والد کی مملوکہ زمین بیٹوں کو واپس ملنے کی صورت میں بھائی کے ساتھ بہن کے حصے کا شرعی حکم (Recovered)
سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے نانا جان مرحوم حسین شاہ نے موضع بادہ ونڈ(جمال سیرئی)میں ایک کھیت مسمی تیمبرشاہ کے ہاتھوں فروخت کیا تھا۔سرکاری کاغذات میں رجسٹری کرتے وقت ہمارے نانا جان مرحوم نے غلطی سے تیمبر شاہ کے نام تین مختلف مقامات میں تین نمبرخسرات میں انتقال کردیا،حالانکہ زمین صرف ایک ہی مقام موضع بادہ ونڈ(جمال سیرئی)میں فروخت کی تھی۔اس ایک جگہ کے علاوہ بقیہ کسی جگہ پر ہمارے ناناجان نے تیمبر شاہ کے ہاتھوں زمین فروخت نہیں کی تھی بلکہ تین مختلف مقامات پر تیمبر شاہ کے نام یہ فروختگی زمین کاانتقال غلطی سے ہوا تھا۔غالباً 1984 میں تیمبر شاہ کے بیٹوں عمرگل اوررحیم گل وغیرہ نے یہ مان لیا کہ ہمارے والد صاحب کے نام تین مختلف نمبر خسرات میں زمین کاانتقال غلطی سے ہواتھا اور ہمارے والد صاحب نے ایک ہی مقام پرزمین خریدی تھی۔تیمبر شاہ کے بیٹوں رحیم گل اور عمرگل وغیرہ نے سرکاری کاغذات میں دوجگہوں کی زمین کاانتقال واپس ہمارے ناناجان مرحوم حسین شاہ کے بیٹوں کے نام کردیا۔واپسی انتقال کے وقت یہ زمین از سر نو حسین شاہ کے بیٹوں نےتیمبر شاہ کی اولاد سے خریدی نہیں ،بلکہ اس زمین کا قبضہ پہلے ہی سے حسین شاہ کے بیٹوں کے پاس تھا،صرف انتقال واپس ہوا ہے۔ اس وقت ہمارے ناناجان حسین شاہ کے تین بیٹے حقدرشاہ،عبدالحکیم شاہ اورمبارک شاہ اور دو بیٹیاں مسماۃ رومانہ بی بی اور مسماۃ زرین بی بی بقیدحیات تھیں ۔ جن دو مقامات کی زمین کا انتقال تیمبرشاہ کے بیٹوں نے واپس حسین شاہ کے بیٹوں کے نام کیا وہ زمین پہلے ہی سے حسین شاہ کے بیٹوں کے قبضہ میں تھی صرف سرکاری کاغذات میں انتقال تیمبرشاہ کے نام تھا جو کہ انہوں نے واپس حسین شاہ کے بیٹوں کے نام کردیا۔واپسی کے انتقال کے وقت حسین شاہ کے تینوں بیٹوں نے یہ انتقال صرف اپنے نام کردیا اور اپنی دونوں بہنوں کا نام انتقال میں شامل نہیں کیا حالانکہ وہ دونوں زندہ تھیں۔اب حسین شاہ مرحوم کے بیٹے یہ کہہ رہے ہیں کہ چونکہ انتقال میں بہنوں کانام نہیں ہے اس وجہ سے اب بہنوں کا اس زمین میں کوئی حصہ نہیں بنتا۔یہ زمین حسین شاہ ہی کی تھی ، قبضہ بھی حسین شاہ کے بیٹوں کے پاس تھا بھی اور ہے بھی،صرف غلطی سے سرکاری کاغذات میں انتقال تیمبر شاہ کے نام ہوا تھا جو کہ واپس ہو گیا ہے۔اس مذکورہ بالا پوری صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بتائیں کہ آیا اس زمین میں حسین شاہ مرحوم کی بیٹیوں کا کوئی حصہ بنتا ہے یا نہیں؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی زاہد اللہ موضع بادہ گدون 0341-0879607
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال چونکہ یہ زمین مرحوم حسین شاہ کی تھی اس وجہ سے اس زمین میں حسین شاہ کی دونوں بیٹیوں کاحصہ بنتا ہے۔تیمبرشاہ کے بیٹوں سے واپس انتقال کی صورت میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حسین شاہ مرحوم کے تمام ورثاء کے نام شرعی اصول وراثت کے مطابق انتقال ہوجاتا۔بہرحال اگر اس وقت صرف حسین شاہ کے بیٹوں کے نام انتقال ہوا ہے تو اس کی وجہ سے حسین شاہ کی بیٹیوں کو والد کی میراث سے محروم نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ یہ ان کے والد ہی کی زمین ہے۔ سوال میں بتایا گیا ہے کہ قبضہ حسین شاہ مرحوم کے بیٹوں ہی کے پاس تھا اور یہ زمین انھوں نے از سرنو خریدی نہیں بلکہ والد صاحب ہی کی زمین کی واپسی ہوئی ہے، اس وجہ سے شرعی اصول میراث کی روشنی میں دونوں بہنیں والد کی زمین میں بھائیوں کے ساتھ اپنے حصے کے بقدر شریک ہیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، وَسَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ:هَذَا المَالُ وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ لِي يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا المَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِطِيبِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلاَ يَشْبَعُ، وَاليَدُ العُلْيَا خَيْرٌ مِنَ اليَدِ السُّفْلَى۔
صحیح البخاری،دارالحضارۃ للنشر والتوزیع،الطبعۃ الثالثہ،2015ء،رقم الحدیث:6441۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ۔
صحیح البخاری،دارطوق النجاۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،رقم الحدیث:6732۔
قَوْله: (ألْحقُوا الْفَرَائِض) أَي: الْأَنْصِبَاء الْمقدرَة فِي كتاب الله، وَهِي النّصْف وَالرّبع وَالثمن وَالثُّلُثَانِ وَالثلث وَالسُّدُس، وأصحابها مَذْكُورَة فِي الْفَرَائِض. قَوْله: (بِأَهْلِهَا) هُوَ من يَسْتَحِقهَا بِنَصّ الْقُرْآن، وَوَقع فِي رِوَايَة روح بن الْقَاسِم عَن ابْن طَاوُوس: اقسموا المَال بَين أهل الْفَرَائِض على كتاب الله، أَي: على وفْق مَا أنزل الله فِي كِتَابه. قَوْله: (فَمَا بَقِي) أَي: من أَصْحَاب الْفَرَائِض. قَوْله: (فَهُوَ لأولى رجل) قَالَ النَّوَوِيّ المُرَاد بِالْأولَى الْأَقْرَب وإلاَّ لخلا عَن الْفَائِدَة، لأَنا لَا نَدْرِي من هُوَالأحق. وَقَالَ الْخطابِيّ الأولى الْأَقْرَب رجل من الْعصبَة.۔۔۔۔الخ
عمدۃ القاری،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:23،ص:236۔
العصبات) وهم كل من ليس له سهم مقدر ويأخذ ما بقي من سهام ذوي الفروض وإذا انفرد أخذ جميع المال، كذا في الاختيار شرح المختار.فالعصبة نوعان: نسبية وسببية، فالنسبية ثلاثة أنواع: عصبة بنفسه وهو كل ذكر لا يدخل في نسبته إلى الميت أنثى وهم أربعة أصناف:جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده، كذا في التبيين فأقرب العصبات الابن ثم ابن الابن وإن سفل ثم الأب ثم الجد أب الأب وإن علا،ثم الأخ لأب وأم،ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم،ثم ابن الأخ لأب ثم العم لأب وأم ثم العم لأب ثم ابن العم لأب وأم، ثم ابن العم لأب ثم عم الأب لأب وأم ثم عم الأب لأب ثم ابن عم الأب لأب وأم،ثم ابن عم الأب لأب ثم عم الجد، هكذا في المبسوط.۔۔۔۔الخ
فتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:6،ص:451۔
علامہ ابن نجیم ؒ فرماتے ہیں :
لا یجوز لاحد من المسلمین اخذ مال احد بغیر سبب شرعی۔۔۔الخ
البحر الرائق،دار الکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1997ء،ج:5،ص:69.
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل جبر ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال چونکہ یہ زمین مرحوم حسین شاہ کی تھی اس وجہ سے اس زمین میں حسین شاہ کی دونوں بیٹیوں کاحصہ بنتا ہے۔تیمبرشاہ کے بیٹوں سے واپس انتقال کی صورت میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ حسین شاہ مرحوم کے تمام ورثاء کے نام شرعی اصول وراثت کے مطابق انتقال ہوجاتا۔بہرحال اگر اس وقت صرف حسین شاہ کے بیٹوں کے نام انتقال ہوا ہے تو اس کی وجہ سے حسین شاہ کی بیٹیوں کو والد کی میراث سے محروم نہیں کیا جاسکتا،کیونکہ یہ ان کے والد ہی کی زمین ہے۔ سوال میں بتایا گیا ہے کہ قبضہ حسین شاہ مرحوم کے بیٹوں ہی کے پاس تھا اور یہ زمین انھوں نے از سرنو خریدی نہیں بلکہ والد صاحب ہی کی زمین کی واپسی ہوئی ہے، اس وجہ سے شرعی اصول میراث کی روشنی میں دونوں بہنیں والد کی زمین میں بھائیوں کے ساتھ اپنے حصے کے بقدر شریک ہیں۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، وَسَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ:هَذَا المَالُ وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ لِي يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا المَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِطِيبِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلاَ يَشْبَعُ، وَاليَدُ العُلْيَا خَيْرٌ مِنَ اليَدِ السُّفْلَى۔
صحیح البخاری،دارالحضارۃ للنشر والتوزیع،الطبعۃ الثالثہ،2015ء،رقم الحدیث:6441۔
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِيَ فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ۔
صحیح البخاری،دارطوق النجاۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،رقم الحدیث:6732۔
قَوْله: (ألْحقُوا الْفَرَائِض) أَي: الْأَنْصِبَاء الْمقدرَة فِي كتاب الله، وَهِي النّصْف وَالرّبع وَالثمن وَالثُّلُثَانِ وَالثلث وَالسُّدُس، وأصحابها مَذْكُورَة فِي الْفَرَائِض. قَوْله: (بِأَهْلِهَا) هُوَ من يَسْتَحِقهَا بِنَصّ الْقُرْآن، وَوَقع فِي رِوَايَة روح بن الْقَاسِم عَن ابْن طَاوُوس: اقسموا المَال بَين أهل الْفَرَائِض على كتاب الله، أَي: على وفْق مَا أنزل الله فِي كِتَابه. قَوْله: (فَمَا بَقِي) أَي: من أَصْحَاب الْفَرَائِض. قَوْله: (فَهُوَ لأولى رجل) قَالَ النَّوَوِيّ المُرَاد بِالْأولَى الْأَقْرَب وإلاَّ لخلا عَن الْفَائِدَة، لأَنا لَا نَدْرِي من هُوَالأحق. وَقَالَ الْخطابِيّ الأولى الْأَقْرَب رجل من الْعصبَة.۔۔۔۔الخ
عمدۃ القاری،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:23،ص:236۔
العصبات) وهم كل من ليس له سهم مقدر ويأخذ ما بقي من سهام ذوي الفروض وإذا انفرد أخذ جميع المال، كذا في الاختيار شرح المختار.فالعصبة نوعان: نسبية وسببية، فالنسبية ثلاثة أنواع: عصبة بنفسه وهو كل ذكر لا يدخل في نسبته إلى الميت أنثى وهم أربعة أصناف:جزء الميت وأصله وجزء أبيه وجزء جده، كذا في التبيين فأقرب العصبات الابن ثم ابن الابن وإن سفل ثم الأب ثم الجد أب الأب وإن علا،ثم الأخ لأب وأم،ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم،ثم ابن الأخ لأب ثم العم لأب وأم ثم العم لأب ثم ابن العم لأب وأم، ثم ابن العم لأب ثم عم الأب لأب وأم ثم عم الأب لأب ثم ابن عم الأب لأب وأم،ثم ابن عم الأب لأب ثم عم الجد، هكذا في المبسوط.۔۔۔۔الخ
فتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:6،ص:451۔
علامہ ابن نجیم ؒ فرماتے ہیں :
لا یجوز لاحد من المسلمین اخذ مال احد بغیر سبب شرعی۔۔۔الخ
البحر الرائق،دار الکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1997ء،ج:5،ص:69.
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل جبر ٹوپی صوابی