موضع دیول چوک گدون میں نماز جمعہ کی ادائیگی کا شرعی حکم
سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا تعلق موضع "دیول چوک"علاقہ گدون نامی جگہ سے ہے۔یہ جگہ گاؤں کابگنی اور گاؤں دیول کے درمیان واقع ہے۔گاؤں کابگنی اور گاؤں دیول کی آبادی اس سے بہت پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے اور یہ دونوں گاؤں سے الگ ایک جگہ ہے۔اس جگہ میں ایک مسجد ہے جس کا نام مسجد قباء ہے۔مسجد کے قریب چار دوکانیں اورایک ہوٹل ہے۔ یہاں پر کل تین گھر ہیں ایک میرااور دوگھرمیرے بھائیوں کے ہیں۔کیا اس مسجد قباء میں نماز جمعہ کی ادائیگی درست ہے یا نہیں؟ شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی اویس خان کابگنی 0320-1936388
جواب :-
الجواب باسم ملہم الصواب
حامداً ومصلیاً!
سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک تمہیدی بات کا جاننا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ نمازجمعہ کے صحیح ہونے کے لیے احناف کے ہاں جہاں اور کئی ایک شرائط ہیں وہاں ایک بنیادی شرط یہ بھی ہے کہ نماز جمعہ کی ادائیگی شہر،قصبہ یابڑے گاؤں میں ہی ہوگی۔چھوٹے گاؤں اور دیہات وغیرہ میں جمعہ پڑھناجائز نہیں ہے۔پھر ائمہ احناف کے نزدیک اس بارے میں خاصا اختلاف ہےکہ شہر(مصر) یا بڑے گاؤں کااطلاق کس طرح کی آبادی پرہوگا؟اس سلسلہ میں جومتداول اقوال ذکر کیے جاتے ہیں،وہ مندرجہ ذیل ہیں:
1۔قاضی ابویوسفؒ کہتے ہیں کہ وہ جگہ جہاں ہرپیشہ وحرفت کاآدمی موجود ہو،عام انسانی ضروریات کی تمام چیزیں دستیاب ہوں اورقاضی بھی موجود ہوجواسلامی سزا جاری کرتا ہو۔
2۔جس کی مجموعی آبادی دس ہزار ہو۔
3۔جہاں دس ہزار ایسے لوگ ہوں جو جنگ کے کام آئیں۔
4۔اگردشمن حملہ آور ہوتووہ آبادی خود اپنی دفاع کی اہل ہو۔
5۔جہاں امیروقاضی موجود ہو۔
6۔اس آبادی کے لوگ وہاں کی بڑی مسجد میں اکٹھے ہوجائیں تومسجد ان کے لیے ناکافی ہو۔
7۔ایسا مرکز ہوکہ ایک پیشہ کاآدمی دوسرے پیشے میں لگے بغیر ایک ایک سال تک صرف اپنے پیشے سے زندگی بسرکرے۔
8۔امام محمدؒ سے مروی ہے کہ امیرجس کو شہر قرار دے دے وہ شہر ہے۔
9۔امام ابوحنیفہ ؒ سے مروی ہے کہ وہ جگہ جہاں مفتی،امیراورقاضی موجود ہوں،احکام وحدود قائم ہوں یاکم ازکم بالقوۃ قائم کیے جاسکتے ہوں اوراس کے مکانات منی کے مکانات کے برابر ہوں۔
10۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مکہ ومدینہ کی جو کیفیت تھی،جوجگہ اس کے مطابق ہووہ شہر ہے۔
11۔جہاں کی آبادی چار ہزار ہو۔
12۔جہاں کی آبادی ایک ہزار ہو۔
مذکورہ بالااقوال سے صاف ظاہرہے کہ احناف کے ہاں مصر اورقریہ کبیرہ کی تحدید میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔حضرت مولانا مفتی غلام الرحمٰن صاحب مدظلہ نےفتاویٰ عثمانیہ میں ان سارے اقوال کو جمع کرکے آخرمیں بطور تبصرہ وخلاصہ لکھا ہے کہ:
متقدمین ومتاخرین فقہائے کرام کی آراء کومدنظر رکھ کر شہر،قصبہ یاکسی بڑے گاؤں کی تحدید کے لیے بس اتنی بات کافی ہے کہ اس میں روزمرہ کی ضروریات پوری ہوسکتی ہوں اوراس کی آبادی موجودہ دور کے اعتبار سے کم ازکم دوڈھائی ہزار تک ضرور ہو۔
فتاویٰ عثمانیہ،مکتبۃ العصر،پشاور،اشاعت ہفتم،1442ھ،ج:2،ص:402۔
اب اس مذکورہ بالا تمہیدی بات کے بعد سوال کاجواب مندرجہ ذیل ہے:
"صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال اگرموضع "دیول چوک"گاؤں کابگنی یا گاؤں دیول کاحصہ نہ ہو اور ایک الگ مستقل موضع ہو جیسا کہ سوال میں بتایا گیا ہے کہ " گاؤں کابگنی اور گاؤں دیول کی آبادی اس سے بہت پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے اور یہ دونوں گاؤں سے الگ ایک جگہ ہے"تو پھر یہاں نماز جمعہ جائز نہیں ہے۔جمعہ کی ادائیگی کے لیے شہر یا بڑے گاؤں کا ہونا ضروری ہے اور تین گھروں،چار دوکانوں،ایک ہوٹل اور ایک مسجد پر مشتمل آبادی کو کسی بھی صورت میں شہر یا قریہ کبیرہ نہیں کہا جا سکتا۔اس وجہ سے اس مسجد قباء میں جمعہ کی نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔"
امام علاء الدین ابی بکربن مسعود الکاسانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں
أما المصر الجامع فقد اختلفت الأقاويل في تحديده ذكر الكرخي أن المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود ونفذت فيه الأحكام، وعن أبي يوسف روايات ذكر في الإملاء كل مصر فيه منبر وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع تجب على أهله الجمعة، وفي رواية قال: إذا اجتمع في قرية من لا يسعهم مسجد واحد بنى لهم الإمام جامعا ونصب لهم من يصلي بهم الجمعة، وفي رواية لو كان في القرية عشرة آلاف أو أكثر أمرتهم بإقامة الجمعة فيها، وقال بعض أصحابنا: المصر الجامع ما يتعيش فيه كل محترف بحرفته من سنة إلى سنة من غير أن يحتاج إلى الانتقال إلى حرفة أخرى، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما قيل فيه إذا كانوا بحال لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر تقام فيه الجمعة، وقال سفيان الثوري: المصر الجامع ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة، وسئل أبو القاسم الصفار عن حد المصر الذي تجوز فيه الجمعة فقال: أن تكون لهم منعة لو جاءهم عدو قدروا على دفعه فحينئذ جاز أن يمصر وتمصره أن ينصب فيه حاكم عدل يجري فيه حكما من الأحكام، وهو أن يتقدم إليه خصمان فيحكم بينهما.وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح.
بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،دارالکتب العلمیہ،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1406ھ،ج:،ص:259۔
امام برہان الدین محمود بن احمدالبخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں
وإذا ثبت أن المصر شرط لإقامة الجمعة نحتاج إلى بيان حد المصر الذي تقام فيه الجمعة، وقد تكلموا فيه على أقوال: روي عن أبي حنيفة رحمه الله: أن المصر الجامع ما يجتمع فيه مرافق أهلها ديناً ودنياً، وعن أبي يوسف رحمه الله ثلاث روايات، في رواية قال: كل موضع فيه منبر وقاضي ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع، وهو رواية عن أبي حنيفة رحمه الله، وفي رواية أخرى عنه كل موضع أهلها بحيث لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك فهو مصر جامع، وفي رواية أخرى قال: كل موضع يسكن فيه عشرة آلاف نفر، فهو مصر جامع.ومن العلماء من قال: المصر الجامع ما يعيش فيه كل صانع لصنعته، ولا يحتاج إلى العود من صنعة إلى صنعة، وعن محمد رحمه الله أنه قال: كل موضع مصر للإمام فهو مصر حتى أن الإمام إذا بعث إلى قرية نائباً لإقامة الحدود فيهم وقاضياً يقضي بينهم صار ذلك الموضع مصراً، وإذا عزله ودعاه إلى نفسه عادت قرية كما كانت، وقال بعض العلماء: كل مصر بلغت مساحته مصراً جمع فيه رسول الله عليه السلام، فهو مصر جامع.ومن العلماء من قال: كل موضع كان لأهله من القوة والشوكة، ما لو توجه إليهم عدو دفعوه عن نفسهم، فهو مصر جامع.وقال سفيان الثوري رحمه الله: المصر الجامع ما يعده الناس مصراً عند ذكر الأمصار المطلقة كبخارى أو سمرقند، فعلى هذا القول لا يجوز إقامة الجمعة بكرمينة وكثانية.قال شمس الأئمة السرخسي رحمه الله: وظاهر المذهب أن المصر الجامع أن يكون فيه جماعات الناس، وجامع وأسواق للتجارات وسلطان أو قاضي يقيم الحدود، وينفذ الأحكام، ويكون فيه مفتي إذا لم يكن الوالي أو السلطان مفتياً۔۔۔۔الخ
المحیط البرہانی،دارالکتب العلمیہ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1424ھ،ج:2،ص:65۔
امام محمدبن محمد بن محمود البابرتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
وعرف المصر الجامع بقوله (كل موضع له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود) والمراد بالأمير وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم، وإنما قال ويقيم الحدود بعد قوله ينفذ الأحكام لأن تنفيذ الأحكام لا يستلزم إقامة الحدود، فإن المرأة إذا كانت قاضية تنفذ الأحكام وليس لها إقامة الحدود وكذاك المحكم، واكتفى بذكر الحدود عن القصاص لأنهما لا يفترقان في عامة الأحكام، فكان ذكر أحدهما مغنيا عن ذكر الآخر (وعنه) أي عن أبي يوسف (أنهم إذا اجتمعوا) أي اجتمع من تجب عليهم الجمعة لا كل من يسكن في ذلك الموضع من الصبيان والنساء والعبيد لأن من تجب عليهم مجتمعون فيه عادة. قال ابن شجاع: أحسن ما قيل فيه إذا كان أهلها بحيث لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد آخر للجمعة وهذا الاحتياج غالب عند اجتماع من عليه الجمعة، والأول اختيار الكرخي وهو ظاهر الرواية وعليه أكثر الفقهاء والثاني اختيار أبي عبد الله الثلجي. وعن أبي يوسف رواية أخرى غير هاتين الروايتين وهو كل موضع يسكنه عشرة آلاف نفر فكان عنه ثلاث روايات.
العنایہ شرح الہدایہ،دارالفکر،بیروت،ج:2،ص:51۔
علامہ بدرالدین العینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
ثمَّ اخْتلف أَصْحَابنَا فِي الْمصر الَّذِي تجوز فِيهِ الْجُمُعَة، فَعَن أبي يُوسُف: هُوَ كل مَوضِع يكون فِيهِ كل محترف، وَيُوجد فِيهِ جَمِيع مَا يحْتَاج إِلَيْهِ النَّاس من مَعَايشهمْ عَادَة، وَبِه قَاض يُقيم الْحُدُود. وَقيل: إِذا بلغ سكانه عشرَة آلَاف، وَقيل: عشرَة آلَاف مقَاتل، وَقيل: بِحَيْثُ أَن لَو قصدهم عَدو لأمكنهم دَفعه، وَقيل: كل مَوضِع فِيهِ أَمِير وقاض يُقيم الْحُدُود، وَقيل: أَن لَو اجْتَمعُوا إِلَى أكبر مَسَاجِدهمْ لم يسعهم، وَقيل: أَن يكون بِحَال يعِيش كل محترف بحرفته من سنة إِلَى سنة من غير أَن يشْتَغل بحرفة أُخْرَى، وَعَن مُحَمَّد: مَوضِع مصرة الإِمَام فَهُوَ مصر حَتَّى إِنَّه لَو بعث إِلَى قَرْيَة نَائِبا لإِقَامَة الْحُدُود وَالْقصاص تصير مصرا، فَإِذا عز لَهُ وَدعَاهُ يلْحق بالقرى۔۔۔الخ
عمدۃ القاری،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:6ص:187۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر) ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملہم الصواب
حامداً ومصلیاً!
سوال کا جواب دینے سے پہلے ایک تمہیدی بات کا جاننا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ نمازجمعہ کے صحیح ہونے کے لیے احناف کے ہاں جہاں اور کئی ایک شرائط ہیں وہاں ایک بنیادی شرط یہ بھی ہے کہ نماز جمعہ کی ادائیگی شہر،قصبہ یابڑے گاؤں میں ہی ہوگی۔چھوٹے گاؤں اور دیہات وغیرہ میں جمعہ پڑھناجائز نہیں ہے۔پھر ائمہ احناف کے نزدیک اس بارے میں خاصا اختلاف ہےکہ شہر(مصر) یا بڑے گاؤں کااطلاق کس طرح کی آبادی پرہوگا؟اس سلسلہ میں جومتداول اقوال ذکر کیے جاتے ہیں،وہ مندرجہ ذیل ہیں:
1۔قاضی ابویوسفؒ کہتے ہیں کہ وہ جگہ جہاں ہرپیشہ وحرفت کاآدمی موجود ہو،عام انسانی ضروریات کی تمام چیزیں دستیاب ہوں اورقاضی بھی موجود ہوجواسلامی سزا جاری کرتا ہو۔
2۔جس کی مجموعی آبادی دس ہزار ہو۔
3۔جہاں دس ہزار ایسے لوگ ہوں جو جنگ کے کام آئیں۔
4۔اگردشمن حملہ آور ہوتووہ آبادی خود اپنی دفاع کی اہل ہو۔
5۔جہاں امیروقاضی موجود ہو۔
6۔اس آبادی کے لوگ وہاں کی بڑی مسجد میں اکٹھے ہوجائیں تومسجد ان کے لیے ناکافی ہو۔
7۔ایسا مرکز ہوکہ ایک پیشہ کاآدمی دوسرے پیشے میں لگے بغیر ایک ایک سال تک صرف اپنے پیشے سے زندگی بسرکرے۔
8۔امام محمدؒ سے مروی ہے کہ امیرجس کو شہر قرار دے دے وہ شہر ہے۔
9۔امام ابوحنیفہ ؒ سے مروی ہے کہ وہ جگہ جہاں مفتی،امیراورقاضی موجود ہوں،احکام وحدود قائم ہوں یاکم ازکم بالقوۃ قائم کیے جاسکتے ہوں اوراس کے مکانات منی کے مکانات کے برابر ہوں۔
10۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں مکہ ومدینہ کی جو کیفیت تھی،جوجگہ اس کے مطابق ہووہ شہر ہے۔
11۔جہاں کی آبادی چار ہزار ہو۔
12۔جہاں کی آبادی ایک ہزار ہو۔
مذکورہ بالااقوال سے صاف ظاہرہے کہ احناف کے ہاں مصر اورقریہ کبیرہ کی تحدید میں کافی اختلاف پایا جاتا ہے۔حضرت مولانا مفتی غلام الرحمٰن صاحب مدظلہ نےفتاویٰ عثمانیہ میں ان سارے اقوال کو جمع کرکے آخرمیں بطور تبصرہ وخلاصہ لکھا ہے کہ:
متقدمین ومتاخرین فقہائے کرام کی آراء کومدنظر رکھ کر شہر،قصبہ یاکسی بڑے گاؤں کی تحدید کے لیے بس اتنی بات کافی ہے کہ اس میں روزمرہ کی ضروریات پوری ہوسکتی ہوں اوراس کی آبادی موجودہ دور کے اعتبار سے کم ازکم دوڈھائی ہزار تک ضرور ہو۔
فتاویٰ عثمانیہ،مکتبۃ العصر،پشاور،اشاعت ہفتم،1442ھ،ج:2،ص:402۔
اب اس مذکورہ بالا تمہیدی بات کے بعد سوال کاجواب مندرجہ ذیل ہے:
"صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال اگرموضع "دیول چوک"گاؤں کابگنی یا گاؤں دیول کاحصہ نہ ہو اور ایک الگ مستقل موضع ہو جیسا کہ سوال میں بتایا گیا ہے کہ " گاؤں کابگنی اور گاؤں دیول کی آبادی اس سے بہت پہلے ہی ختم ہو جاتی ہے اور یہ دونوں گاؤں سے الگ ایک جگہ ہے"تو پھر یہاں نماز جمعہ جائز نہیں ہے۔جمعہ کی ادائیگی کے لیے شہر یا بڑے گاؤں کا ہونا ضروری ہے اور تین گھروں،چار دوکانوں،ایک ہوٹل اور ایک مسجد پر مشتمل آبادی کو کسی بھی صورت میں شہر یا قریہ کبیرہ نہیں کہا جا سکتا۔اس وجہ سے اس مسجد قباء میں جمعہ کی نماز پڑھنا جائز نہیں ہے۔"
امام علاء الدین ابی بکربن مسعود الکاسانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں
أما المصر الجامع فقد اختلفت الأقاويل في تحديده ذكر الكرخي أن المصر الجامع ما أقيمت فيه الحدود ونفذت فيه الأحكام، وعن أبي يوسف روايات ذكر في الإملاء كل مصر فيه منبر وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع تجب على أهله الجمعة، وفي رواية قال: إذا اجتمع في قرية من لا يسعهم مسجد واحد بنى لهم الإمام جامعا ونصب لهم من يصلي بهم الجمعة، وفي رواية لو كان في القرية عشرة آلاف أو أكثر أمرتهم بإقامة الجمعة فيها، وقال بعض أصحابنا: المصر الجامع ما يتعيش فيه كل محترف بحرفته من سنة إلى سنة من غير أن يحتاج إلى الانتقال إلى حرفة أخرى، وعن أبي عبد الله البلخي أنه قال: أحسن ما قيل فيه إذا كانوا بحال لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد الجمعة فهذا مصر تقام فيه الجمعة، وقال سفيان الثوري: المصر الجامع ما يعده الناس مصرا عند ذكر الأمصار المطلقة، وسئل أبو القاسم الصفار عن حد المصر الذي تجوز فيه الجمعة فقال: أن تكون لهم منعة لو جاءهم عدو قدروا على دفعه فحينئذ جاز أن يمصر وتمصره أن ينصب فيه حاكم عدل يجري فيه حكما من الأحكام، وهو أن يتقدم إليه خصمان فيحكم بينهما.وروي عن أبي حنيفة أنه بلدة كبيرة فيها سكك وأسواق ولها رساتيق وفيها وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم بحشمه وعلمه أو علم غيره والناس يرجعون إليه في الحوادث وهو الأصح.
بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،دارالکتب العلمیہ،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1406ھ،ج:،ص:259۔
امام برہان الدین محمود بن احمدالبخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں
وإذا ثبت أن المصر شرط لإقامة الجمعة نحتاج إلى بيان حد المصر الذي تقام فيه الجمعة، وقد تكلموا فيه على أقوال: روي عن أبي حنيفة رحمه الله: أن المصر الجامع ما يجتمع فيه مرافق أهلها ديناً ودنياً، وعن أبي يوسف رحمه الله ثلاث روايات، في رواية قال: كل موضع فيه منبر وقاضي ينفذ الأحكام ويقيم الحدود فهو مصر جامع، وهو رواية عن أبي حنيفة رحمه الله، وفي رواية أخرى عنه كل موضع أهلها بحيث لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك فهو مصر جامع، وفي رواية أخرى قال: كل موضع يسكن فيه عشرة آلاف نفر، فهو مصر جامع.ومن العلماء من قال: المصر الجامع ما يعيش فيه كل صانع لصنعته، ولا يحتاج إلى العود من صنعة إلى صنعة، وعن محمد رحمه الله أنه قال: كل موضع مصر للإمام فهو مصر حتى أن الإمام إذا بعث إلى قرية نائباً لإقامة الحدود فيهم وقاضياً يقضي بينهم صار ذلك الموضع مصراً، وإذا عزله ودعاه إلى نفسه عادت قرية كما كانت، وقال بعض العلماء: كل مصر بلغت مساحته مصراً جمع فيه رسول الله عليه السلام، فهو مصر جامع.ومن العلماء من قال: كل موضع كان لأهله من القوة والشوكة، ما لو توجه إليهم عدو دفعوه عن نفسهم، فهو مصر جامع.وقال سفيان الثوري رحمه الله: المصر الجامع ما يعده الناس مصراً عند ذكر الأمصار المطلقة كبخارى أو سمرقند، فعلى هذا القول لا يجوز إقامة الجمعة بكرمينة وكثانية.قال شمس الأئمة السرخسي رحمه الله: وظاهر المذهب أن المصر الجامع أن يكون فيه جماعات الناس، وجامع وأسواق للتجارات وسلطان أو قاضي يقيم الحدود، وينفذ الأحكام، ويكون فيه مفتي إذا لم يكن الوالي أو السلطان مفتياً۔۔۔۔الخ
المحیط البرہانی،دارالکتب العلمیہ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1424ھ،ج:2،ص:65۔
امام محمدبن محمد بن محمود البابرتی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
وعرف المصر الجامع بقوله (كل موضع له أمير وقاض ينفذ الأحكام ويقيم الحدود) والمراد بالأمير وال يقدر على إنصاف المظلوم من الظالم، وإنما قال ويقيم الحدود بعد قوله ينفذ الأحكام لأن تنفيذ الأحكام لا يستلزم إقامة الحدود، فإن المرأة إذا كانت قاضية تنفذ الأحكام وليس لها إقامة الحدود وكذاك المحكم، واكتفى بذكر الحدود عن القصاص لأنهما لا يفترقان في عامة الأحكام، فكان ذكر أحدهما مغنيا عن ذكر الآخر (وعنه) أي عن أبي يوسف (أنهم إذا اجتمعوا) أي اجتمع من تجب عليهم الجمعة لا كل من يسكن في ذلك الموضع من الصبيان والنساء والعبيد لأن من تجب عليهم مجتمعون فيه عادة. قال ابن شجاع: أحسن ما قيل فيه إذا كان أهلها بحيث لو اجتمعوا في أكبر مساجدهم لم يسعهم ذلك حتى احتاجوا إلى بناء مسجد آخر للجمعة وهذا الاحتياج غالب عند اجتماع من عليه الجمعة، والأول اختيار الكرخي وهو ظاهر الرواية وعليه أكثر الفقهاء والثاني اختيار أبي عبد الله الثلجي. وعن أبي يوسف رواية أخرى غير هاتين الروايتين وهو كل موضع يسكنه عشرة آلاف نفر فكان عنه ثلاث روايات.
العنایہ شرح الہدایہ،دارالفکر،بیروت،ج:2،ص:51۔
علامہ بدرالدین العینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں
ثمَّ اخْتلف أَصْحَابنَا فِي الْمصر الَّذِي تجوز فِيهِ الْجُمُعَة، فَعَن أبي يُوسُف: هُوَ كل مَوضِع يكون فِيهِ كل محترف، وَيُوجد فِيهِ جَمِيع مَا يحْتَاج إِلَيْهِ النَّاس من مَعَايشهمْ عَادَة، وَبِه قَاض يُقيم الْحُدُود. وَقيل: إِذا بلغ سكانه عشرَة آلَاف، وَقيل: عشرَة آلَاف مقَاتل، وَقيل: بِحَيْثُ أَن لَو قصدهم عَدو لأمكنهم دَفعه، وَقيل: كل مَوضِع فِيهِ أَمِير وقاض يُقيم الْحُدُود، وَقيل: أَن لَو اجْتَمعُوا إِلَى أكبر مَسَاجِدهمْ لم يسعهم، وَقيل: أَن يكون بِحَال يعِيش كل محترف بحرفته من سنة إِلَى سنة من غير أَن يشْتَغل بحرفة أُخْرَى، وَعَن مُحَمَّد: مَوضِع مصرة الإِمَام فَهُوَ مصر حَتَّى إِنَّه لَو بعث إِلَى قَرْيَة نَائِبا لإِقَامَة الْحُدُود وَالْقصاص تصير مصرا، فَإِذا عز لَهُ وَدعَاهُ يلْحق بالقرى۔۔۔الخ
عمدۃ القاری،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:6ص:187۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر) ٹوپی صوابی