بیوی کے دعویٰ طلاق اور شوہر کے انکار کا شرعی حکم

سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں میری شادی ڈیڑھ سال پہلے ہوئی تھی۔میراشوہر ہروقت مجھے پریشان کیا کرتا تھا۔ایک ماہ پہلے میرے شوہر نے مجھے دس بار طلاق دے دی۔پھر گھر کے دروازےپر دوبارہ تین بار طلاق دے دی۔کل تیرہ مرتبہ اس نے مجھے طلاق دی ہے اور میں اللہ تعالیٰ کے ذات اقدس کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ میں جھوٹ نہیں بولتی ،مگر میرے پاس کوئی گواہ نہیں ہے۔اب میرا شوہر انکار کررہا ہے اوروہ بھی قسم اٹھاتا ہے کہ اس نے طلاق نہیں دی۔باقی لوگ بھی میری بات کا اعتبار نہیں کرتے۔میں حلفیہ کہتی ہوں کہ میں نے بقائمی ہوش وحواس طلاق کے الفاظ سنے ہیں کہ اس نے کل تیرہ بار مجھے طلاق دی ہے اور اب وہ جھوٹ بول رہا ہے۔آپ صاحبان سے درخواست ہے کہ مذکورہ صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے شریعت محمدی کی روشنی میں اس مسئلے کا حل بتا کر ثواب دارین حاصل کریں ۔جزاکم اللہ خیراًالمستفتیجنت عدن بنت مزمل خانمحلہ صابی خیل،ٹوپی صوابیالمرقوم:24۔12۔2022

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق آپ یہ دعویٰ کررہی ہے کہ آپ کے شوہر نے آپ کو تیرہ بارطلاق دی ہے جبکہ وہ اس بات سے انکار کر رہا ہے ۔اس کاحکم یہ ہے کہ اگرآپ کے پاس گواہ موجود ہوں جو اس بات کی گواہی دیں کہ آپ کے شوہر نے واقعی آپ کو طلاقیں دی ہیں توپھرآپ کی بات کااعتبار کیا جائے گا۔اوراگرآپ کے پاس گواہ موجود نہ ہوں جیسا کہ سوال میں مذکور ہے تو پھرآپ کے شوہر سے قسم کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اگر وہ قسم اٹھائے کہ واقعی اُس نے آپ کو طلاق نہیں دی توپھراُس کے قول کا اعتبار کیا جائے گا۔ البتہ اگرآپ کو پختہ یقین ہو کہ واقعی آپ کے شوہر نے آپ کو تیرہ بار طلاقیں دی ہیں مگرآپ کے پاس گواہ نہیں ہے، اوراب وہ جھوٹ بول کرغلط بیانی کررہا ہے تواس صورت میں آپ کے لیے ضروری ہے کہ آپ اپنے شوہر کو اپنےاوپر قدرت نہیں دوگی، اور کوئی بھی ممکنہ صورت اختیار کرکے اُس سے جان چھڑاؤگی۔ اس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ اپنے شوہرکو خوف خدا دلاکراس سے تین طلاقوں کااقرار کرواؤ،یااسے مال ودولت دے کر دوبارہ طلاق لے لو،اس سے خلع کرلو یا پھر عدالت سے رجوع کرکے تنسیخ نکاح کرواؤ۔اگران ممکنہ صورتوں میں سے کسی بھی صورت کو اختیار کرناآپ کے لیے ممکن نہ ہو تو اس صورت میں گناہ سارا کا سارا آپ کے شوہرکے سرہوگااور اگران ممکنہ صورتوں میں سے کسی ایک بھی صورت کواختیار کرناآپ کے لیے ممکن ہو تو پھر لازمی ہے کہ آپ اس صورت کو اختیار کرکے اس سے جان چھڑاؤ ورنہ آپ بھی پھر گناہ میں برابر کی شریک رہوگی۔ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَغَيْرُهُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي خُطْبَتِهِ:البَيِّنَةُ عَلَى المُدَّعِي، وَاليَمِينُ عَلَى المُدَّعَى عَلَيْهِ۔ سنن الترمذی،مطبعۃ مصطفیٰ البابی،مصر،الطبعۃ الثانیۃ،1395ھ،رقم الحدیث:1341۔ والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب،۔۔۔۔۔. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. اهـ. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله. ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:3،ص:251۔ وكذلك إن سمعت أنه طلقها ثلاثا وجحد الزوج ذلك وحلف فردها عليه القاضي لم يسعها المقام معه، وينبغي لها أن تفتدي بمالها أو تهرب منه۔۔۔الخ الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:5،ص:313۔ والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه هكذا اقتصر الشارحون وذكر في البزازية وذكر الأوزجندي أنها ترفع الأمر إلى القاضي فإن لم يكن لها بينة يحلفه فإن حلف فالإثم عليه البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیہ،ج:3،ص:277۔ فإن اختلفا في وجود الشرط فالقول له مع اليمين لإنكاره الطلاق۔۔۔۔الخ درالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:3،ص:356۔ لیکن اگر بیوی کو یقین ہو کہ شوہر نے اس کوتین طلاقیں دی ہیں مگروہ ثبوت فراہم کرنے سے قاصر ہو توخاوندکوحتی الوسع اپنے نزدیک ہونے کاموقع نہ دے ،بلکہ ہرممکن طریقے سے شوہر سے جان چھڑانے کی کوشش کرے۔پہلے اُسے اللہ تعالیٰ کاخوف دلائے اگراس سے شوہر نہ مانے تومہریا کچھ رقم دے کر۔اگریہ بھی کارگر نہ ہو توماں باپ کے گھر بیٹھ جائے ۔اوراگر کسی طرح بھی جان چھڑا نہ سکے تو پھر وہ عنداللہ معذور ہوگی ،سارا گناہ شوہر پر ہوگا۔ فتاویٰ عثمانیہ،مکتبۃ العصر،پشاور،اشاعت ہفتم،2021ء،ج:6ص:69۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ابوالاحراراُتلوی دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی