کلمة الرئیس
- 
                      
                     مقدمہ از بانی جامعہ حضرت مولانا ڈاکٹر نورالحق صاحب دامت برکاتہم
 بسم الله الرحمٰن الرحیم کلمة الرئيس : ان الحمد لله نحمده ونستعينه ونستغفره ونؤمن به ونتوكل عليه ونعوذ بالله من شرور أنفسنا ومن سيأت أعمالنا من يهده الله فلا مضل له ومن يضلله فلا هادي له وأشهد أن لا اله الا الله وحده لا شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله أما بعد : اللہ تعالی ٰ کے فضل وکرم سے کئی سالوں سے درس وتدریس سے وابستہ رہا اور علوم حدیث میں اختصاص کیوجہ سے خواہش تھی کہ علوم ِحدیث اور حدیث پڑھانے کا موقع ملے تو اللہ تعالی ٰ کے فضل وکرم سے شرح نخبۃ الفکر کی درس مل گئی ،ایک سال میں کتاب کئی دفعہ طلباء کو پڑھایا اور مختلف انداز کیساتھ اپنی استطاعت کے موافق ہر ممکن اور سھل طریقہ اپنانے کی کوشش کرتا ،طلباء کتاب کو تو یاد کرتے ،مصطلحات ازبر ہوجاتے لیکن ایک تو تدریب نہ ہونے کی وجہ سے کچھ عرصہ بعد پھر بھول جاتے اور جس نتیجہ کی توقع رکھتاتھا وہ حاصل نہ ہوتا ،دوسری میری خواہش تھی کہ علوم ِحدیث کی قدر ومنزلت پیدا ہوجائے کیونکہ منکرین حدیث اس دور میں جتنے مستعدی اور چالاکی سے اپنا کام کرتے ہیں شاید پہلے کبھی ایسا ہو ا ہو جبکہ دوسری طرف صحیح سنت اور احادیث مفقود ہوتے جارہے ہیں اور من گھڑت احادیث عوام وخواص میں پھیل رہی ہیں ،اور ان مقاصد کا حصول کسی ایک فرد کی بس کی بات نہ تھی جب تک کہ فضلاء کی ایک جماعت اس کو اپنی زندگی کا مقصد نہ بنا لیں اور مدارس کے فضلاء میں استعداد کی کمی نہیں تھی مگر علوم ِحدیث کی اہمیت دلوں میں نہیں تھی اس وجہ سے توجہ نہیں دیتےاور یہ عدم ِتوجہ مجھے پریشان کرتی رہتی، کہ اللہ تعالی ٰنے اپنے فضل وکرم سے ایک طالب ِعلم کے دل میں ڈالا کہ دورہ حدیث کے بعد مستقل علوم ِحدیث پڑھے ،تو میں نے علماء کرام اور دوستوں سے مشورے کے بعد طے کیا کہ جب ایک طالب ِعلم کو پڑھاتا ہوں تو اشتہار کیوں نہیں دیتے کہ شاید دوسرے ساتھی بھی مل جائے ،اسی وقت مجھے خیال آیا کہ شاید یہ اسی خواب کی تعبیر آشکارہ ہونے کا وقت ہو جو میں نے زمانہ طالب ِعلمی میں دیکھا تھا ( کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ میں دین کی خدمت کیسے کروں ؟تو رسول اللہ ﷺ نے جو جواب فرمایا اس کامطلب یہ تھا کہ بہتر یہ ہے کہ ایک مدرسہ /جامعہ ہو جس سے دین کے تمام شعبوں کو تقویت ملتی ہو ،اورمجھے فرمایا کہ تم خروج کرو) ( تبلیغی جماعت کے ساتھ ) تو میں نے علمائے کرام اور اہل ِمحلہ کے مشورے سے مسجد ِامام بخاری ؒ میں تخصص فی الحدیث کے لئے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی جسکا نام شروع میں مسجد کی مناسبت سے مرکز ِامام بخاری ؒ رکھا مگر بعد میں اکابر کے مشورے سے اس نام کو تبدیل کرکے "جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی ؒ "کردیا ۔

