باپ اگر بیٹے کو قتل کرے تو اس کا حکم کیا ہے
سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ گاؤں گنی چھترہ گدون میں مسمی شیرمحمد خان نے گھریلوں تنازعہ کی وجہ سے غصہ میں آکر اپنے خود کے بیٹے مسمی آزمحمدخان کو گولی مارکرقتل کردیا ہے۔مرحوم آزمحمدخان کاایک نابالغ بیٹا،بیٹی،بیوی،والدہ اور بہن بھائی اس وقت بقید حیات ہیں۔شریعت مطہرہ کی روشنی میں اس قاتل باپ شیرمحمد خان کا تفصیلی حکم بیان کرکے ثواب دارین حاصل کریں۔المستفتیحاجی نصیب شاہشنگرئی(گدون)صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! کسی مسلمان کادوسرے مسلمان کو ناحق قتل کرنا سخت گناہ اورجرم عظیم ہے۔صورت مسئولہ میں شیرمحمدخان نے ایک سنگین جرم کیا ہے۔اگراس کے بیٹے سے کوئی غلطی ہوئی تھی تواس کے لیے قانونی طریقہ کار کے مطابق وہ عدالت سے رجوع کرسکتا تھا۔بہرحال جب اس نے اپنے بیٹے کو قتل کیا ہے توسب سے پہلے تواسے چاہیئے کہ سچے دل سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خوب توبہ واستغفار کرے اوراپنے اس سنگین جرم کی معافی رب کریم سے مانگے کیونکہ آخرت کے عذاب سے بچنے کے لیے توبہ واستغفار اورمقتول کے ورثاء دونوں کوراضی کرنا ضروری ہیں۔ صورت مسئولہ کے مطابق یہ قتل عمد ہے جس کے شرعی احکام مندرجہ ذیل ہیں: 1۔باپ کو قصاص میں قتل نہیں کیاجاسکتااس وجہ سے اس پر دیت واجب ہے۔ 2۔چونکہ یہ قتل عمد ہے اس وجہ سے یہ دیت عاقلہ پر نہیں بلکہ خود شیرمحمدخان کے اپنے مال سے اداکی جائے گی۔ 3۔قاتل باپ شیرمحمدخان اپنے مرحوم بیٹے آزمحمدخان کی میراث سے محروم رہے گا۔ 4۔دیت کی مقدار سواونٹ اس طور پر کہ یک سالہ بیس اونٹنیاں،یک سالہ بیس اونٹ،دوسالہ بیس اونٹنیاں،تین سالہ بیس اونٹنیاں اور چار سالہ بیس اونٹنیاں ہوں گی۔اگردیت سونے کی صورت میں ادا کی جائے تواس کی مقدار 1000دیناریعنی 375تولہ سونا جس کااندازہ جدیدپیمانے سے 4کلو374گرام سونا یااس کی قیمت بنتی ہے۔اگردراہم (چاندی )کے اعتبار سے ادا کرنا ہو تو10000درہم یعنی 2625 تولہ چاندی جس کااندازہ جدید پیمانے سے 30 کلو 618 گرام چاندی یااس کی قیمت بنتی ہے۔ 5۔دیت میں حاصل شدہ مال مقتول آزمحمدخان مرحوم کے ورثاء میں شرعی ضابطہ میراث کے مطابق تقسیم ہوگا۔ 6۔یہ دیت تین سالوں میں اداکرنی ہوگی ہرسال ایک تہائی حصہ کی ادائیگی ضروری ہے۔ 7۔جووارث اپناحصہ معاف کردے گا اس قدرمعاف ہوجائے گااگرسب نے معاف کیاتوسارا معاف ہوجائے گا۔ 8۔معافی کے لیے طیب نفس ضروری ہے نیزاگر نابالغ وارث معاف کردے تو وہ معافی شرعاً معتبر نہیں ہے۔ (والفرع بأصله وإن علا لا بعكسه) خلافا لمالك فيما إذا ذبح ابنه ذبحا أي لا يقتص الأصول وإن علوا مطلقا ولو إناثا من قبل الأم في نفس أو أطراف بفروعهم وإن سفلوا لقوله عليه الصلاة والسلام لا يقاد الوالد بولده وهو وصف معلل بالجزئية فيتعدى لمن علا؛ لأنهم أسباب في إحيائه فلا يكون سببا لإفنائهم، وحينئذ فتجب الدية في مال الأب في ثلاث سنين؛ لأن هذا عمد والعاقلة لا تعقل العمد۔۔۔ الدرالمختار،کتاب الجنایات،ج:5،ص:244 موجبه (القود عينا) فلا يصير مالا إلا بالتراضي فيصح صلحا ولو بمثل الدية أو أكثر ابن كمال عن الحقائق الدرالمختار،کتاب الجنایات،ج:5،ص:246 لاکفارۃ فیہ لانھافیما کان دائراً بین الحظروالاباحۃ وھوکبیرۃ محضۃ۔۔ جامع الرموز بحوالۃ کتاب الاختیار،ص:181 العمد المحض اذا وجب الدیۃ یجب فی مالہ فی النفس۔۔۔ خلاصۃ بحوالہ کتاب الاختیار،ص:312 اوعمددخلہ الشبھۃ فھو فی ثلث سنین علیٰ من وجب علیہ فی کل سنۃ الثلث۔۔۔ الذخیرۃ بحوالۃ کتاب الاختیار:313 والدین سے صرف قصاص ساقط ہوتا ہے دیت اور کفارہ ساقط نہیں ہوتے۔ احسن الفتاویٰ،ج:8،ص:546 ومن حکمہ حرمان المیراث لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام لامیراث لقاتل۔۔۔ کتاب الاختیار،ص:181 رجل قتل ابنہ عمدا فعلیہ الدیۃ فی مالہ فی ثلٰث سنین ولا قصاص علیہ۔۔۔ المحیط البرہانی بحوالہ کتاب الاختیار،ص:195 قال ابوحنیفۃ من الابل مائۃ ومن العین الف دینار ومن الورق عشرۃ الاف وللقاتل الخیار یؤدی ای نوع شاء۔۔ المحیط السرخسی بحوالہ کتاب الاخیار،ص:310 خطاء اور عمد دونوں صورتوں میں باپ پر دیت واجب ہوگی۔۔۔ احسن الفتاویٰ،ج:8،ص:529 واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل (جبر) ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! کسی مسلمان کادوسرے مسلمان کو ناحق قتل کرنا سخت گناہ اورجرم عظیم ہے۔صورت مسئولہ میں شیرمحمدخان نے ایک سنگین جرم کیا ہے۔اگراس کے بیٹے سے کوئی غلطی ہوئی تھی تواس کے لیے قانونی طریقہ کار کے مطابق وہ عدالت سے رجوع کرسکتا تھا۔بہرحال جب اس نے اپنے بیٹے کو قتل کیا ہے توسب سے پہلے تواسے چاہیئے کہ سچے دل سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خوب توبہ واستغفار کرے اوراپنے اس سنگین جرم کی معافی رب کریم سے مانگے کیونکہ آخرت کے عذاب سے بچنے کے لیے توبہ واستغفار اورمقتول کے ورثاء دونوں کوراضی کرنا ضروری ہیں۔ صورت مسئولہ کے مطابق یہ قتل عمد ہے جس کے شرعی احکام مندرجہ ذیل ہیں: 1۔باپ کو قصاص میں قتل نہیں کیاجاسکتااس وجہ سے اس پر دیت واجب ہے۔ 2۔چونکہ یہ قتل عمد ہے اس وجہ سے یہ دیت عاقلہ پر نہیں بلکہ خود شیرمحمدخان کے اپنے مال سے اداکی جائے گی۔ 3۔قاتل باپ شیرمحمدخان اپنے مرحوم بیٹے آزمحمدخان کی میراث سے محروم رہے گا۔ 4۔دیت کی مقدار سواونٹ اس طور پر کہ یک سالہ بیس اونٹنیاں،یک سالہ بیس اونٹ،دوسالہ بیس اونٹنیاں،تین سالہ بیس اونٹنیاں اور چار سالہ بیس اونٹنیاں ہوں گی۔اگردیت سونے کی صورت میں ادا کی جائے تواس کی مقدار 1000دیناریعنی 375تولہ سونا جس کااندازہ جدیدپیمانے سے 4کلو374گرام سونا یااس کی قیمت بنتی ہے۔اگردراہم (چاندی )کے اعتبار سے ادا کرنا ہو تو10000درہم یعنی 2625 تولہ چاندی جس کااندازہ جدید پیمانے سے 30 کلو 618 گرام چاندی یااس کی قیمت بنتی ہے۔ 5۔دیت میں حاصل شدہ مال مقتول آزمحمدخان مرحوم کے ورثاء میں شرعی ضابطہ میراث کے مطابق تقسیم ہوگا۔ 6۔یہ دیت تین سالوں میں اداکرنی ہوگی ہرسال ایک تہائی حصہ کی ادائیگی ضروری ہے۔ 7۔جووارث اپناحصہ معاف کردے گا اس قدرمعاف ہوجائے گااگرسب نے معاف کیاتوسارا معاف ہوجائے گا۔ 8۔معافی کے لیے طیب نفس ضروری ہے نیزاگر نابالغ وارث معاف کردے تو وہ معافی شرعاً معتبر نہیں ہے۔ (والفرع بأصله وإن علا لا بعكسه) خلافا لمالك فيما إذا ذبح ابنه ذبحا أي لا يقتص الأصول وإن علوا مطلقا ولو إناثا من قبل الأم في نفس أو أطراف بفروعهم وإن سفلوا لقوله عليه الصلاة والسلام لا يقاد الوالد بولده وهو وصف معلل بالجزئية فيتعدى لمن علا؛ لأنهم أسباب في إحيائه فلا يكون سببا لإفنائهم، وحينئذ فتجب الدية في مال الأب في ثلاث سنين؛ لأن هذا عمد والعاقلة لا تعقل العمد۔۔۔ الدرالمختار،کتاب الجنایات،ج:5،ص:244 موجبه (القود عينا) فلا يصير مالا إلا بالتراضي فيصح صلحا ولو بمثل الدية أو أكثر ابن كمال عن الحقائق الدرالمختار،کتاب الجنایات،ج:5،ص:246 لاکفارۃ فیہ لانھافیما کان دائراً بین الحظروالاباحۃ وھوکبیرۃ محضۃ۔۔ جامع الرموز بحوالۃ کتاب الاختیار،ص:181 العمد المحض اذا وجب الدیۃ یجب فی مالہ فی النفس۔۔۔ خلاصۃ بحوالہ کتاب الاختیار،ص:312 اوعمددخلہ الشبھۃ فھو فی ثلث سنین علیٰ من وجب علیہ فی کل سنۃ الثلث۔۔۔ الذخیرۃ بحوالۃ کتاب الاختیار:313 والدین سے صرف قصاص ساقط ہوتا ہے دیت اور کفارہ ساقط نہیں ہوتے۔ احسن الفتاویٰ،ج:8،ص:546 ومن حکمہ حرمان المیراث لقولہ علیہ الصلوٰۃ والسلام لامیراث لقاتل۔۔۔ کتاب الاختیار،ص:181 رجل قتل ابنہ عمدا فعلیہ الدیۃ فی مالہ فی ثلٰث سنین ولا قصاص علیہ۔۔۔ المحیط البرہانی بحوالہ کتاب الاختیار،ص:195 قال ابوحنیفۃ من الابل مائۃ ومن العین الف دینار ومن الورق عشرۃ الاف وللقاتل الخیار یؤدی ای نوع شاء۔۔ المحیط السرخسی بحوالہ کتاب الاخیار،ص:310 خطاء اور عمد دونوں صورتوں میں باپ پر دیت واجب ہوگی۔۔۔ احسن الفتاویٰ،ج:8،ص:529 واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل (جبر) ٹوپی صوابی