عدت گزر جانے کے بعد رجوع میں میاں بیوی کے اختلاف کا حکم
                  سوال :- 
              استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں مسمی ثمن جدون ولد پرویزجدون کی شادی 15اگست 2021ء کو عبداللہ خان ولدفضل مالک سے ہوئی۔میرے شوہر نے تقریباً ایک مہینہ میرے ساتھ گزارا،اس دوران لڑائی جھگڑا بھی کرتا رہا ۔جب وہ واپس دوبئی 08ستمبر2021ء کو گئےتووہاں سے فون پرطلاق دے دی تین مرتبہ۔ یعنی تین مرتبہ یہ کہا تھا  
            
             
               
                
                جواب :- 
الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق آپ کے سوال کے تین اجزاء بنتے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں: 1۔فون پرآپ کو طلاق دیا گیا ہے اور بقول آپ کے عبداللہ خان کے والدین یہ کہہ رہے تھے کہ فون پر طلاق نہیں ہوتی۔اس کاجواب یہ ہے کہ عبداللہ خان کے والدین کی بات درست نہیں ،فون پر طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ 2۔آپ کے سوال کا دوسرا جزء یہ ہے کہ آپ یہ دعویٰ کررہی ہے کہ آپ کے شوہر عبداللہ خان نے آپ کو تین طلاقیں دی ہیں جبکہ وہ اس بات سے انکار کررہا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ اُس نے صرف ایک طلاق رجعی دی ہے۔ اس کاحکم یہ ہے کہ اگرآپ کے پاس گواہ موجود ہوں جو اس بات کی گواہی دیں کہ عبداللہ خان نے واقعی آپ کو تین طلاقیں دی ہیں توپھرآپ کی بات کااعتبار کیا جائے گا۔اوراگرآپ کے پاس گواہ موجود نہ ہوں تو پھر اگر عبداللہ خان قسم اٹھانے کے لیے تیارہو کہ واقعی اس نے ایک ہی طلاق دی ہے تواُس کے قول کااعتبار کیا جائے گا۔ البتہ اگرآپ کو پختہ یقین ہو کہ واقعی عبداللہ خان نے آپ کو تین طلاقیں دی ہیں مگرآپ کے پاس گواہ نہیں اوراب وہ جھوٹ بول کرغلط بیانی کررہا ہے تواس صورت میں آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ عبداللہ خان کو اپنےاوپر قدرت نہیں دوگی اور کوئی بھی ممکنہ صورت اختیار کرکے اس سے جان چھڑاؤگی۔اور اس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ عبداللہ خان کو خوف خدا دلاکراس سے تین طلاقوں کااقرار کرواؤ،یااسے مال ودولت دے کر دوبارہ طلاق لے لو،اس سے خلع کرلو یا پھر عدالت سے رجوع کرکے تنسیخ نکاح کرواؤ۔اگران ممکنہ صورتوں میں سے کسی بھی صورت کو اختیار کرناآپ کے لیے ممکن نہ ہو تو اس صورت میں گناہ سارا کا ساراعبداللہ خان کے سرہوگااور اگران ممکنہ صورتوں میں سے کسی ایک بھی صورت کواختیار کرناآپ کے لیے ممکن ہو تو پھر لازمی ہے کہ آپ اس صورت کو اختیار کرکے اس سے جان چھڑاؤ ورنہ آپ بھی پھر گناہ میں برابر کی شریک رہوگی۔ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَغَيْرُهُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي خُطْبَتِهِ:البَيِّنَةُ عَلَى المُدَّعِي، وَاليَمِينُ عَلَى المُدَّعَى عَلَيْهِ۔ سنن الترمذی،مطبعۃ مصطفیٰ البابی،مصر،الطبعۃ الثانیۃ،1395ھ،رقم الحدیث:1341۔ والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب،۔۔۔۔۔. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله. ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:3،ص:251۔ وكذلك إن سمعت أنه طلقها ثلاثا وجحد الزوج ذلك وحلف فردها عليه القاضي لم يسعها المقام معه، وينبغي لها أن تفتدي بمالها أو تهرب منه۔۔۔الخ الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:5،ص:313۔ والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه هكذا اقتصر الشارحون وذكر في البزازية وذكر الأوزجندي أنها ترفع الأمر إلى القاضي فإن لم يكن لها بينة يحلفه فإن حلف فالإثم عليه البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیہ،ج:3،ص:277۔ فإن اختلفا في وجود الشرط فالقول له مع اليمين لإنكاره الطلاق۔۔۔۔الخ درالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:3،ص:356۔ 3۔آپ کے سوال کا تیسراجزء رجوع سے متعلق ہے۔عبداللہ خان کا دعویٰ یہ ہے کہ اس نے عدت کے اندرآپ سےان الفاظ کے ساتھ رجوع کیا ہے کہ"تومیری بیوی ہے"اورآپ کہتی ہو کہ اُس نے رجوع نہیں کیاہےبلکہ مجھے گالیاں دی تھی،اورنہ اُس کے پاس رجوع پرکوئی گواہ موجود ہے۔ جب آپ کا شوہر اس بات کا مدعی ہے کہ اُس نے عدت کے اندر رجوع کیا ہے اور آپ انکار کررہی ہےاوربقول آپ کے اُس کے پاس کوئی گواہ بھی نہیں ہے تو بتقدیرصحت سوال اگر واقعتاً ایساہی ہوکہ آپ کے شوہر کے پاس رجوع پر کوئی گواہ نہ ہوتوپھرآپ اپنے شوہر سے جداہوچکی ہو۔ایک طلاق دینے پرتوتم دونوں میاں بیوی متفق ہو۔اورایک طلاق رجعی میں بھی اگردوران عدت رجوع نہ کیا جائے توبیوی بائنہ یعنی جدا ہو جاتی ہے۔چونکہ آپ کی عدت گزر چکی ہے اس وجہ سے عدت گزر جانے کے بعد رجوع میں اگر اختلاف ہو جائے کہ میاں دعویٰ کرتا ہے کہ اُس نے دوران عدت رجوع کیا تھا اور بیوی منکر ہو تو اس صورت میں اگر شوہر کے پاس گواہ ہوں تو اس کے قول کا اعتبار کیا جاتا ہے اور اگر اس کے پاس گواہ نہ ہو تو قول بیوی کا معتبر ہوتا ہے ۔آپ کے بقول آپ کے شوہر کے پاس کوئی گواہ نہیں اور آپ انکار کررہی ہے اس وجہ سے رجوع ثابت نہیں ہوگا۔اور جب طلاق رجعی میں دوران عدت رجوع نہ کیا جائے تو عدت گزر جانے کے بائنہ ہوجانے کی وجہ سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ لہٰذا اب اگرتم دونوں راضی ہوں توازسرنونکاح جدید کرسکتے ہو،لیکن پہلے والانکاح اس ایک طلاق کی وجہ سے ختم ہوچکا ہے۔ (ادعاها بعد العدة فيها) بأن قال كنت راجعتك في عدتك (فصدقته صح) بالمصادقة (وإلا لا) يصح إجماعا (و) كذا (لو أقام بينة بعد العدة أنه قال في عدتها قد راجعتها، أو) أنه (قال: قد جامعتها) وتقدم قبولها على نفس اللمس والتقبيل فليحفظ (كان رجعة) لأن الثابت بالبينة كالثابت بالمعاينة وهذا من أعجب المسائل حيث لا يثبت إقراره بإقراره بل بالبينة درالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:3،ص:401۔ وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.وإن ادعى الزوج الدخول بها وقد خلا بها فله الرجعة وإن لم يكن خلا بها فلا رجعة له كذا في المحيط.في الروضة لو اتفقا على انقضاء العدة واختلفا في الرجعة فالصحيح أن القول قولها وعليه الجمهور كذا في غاية السروجي ولا يمين عليها عند أبي حنيفة -رحمه الله تعالى كذا في الهداية وإن كانت العدة باقية فالقول قوله في الصحيح كذا في غاية السروجي.ولو أقام بينة بعد العدة أنه قال في عدتها قد راجعتها أو أنه قال قد جامعتها كان رجعة كذا في البحر الرائق. الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:1،ص:470۔ (قوله: ادعاها) أي الرجعة بعد العدة فيها أي في العدة ۔۔۔۔۔ (قوله: صح بالمصادقة) لأن النكاح يثبت بتصادقهما فالرجعة أولى بحر. وظاهره ولو كانا كاذبين، ولا يخفى أن هذا حكم القضاء، أما الديانة فعلى ما في نفس الأمر (قوله: وإلا لا يصح) أي ما ادعاه من الرجعة لأنه أخبر عن شيء لا يملك إنشاءه في الحال وهي تنكره، فكان القول لها بلا يمين لما عرف في الأشياء بحر: أي الآتية في كتاب الدعوى حيث قال المصنف هناك: ولا تحليف في نكاح ورجعة وفي إيلاء واستيلاد ورق ونسب وولاء وحد ولعان والفتوى على أنه يحلف في الأشياء السبعة۔۔۔۔الخ حاشیہ ابن عابدین،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:3،ص:401۔ (قوله ولو قال بعد العدة راجعتك فيها فصدقته تصح، وإلا لا) أي، وإن لم تصدقه لا تصح الرجعة لأنه أخبر عن شيء لا يملك إنشاءه في الحال، وهي تنكره فكان القول لها من غير يمين لما عرف في الأشياء الستة، وإن صدقته صحت لأن النكاح يثبت بتصادقهما فالرجعة أولى، ونظيره الوكيل بالبيع إذا قال قبل العزل كنت بعته من فلان صدق بخلاف ما لو قاله بعد العزل كذا في الكافي، وفي تلخيص الجامع للصدر من ملك الإنشاء ملك الإخبار كالوصي والمولى والمراجع والوكيل بالبيع، ومن له الخيار انتهى، ولو أقام بينة بعد العدة أنه قال في عدتها قد راجعتها أو أنه قال قد جامعتها كان رجعة لأن الثابت بالبينة كالثابت بالمعاينة، وهذا من أعجب المسائل فإنه يثبت إقرار نفسه بالبينة بما لو أقر به في الحال لم يكن مقبولا كذا في المبسوط قيد بقوله بعد العدة لأنه لو قال في العدة كنت راجعتك أمس ثبتت، وإن كذبته لملكه الإنشاء في الحال. البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیہ،ج:4،ص:55۔ اگربیوی رجعت کاانکار کرتی ہے اورصحبت وغیرہ کا بھی انکار کرتی ہے کہ اس قسم کی کوئی چیز پیش نہیں آئی توپھر شوہر کے ذمے دو گواہوں کا پیش کرنا ضروری ہے جوگواہی دیں کہ شوہر نے ہمارے سامنے عدت ختم ہونے سے پہلے یہ کہا ہے کہ میں نے رجعت کرلی یااپنی طلاق واپس لے لی۔اگریہ گواہی شوہر پیش کردے تورجعت کا حکم کردیا جائے گا۔اوراگرگواہی پیش نہ کرسکے توعورت کاانکار رجعت سے قبول کیا جائے گا اوراس پرقسم بھی نہیں آئے گی۔ فتاویٰ محمودیہ،ج:13،ص:361۔ خلاصہ بحث سب سے پہلے عبداللہ خان پرتین طلاقوں والے معاملے میں قسم کو پیش کیا جائے کہ وہ قسم کھا کرکہے کہ اس نےتین طلاقیں نہیں بلکہ ایک ہی طلاق رجعی دی ہے۔اگروہ قسم کھانے سے انکار کرے توبات یہی ختم ہوجائے گی اورثمن جدون پر طلاق مغلظہ واقع ہو جائے گی اورحلالہ شرعیہ کے بغیر اب ان دونوں کا آپس میں دوبارہ نکاح جائز نہیں ہوگا۔اوراگرعبداللہ خان قسم اٹھائے کہ اس نے تین طلاقیں نہیں بلکہ ایک ہی طلاق رجعی دی ہےتوپھرمعاملہ عدت کے دوران رجوع کرنے یا نہ کرنے کی طرف بڑھے گا۔اب یہاں پر دوبارہ عبداللہ خان سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ عدت کے دوران رجوع کرنے پرگواہ پیش کرے کیونکہ اُس کا دعویٰ یہ ہے کہ اس نے دوران عدت رجوع کیا ہے۔اگروہ گواہ پیش کردیتا ہے تواس کارجوع ثابت ہوجائے گا اورثمن جدون حسب سابق اس کی بیوی ہی رہے گی ،نئے سرے سے نکاح جدید کی بھی ضرورت نہیں ،صرف اتنی بات ہوگی کہ آئندہ عبداللہ خان کے پاس صرف دو طلاقوں کااختیار رہے گا۔ اوراگرعبداللہ خان دوران عدت رجوع کے ثبوت کے لیے گواہ پیش نہیں کرپاتا توچونکہ ثمن جدون پہلے ہی سے رجوع سے انکار کر رہی ہے اس وجہ سے اس صورت میں یہ بائنہ ہو جائے گی اور ان دونوں کا نکاح ٹوٹ جائے گا ۔اب اگریہ دونوں راضی ہوں توازسر نونکاح جدید کر سکتے ہیں مگرسابقہ رشتہ زوجیت ختم ہوچکا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجدخان اتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ محمد بن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی
 
             
            
            
            
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق آپ کے سوال کے تین اجزاء بنتے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں: 1۔فون پرآپ کو طلاق دیا گیا ہے اور بقول آپ کے عبداللہ خان کے والدین یہ کہہ رہے تھے کہ فون پر طلاق نہیں ہوتی۔اس کاجواب یہ ہے کہ عبداللہ خان کے والدین کی بات درست نہیں ،فون پر طلاق دینے سے طلاق واقع ہو جاتی ہے۔ 2۔آپ کے سوال کا دوسرا جزء یہ ہے کہ آپ یہ دعویٰ کررہی ہے کہ آپ کے شوہر عبداللہ خان نے آپ کو تین طلاقیں دی ہیں جبکہ وہ اس بات سے انکار کررہا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ اُس نے صرف ایک طلاق رجعی دی ہے۔ اس کاحکم یہ ہے کہ اگرآپ کے پاس گواہ موجود ہوں جو اس بات کی گواہی دیں کہ عبداللہ خان نے واقعی آپ کو تین طلاقیں دی ہیں توپھرآپ کی بات کااعتبار کیا جائے گا۔اوراگرآپ کے پاس گواہ موجود نہ ہوں تو پھر اگر عبداللہ خان قسم اٹھانے کے لیے تیارہو کہ واقعی اس نے ایک ہی طلاق دی ہے تواُس کے قول کااعتبار کیا جائے گا۔ البتہ اگرآپ کو پختہ یقین ہو کہ واقعی عبداللہ خان نے آپ کو تین طلاقیں دی ہیں مگرآپ کے پاس گواہ نہیں اوراب وہ جھوٹ بول کرغلط بیانی کررہا ہے تواس صورت میں آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ عبداللہ خان کو اپنےاوپر قدرت نہیں دوگی اور کوئی بھی ممکنہ صورت اختیار کرکے اس سے جان چھڑاؤگی۔اور اس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ عبداللہ خان کو خوف خدا دلاکراس سے تین طلاقوں کااقرار کرواؤ،یااسے مال ودولت دے کر دوبارہ طلاق لے لو،اس سے خلع کرلو یا پھر عدالت سے رجوع کرکے تنسیخ نکاح کرواؤ۔اگران ممکنہ صورتوں میں سے کسی بھی صورت کو اختیار کرناآپ کے لیے ممکن نہ ہو تو اس صورت میں گناہ سارا کا ساراعبداللہ خان کے سرہوگااور اگران ممکنہ صورتوں میں سے کسی ایک بھی صورت کواختیار کرناآپ کے لیے ممکن ہو تو پھر لازمی ہے کہ آپ اس صورت کو اختیار کرکے اس سے جان چھڑاؤ ورنہ آپ بھی پھر گناہ میں برابر کی شریک رہوگی۔ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَغَيْرُهُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي خُطْبَتِهِ:البَيِّنَةُ عَلَى المُدَّعِي، وَاليَمِينُ عَلَى المُدَّعَى عَلَيْهِ۔ سنن الترمذی،مطبعۃ مصطفیٰ البابی،مصر،الطبعۃ الثانیۃ،1395ھ،رقم الحدیث:1341۔ والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب،۔۔۔۔۔. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله. ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:3،ص:251۔ وكذلك إن سمعت أنه طلقها ثلاثا وجحد الزوج ذلك وحلف فردها عليه القاضي لم يسعها المقام معه، وينبغي لها أن تفتدي بمالها أو تهرب منه۔۔۔الخ الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:5،ص:313۔ والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه هكذا اقتصر الشارحون وذكر في البزازية وذكر الأوزجندي أنها ترفع الأمر إلى القاضي فإن لم يكن لها بينة يحلفه فإن حلف فالإثم عليه البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیہ،ج:3،ص:277۔ فإن اختلفا في وجود الشرط فالقول له مع اليمين لإنكاره الطلاق۔۔۔۔الخ درالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:3،ص:356۔ 3۔آپ کے سوال کا تیسراجزء رجوع سے متعلق ہے۔عبداللہ خان کا دعویٰ یہ ہے کہ اس نے عدت کے اندرآپ سےان الفاظ کے ساتھ رجوع کیا ہے کہ"تومیری بیوی ہے"اورآپ کہتی ہو کہ اُس نے رجوع نہیں کیاہےبلکہ مجھے گالیاں دی تھی،اورنہ اُس کے پاس رجوع پرکوئی گواہ موجود ہے۔ جب آپ کا شوہر اس بات کا مدعی ہے کہ اُس نے عدت کے اندر رجوع کیا ہے اور آپ انکار کررہی ہےاوربقول آپ کے اُس کے پاس کوئی گواہ بھی نہیں ہے تو بتقدیرصحت سوال اگر واقعتاً ایساہی ہوکہ آپ کے شوہر کے پاس رجوع پر کوئی گواہ نہ ہوتوپھرآپ اپنے شوہر سے جداہوچکی ہو۔ایک طلاق دینے پرتوتم دونوں میاں بیوی متفق ہو۔اورایک طلاق رجعی میں بھی اگردوران عدت رجوع نہ کیا جائے توبیوی بائنہ یعنی جدا ہو جاتی ہے۔چونکہ آپ کی عدت گزر چکی ہے اس وجہ سے عدت گزر جانے کے بعد رجوع میں اگر اختلاف ہو جائے کہ میاں دعویٰ کرتا ہے کہ اُس نے دوران عدت رجوع کیا تھا اور بیوی منکر ہو تو اس صورت میں اگر شوہر کے پاس گواہ ہوں تو اس کے قول کا اعتبار کیا جاتا ہے اور اگر اس کے پاس گواہ نہ ہو تو قول بیوی کا معتبر ہوتا ہے ۔آپ کے بقول آپ کے شوہر کے پاس کوئی گواہ نہیں اور آپ انکار کررہی ہے اس وجہ سے رجوع ثابت نہیں ہوگا۔اور جب طلاق رجعی میں دوران عدت رجوع نہ کیا جائے تو عدت گزر جانے کے بائنہ ہوجانے کی وجہ سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ لہٰذا اب اگرتم دونوں راضی ہوں توازسرنونکاح جدید کرسکتے ہو،لیکن پہلے والانکاح اس ایک طلاق کی وجہ سے ختم ہوچکا ہے۔ (ادعاها بعد العدة فيها) بأن قال كنت راجعتك في عدتك (فصدقته صح) بالمصادقة (وإلا لا) يصح إجماعا (و) كذا (لو أقام بينة بعد العدة أنه قال في عدتها قد راجعتها، أو) أنه (قال: قد جامعتها) وتقدم قبولها على نفس اللمس والتقبيل فليحفظ (كان رجعة) لأن الثابت بالبينة كالثابت بالمعاينة وهذا من أعجب المسائل حيث لا يثبت إقراره بإقراره بل بالبينة درالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:3،ص:401۔ وإذا طلق الرجل امرأته تطليقة رجعية أو تطليقتين فله أن يراجعها في عدتها رضيت بذلك أو لم ترض كذا في الهداية.وإن ادعى الزوج الدخول بها وقد خلا بها فله الرجعة وإن لم يكن خلا بها فلا رجعة له كذا في المحيط.في الروضة لو اتفقا على انقضاء العدة واختلفا في الرجعة فالصحيح أن القول قولها وعليه الجمهور كذا في غاية السروجي ولا يمين عليها عند أبي حنيفة -رحمه الله تعالى كذا في الهداية وإن كانت العدة باقية فالقول قوله في الصحيح كذا في غاية السروجي.ولو أقام بينة بعد العدة أنه قال في عدتها قد راجعتها أو أنه قال قد جامعتها كان رجعة كذا في البحر الرائق. الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:1،ص:470۔ (قوله: ادعاها) أي الرجعة بعد العدة فيها أي في العدة ۔۔۔۔۔ (قوله: صح بالمصادقة) لأن النكاح يثبت بتصادقهما فالرجعة أولى بحر. وظاهره ولو كانا كاذبين، ولا يخفى أن هذا حكم القضاء، أما الديانة فعلى ما في نفس الأمر (قوله: وإلا لا يصح) أي ما ادعاه من الرجعة لأنه أخبر عن شيء لا يملك إنشاءه في الحال وهي تنكره، فكان القول لها بلا يمين لما عرف في الأشياء بحر: أي الآتية في كتاب الدعوى حيث قال المصنف هناك: ولا تحليف في نكاح ورجعة وفي إيلاء واستيلاد ورق ونسب وولاء وحد ولعان والفتوى على أنه يحلف في الأشياء السبعة۔۔۔۔الخ حاشیہ ابن عابدین،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:3،ص:401۔ (قوله ولو قال بعد العدة راجعتك فيها فصدقته تصح، وإلا لا) أي، وإن لم تصدقه لا تصح الرجعة لأنه أخبر عن شيء لا يملك إنشاءه في الحال، وهي تنكره فكان القول لها من غير يمين لما عرف في الأشياء الستة، وإن صدقته صحت لأن النكاح يثبت بتصادقهما فالرجعة أولى، ونظيره الوكيل بالبيع إذا قال قبل العزل كنت بعته من فلان صدق بخلاف ما لو قاله بعد العزل كذا في الكافي، وفي تلخيص الجامع للصدر من ملك الإنشاء ملك الإخبار كالوصي والمولى والمراجع والوكيل بالبيع، ومن له الخيار انتهى، ولو أقام بينة بعد العدة أنه قال في عدتها قد راجعتها أو أنه قال قد جامعتها كان رجعة لأن الثابت بالبينة كالثابت بالمعاينة، وهذا من أعجب المسائل فإنه يثبت إقرار نفسه بالبينة بما لو أقر به في الحال لم يكن مقبولا كذا في المبسوط قيد بقوله بعد العدة لأنه لو قال في العدة كنت راجعتك أمس ثبتت، وإن كذبته لملكه الإنشاء في الحال. البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیہ،ج:4،ص:55۔ اگربیوی رجعت کاانکار کرتی ہے اورصحبت وغیرہ کا بھی انکار کرتی ہے کہ اس قسم کی کوئی چیز پیش نہیں آئی توپھر شوہر کے ذمے دو گواہوں کا پیش کرنا ضروری ہے جوگواہی دیں کہ شوہر نے ہمارے سامنے عدت ختم ہونے سے پہلے یہ کہا ہے کہ میں نے رجعت کرلی یااپنی طلاق واپس لے لی۔اگریہ گواہی شوہر پیش کردے تورجعت کا حکم کردیا جائے گا۔اوراگرگواہی پیش نہ کرسکے توعورت کاانکار رجعت سے قبول کیا جائے گا اوراس پرقسم بھی نہیں آئے گی۔ فتاویٰ محمودیہ،ج:13،ص:361۔ خلاصہ بحث سب سے پہلے عبداللہ خان پرتین طلاقوں والے معاملے میں قسم کو پیش کیا جائے کہ وہ قسم کھا کرکہے کہ اس نےتین طلاقیں نہیں بلکہ ایک ہی طلاق رجعی دی ہے۔اگروہ قسم کھانے سے انکار کرے توبات یہی ختم ہوجائے گی اورثمن جدون پر طلاق مغلظہ واقع ہو جائے گی اورحلالہ شرعیہ کے بغیر اب ان دونوں کا آپس میں دوبارہ نکاح جائز نہیں ہوگا۔اوراگرعبداللہ خان قسم اٹھائے کہ اس نے تین طلاقیں نہیں بلکہ ایک ہی طلاق رجعی دی ہےتوپھرمعاملہ عدت کے دوران رجوع کرنے یا نہ کرنے کی طرف بڑھے گا۔اب یہاں پر دوبارہ عبداللہ خان سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ وہ عدت کے دوران رجوع کرنے پرگواہ پیش کرے کیونکہ اُس کا دعویٰ یہ ہے کہ اس نے دوران عدت رجوع کیا ہے۔اگروہ گواہ پیش کردیتا ہے تواس کارجوع ثابت ہوجائے گا اورثمن جدون حسب سابق اس کی بیوی ہی رہے گی ،نئے سرے سے نکاح جدید کی بھی ضرورت نہیں ،صرف اتنی بات ہوگی کہ آئندہ عبداللہ خان کے پاس صرف دو طلاقوں کااختیار رہے گا۔ اوراگرعبداللہ خان دوران عدت رجوع کے ثبوت کے لیے گواہ پیش نہیں کرپاتا توچونکہ ثمن جدون پہلے ہی سے رجوع سے انکار کر رہی ہے اس وجہ سے اس صورت میں یہ بائنہ ہو جائے گی اور ان دونوں کا نکاح ٹوٹ جائے گا ۔اب اگریہ دونوں راضی ہوں توازسر نونکاح جدید کر سکتے ہیں مگرسابقہ رشتہ زوجیت ختم ہوچکا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجدخان اتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ محمد بن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی

 
  
       
  
  
 