مہتمم کا مدرسہ میں اپنی ذاتی رہائش اختیار کرنے کا شرعی حکم

سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی نے اپنی زمین ایک دینی مدرسہ کے لیے وقف کردی۔ مدرسے کے مہتمم صاحب نے اس زمین پرلوگوں سے چندہ کرکےمدرسہ بنایا اور خود اپنے اہل وعیال سمیت اسی مدرسہ میں سکونت اختیار کی۔سوال یہ ہے کہ کیاایک مہتمم صاحب وقف کی زمین پرعوام الناس کے چندے سے بنے ہوئے مدرسہ میں اپنی رہائش اختیار کرسکتا ہے یا نہیں؟اورایک مہتمم صاحب اپنی ذاتی ضروریات کے لیے مدرسہ کے فنڈ سے کتنی رقم لے سکتا ہے؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کرثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی مولاناسبحا ن اللہ خراڑی ضلع بونیر

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب

حامداً ومصلیاً!

دینی مدارس کے مہتمم درحقیقت طلبہ کے وکیل اور مدارس کے اموال میں امین ہوتے ہیں۔مدارس عام طور پر مخیرحضرات کے چندوں سے ہی چلتے ہیں اور چندہ مہتمم کے پاس امانت ہوتا ہے۔چندہ کی رقم سے مہتمم اپنی ذاتی ضروریات پوری نہیں کرسکتا اور نہ ہی اپنے ذاتی ضروریات کے لیے مدرسہ کی کسی اور چیز کااستعمال کرسکتا ہے بلکہ مہتممین حضرات مدرسے اور مدرسے سے متعلقہ ضروریات میں ضابطہ کے مطابق چندہ استعمال کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔البتہ مہتمم کے لیےاپنی محنت کومدنظر رکھتے ہوئے ایک معقول اورمناسب اجرت لینا جائز ہےلیکن اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے کہ مہتمم صاحب کے لیے اپنی ذمہ داری اورکام کے اعتبار سے معروف مقدار سے زیادہ تنخواہ لینا جائز نہیں ۔ تہمت اور شکوک وشبہات سے بچنے کے لیےزیادہ مناسب یہ ہے کہ مدرسہ کی انتظامیہ کمیٹی مہتمم صاحب کی ضروریات کومدنظر رکھتے ہوئے مدارس کے عرف اورمہتمم صاحب کے کام اورذمہ داریوں کالحاظ رکھتے ہوئے تنخواہ کاتعین کرے۔

جہاں تک مہتمم صاحب کا مدرسہ میں رہائش اختیار کرنے کاسوال ہے تو اگر مدرسہ میں مہتمم کی رہائش مدرسہ کے مفاد میں ہو تو مدرسہ کی مجلس شوریٰ یا انتظامیہ کمیٹی کی اجازت سے مہتمم مدرسہ میں رہائش اختیار کر سکتا ہے۔

إذا جعل الواقف للقائم بأمر الوقف مالا معلوما كل سنة للقيام بأمر الوقف جاز ويكلف القائم ما يفعله مثله وجاءت العادة به من عمارة الوقف واستغلاله ورفع غلاته وتفريقها في وجوه الوقف كذا في الحاوي ولا ينبغي أن يقصر في ذلك۔

الفتاویٰ الہندیہ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:02،ص:425۔

قال: إذا أراد القيم أن يبني فيها قرية ليسكن أهلها وحفاظها ويحرز فيها الغلة لحاجته إلى ذلك كان له أن يفعل ذلك، لأن هذا من جملة مصالح الوقف، وهذا كالخان الموقوف على الفقراء إذا احتيج فيه إلى خادم يكشح الخان ويفتح الباب ويسده۔

المحیط البرہانی،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1424ھ،ج:06،ص:135۔

وبه أفتى في الخيرية ناقلا عن البحر أن القيم يستحق أجر سعيه سواء شرط له أو لا لأنه لا يقبل القوامة ظاهرا إلا بأجر والمعهود كالمشروط۔

ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:06،ص:713۔

امامت،اذان،کتب دینیہ وقرآن کریم کی تعلیم اوردوسری ہر قسم کی خدمات دینیہ پرتنخواہ لینا جائز ہے ۔حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے اپنے اپنے دور میں ان حضرات کو وظیفے اور تنخواہیں دیں،اور خلفائے راشدین کا عمل ہمارے لیے حجت ہے۔

احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید کراچی،ج:07،ص:278۔

واللہ اعلم بالصواب

مفتی ابوالاحراراُتلوی

دارالافتاء

جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی

محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی