بیوی کا دعوی طلاق اور شوہر کے انکار کا شرعی حکم
سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ذین اور روزینہ کا نکاح آج سے چار سال پہلے ہوا تھا مگر ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی ہے۔روزینہ کا کہنا ہے کہ دو سال پہلے ایک دن ذین نے غصے میں آکر مجھے فون پر ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہیں جبکہ ذین کا کہنا یہ ہے کہ میں نے کوئی طلاق نہیں دی ۔ذین کہتا ہے کہ میں قسم اٹھانے کو بھی تیار ہوں۔نکاح ہونے کے بعد ابھی تک رخصتی نہیں ہوئی ہے اور یہ معاملہ پیش آگیا ہے۔سوال یہ ہے کہ آیا یہ طلاق ہوا ہے یا نہیں؟اور اگر طلاق واقع ہوا ہے تو آیا ان دونوں کا تجدید نکاح ہو سکتا ہے یا نہیں؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی مولانا فرید الحق کوٹھا،صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق روزینہ یہ دعویٰ کررہی ہے کہ اس کے منگیترذین(جس کے ساتھ نکاح ہو چکا ہے)نے اسے ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہیں جبکہ وہ اس بات سے انکار کر رہا ہے ۔اس کاحکم یہ ہے کہ اگرروزینہ کے پاس گواہ موجود ہوں جو اس بات کی گواہی دیں کہ ذین نے واقعی اسے طلاقیں دی ہیں توپھرروزینہ کی بات کااعتبار کیا جائے گا۔اوراگرروزینہ کے پاس گواہ موجود نہ ہوں تو پھرذین سے قسم کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اگر وہ قسم اٹھائے کہ واقعی اُس نے روزینہ کو طلاق نہیں دی توپھراُس کے قول کا اعتبار کیا جائے گا۔ البتہ اگرروزینہ کو پختہ یقین ہو کہ واقعی ذین نے اسے تین طلاقیں دی ہیں مگراس کے پاس گواہ نہیں ہے، اوراب ذین جھوٹ بول کرغلط بیانی کررہا ہے تواس صورت میں روزینہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ کوئی بھی ممکنہ صورت اختیار کرکے ذین سے جان چھڑائے۔ اس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ذین کو خوف خدا دلاکراس سے تین طلاقوں کااقرار کروایا جائے،یااسے مال ودولت دے کر دوبارہ طلاق لے لیا جائے،اُس سے خلع کرلیا جائے یا پھر عدالت سے رجوع کرکے تنسیخ نکاح کروایا جائے۔اگران ممکنہ صورتوں میں سے کسی بھی صورت کو اختیار کرناروزینہ کے لیے ممکن نہ ہو تو اس صورت میں گناہ سارا کا سارا ذین کے سرہوگااور اگران ممکنہ صورتوں میں سے کسی ایک بھی صورت کو اختیار کرناروزینہ کے لیے ممکن ہو تو پھر لازمی ہے کہ روزینہ اس صورت کو اختیار کرکے اس سے جان چھڑائے ورنہ پھر گناہ میں برابر کی شریک رہے گی۔چونکہ صورت مسئولہ کے مطابق تین طلاقیں ایک ساتھ دی گئی ہیں اس وجہ سے یہ حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے اور بغیر حلالہ شرعیہ کے ان کا تجدید نکاح درست نہیں ہو سکتا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَغَيْرُهُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي خُطْبَتِهِ:البَيِّنَةُ عَلَى المُدَّعِي، وَاليَمِينُ عَلَى المُدَّعَى عَلَيْهِ۔
سنن الترمذی،مطبعۃ مصطفیٰ البابی،مصر،الطبعۃ الثانیۃ،1395ھ،رقم الحدیث: 1341۔
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب،۔۔۔۔۔. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله.
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:3،ص:251۔
وكذلك إن سمعت أنه طلقها ثلاثا وجحد الزوج ذلك وحلف فردها عليه القاضي لم يسعها المقام معه، وينبغي لها أن تفتدي بمالها أو تهرب منه۔۔۔الخ
الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:5،ص:313۔
إذا قال لها قبل الدخول بها أنت طالق ثلاث يقع الثلاث وكذلك إذا قال لها: ثنتين تقع ثنتان والوجه في ذلك أن في هذه الصورة أول الكلام يتوقف على آخره لأن في آخر الكلام ما يغير حكم أوله لأن قوله أنت طالق لا يحتمل العدد عندنا ولهذا لا تصح نية العدد فيه وإذا توقف أول الكلام على آخره كان الوقوع عنه آخر فيصادفها آخر الكلام وهي منكوحة بخلاف ما إذا كرر لفظ الطلاق بحرف العطف أو بغير حرف العطف فقال لها: أنت طالق وطالق أو قال وطالق أو وقال ثم طالق أو قال أنت طالق طالق، أو قال: ترايك طلاق ترايك طلاق حيث تقع واحدة لأن هناك ليس في آخر كلامه ما يغير حكم أوله فلم يتوقف أوله على آخره فطلقت بأول الكلام وبانت لا إلى عدة فيصادفها الكلام الثاني فهي مبانة.
المحیط البرہانی،دارالکتب العلمیۃ،الطبعۃالاولیٰ،1424ھ،ج:03،ص: 216 ۔
والمرأةكالقاضي إذاسمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه هكذا اقتصر الشارحون وذكر في البزازية وذكر الأوزجندي أنها ترفع الأمر إلى القاضي فإن لم يكن لها بينة يحلفه فإن حلف فالإثم عليه
البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیہ،ج:3،ص:277۔
فإن اختلفا في وجود الشرط فالقول له مع اليمين لإنكاره الطلاق۔۔۔۔الخ
درالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:3،ص:356۔
لیکن اگر بیوی کو یقین ہو کہ شوہر نے اس کوتین طلاقیں دی ہیں مگروہ ثبوت فراہم کرنے سے قاصر ہو توخاوندکوحتی الوسع اپنے نزدیک ہونے کاموقع نہ دے ،بلکہ ہرممکن طریقے سے شوہر سے جان چھڑانے کی کوشش کرے۔پہلے اُسے اللہ تعالیٰ کاخوف دلائے اگراس سے شوہر نہ مانے تومہریا کچھ رقم دے کر۔اگریہ بھی کارگر نہ ہو توماں باپ کے گھر بیٹھ جائے ۔اوراگر کسی طرح بھی جان چھڑا نہ سکے تو پھر وہ عنداللہ معذور ہوگی ،سارا گناہ شوہر پر ہوگا۔
فتاویٰ عثمانیہ،مکتبۃ العصر،پشاور،اشاعت ہفتم،2021ء،ج:6ص:69۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق روزینہ یہ دعویٰ کررہی ہے کہ اس کے منگیترذین(جس کے ساتھ نکاح ہو چکا ہے)نے اسے ایک ساتھ تین طلاقیں دی ہیں جبکہ وہ اس بات سے انکار کر رہا ہے ۔اس کاحکم یہ ہے کہ اگرروزینہ کے پاس گواہ موجود ہوں جو اس بات کی گواہی دیں کہ ذین نے واقعی اسے طلاقیں دی ہیں توپھرروزینہ کی بات کااعتبار کیا جائے گا۔اوراگرروزینہ کے پاس گواہ موجود نہ ہوں تو پھرذین سے قسم کا مطالبہ کیا جائے گا۔ اگر وہ قسم اٹھائے کہ واقعی اُس نے روزینہ کو طلاق نہیں دی توپھراُس کے قول کا اعتبار کیا جائے گا۔ البتہ اگرروزینہ کو پختہ یقین ہو کہ واقعی ذین نے اسے تین طلاقیں دی ہیں مگراس کے پاس گواہ نہیں ہے، اوراب ذین جھوٹ بول کرغلط بیانی کررہا ہے تواس صورت میں روزینہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ کوئی بھی ممکنہ صورت اختیار کرکے ذین سے جان چھڑائے۔ اس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ ذین کو خوف خدا دلاکراس سے تین طلاقوں کااقرار کروایا جائے،یااسے مال ودولت دے کر دوبارہ طلاق لے لیا جائے،اُس سے خلع کرلیا جائے یا پھر عدالت سے رجوع کرکے تنسیخ نکاح کروایا جائے۔اگران ممکنہ صورتوں میں سے کسی بھی صورت کو اختیار کرناروزینہ کے لیے ممکن نہ ہو تو اس صورت میں گناہ سارا کا سارا ذین کے سرہوگااور اگران ممکنہ صورتوں میں سے کسی ایک بھی صورت کو اختیار کرناروزینہ کے لیے ممکن ہو تو پھر لازمی ہے کہ روزینہ اس صورت کو اختیار کرکے اس سے جان چھڑائے ورنہ پھر گناہ میں برابر کی شریک رہے گی۔چونکہ صورت مسئولہ کے مطابق تین طلاقیں ایک ساتھ دی گئی ہیں اس وجہ سے یہ حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہو چکی ہے اور بغیر حلالہ شرعیہ کے ان کا تجدید نکاح درست نہیں ہو سکتا۔
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، وَغَيْرُهُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عُبَيْدِ اللَّهِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِي خُطْبَتِهِ:البَيِّنَةُ عَلَى المُدَّعِي، وَاليَمِينُ عَلَى المُدَّعَى عَلَيْهِ۔
سنن الترمذی،مطبعۃ مصطفیٰ البابی،مصر،الطبعۃ الثانیۃ،1395ھ،رقم الحدیث: 1341۔
والمرأة كالقاضي إذا سمعته أو أخبرها عدل لا يحل له تمكينه. والفتوى على أنه ليس لها قتله، ولا تقتل نفسها بل تفدي نفسها بمال أو تهرب،۔۔۔۔۔. وفي البزازية عن الأوزجندي أنها ترفع الأمر للقاضي، فإنه حلف ولا بينة لها فالإثم عليه. قلت: أي إذا لم تقدر على الفداء أو الهرب ولا على منعه عنها فلا ينافي ما قبله.
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:3،ص:251۔
وكذلك إن سمعت أنه طلقها ثلاثا وجحد الزوج ذلك وحلف فردها عليه القاضي لم يسعها المقام معه، وينبغي لها أن تفتدي بمالها أو تهرب منه۔۔۔الخ
الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:5،ص:313۔
إذا قال لها قبل الدخول بها أنت طالق ثلاث يقع الثلاث وكذلك إذا قال لها: ثنتين تقع ثنتان والوجه في ذلك أن في هذه الصورة أول الكلام يتوقف على آخره لأن في آخر الكلام ما يغير حكم أوله لأن قوله أنت طالق لا يحتمل العدد عندنا ولهذا لا تصح نية العدد فيه وإذا توقف أول الكلام على آخره كان الوقوع عنه آخر فيصادفها آخر الكلام وهي منكوحة بخلاف ما إذا كرر لفظ الطلاق بحرف العطف أو بغير حرف العطف فقال لها: أنت طالق وطالق أو قال وطالق أو وقال ثم طالق أو قال أنت طالق طالق، أو قال: ترايك طلاق ترايك طلاق حيث تقع واحدة لأن هناك ليس في آخر كلامه ما يغير حكم أوله فلم يتوقف أوله على آخره فطلقت بأول الكلام وبانت لا إلى عدة فيصادفها الكلام الثاني فهي مبانة.
المحیط البرہانی،دارالکتب العلمیۃ،الطبعۃالاولیٰ،1424ھ،ج:03،ص: 216 ۔
والمرأةكالقاضي إذاسمعته أو أخبرها عدل لا يحل لها تمكينه هكذا اقتصر الشارحون وذكر في البزازية وذكر الأوزجندي أنها ترفع الأمر إلى القاضي فإن لم يكن لها بينة يحلفه فإن حلف فالإثم عليه
البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیہ،ج:3،ص:277۔
فإن اختلفا في وجود الشرط فالقول له مع اليمين لإنكاره الطلاق۔۔۔۔الخ
درالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:3،ص:356۔
لیکن اگر بیوی کو یقین ہو کہ شوہر نے اس کوتین طلاقیں دی ہیں مگروہ ثبوت فراہم کرنے سے قاصر ہو توخاوندکوحتی الوسع اپنے نزدیک ہونے کاموقع نہ دے ،بلکہ ہرممکن طریقے سے شوہر سے جان چھڑانے کی کوشش کرے۔پہلے اُسے اللہ تعالیٰ کاخوف دلائے اگراس سے شوہر نہ مانے تومہریا کچھ رقم دے کر۔اگریہ بھی کارگر نہ ہو توماں باپ کے گھر بیٹھ جائے ۔اوراگر کسی طرح بھی جان چھڑا نہ سکے تو پھر وہ عنداللہ معذور ہوگی ،سارا گناہ شوہر پر ہوگا۔
فتاویٰ عثمانیہ،مکتبۃ العصر،پشاور،اشاعت ہفتم،2021ء،ج:6ص:69۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی
