ایصال ثواب میں دنوں کی تعیین وتخصیص کا شرعی حکم
سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے ہاں جب فوتگی ہو جاتی ہے تو جمعہ کی رات ایصال ثواب کی خاطر طعام کا بندوبست کیا جاتا ہے اور عام طور پر سات جمعوں تک یہ عمل کیا جاتا ہے۔بعض جگہوں میں اس موقع پر ایصال ثواب کی نیت سے قرآن خوانی بھی کی جاتی ہے ۔چالیس دن جب پورے ہوجاتے ہیں تو بعض مقامات میں چالیسویں دن پھر خیرات کیا جاتا ہے۔پھرجب سال پورا ہوجاتا ہے تو اس دن پھر ایصال ثواب کی خاطر بعض جگہوں میں کھانا کھلایا جاتا ہے۔شریعت کی روشنی میں یہ بتائیں کہ آیا یہ عمل اس مذکورہ طریقے کے مطابق درست ہے یا نہیں ؟تفصیلی جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراًالمستفتیملک شیرافضل خاندیول گڑھی بالا گدون
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق ایصال ثواب کے باب میں دو چیزیں ہیں:ایک نفس ایصال ثواب کا مسئلہ ہے اور ایک ایصال ثواب میں اوقات اور ایام کی تعیین وتخصیص کا مسئلہ ہے۔جہاں تک پہلی بات یعنی نفس ایصال ثواب کا تعلق ہے تو اس پر تمام فقہاء کااتفاق ہے کہ ایصال ثواب شریعت مطہرہ کی رُو سے بالکل درست اور جائز ہے۔ایصال ثواب کا مطلب ہے "ثواب پہنچانا" اور یہ عمل احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ اپنے والدین اور اقرباء میں سے جو اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں تو ان کے لیے ایصال ثواب مستحسن عمل ہے۔قرآن مجید کی تلاوت،ذکر،نوافل،خیرات وصدقات وغیرہ وغیرہ کوئی بھی نیک عمل جس پر کرنے والے کوثواب ملتا ہے ،وہ ثواب کسی کو بھی بخشا جا سکتا ہے اور جس کو وہ ثواب بخشا جائے وہ اسے پہنچتا بھی ہے۔اس کے لیے نہ کسی خاص دن کی کوئی قید ہے،نہ کسی خاص وقت کی کوئی شرط ہے اور نہ ہی کسی مخصوص طریقے کا کوئی لزوم ہے،بلکہ کوئی بھی عاقل ،بالغ مسلمان کسی بھی وقت کسی بھی درست طریقے سے ایصال ثواب کر سکتا ہے۔
جہاں تک دوسری بات یعنی ایصال ثواب میں مخصوص اوقات اور ایام کی تعیین وتخصیص کا تعلق ہے جیسا کہ صورت مسئولہ میں پوچھا گیا ہے تو بلا شک وشبہ یہ بدعت ہے۔ایصال ثواب ہر وقت ہو سکتا ہے اور ہر ایک دن میں ہوسکتا ہے۔کسی دن کو خاص کرنا،یا کسی وقت کوخاص کرنا،کسی مخصوص دن یا وقت میں مخصوص ثواب کا عقیدہ رکھنا،مخصوص اوقات میں اجتماعی قرآن خوانی کاالتزام کرنا وغیرہ وغیرہ یہ سب امور بدعت اور ناجائز ہیں۔اسی طرح جمعرات کو خاص کرنا اور چہلم وغیرہ کے یہ قیود جو لگائے جاتے ہیں ،یہ درست نہیں ہیں۔ اگریہ اعتقادرکھا جائے کہ جمعرات کو یا چالیسویں کو ثواب زیادہ ملتا ہے اور باقی دنوں میں کم ملتا ہے تو یہ بھی بلکل غلط اور بے اصل قسم کی بات ہے۔ہر دورمیں ہمارے اکابر اور بالخصوص اکابر علمائے دیوبند کثراللہ سوادہم نے ان بدعات اور رسومات کی تردید کی ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لَا تَخْتَصُّوا لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ بِقِيَامٍ مِنْ بَيْنِ اللَّيَالِي، وَلَا تَخُصُّوا يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِصِيَامٍ مِنْ بَيْنِ الْأَيَّامِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ فِي صَوْمٍ يَصُومُهُ أَحَدُكُمْ۔
صحیح مسلم،داراحیاء التراث العربی،بیروت،رقم الحدیث:1144۔
وَمِنْهَا: الْتِزَامُ الْكَيْفِيَّاتِ وَالْهَيْئَاتِ الْمُعَيَّنَةِ، كَالذِّكْرِ بِهَيْئَةِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى صَوْتٍ وَاحِدٍ، وَاتِّخَاذُ يَوْمِ وِلَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِيدًا، وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ.وَمِنْهَا: الْتِزَامُ الْعِبَادَاتِ الْمُعَيَّنَةِ فِي أَوْقَاتٍ مُعَيَّنَةٍ لَمْ يُوجَدْ لَهَا ذَلِكَ التَّعْيِينُ فِي الشَّرِيعَةِ، كَالْتِزَامِ صِيَامِ يَوْمِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَقِيَامِ لَيْلَتِهِ. الاعتصام،دارابن عفان،السعودیۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1412ھ،ج:1،ص:53۔
فَإِذَا نَدَبَ الشَّرْعُ مَثَلًا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ، فَالْتَزَمَ قَوْمٌ الِاجْتِمَاعَ عَلَيْهِ عَلَى لِسَانٍ وَاحِدٍ وَبِصَوْتٍ، أَوْ فِي وَقْتٍ مَعْلُومٍ مَخْصُوصٍ عَنْ سَائِرِ الْأَوْقَاتِ؛ لَمْ يَكُنْ فِي نَدْبِ الشَّرْعِ مَا يَدُلُّ عَلَى هَذَا التَّخْصِيصِ الْمُلْتَزَمِ، بَلْ فِيهِ مَا يَدُلُّ عَلَى خِلَافِهِ۔
الاعتصام،دارابن عفان،السعودیۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1412ھ،ج:1،ص:318۔
ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة روى الإمام أحمد عن جرير بن عبد الله قال كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت، وصنعهم الطعام من النياحة۔۔۔الخ
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:665۔
وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره.۔۔۔۔الخ
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:2،ص:240۔
ولأن ذكر الله تعالى إذا قصد به التخصيص بوقت دون وقت أو بشيء دون شيء لم يكن مشروعا حيث لم يرد الشرع به؛ لأنه خلاف المشروع۔ البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیۃ،ج:2،ص:172۔
ويكره الجلوس للمسجد للمصيبة ثلاثة أيام أو أقل وفي غير المسجد يرخص للرجال ثلاثة أيام والترك أولى ويكره اتخاذ الضيافة في المصيبة من التركة إن كان الوارث صغيراً أو كبيراً غائباً۔۔۔الخ
فتاویٰ قاضی خان،ج:1،ص:31۔
الجلوس للمصيبة ثلاثة أيام رخصة والترك أحسن ويكره اتخاذ الضيافة ثلاثة أيام وأكلها لأنه مشروعه للسرور۔۔۔۔۔۔ ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع والأعياد ونقل الطعام إلى القبر في المواسم واتخاذ الدعوة بقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص فالحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراء القرآن لأجل الأكل يكره۔
فتاویٰ بزازیہ،ج:1،ص:38۔
الأصل في هذا الباب أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها عند أهل السنة والجماعة لما روي عن النبي عليه الصلاة والسلام أنه ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عن أمته ممن أقر بوحدانية الله تعالى وشهد له بالبلاغ جعل تضحية إحدى الشاتين لأمته۔
الہدایۃ،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:1،ص:178۔
اپنے طورپرصدقات نافلہ یاتلاوت یاتسبیح وتہلیل وغیرہ کاثواب میت کوپہنچانا حدیث سے ثابت ہے البتہ ایصال ثواب کے لیے اجتماع کااہتمام اوراس میں قیود ورسوم نیزاہل میت کی طرف سے دعوت کرنا یہ سب امور بدعت اور ناجائز ہیں۔
احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید،کراچی،طبع یازدہم،1425ھ،ج:1،ص:362۔
مردہ کے ایصال ثواب کے لیے مخصوص ایام میں خیرات وصدقات کرنا اورلوگوں کے لیے دعوت کرنا اورباقاعدہ ایک تقریب کی شکل دینا ایسے امور ہیں جن کا شرعاً کہیں کوئی ثبوت نہیں ہے ،اس لیے فقہائے کرام نے تیجے،دسویں اورچالیسویں کوبدعت کے زمرے میں شامل کیا ہے۔
فتاویٰ عثمانیہ،العصراکیڈمی،پشاور،اشاعت ہفتم،2021،ج:۱،ص:166۔
قرآن خوانی کاموجودہ مروجہ طریقہ جس میں تعیین ایام کا عقیدہ ہوتا ہے اوراس کے بعد کھانے پینے اورپیسے دینے کابطوراجرت کے انتظام کیا جاتا ہے اس کاثبوت قرون اولیٰ میں نہیں ملتا،اورعلاوہ ازیں جب کھاناکھلوا کراورپیسے دے کرپڑھوایا جائے گا تواس صورت میں پڑھنے والے کو ثواب نہیں ملے گاتوجس کے لیے پڑھاجا رہا ہواس کوثواب کیونکر پہنچے گا۔
ارشادالمفتین،مکتبہ الحسن ،لاہور،اشاعت اول،2016،ج:2،ص:161۔
الحاصل اہل میت کے گھر دعوت وضیافت مکروہ وبدعت ہے خواہ پہلے دن ہو یا تیسرے دن یاساتویں دن۔ملاعلی القاریؒ نے بھی شرح نقایہ میں اسی کی طرف رجوع فرمایاہے۔لکھتے ہیں کہ"میت کے ہاں سے کھاناتناول کرنامکروہ اوربدعت مستقبحہ ہے"۔
خیرالفتاویٰ،مکتبہ امدادیہ،ملتان،ج:1،ص:579۔
وارثان میت کاایصال ثواب کے لیے صدقہ کرنا ہروقت جائز ہے مگر وقت کے تعین کی جوصورتیں عوام میں مروج ہیں مثلاً شب جمعہ (جمعرات کے دن)تیجہ،دسواں،چہلم وغیرہ اس تخصیص کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہے،کیونکہ تخصیص اورالتزام کی وجہ سے کبھی کبھی مباح اورجائز افعال بھی ناجائز ہوجاتے ہیں۔
فتاویٰ حقانیہ،جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک،ج:2،ص:46۔
تلاوت قرآن بہت بڑی عبادت اورشب جمعہ بہت بڑی شان والی رات ہے،مگردین میں اپنی طرف سے مکان یا زمان یاذکرکی تخصیص کرنااوراس کے متعلق زائد ثواب کااعتقاد رکھنامکروہ اور بدعت ہے۔
فتاویٰ فریدیہ،اشاعت سوم،ج:1،ص:295۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی
فتوی نمبر:39/1444
تارخ اجراء:11/03/2023
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق ایصال ثواب کے باب میں دو چیزیں ہیں:ایک نفس ایصال ثواب کا مسئلہ ہے اور ایک ایصال ثواب میں اوقات اور ایام کی تعیین وتخصیص کا مسئلہ ہے۔جہاں تک پہلی بات یعنی نفس ایصال ثواب کا تعلق ہے تو اس پر تمام فقہاء کااتفاق ہے کہ ایصال ثواب شریعت مطہرہ کی رُو سے بالکل درست اور جائز ہے۔ایصال ثواب کا مطلب ہے "ثواب پہنچانا" اور یہ عمل احادیث مبارکہ سے ثابت ہے۔ اپنے والدین اور اقرباء میں سے جو اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہوں تو ان کے لیے ایصال ثواب مستحسن عمل ہے۔قرآن مجید کی تلاوت،ذکر،نوافل،خیرات وصدقات وغیرہ وغیرہ کوئی بھی نیک عمل جس پر کرنے والے کوثواب ملتا ہے ،وہ ثواب کسی کو بھی بخشا جا سکتا ہے اور جس کو وہ ثواب بخشا جائے وہ اسے پہنچتا بھی ہے۔اس کے لیے نہ کسی خاص دن کی کوئی قید ہے،نہ کسی خاص وقت کی کوئی شرط ہے اور نہ ہی کسی مخصوص طریقے کا کوئی لزوم ہے،بلکہ کوئی بھی عاقل ،بالغ مسلمان کسی بھی وقت کسی بھی درست طریقے سے ایصال ثواب کر سکتا ہے۔
جہاں تک دوسری بات یعنی ایصال ثواب میں مخصوص اوقات اور ایام کی تعیین وتخصیص کا تعلق ہے جیسا کہ صورت مسئولہ میں پوچھا گیا ہے تو بلا شک وشبہ یہ بدعت ہے۔ایصال ثواب ہر وقت ہو سکتا ہے اور ہر ایک دن میں ہوسکتا ہے۔کسی دن کو خاص کرنا،یا کسی وقت کوخاص کرنا،کسی مخصوص دن یا وقت میں مخصوص ثواب کا عقیدہ رکھنا،مخصوص اوقات میں اجتماعی قرآن خوانی کاالتزام کرنا وغیرہ وغیرہ یہ سب امور بدعت اور ناجائز ہیں۔اسی طرح جمعرات کو خاص کرنا اور چہلم وغیرہ کے یہ قیود جو لگائے جاتے ہیں ،یہ درست نہیں ہیں۔ اگریہ اعتقادرکھا جائے کہ جمعرات کو یا چالیسویں کو ثواب زیادہ ملتا ہے اور باقی دنوں میں کم ملتا ہے تو یہ بھی بلکل غلط اور بے اصل قسم کی بات ہے۔ہر دورمیں ہمارے اکابر اور بالخصوص اکابر علمائے دیوبند کثراللہ سوادہم نے ان بدعات اور رسومات کی تردید کی ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:لَا تَخْتَصُّوا لَيْلَةَ الْجُمُعَةِ بِقِيَامٍ مِنْ بَيْنِ اللَّيَالِي، وَلَا تَخُصُّوا يَوْمَ الْجُمُعَةِ بِصِيَامٍ مِنْ بَيْنِ الْأَيَّامِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ فِي صَوْمٍ يَصُومُهُ أَحَدُكُمْ۔
صحیح مسلم،داراحیاء التراث العربی،بیروت،رقم الحدیث:1144۔
وَمِنْهَا: الْتِزَامُ الْكَيْفِيَّاتِ وَالْهَيْئَاتِ الْمُعَيَّنَةِ، كَالذِّكْرِ بِهَيْئَةِ الِاجْتِمَاعِ عَلَى صَوْتٍ وَاحِدٍ، وَاتِّخَاذُ يَوْمِ وِلَادَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِيدًا، وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ.وَمِنْهَا: الْتِزَامُ الْعِبَادَاتِ الْمُعَيَّنَةِ فِي أَوْقَاتٍ مُعَيَّنَةٍ لَمْ يُوجَدْ لَهَا ذَلِكَ التَّعْيِينُ فِي الشَّرِيعَةِ، كَالْتِزَامِ صِيَامِ يَوْمِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَقِيَامِ لَيْلَتِهِ. الاعتصام،دارابن عفان،السعودیۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1412ھ،ج:1،ص:53۔
فَإِذَا نَدَبَ الشَّرْعُ مَثَلًا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ، فَالْتَزَمَ قَوْمٌ الِاجْتِمَاعَ عَلَيْهِ عَلَى لِسَانٍ وَاحِدٍ وَبِصَوْتٍ، أَوْ فِي وَقْتٍ مَعْلُومٍ مَخْصُوصٍ عَنْ سَائِرِ الْأَوْقَاتِ؛ لَمْ يَكُنْ فِي نَدْبِ الشَّرْعِ مَا يَدُلُّ عَلَى هَذَا التَّخْصِيصِ الْمُلْتَزَمِ، بَلْ فِيهِ مَا يَدُلُّ عَلَى خِلَافِهِ۔
الاعتصام،دارابن عفان،السعودیۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1412ھ،ج:1،ص:318۔
ويكره اتخاذ الضيافة من الطعام من أهل الميت لأنه شرع في السرور لا في الشرور وهي بدعة مستقبحة روى الإمام أحمد عن جرير بن عبد الله قال كنا نعد الاجتماع إلى أهل الميت، وصنعهم الطعام من النياحة۔۔۔الخ
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:665۔
وفي البزازية: ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع ونقل الطعام إلى القبر في المواسم، واتخاذ الدعوة لقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص. والحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراءة القرآن لأجل الأكل يكره.۔۔۔۔الخ
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:2،ص:240۔
ولأن ذكر الله تعالى إذا قصد به التخصيص بوقت دون وقت أو بشيء دون شيء لم يكن مشروعا حيث لم يرد الشرع به؛ لأنه خلاف المشروع۔ البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیۃ،ج:2،ص:172۔
ويكره الجلوس للمسجد للمصيبة ثلاثة أيام أو أقل وفي غير المسجد يرخص للرجال ثلاثة أيام والترك أولى ويكره اتخاذ الضيافة في المصيبة من التركة إن كان الوارث صغيراً أو كبيراً غائباً۔۔۔الخ
فتاویٰ قاضی خان،ج:1،ص:31۔
الجلوس للمصيبة ثلاثة أيام رخصة والترك أحسن ويكره اتخاذ الضيافة ثلاثة أيام وأكلها لأنه مشروعه للسرور۔۔۔۔۔۔ ويكره اتخاذ الطعام في اليوم الأول والثالث وبعد الأسبوع والأعياد ونقل الطعام إلى القبر في المواسم واتخاذ الدعوة بقراءة القرآن وجمع الصلحاء والقراء للختم أو لقراءة سورة الأنعام أو الإخلاص فالحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراء القرآن لأجل الأكل يكره۔
فتاویٰ بزازیہ،ج:1،ص:38۔
الأصل في هذا الباب أن الإنسان له أن يجعل ثواب عمله لغيره صلاة أو صوما أو صدقة أو غيرها عند أهل السنة والجماعة لما روي عن النبي عليه الصلاة والسلام أنه ضحى بكبشين أملحين أحدهما عن نفسه والآخر عن أمته ممن أقر بوحدانية الله تعالى وشهد له بالبلاغ جعل تضحية إحدى الشاتين لأمته۔
الہدایۃ،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:1،ص:178۔
اپنے طورپرصدقات نافلہ یاتلاوت یاتسبیح وتہلیل وغیرہ کاثواب میت کوپہنچانا حدیث سے ثابت ہے البتہ ایصال ثواب کے لیے اجتماع کااہتمام اوراس میں قیود ورسوم نیزاہل میت کی طرف سے دعوت کرنا یہ سب امور بدعت اور ناجائز ہیں۔
احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید،کراچی،طبع یازدہم،1425ھ،ج:1،ص:362۔
مردہ کے ایصال ثواب کے لیے مخصوص ایام میں خیرات وصدقات کرنا اورلوگوں کے لیے دعوت کرنا اورباقاعدہ ایک تقریب کی شکل دینا ایسے امور ہیں جن کا شرعاً کہیں کوئی ثبوت نہیں ہے ،اس لیے فقہائے کرام نے تیجے،دسویں اورچالیسویں کوبدعت کے زمرے میں شامل کیا ہے۔
فتاویٰ عثمانیہ،العصراکیڈمی،پشاور،اشاعت ہفتم،2021،ج:۱،ص:166۔
قرآن خوانی کاموجودہ مروجہ طریقہ جس میں تعیین ایام کا عقیدہ ہوتا ہے اوراس کے بعد کھانے پینے اورپیسے دینے کابطوراجرت کے انتظام کیا جاتا ہے اس کاثبوت قرون اولیٰ میں نہیں ملتا،اورعلاوہ ازیں جب کھاناکھلوا کراورپیسے دے کرپڑھوایا جائے گا تواس صورت میں پڑھنے والے کو ثواب نہیں ملے گاتوجس کے لیے پڑھاجا رہا ہواس کوثواب کیونکر پہنچے گا۔
ارشادالمفتین،مکتبہ الحسن ،لاہور،اشاعت اول،2016،ج:2،ص:161۔
الحاصل اہل میت کے گھر دعوت وضیافت مکروہ وبدعت ہے خواہ پہلے دن ہو یا تیسرے دن یاساتویں دن۔ملاعلی القاریؒ نے بھی شرح نقایہ میں اسی کی طرف رجوع فرمایاہے۔لکھتے ہیں کہ"میت کے ہاں سے کھاناتناول کرنامکروہ اوربدعت مستقبحہ ہے"۔
خیرالفتاویٰ،مکتبہ امدادیہ،ملتان،ج:1،ص:579۔
وارثان میت کاایصال ثواب کے لیے صدقہ کرنا ہروقت جائز ہے مگر وقت کے تعین کی جوصورتیں عوام میں مروج ہیں مثلاً شب جمعہ (جمعرات کے دن)تیجہ،دسواں،چہلم وغیرہ اس تخصیص کی وجہ سے شرعاً ناجائز ہے،کیونکہ تخصیص اورالتزام کی وجہ سے کبھی کبھی مباح اورجائز افعال بھی ناجائز ہوجاتے ہیں۔
فتاویٰ حقانیہ،جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک،ج:2،ص:46۔
تلاوت قرآن بہت بڑی عبادت اورشب جمعہ بہت بڑی شان والی رات ہے،مگردین میں اپنی طرف سے مکان یا زمان یاذکرکی تخصیص کرنااوراس کے متعلق زائد ثواب کااعتقاد رکھنامکروہ اور بدعت ہے۔
فتاویٰ فریدیہ،اشاعت سوم،ج:1،ص:295۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی
فتوی نمبر:39/1444
تارخ اجراء:11/03/2023