إذا اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم والأول اختيار الكرخي وهو الظاهر والثاني اختيار الثلجي۔ الہدایہ،مکتبہ رحمانیہ،لاہور،ج:1،ص:177۔ ابوحنیفہ ثانی حضرت علامہ زین الدین بن ابراہیم ابن نجیم رحمہ اللہ کاقول علامہ زین الدین بن ابراہیم ابن نجیم رحمہ اللہ نے البحرالرائق میں اسی قول کی تحسین کی ہے وہ فرماتے ہیں: وفي المجتبى وعن أبي يوسف أنه ما إذا اجتمعوا في أكبر مساجدهم للصلوات الخمس لم يسعهم، وعليه فتوى أكثر الفقهاء وقال أبو شجاع هذا أحسن ما قيل فيه، وفي الولوالجية وهو الصحيح۔ البحرالرائق،مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ،ج:2،ص:247۔ علامہ سراج الدین عمر بن ابراہیم ابن نجیم رحمہ اللہ کاقول سراج الدین عمر بن ابراہیم ابن نجیم رحمہ اللہ نے النھرالفائق میں اس قول کی تحسین کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: وعنه لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم، قال البلخي: وهذا أحسن شيء سمعته، وعليه فتوى الفقهاء، كذا في (المجتبى) وفي (البدائع): إنه صحيح واعتمده برهان الشريعة۔ النھرالفائق،دارلکتب العلمیہ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،ج:1،ص:353۔ مفتی اعظم ہند حضرت مولانامفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ کا قول حضرت مولانامفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ کے ہاں اس قول پر عمل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔فرماتے ہیں: ہاں یہ تعریف بھی مالایسع اکبرمساجدہ اھلہ المکلفین بھا بہت سے فقہائے عظام کے نزدیک معتبر اورمفتیٰ بہ ہے اس لیے اس کے موافق عمل کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ کفایت المفتی،مکتبہ امدادیہ،ملتان،ج:3،ص:212۔ اب اگر سوال پر غور کیا جائے تو سوال میں بتایا گیا ہے کہ موضع دیول گڑھی بالا کے مرکزی جامع مسجد میں 450 افراد کی گنجائش ہے اور 2017 کی مردم شماری کے مطابق بالغ افراد کی تعداد 700 ہے ۔یہ بات صاف ظاہر ہے کہ 450 افراد کی گنجائش والی مسجد میں 700 افراد نہیں سما سکتے۔اس وجہ سے اس قول کے مطابق بھی یہ قریہ کبیرہ ہے۔بلکہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ بالغ افراد کی تعداد اس وقت 700 سے بھی زیادہ ہو کیونکہ یہ تعداد 2017 کے وقت کی ہے اس کے بعد 05 سال کا عرصہ اور بھی گزر گیا تو اس دوران اور بھی کئی سارے بچے بالغ ہوچکے ہوں گے،علاوہ ازیں یہ بات بھی ہے 700 والی تعداد ووٹرلسٹ کے مطابق ہے اور ووٹر لسٹ میں 18 سال والے کو بالغ شمارکیا جاتاہے جبکہ شریعت میں 15 سال کے بعد بچہ بالغ شمار کیا جاتا ہے اس اعتبار سے بالغ افراد کی یہ تعداد اور بھی زیادہ ہوجائے گی اور یہ سارے لوگ 450 افراد والی گنجائش رکھنے والی مسجد میں کسی بھی صورت میں نہیں سما سکتے۔ دلیل نمبر9:کسی بھی جگہ کا قریہ کبیرہ ہونا یا قریہ صغیرہ ہونا ایک عرفی معاملہ ہے ۔فقہائے کرام نے قریہ کبیرہ اورمصر کی تعریف میں جتنے بھی اقوال بیان کیے ہیں وہ بطور علامت کے ہیں کوئی حتمی تحدید نہیں ہے۔یہ اقوال اپنے اپنے زمانوں کے اعتبار سے بطور علامت کے انھوں نے بیان کیے ہیں۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکابر کے ہاں کسی جگہ کا مصریاقریہ کبیرہ ہونے کا دارومدار وہاں کی عرف پر ہے۔چندایک اکابر کے اقوال ملاحظہ ہوں: فقیہ النفس محدث کبیر حضرت مولانارشیداحمد گنگوہی رحمہ اللہ کا قول ولیس ھٰذا کلہ تحدیدا لہ بل اشارۃ الیٰ تعیینہ وتقریب لہ الیٰ الاذھان وحاصلہ ادارۃ الامر علیٰ رای اھل کل زمان فی عدھم المعمورۃ مصرا فماھومصر فی عرفھم جازت الجمعۃ فیہ ومالیس بمصر لم یجز فیہ۔۔۔۔الخ الکوکب الدری علیٰ جامع الترمذی،ایچ ایم سعیدکراچی،ج:1،ص:199۔ امام العصر حضرت مولاناانورشاہ کشمیری رحمہ اللہ کا قول اعلم ان القریۃ والمصر من الاشیاء العرفیۃ التی لا تکاد تنضبط بحال وان نص ولذا ترک الفقہاء تعریف المصر علیٰ العرف کما ذکرہ فی البدائع۔ فیض الباری علیٰ صحیح البخاری،مکتبہ عثمانیہ،کوئٹہ،ج:2،ص:329۔ حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا قول حضرت حکیم الامت مولانااشرف علی تھانویؒ نے امدادالفتاویٰ میں کئی ایک مقامات پر اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ مصریا قریہ کبیرہ کا دارومدار عرف پر ہے،فرماتے ہیں: میری رائے یہی ہے جواس وقت لکھ رہا ہوں کہ کوئی تعداد خاص تحدید کے لیے نہیں بلکہ امارۃ ہے،اوراصل مدارمصریاقصبہ یاقریہ کبیرہ بالمعنی المذکور ہوتا ہے۔۔۔۔۔اورتحقیق شرط مصرکامدارعرف ہی پر ہے علیٰ الاصح۔ امدادالفتاویٰ،مکتبہ دارالعلوم کراچی،ج:1،ص:525،528۔ مفتی اعظم دیوبندحضرت مولانامفتی عزیز الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ کا قول عرف میں جس کو قریہ کبیرہ سمجھیں وہ قریہ کبیرہ ہے،اورجس کو قریہ صغیرہ سمجھیں وہ قریہ صغیرہ ہے۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند،دارالاشاعت کراچی،ج:5،ص:54۔ سوال میں بتایا گیا ہے کہ" ہمارایہ گاؤں دیول گڑھی بالا مین روڈ کے قریب واقع ہے۔ویلج کونسل چنئی میں یہ دوسرا بڑا گاؤں ہےاور آس پاس کے علاقہ جات میں بھی دیول گڑھی بالا کو لوگ بڑا گاؤں ہی سمجھتے ہیں،یعنی علاقے کے عرف ورواج میں یہ ایک بڑا گاؤں ہی ہے۔"توجب اس علاقہ کے عرف ورواج میں اُسے بڑا گاؤں ہی مانتے ہیں تو مذکورہ بالا اقوال کی روشنی میں شرعاً بھی وہ قریہ کبیرہ ہی ہوگااور نماز جمعہ کی ادائیگی درست ہوگی۔ دلیل نمبر10:سوال میں بتایا گیا ہے کہ نماز عیدین اس موضع میں اداکی جارہی ہیں۔اس گاؤں میں عیدین کی نمازوں کی ادائیگی خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جگہ قریہ کبیرہ ہے،کیونکہ جمعہ اورعیدین دونوں کے لیے قریہ کبیرہ کا ہونا شرط ہے،چھوٹے گاؤں میں جس طرح جمعہ کی نماز نہیں ہوتی بالکل اسی طرح عیدین کی نماز بھی ناجائز اورمکروہ تحریمی ہے۔چندایک حوالہ جات ملاحظہ ہوں: فتاویٰ عالمگیری کا فتویٰ تجب صلاۃ العید علیٰ کل من تجب علیہ صلاۃ الجمعۃ کذا فی الھدایۃ،ویشترط للعید مایشترط للجمعۃ الاالخطبۃ کذا فی الخلاصۃ۔ فتاویٰ عالمگیری،مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ،ج:1،ص:150۔ حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا فتویٰ ازروئے مذہب حنفیہ نماز جمعہ اور عیدین ایسے گاؤں (قریہ صغیرہ۔ساجد)میں ناجائز اورمکروہ تحریمی ہے۔کما فی القنیۃ صلوٰۃ العید فی القریٰ تکرہ تحریما اورشامی میں ہے قولہ صلوٰۃ العید ۔۔۔۔ومثلہ الجمعۃ یعنی عیدین کی طرح نماز جمعہ بھی مکروہ تحریمی ہے۔ امدادالفتاویٰ،مکتبہ دارالعلوم کراچی،ج:1،ص:545۔ مفتی اعظم مفتی عزیز الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ کا فتویٰ اورجس گاؤں میں جمعہ درست نہیں وہاں عیدبھی درست نہیں ہیں۔شرائط وجوب واداء جمعہ اورعید کے ایک ہیں،کچھ فرق نہیں ہے۔ہٰکذا فی الدرالمختاروغیرہ۔پس وہاں عید کی نماز بھی نہ پڑھنی چاہیئے۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند،دارالاشاعت کراچی،ج:5،ص:132۔ تلک عشرۃ کاملۃ واللہ اعلم بالصواب مفتی ابوالاحراراُتلوی دارالافتاء جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداًومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال اگرواقعی گاؤں دیول گڑھی بالاکی صورت حال یہی ہوجو سوال میں مذکور ہے تو پھر یہ دیول گڑھی بالا قریہ کبیرہ کے حکم میں ہے، اور یہاں پر دیگر شرائط جمعہ کے پائے جانے کی صورت میں نماز جمعہ کی ادائیگی شریعت مطہرہ کی رُو سے جائز ہے۔سوال میں مذکورہ صورت حال کے مطابق دیول گڑھی بالا کے قریہ کبیرہ ہونے کے تفصیلی دلائل مندرجہ ذیل ہیں: دلیل نمبر1:احناف کے ہاں نماز جمعہ کے شرائط میں سے ایک بنیادی شرط مصر،قصبہ یا قریہ کبیرہ کا ہونا ہے۔چھوٹے گاؤں،دیہات وغیرہ میں احناف کے ہاں جمعہ جائز نہیں ہوتا۔ لیکن خوداحناف کے ہاں اس بارے میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے کہ مصر،قصبہ یاقریہ کبیرہ کااطلاق کس قسم کی آبادی پرہوگا؟ مصرکی تعریف کیا ہوگی ؟اور کس قسم کے آبادی کو قصبہ یا قریہ کبیرہ کہا جائے گا؟اس کے بارے میں فقہائے احناف کے مختلف قسم کے اقوال ہیں ،چند ایک ائمہ احناف کے اقوال مندرجہ ذیل ہیں: امام علاء الدین ابی بکربن مسعود الکاسانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں أما المصر الجامع فقد اختلفت الأقاويل في تحديده ذكر الكرخي أن المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود ونفذت فيه الأحكام، وعن أبي يوسف روايات ذكر في الإملاء كل مصر فيه منبر وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع تجب على أهله الجمعة، وفي رواية قال: إذا اجتمع في قرية من لا يسعهم مسجد واحد بنى لهم الإمام جامعا ونصب لهم من يصلي بهم الجمعة، وفي رواية لو كان في القرية عشرة آلاف أو أكثر أمرتهم بإقامة الجمعة فيها، وقال بعض أصحابنا: المصر الجامع ما يتعيش فيه كل محترف بحرفته من سنة إلى سنة من غير أن يحتاج إلى الانتقال إلى حرفة أخرى، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما قيل فيه إذا كانوا بحال لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر تقام فيه الجمعة، وقال سفيان الثوري: المصر الجامع ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة، وسئل أبو القاسم الصفار عن حد المصر الذي تجوز فيه الجمعة فقال: أن تكون لهم منعة لو جاءهم عدو قدروا على دفعه فحينئذ جاز أن يمصر وتمصره أن ينصب فيه حاكم عدل يجري فيه حكما من الأحكام، وهو أن يتقدم إليه خصمان فيحكم بينهما.وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح. بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،دارالکتب العلمیہ،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1406ھ،ج:،ص:259۔ امام برہان الدین محمود بن احمدالبخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں وإذا ثبت أن المصر شرط لإقامة الجمعة نحتاج إلى بيان حد المصر الذي تقام فيه الجمعة، وقد تكلموا فيه على أقوال: روي عن أبي حنيفة رحمه الله: أن المصر الجامع ما يجتمع فيه مرافق أهلها ديناً ودنياً، وعن أبي يوسف رحمه الله ثلاث روايات، في رواية قال: كل موضع فيه منبر وقاضي ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع، وهو رواية عن أبي حنيفة رحمه الله، وفي رواية أخرى عنه كل موضع أهلها بحيث لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك فهو مصر جامع، وفي رواية أخرى قال: كل موضع يسكن فيه عشرة آلاف نفر، فهو مصر جامع.ومن العلماء من قال: المصر الجامع ما يعيش فيه كل صانع لصنعته، ولا يحتاج إلى العود من صنعة إلى صنعة، وعن محمد رحمه الله أنه قال: كل موضع مصر للإمام فهو مصر حتى أن الإمام إذا بعث إلى قرية نائباً لإقامة الحدود فيهم وقاضياً يقضي بينهم صار ذلك الموضع مصراً، وإذا عزله ودعاه إلى نفسه عادت قرية كما كانت، وقال بعض العلماء: كل مصر بلغت مساحته مصراً جمع فيه رسول الله عليه السلام، فهو مصر جامع.ومن العلماء من قال: كل موضع كان لأهله من القوة والشوكة، ما لو توجه إليهم عدو دفعوه عن نفسهم، فهو مصر جامع.وقال سفيان الثوري رحمه الله: المصر الجامع ما يعده الناس مصراً عند ذكر الأمصار المطلقة كبخارى أو سمرقند، فعلى هذا القول لا يجوز إقامة الجمعة بكرمينة وكثانية.قال شمس الأئمة السرخسي رحمه الله: وظاهر المذهب أن المصر الجامع أن يكون فيه جماعات الناس، وجامع وأسواق للتجارات وسلطان أو قاضي يقيم الحدود، وينفذ الأحكام، ويكون فيه مفتي إذا لم يكن الوالي أو السلطان مفتياً۔۔۔۔الخ المحیط البرہانی،دارالکتب العلمیہ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1424ھ،ج:2،ص:65۔ امام محمدبن محمد بن محمود البابرتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں وعرف المصر الجامع بقوله (كل موضع له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود) والمراد بالأمير وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم، وإنما قال ويقيم الحدود بعد قوله ينفذ الأحكام لأن تنفيذ الأحكام لا يستلزم إقامة الحدود، فإن المرأة إذا كانت قاضية تنفذ الأحكام وليس لها إقامة الحدود وكذاك المحكم، واكتفى بذكر الحدود عن القصاص لأنهما لا يفترقان في عامة الأحكام، فكان ذكر أحدهما مغنيا عن ذكر الآخر (وعنه) أي عن أبي يوسف (أنهم إذا اجتمعوا) أي اجتمع من تجب عليهم الجمعة لا كل من يسكن في ذلك الموضع من الصبيان والنساء والعبيد لأن من تجب عليهم مجتمعون فيه عادة. قال ابن شجاع: أحسن ما قيل فيه إذا كان أهلها بحيث لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد آخر للجمعة وهذا الاحتياج غالب عند اجتماع من عليه الجمعة، والأول اختيار الكرخي وهو ظاهر الرواية وعليه أكثر الفقهاء والثاني اختيار أبي عبد الله الثلجي. وعن أبي يوسف رواية أخرى غير هاتين الروايتين وهو كل موضع يسكنه عشرة آلاف نفر فكان عنه ثلاث روايات. العنایہ شرح الہدایہ،دارالفکر،بیروت،ج:2،ص:51۔ علامہ بدرالدین العینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ثمَّ اخْتلف أَصْحَابنَا فِي الْمصر الَّذِي تجوز فِيهِ الْجُمُعَة، فَعَن أبي يُوسُف: هُوَ كل مَوضِع يكون فِيهِ كل محترف، وَيُوجد فِيهِ جَمِيع مَا يحْتَاج إِلَيْهِ النَّاس من مَعَايشهمْ عَادَة، وَبِه قَاض يُقيم الْحُدُود. وَقيل: إِذا بلغ سكانه عشرَة آلَاف، وَقيل: عشرَة آلَاف مقَاتل، وَقيل: بِحَيْثُ أَن لَو قصدهم عَدو لأمكنهم دَفعه، وَقيل: كل مَوضِع فِيهِ أَمِير وقاض يُقيم الْحُدُود، وَقيل: أَن لَو اجْتَمعُوا إِلَى أكبر مَسَاجِدهمْ لم يسعهم، وَقيل: أَن يكون بِحَال يعِيش كل محترف بحرفته من سنة إِلَى سنة من غير أَن يشْتَغل بحرفة أُخْرَى، وَعَن مُحَمَّد: مَوضِع مصرة الإِمَام فَهُوَ مصر حَتَّى إِنَّه لَو بعث إِلَى قَرْيَة نَائِبا لإِقَامَة الْحُدُود وَالْقصاص تصير مصرا، فَإِذا عز لَهُ وَدعَاهُ يلْحق بالقرى۔۔۔الخ عمدۃ القاری،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:6ص:187۔ حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب فرماتے ہیں جمعہ کے صحیح ہونے کے لیے ایک شرط احناف کے نزدیک شہر ہونا ہے۔لیکن خود احناف کے نزدیک اس بارے میں خاصا اختلاف ہےکہ شہر(مصر)کااطلاق کس طرح کی آبادی پرہوگا؟اس سلسلہ میں متداول اقوال ذکر کیے جاتے ہیں: 1۔قاضی ابویوسفؒ کہتے ہیں کہ وہ جگہ جہاں ہرپیشہ وحرفت کاآدمی موجود ہو،عام انسانی ضروریات کی تمام چیزیں دستیاب ہوں اورقاضی بھی موجود ہوجواسلامی سزا جاری کرتا ہو۔ 2۔جس کی مجموعی آبادی دس ہزار ہو۔ 3۔جہاں دس ہزار ایسے لوگ ہوں جو جنگ کے کام آئیں۔ 4۔اگردشمن حملہ آور ہوتووہ آبادی خود اپنی دفاع کی اہل ہو۔ 5۔جہاں امیروقاضی موجود ہو۔ 6۔اس آبادی کے لوگ وہاں کی بڑی مسجد میں اکٹھے ہوجائیں تومسجد ان کے لیے ناکافی ہو۔ 7۔ایسا مرکز ہوکہ ایک پیشہ کاآدمی دوسرے پیشے میں لگے بغیر ایک ایک سال تک صرف اپنے پیشے سے زندگی بسرکرے۔ 8۔امام محمدؒ سے مروی ہے کہ امیرجس کو شہر قرار دے دے وہ شہر ہے۔ 9۔امام ابوحنیفہ ؒ سے مروی ہے کہ وہ جگہ جہاں مفتی،امیراورقاضی موجود ہوں،احکام وحدود قائم ہوں یاکم ازکم بالقوۃ قائم کیے جاسکتے ہوں اوراس کے مکانات منی کے مکانات کے برابر ہوں۔ 10۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مکہ ومدینہ کی جو کیفیت تھی،جوجگہ اس کے مطابق ہووہ شہر ہے۔ 11۔جہاں کی آبادی چار ہزار ہو۔ 12۔جہاں کی آبادی ایک ہزار ہو۔ جدید فقہی مسائل،زمزم پبلشرز،کراچی،2010،ج:1،ص:114۔ مذکورہ بالااقوال سے صاف ظاہرہے کہ احناف کے ہاں مصر اورقریہ کبیرہ کی تحدید میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔حضرت مولانا مفتی غلام الرحمٰن صاحب مدظلہم نےفتاویٰ عثمانیہ میں ان سارے اقوال کو جمع کرنے کے بعد آخرمیں بطور تبصرہ وخلاصہ لکھا ہے کہ: متقدمین ومتاخرین فقہائے کرام کی آراء کومدنظر رکھ کر شہر،قصبہ یاکسی بڑے گاؤں کی تحدید کے لیے بس اتنی بات کافی ہے کہ اس میں روزمرہ کی ضروریات پوری ہوسکتی ہوں اوراس کی آبادی موجودہ دور کے اعتبار سے کم ازکم دوڈھائی ہزار تک ضرور ہو۔ فتاویٰ عثمانیہ،مکتبۃ العصر،پشاور،اشاعت ہفتم،1442ھ،ج:2،ص:402۔ اب سوال میں جو دیول گڑھی بالا کی صورت حال بیان کی گئی ہےاس سے صاف ظاہر ہے کہ اس موضع میں ضروریات زندگی تقریباً دستیاب ہیں اور آبادی بھی 2032افراد پرمشتمل ہے ،اس وجہ سے یہ جگہ قریہ کبیرہ ہےاوریہاں نماز جمعہ کی ادائیگی جائز ہے۔ دلیل نمبر2:حضرت مولاناخالدسیف اللہ رحمانی صاحب نے جدیدفقہی مسائل میں قریہ کبیرہ کی تعریف میں جو اقوال بیان کیے ہیں اُن میں بارہ نمبر پر ایک یہ بھی بیان کیا ہے کہ جہاں کی آبادی ایک ہزار ہو تووہ قریہ کبیرہ ہے۔وہ فرماتے ہیں: 12۔جہاں کی آبادی ایک ہزار ہو۔ جدید فقہی مسائل،زمزم پبلشرز،کراچی،2010،ج:1،ص:114۔ موضع دیول گڑھی بالا کی آبادی صورت مسئولہ کے مطابق 2032 ہے جو کہ ایک ہزار سے زائد ہے۔لہٰذا اس قول کی رُو سے یہ جگہ قریہ کبیرہ ہے،اورقریہ کبیرہ ہونے کی وجہ سے یہاں نماز جمعہ کی ادائیگی درست ہے۔ دلیل نمبر3:عارف باللہ حضرت مولانا مفتی عزیز الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ نے 1300آبادی پرنماز جمعہ کے جواز کا فتویٰ دیاہے ۔ سوال جواب دونوں ملاحظہ ہوں: سوال:(2489)موضع فخن پورجس کی کل آبادی تیرہ سو کی ہے اور ضروریات کی کل اشیاء مل جاتی ہے،دومسجدیں ہیں۔اس موضع میں جمعہ جائز ہے یا نہیں؟ جواب:اس موضع میں جبکہ وہ قریہ کبیرہ کی حد میں آتا ہےاور دوکانیں اوربازاراس میں ہے،جمعہ پڑھناصحیح معلوم ہوتا ہے۔فقط اس پرحاشیہ لگا کرحضرت مولانامفتی ظفیرالدین صاحب لکھتے ہیں کہ: فقہاء نے مردم شماری کی کوئی تعداد بیان نہیں کی بلکہ صرف یہ بتایا ہے کہ شہریابڑی آبادی ہوجہاں ضروریات سے متعلق چیزیں ملتی ہوں۔وتقع فرضا فی القصبات والقریٰ الکبیرۃ التی فیھا اسواق۔۔۔۔الخ(ردالمحتار،باب الجمعہ،ج:1،ص:148)آبادی کااندازہ بعد میں لگایا گیا ہے۔صرف آبادی کااندازہ تین چارہزارلکھا ہے جیسا کہ اس سے پہلے والے جواب میں موجود ہےاورشہریت بھی ہوتواس وقت آبادی بارہ تیرہ سو بھی کافی ہے۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند،دارالاشاعت،کراچی،2002،ج:5،ص:101۔ ایک اورمقام پر حضرت مفتی عزیز الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ نے 1300آبادی والے گاؤں میں جمعہ کے واجب ہونے کا فتویٰ بھی دیا ہے۔سوال وجواب دونوں ملاحظہ ہوں: سوال:(۲۵۲۶)ایک موضع کی آبادی بارہ سوتیرہ سو کی ہےاوراکثردکانیں بھی ہیں اورضروریات بھی دستیاب ہوتی ہیں اورہمیشہ سے یہاں جمعہ وعیدین ہوتے ہیں۔اس قریہ میں جمعہ وعیدین کا کیا حکم ہے؟ جواب:قریہ مذکورہ بڑا قریہ ہے اس میں جمعہ واجب واداء ہوجاتا ہے۔شامی میں ہے وتقع فرضا فی القصبات والقریٰ الکبیرۃ التی فیھا اسواق ۔قال ابوالقاسم ھٰذا بلاخلاف اذا اذن الوالی والقاضی ببناء المسجد الجامع واداء الجمعۃالخ فقط۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند،دارالاشاعت،کراچی،2002،ج:5،ص:112۔ موضع دیول گڑھی بالا کی آبادی صورت مسئولہ کے مطابق 2032 ہے جو کہ 1300 سے زائد ہے۔لہٰذا اس قول کی رُو سےبھی یہ جگہ قریہ کبیرہ ہے۔اورجب قریہ کبیرہ ہوا تونماز جمعہ جائز ہوجائے گا۔ دلیل نمبر4:شیخ المشائخ حضرت مولانامفتی محمدفرید صاحب رحمہ اللہ نے 1800 افراد کی آبادی والے مقام میں نماز جمعہ کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔سوال وجواب دونوں ملاحظہ ہوں: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ چسپن گاؤں کی آبادی اٹھارہ سوتک ہے(بشمول مردوزن بالغ ونابالغ) چھ مساجد،سکول،کمپاؤڈر،آٹامشین بھی ہے۔ایک میل کے فاصلے پرتین سو افراد پرمشتمل چندگھراور بھی ہیں۔یہاں ایک قاری صاحب نے جمعہ شروع کیا ہےکیایہ درست ہے؟حالانکہ یہاں بازار وغیرہ نہیں ہے؟بینوافتوجروا المستفتی:مولوی جانباز چسپن ٹانگ ڈی آئی خان 10-02-1988 الجواب:جس قریہ کی مردم شماری اٹھارہ سو تک ہو وہ قریہ کبیرہ ہے۔حسب تصریح قہستانی اس میں اقامت جمعہ درست ہے۔کما فی ردالمحتار560جلد1وتقع فرضا فی القصبات والقریٰ الکبیرۃ التی فیھا اسواق انتہیٰ۔اکابرفرماتے ہیں کہ صغر وکبرکامدار عرف پر ہے اور یہاں ذکراسواق قید واقعی ہے۔ فتاویٰ فریدیہ،طبع سوم،1430ھ،ج:3،ص:170۔ موضع دیول گڑھی بالا کی آبادی صورت مسئولہ کے مطابق 2032 ہے جو کہ 1800 سے زائد ہے۔لہٰذا اس قول کی رُو سےبھی یہ جگہ قریہ کبیرہ ہے،اورقریہ کبیرہ ہونے کی وجہ سے یہاں جمعہ کی نماز پڑھنا درست ہے۔ ایک اور مقام پر حضرت مفتی صاحب رحمہ اللہ نے 1500 افراد کی آبادی والی جگہ پربھی نماز جمعہ کے جواز کا فتویٰ دیا ہے۔سوال وجواب دونوں ملاحظہ ہوں: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہماری مسجد میں جمعہ پہلے سے جاری ہے ۔یہاں پرکل نمازی چھتیس ہیں ، دکانات بھی ہیں،ترکان،حجام،لوہار،حلوائی،سائیکل مستری،ڈاکٹر،موچی ،آٹامشین اورشارع عام بھی ہے۔لوگ بس وغیرہ کھڑی کرکے نماز پڑھتے ہیں۔اس جگہ جمعہ کی نماز درست ہوگی یا نہیں؟بینوافتوجروا المستفتی:اہلیان سلیم خان اڈا چارسدہ روڈ مردان07/01/1990 الجواب:اگراس مقام کی مردم شماری ڈیڑھ ہزار تک ہو تو یہ مقام قریہ کبیرہ ہے،اس میں اقامت جمعہ درست ہے ورنہ نہیں۔(ماخوذ ازفتاویٰ دارالعلوم دیوبند) فتاویٰ فریدیہ،طبع سوم،1430ھ،ج:3،ص:171۔ موضع دیول گڑھی بالا کی آبادی صورت مسئولہ کے مطابق 2032 ہے جو کہ ڈیڑھ ہزارسے زائد ہے۔لہٰذا اس قول کی رُو سےبھی یہ جگہ قریہ کبیرہ ہے، اورقریہ کبیرہ ہونے کی وجہ سے یہاں جمعہ کی نماز پڑھنا درست ہے۔ دلیل نمبر5:حضرت مولانا مفتی غلام الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم کا فتویٰ حضرت مولانا مفتی غلام الرحمٰن صاحب دامت برکاتہم (مدیراعلیٰ ورئیس دارالافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور)نے دوڈھائی ہزار والے افراد کی آبادی والی جگہ کو قریہ کبیرہ کہا ہے۔فتاویٰ عثمانیہ میں لکھتے ہیں: موجودہ زمانے میں جس گاؤں کی مستقل آبادی بشمول مردوزن ،چھوٹے بڑے،مسلم وغیرمسلم دوڈھائی ہزار تک پہنچتی ہواور ضروریات زندگی کا سامان بھی موجود ہوتو وہ بڑا گاؤں سمجھا جائے گا۔۔۔۔الخ فتاویٰ عثمانیہ،مکتبۃ العصر،پشاور،اشاعت ہفتم،1442ھ،ج:2،ص:435۔ صورت مسئولہ سے صاف ظاہر ہے کہ اس موضع میں ضروریات زندگی میسر ہیں اور آبادی بھی دو ہزار سے متجاوز ہے اس وجہ سے حضرت مفتی صاحب کے قول کے مطابق بھی یہ مقام قریہ کبیرہ ہے اور یہاں نماز جمعہ کی ادائیگی درست ہے۔ دلیل نمبر6:جامعہ خیرالمدارس ملتان کا فتویٰ خیرالفتاویٰ میں ایک سوال کے جواب میں مفتی محمدانور صاحب نے اڑھائی ہزار کی آبادی والی جگہ میں جمعہ کے جواز کا فتویٰ دیا ہے جس پرحضرت مولانامفتی عبدالستار صاحب کی تائید وتصویب بھی موجود ہے۔سوال وجواب دونوں مندرجہ ذیل ہیں: سوال :چک نمبر251گ ب اگی،ضلع فیصل آباد برلب سڑک پختہ ہے،آبادی اڑھائی ہزار ہے ۔چک میں بجلی،ڈاک خانہ،مڈل سکول،گرلزسکول،پرائمری سکول مردانہ،دوکارخانے جس میں آٹا پیسنے کی مشین اورلکڑی چیرنے کی مشین،روئی پینجنے والی مشین ، تیل والی مشین،بسوں کااڈا،گیارہ دکانیں،برف کاکارخانہ،اورچک میں نودوکانیں ہیں۔بسوں کااڈا چک مذکور سےدوفرلانگ پرہے ۔ چوتھے مربع پرہائی سکول اورکالج ہے۔تین مسجدیں ہیں،نیزتعلیم القرآن وتعلیم البنات بھی ہے ۔کیا یہاں جمعہ جائز ہے؟ الجواب:مذکورہ بستی کے بارے میں تقریباً بیالیس (42)سال پہلے بھی استفتاء کیا گیا تھا جس کے جواب میں جواز جمعہ کا فتویٰ دیا گیا تھا۔اب تک بستی کی آبادی ومرکزیت میں مزیداضافہ ہوا ہےجیسا کہ زیرجواب استفتاء میں مذکور ہے۔لہٰذا یہاں صحت جمعہ میں تردد نہ کیا جائے۔فقط واللہ اعلم خیرالفتاویٰ،مکتبہ امدادیہ،ملتان،ج:3،ص:41۔ خیرالفتاویٰ کےمذکورہ بالا فتویٰ کے سوال میں جو کیفیت بتائی گئی ہے اگربیالیس(42) سال پیچھے چلا جائے اور اُس وقت کی کیفیت پر غور کیا جائے تو یقیناً دیول گڑھی بالا کی موجودہ کیفیت ضروریات زندگی کی دستیابی اور آبادی کے اعتبار سے یقیناً اس سے بہتر ہوگی۔ اگربیالیس(42) سال پہلے فیصل آباد کے اس گاؤں میں نمازجمعہ صحیح تھا تو یقیناً آج چھیاسی (86)سال بعد دیول گڑھی بالا میں بطریق اولیٰ اس فتویٰ کی رُو سے نماز جمعہ کی ادائیگی درست ہوگی کیونکہ یہ فتویٰ آج سے چوالیس (44)سال پہلے 27-10-1400ھ کو لکھا گیا ہے۔ دلیل نمبر7: حضرت مولانایحییٰ کاندہلوی رحمہ اللہ کا قول شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریاکاندہلوی ؒکے والد گرامی حضرت مولانا محمد یحییٰ کاندہلوی صاحب ؒنے الکوکب الدری کے حاشیہ میں جامع الرموز کے حوالے سے لکھا ہے کہ جس جگہ میں ایک ہزار آدمی ہوتو وہ جگہ قریہ کبیرہ ہے،فرماتے ہیں: حکی فی جامع الرموز عن المضمرات قول الف رجل ایضاً۔ الکوکب الدری علیٰ جامع الترمذی،ایچ ایم سعیدکراچی،ج:1،ص:199۔ موضع دیول گڑھی بالا کی آبادی صورت مسئولہ کے مطابق 2032 ہے جو کہ ایک ہزار سے زائد ہے۔لہٰذا اس قول کی رُو سے یہ جگہ قریہ کبیرہ ہے۔ دلیل نمبر8:اس بات پرتوسب کااتفاق ہے کہ نماز جمعہ کے لیے مصر،قصبہ یاقریہ کبیرہ کا ہوناایک لازمی شرط ہے ،چھوٹے گاؤں ، دیہات وغیرہ میں احناف کے ہاں نماز جمعہ درست نہیں ہے۔البتہ اس بات میں کافی اختلاف ہے کہ مصر،قصبہ یاقریہ کبیرہ کی تعریف کیا ہے؟اس سلسلہ میں فقہائے احناف کے ہاں مختلف قسم کے اقوال موجود ہیں جن میں سے بارہ (12)اقوال کو ہم نے ماقبل میں مولاناخالدسیف اللہ رحمانی صاحب کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ان اقوال میں سے حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ کا ایک قول یہ بھی ہے کہ جس جگہ کی آبادی وہاں کی جامع مسجدمیں نہ سما سکے وہ جگہ قریہ کبیرہ ہے۔اکثر احناف نے اسی قول کو پسندکیا ہے ۔جن حنفی علمائے کرام نے اس قول کی تحسین کی ہے ان میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں: امام ابوعبداللہ البلخی رحمہ اللہ کا قول علامہ علاء الدین الکاسانی رحمہ اللہ نے بدائع الصنائع میں امام ابوعبداللہ البلخی رحمہ اللہ نے حوالے سے اس قول کی تحسین کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما قيل فيه إذا كانوا بحال لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر تقام فيه الجمعة بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،دارالکتب العلمیہ،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1406ھ،ج:1،ص:260۔ امام ابوعبداللہ الثلجی رحمہ اللہ کاقول صاحب ہدایہ نے حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ کے مذکورہ قول کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا ہے کہ امام ابوعبداللہ الثلجی رحمہ اللہ نے اسی قول کو اختیارکیا ہے،وہ لکھتے ہیں: والمصر الجامع كل موضع له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود وهذا عند أبي يوسف رحمه الله وعنه أنهم إذا اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم والأول اختيار الكرخي وهو الظاهر والثاني اختيار الثلجي۔ الہدایہ،مکتبہ رحمانیہ،لاہور،ج:1،ص:177۔ ابوحنیفہ ثانی حضرت علامہ زین الدین بن ابراہیم ابن نجیم رحمہ اللہ کاقول علامہ زین الدین بن ابراہیم ابن نجیم رحمہ اللہ نے البحرالرائق میں اسی قول کی تحسین کی ہے وہ فرماتے ہیں: وفي المجتبى وعن أبي يوسف أنه ما إذا اجتمعوا في أكبر مساجدهم للصلوات الخمس لم يسعهم، وعليه فتوى أكثر الفقهاء وقال أبو شجاع هذا أحسن ما قيل فيه، وفي الولوالجية وهو الصحيح۔ البحرالرائق،مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ،ج:2،ص:247۔ علامہ سراج الدین عمر بن ابراہیم ابن نجیم رحمہ اللہ کاقول سراج الدین عمر بن ابراہیم ابن نجیم رحمہ اللہ نے النھرالفائق میں اس قول کی تحسین کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: وعنه لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم، قال البلخي: وهذا أحسن شيء سمعته، وعليه فتوى الفقهاء، كذا في (المجتبى) وفي (البدائع): إنه صحيح واعتمده برهان الشريعة۔ النھرالفائق،دارلکتب العلمیہ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،ج:1،ص:353۔ مفتی اعظم ہند حضرت مولانامفتی کفایت اللہ دہلوی رحمہ اللہ کا قول حضرت مولانامفتی کفایت اللہ صاحب رحمہ اللہ کے ہاں اس قول پر عمل کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔فرماتے ہیں: ہاں یہ تعریف بھی مالایسع اکبرمساجدہ اھلہ المکلفین بھا بہت سے فقہائے عظام کے نزدیک معتبر اورمفتیٰ بہ ہے اس لیے اس کے موافق عمل کرنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ کفایت المفتی،مکتبہ امدادیہ،ملتان،ج:3،ص:212۔ اب اگر سوال پر غور کیا جائے تو سوال میں بتایا گیا ہے کہ موضع دیول گڑھی بالا کے مرکزی جامع مسجد میں 450 افراد کی گنجائش ہے اور 2017 کی مردم شماری کے مطابق بالغ افراد کی تعداد 700 ہے ۔یہ بات صاف ظاہر ہے کہ 450 افراد کی گنجائش والی مسجد میں 700 افراد نہیں سما سکتے۔اس وجہ سے اس قول کے مطابق بھی یہ قریہ کبیرہ ہے۔بلکہ یہ بھی عین ممکن ہے کہ بالغ افراد کی تعداد اس وقت 700 سے بھی زیادہ ہو کیونکہ یہ تعداد 2017 کے وقت کی ہے اس کے بعد 05 سال کا عرصہ اور بھی گزر گیا تو اس دوران اور بھی کئی سارے بچے بالغ ہوچکے ہوں گے،علاوہ ازیں یہ بات بھی ہے 700 والی تعداد ووٹرلسٹ کے مطابق ہے اور ووٹر لسٹ میں 18 سال والے کو بالغ شمارکیا جاتاہے جبکہ شریعت میں 15 سال کے بعد بچہ بالغ شمار کیا جاتا ہے اس اعتبار سے بالغ افراد کی یہ تعداد اور بھی زیادہ ہوجائے گی اور یہ سارے لوگ 450 افراد والی گنجائش رکھنے والی مسجد میں کسی بھی صورت میں نہیں سما سکتے۔ دلیل نمبر9:کسی بھی جگہ کا قریہ کبیرہ ہونا یا قریہ صغیرہ ہونا ایک عرفی معاملہ ہے ۔فقہائے کرام نے قریہ کبیرہ اورمصر کی تعریف میں جتنے بھی اقوال بیان کیے ہیں وہ بطور علامت کے ہیں کوئی حتمی تحدید نہیں ہے۔یہ اقوال اپنے اپنے زمانوں کے اعتبار سے بطور علامت کے انھوں نے بیان کیے ہیں۔چنانچہ یہی وجہ ہے کہ ہمارے اکابر کے ہاں کسی جگہ کا مصریاقریہ کبیرہ ہونے کا دارومدار وہاں کی عرف پر ہے۔چندایک اکابر کے اقوال ملاحظہ ہوں: فقیہ النفس محدث کبیر حضرت مولانارشیداحمد گنگوہی رحمہ اللہ کا قول ولیس ھٰذا کلہ تحدیدا لہ بل اشارۃ الیٰ تعیینہ وتقریب لہ الیٰ الاذھان وحاصلہ ادارۃ الامر علیٰ رای اھل کل زمان فی عدھم المعمورۃ مصرا فماھومصر فی عرفھم جازت الجمعۃ فیہ ومالیس بمصر لم یجز فیہ۔۔۔۔الخ الکوکب الدری علیٰ جامع الترمذی،ایچ ایم سعیدکراچی،ج:1،ص:199۔ امام العصر حضرت مولاناانورشاہ کشمیری رحمہ اللہ کا قول اعلم ان القریۃ والمصر من الاشیاء العرفیۃ التی لا تکاد تنضبط بحال وان نص ولذا ترک الفقہاء تعریف المصر علیٰ العرف کما ذکرہ فی البدائع۔ فیض الباری علیٰ صحیح البخاری،مکتبہ عثمانیہ،کوئٹہ،ج:2،ص:329۔ حکیم الامت حضرت مولانااشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا قول حضرت حکیم الامت مولانااشرف علی تھانویؒ نے امدادالفتاویٰ میں کئی ایک مقامات پر اس بات کی تصریح فرمائی ہے کہ مصریا قریہ کبیرہ کا دارومدار عرف پر ہے،فرماتے ہیں: میری رائے یہی ہے جواس وقت لکھ رہا ہوں کہ کوئی تعداد خاص تحدید کے لیے نہیں بلکہ امارۃ ہے،اوراصل مدارمصریاقصبہ یاقریہ کبیرہ بالمعنی المذکور ہوتا ہے۔۔۔۔۔اورتحقیق شرط مصرکامدارعرف ہی پر ہے علیٰ الاصح۔ امدادالفتاویٰ،مکتبہ دارالعلوم کراچی،ج:1،ص:525،528۔ مفتی اعظم دیوبندحضرت مولانامفتی عزیز الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ کا قول عرف میں جس کو قریہ کبیرہ سمجھیں وہ قریہ کبیرہ ہے،اورجس کو قریہ صغیرہ سمجھیں وہ قریہ صغیرہ ہے۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند،دارالاشاعت کراچی،ج:5،ص:54۔ سوال میں بتایا گیا ہے کہ" ہمارایہ گاؤں دیول گڑھی بالا مین روڈ کے قریب واقع ہے۔ویلج کونسل چنئی میں یہ دوسرا بڑا گاؤں ہےاور آس پاس کے علاقہ جات میں بھی دیول گڑھی بالا کو لوگ بڑا گاؤں ہی سمجھتے ہیں،یعنی علاقے کے عرف ورواج میں یہ ایک بڑا گاؤں ہی ہے۔"توجب اس علاقہ کے عرف ورواج میں اُسے بڑا گاؤں ہی مانتے ہیں تو مذکورہ بالا اقوال کی روشنی میں شرعاً بھی وہ قریہ کبیرہ ہی ہوگااور نماز جمعہ کی ادائیگی درست ہوگی۔ دلیل نمبر10:سوال میں بتایا گیا ہے کہ نماز عیدین اس موضع میں اداکی جارہی ہیں۔اس گاؤں میں عیدین کی نمازوں کی ادائیگی خود اس بات کی دلیل ہے کہ یہ جگہ قریہ کبیرہ ہے،کیونکہ جمعہ اورعیدین دونوں کے لیے قریہ کبیرہ کا ہونا شرط ہے،چھوٹے گاؤں میں جس طرح جمعہ کی نماز نہیں ہوتی بالکل اسی طرح عیدین کی نماز بھی ناجائز اورمکروہ تحریمی ہے۔چندایک حوالہ جات ملاحظہ ہوں: فتاویٰ عالمگیری کا فتویٰ تجب صلاۃ العید علیٰ کل من تجب علیہ صلاۃ الجمعۃ کذا فی الھدایۃ،ویشترط للعید مایشترط للجمعۃ الاالخطبۃ کذا فی الخلاصۃ۔ فتاویٰ عالمگیری،مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ،ج:1،ص:150۔ حکیم الامت مولانااشرف علی تھانوی رحمہ اللہ کا فتویٰ ازروئے مذہب حنفیہ نماز جمعہ اور عیدین ایسے گاؤں (قریہ صغیرہ۔ساجد)میں ناجائز اورمکروہ تحریمی ہے۔کما فی القنیۃ صلوٰۃ العید فی القریٰ تکرہ تحریما اورشامی میں ہے قولہ صلوٰۃ العید ۔۔۔۔ومثلہ الجمعۃ یعنی عیدین کی طرح نماز جمعہ بھی مکروہ تحریمی ہے۔ امدادالفتاویٰ،مکتبہ دارالعلوم کراچی،ج:1،ص:545۔ مفتی اعظم مفتی عزیز الرحمٰن صاحب رحمہ اللہ کا فتویٰ اورجس گاؤں میں جمعہ درست نہیں وہاں عیدبھی درست نہیں ہیں۔شرائط وجوب واداء جمعہ اورعید کے ایک ہیں،کچھ فرق نہیں ہے۔ہٰکذا فی الدرالمختاروغیرہ۔پس وہاں عید کی نماز بھی نہ پڑھنی چاہیئے۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند،دارالاشاعت کراچی،ج:5،ص:132۔ تلک عشرۃ کاملۃ واللہ اعلم بالصواب مفتی ابوالاحراراُتلوی دارالافتاء جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی