قبروں کو پختہ کرنے کا شرعی حکم
سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے علاقہ میں عام طور پرقبروں کو پکی کرکے پختہ بنانے کا رواج ہے۔ اکثر لوگ سیمنٹ وغیرہ سے پختہ کرتے ہیں اور بعض لوگ آج کل ٹائل اور ماربل وغیرہ بھی لگاتے ہیں اور عموماً سنگ مرمر کے ایک تختی پر میت کا نام ،ولدیت اور تاریخ وفات وغیرہ لکھ کر لگا دیتے ہیں۔لوگ کہتے ہیں کہ ہم اس وجہ سے قبروں کو پختہ کرتے ہیں تاکہ بارش وغیرہ کے پانی سے قبرکےنشان مٹ جانے کاخطرہ باقی نہ رہے،اور لکھائی کی وجہ سے میت کے ورثاء کوقبر کے پہچاننے میں سہولت رہتی ہے۔شریعت مطہرہ کی روشنی میں یہ بتائیں کہ آیا قبروں کواس مذکورہ طریقے سے پختہ کرناجائز ہے یا نہیں؟بینوا فتوجروا المستفتی فاروق حسین گاؤں گبائی (گدون)
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق قبروں کو پختہ کرنا شرعاً ممنوع ہے،قبر کو بالکل کچا رکھا جائےنیز قبر کوزمین سے ایک بالشت کی حد تک کوہان نمااونچا کرناچاہیئے ،ایک بالشت سے زیادہ اونچا کرنا بھی مکروہ ہے۔البتہ جہاں یہ خطرہ ہو کہ بارش کے پانی وغیرہ سے قبرکانشان مٹ جائے گا یا قبر کے بوسیدہ ہونے اور بے حرمتی کاامکان ہو تو وہاں پر قبرکومحفوظ رکھنے کے لیے اس کے درمیانی حصہ کوچھوڑ کر قبر کے چاروں اطراف میں پختہ منڈیر بنانے کی گنجائش ہے۔اسی طرح پہچان کی غرض سے اگر صرف نام وغیرہ لکھ دیا جائے تو اس کی اجازت ہے مگر قرآنی آیات وغیرہ لکھنا بالکل جائز نہیں ہے۔
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَأَنْ يُقْعَدَ عَلَيْهِ، وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهِ۔
صحیح مسلم،داراحیاء التراث العربی،بیروت،رقم الحدیث:970۔
والسنة في القبر أن يسنم ولا يربع ولا يطين ولا يجصص وكره أبو حنيفة البناء على القبر وأن يعلم بعلامة وعن أبي يوسف أنه قال أكره أن يكتب عليه لما روي عن النبي عليه السلام أنه نهى عن تربيع القبور وعن تجصيصها وعن الكتابة عليهاوأما رش الماء على القبر فلا بأس به لأن ذلك مما يحتاج إليه لتسوية التراب عليه وعن أبي يوسف أنه يكره الرش لأنه يجري مجرى التطيين ويكره أن يزاد التراب على تراب القبر الخارج منه لأن ذلك يجري مجرى البناء۔
تحفۃ الفقہاء،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1414ھ،ج:01،ص:256۔
ولا يجصص القبر لما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه نهى عن التجصيص والتفضيض وعن البناء فوق القبر قالوا أراد البناء السفط الذي يجعل على القبر في ديارنا لما روي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه قال لا يجصص القبر ولا يطين ولا يرفع عليه بناء۔
فتاویٰ قاضی خان،ج:01،ص:95۔
(قوله ولا يجصص) لحديث جابر نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يجصص القبر وأن يقعد عليه وأن يبنى عليه وأن يكتب عليه وأن يوطأ والتجصيص طلي البناء بالجص بالكسر والفتح كذا في المغرب، وفي الخلاصة، ولا يجصص القبر ولا يطين، ولا يرفع عليه بناء قالوا أراد به السفط الذي يجعل في ديارنا على القبر وقال في الفتاوى اليوم اعتادوا السفط، ولا بأس بالتطيين.وفي الظهيرية، ولو وضع عليه شيء من الأشجار أو كتب عليه شيء فلا بأس به عند البعض والحديث المتقدم يمنع الكتابة فليكن المعول عليه لكن فصل في المحيط فقال: وإن احتيج إلى الكتابة حتى لا يذهب الأثر ولا يمتهن فلا بأس به فأما الكتابة من غير عذر فلا ۔
البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیۃ،ج:02،ص:209۔
واللہ اعلم باالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق قبروں کو پختہ کرنا شرعاً ممنوع ہے،قبر کو بالکل کچا رکھا جائےنیز قبر کوزمین سے ایک بالشت کی حد تک کوہان نمااونچا کرناچاہیئے ،ایک بالشت سے زیادہ اونچا کرنا بھی مکروہ ہے۔البتہ جہاں یہ خطرہ ہو کہ بارش کے پانی وغیرہ سے قبرکانشان مٹ جائے گا یا قبر کے بوسیدہ ہونے اور بے حرمتی کاامکان ہو تو وہاں پر قبرکومحفوظ رکھنے کے لیے اس کے درمیانی حصہ کوچھوڑ کر قبر کے چاروں اطراف میں پختہ منڈیر بنانے کی گنجائش ہے۔اسی طرح پہچان کی غرض سے اگر صرف نام وغیرہ لکھ دیا جائے تو اس کی اجازت ہے مگر قرآنی آیات وغیرہ لکھنا بالکل جائز نہیں ہے۔
عَنْ جَابِرٍ، قَالَ:نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُجَصَّصَ الْقَبْرُ، وَأَنْ يُقْعَدَ عَلَيْهِ، وَأَنْ يُبْنَى عَلَيْهِ۔
صحیح مسلم،داراحیاء التراث العربی،بیروت،رقم الحدیث:970۔
والسنة في القبر أن يسنم ولا يربع ولا يطين ولا يجصص وكره أبو حنيفة البناء على القبر وأن يعلم بعلامة وعن أبي يوسف أنه قال أكره أن يكتب عليه لما روي عن النبي عليه السلام أنه نهى عن تربيع القبور وعن تجصيصها وعن الكتابة عليهاوأما رش الماء على القبر فلا بأس به لأن ذلك مما يحتاج إليه لتسوية التراب عليه وعن أبي يوسف أنه يكره الرش لأنه يجري مجرى التطيين ويكره أن يزاد التراب على تراب القبر الخارج منه لأن ذلك يجري مجرى البناء۔
تحفۃ الفقہاء،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1414ھ،ج:01،ص:256۔
ولا يجصص القبر لما روي عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه نهى عن التجصيص والتفضيض وعن البناء فوق القبر قالوا أراد البناء السفط الذي يجعل على القبر في ديارنا لما روي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه قال لا يجصص القبر ولا يطين ولا يرفع عليه بناء۔
فتاویٰ قاضی خان،ج:01،ص:95۔
(قوله ولا يجصص) لحديث جابر نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم أن يجصص القبر وأن يقعد عليه وأن يبنى عليه وأن يكتب عليه وأن يوطأ والتجصيص طلي البناء بالجص بالكسر والفتح كذا في المغرب، وفي الخلاصة، ولا يجصص القبر ولا يطين، ولا يرفع عليه بناء قالوا أراد به السفط الذي يجعل في ديارنا على القبر وقال في الفتاوى اليوم اعتادوا السفط، ولا بأس بالتطيين.وفي الظهيرية، ولو وضع عليه شيء من الأشجار أو كتب عليه شيء فلا بأس به عند البعض والحديث المتقدم يمنع الكتابة فليكن المعول عليه لكن فصل في المحيط فقال: وإن احتيج إلى الكتابة حتى لا يذهب الأثر ولا يمتهن فلا بأس به فأما الكتابة من غير عذر فلا ۔
البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیۃ،ج:02،ص:209۔
واللہ اعلم باالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی