کاروبار والے جانوروں کے زکوٰۃ کا طریقہ
سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم لوگ گائے اوربھینس کی خریدوفروخت کاکاروبار کرتے ہیں۔ہمیں کاروبارمیں نفع ہوجائے یانقصان ،بہرحال ہم کاروبار جاری رکھتے ہیں۔ہمارے پاس گھرمیں نقد کوئی رقم جمع نہیں ہوتا ،ہمیں جو نفع ملتا ہے ہم اس کے ساتھ اپناکاروبارجاری رکھتے ہیں۔زکوٰۃ کے بارے میں معلوم کرنا ہے کہ ہمارے بارے میں زکوٰۃ کاکیا حکم ہے؟اورہم شریعت کی رُوسے کس طرح زکوٰۃ اداکریں گے؟المستفتی جمروزخانکوٹھا(صوابی)
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداًومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق چونکہ آپ لوگ گائے اوربھینس کاکاروبار کرتے ہیں تواس صورت میں یہ گائے اوربھینس وغیرہ آپ کے لیے مال تجارت کے حکم میں ہے۔آپ کے زکوٰۃ کاحکم یہ ہے کہ جب آپ کاسال پورا ہوجائے تواُس وقت آپ کے پاس تجارت کی نیت سے موجود جتنی بھی گائے یابھینسیں ہوں توآپ ان سب کی کل مالیت کاڈھائی فیصد بطورزکوٰۃ اداکریں گے ، ڈھائی فیصدمعلوم کرنے کاآسان طریقہ یہ ہے کہ آپ کل مالیت کوچالیس پرتقسیم کریں ،جوحاصل آجائے وہی ڈھائی فیصد ہوگا۔
عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ:أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَةَ مِنَ الَّذِي نُعِدُّ لِلْبَيْعِ.
سنن ابی داؤد،المکتبۃ العصریۃ،بیروت،رقم الحدیث:1562۔
باب السائمة هي الراعية، وشرعاالمكتفية بالرعي المباح، ذكره الشمني في أكثر العام لقصد الدر والنسل ذكره الزيلعي، وزاد في المحيط والزيادة والسمن ليعم الذكور فقط،لكن في البدائع لو أسامها للحم فلا زكاة فيها كما لو أسامها للحمل والركوب ولو للتجارة ففيها زكاة التجارة ولعلهم تركوا ذلك لتصريحهم بالحكمين الخ
الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:2،ص:275۔
أي بحكم ما نوى به التجارة من العروض الشاملة للحيوانات وبحكم المسامة للحمل والركوب، وهو وجوب زكاة التجارة في الأول، وعدمه في الثاني۔ حاشیہ ابن عابدین،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:2،ص:275۔
الزكاة فرض على المخاطب إذا ملك نصاباً نامياً حولاً كاملاً والمال النامي نوعان السائمة ومال التجارة أما السائمة فهي الراعية التي تكتفي بالرعي يطلب منها العين وهو النسل واللبن فإذا علفها في مصر أو غير مصر فهي علوفة وليست بسائمة ۔۔۔۔۔۔ ولو اشترى سائمة للتجارة كان فيها زكاة التجارة لأنه طلب النماء من البدل لا من العين. وذكور السوائم وإناثها وذكورها مع إناثها في حكم الزكاة سواء والله أعلم
فتاویٰ قاضی خان،ج:1،ص:120۔
حضرت مولانامفتی رشیداحمدلدھیانویؒ تجارتی مواشی کی زکوٰۃ پرگفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"ان بکریوں کی زکوٰۃ میں بکری واجب نہیں بلکہ دوسرے اموال تجارت کی طرح ان بکریوں کی قیمت لگا کر اس کاچالیسواں حصہ زکوٰۃ میں دیا جائے"۔ احسن الفتاویٰ ،ایچ ایم سعید،کراچی،ج:4،ص:287۔
جوجانورتجارت کی نیت سے پالے جائیں تواس میں جانوروں کانصاب زکوٰۃ ضروری نہیں بلکہ جب ان جانوروں کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی یاساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت تک پہنچ جائے توزکوٰۃ واجب ہو جائے گی چاہے جانوروں کی تعداد نصاب زکوٰۃ تک پہنچتی ہو یا نہ ۔ فتاویٰ حقانیہ،جامعہ دارالعلوم حقانیہ،اکوڑہ خٹک،ج:3،ص:560۔
اگر جانورتجارت کی غرض سے خریدا اوراس کی خوراک کابندوبست گھر کے ذاتی اخراجات سے ہو یاباہرچراگاہ میں چرتا ہو،بہرصورت سامان تجارت میں داخل ہوکر سال گزرنے کے بعد اس میں زکوٰۃ واجب ہوگی ،بشرط یہ کہ اس کی قیمت زکوٰۃ کی مقدار نصاب تک پہنچتی ہو۔ فتاویٰ عثمانیہ،العصر اکیڈمی،پشاور،ج:3،ص:383۔
جوجانورافزائش نسل کی بجائے خرید وفروخت اورتجارت کے لیے رکھے جائیں توان میں مال تجارت کے حساب سے،یعنی قیمت لگا کر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ فتاویٰ عثمانیہ،العصر اکیڈمی،پشاور،ج:3،ص:313۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحرار اُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی
فتویٰ نمبر:41/1444
تاریخ اجراء:17/03/2023
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداًومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق چونکہ آپ لوگ گائے اوربھینس کاکاروبار کرتے ہیں تواس صورت میں یہ گائے اوربھینس وغیرہ آپ کے لیے مال تجارت کے حکم میں ہے۔آپ کے زکوٰۃ کاحکم یہ ہے کہ جب آپ کاسال پورا ہوجائے تواُس وقت آپ کے پاس تجارت کی نیت سے موجود جتنی بھی گائے یابھینسیں ہوں توآپ ان سب کی کل مالیت کاڈھائی فیصد بطورزکوٰۃ اداکریں گے ، ڈھائی فیصدمعلوم کرنے کاآسان طریقہ یہ ہے کہ آپ کل مالیت کوچالیس پرتقسیم کریں ،جوحاصل آجائے وہی ڈھائی فیصد ہوگا۔
عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، قَالَ:أَمَّا بَعْدُ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَأْمُرُنَا أَنْ نُخْرِجَ الصَّدَقَةَ مِنَ الَّذِي نُعِدُّ لِلْبَيْعِ.
سنن ابی داؤد،المکتبۃ العصریۃ،بیروت،رقم الحدیث:1562۔
باب السائمة هي الراعية، وشرعاالمكتفية بالرعي المباح، ذكره الشمني في أكثر العام لقصد الدر والنسل ذكره الزيلعي، وزاد في المحيط والزيادة والسمن ليعم الذكور فقط،لكن في البدائع لو أسامها للحم فلا زكاة فيها كما لو أسامها للحمل والركوب ولو للتجارة ففيها زكاة التجارة ولعلهم تركوا ذلك لتصريحهم بالحكمين الخ
الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:2،ص:275۔
أي بحكم ما نوى به التجارة من العروض الشاملة للحيوانات وبحكم المسامة للحمل والركوب، وهو وجوب زكاة التجارة في الأول، وعدمه في الثاني۔ حاشیہ ابن عابدین،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:2،ص:275۔
الزكاة فرض على المخاطب إذا ملك نصاباً نامياً حولاً كاملاً والمال النامي نوعان السائمة ومال التجارة أما السائمة فهي الراعية التي تكتفي بالرعي يطلب منها العين وهو النسل واللبن فإذا علفها في مصر أو غير مصر فهي علوفة وليست بسائمة ۔۔۔۔۔۔ ولو اشترى سائمة للتجارة كان فيها زكاة التجارة لأنه طلب النماء من البدل لا من العين. وذكور السوائم وإناثها وذكورها مع إناثها في حكم الزكاة سواء والله أعلم
فتاویٰ قاضی خان،ج:1،ص:120۔
حضرت مولانامفتی رشیداحمدلدھیانویؒ تجارتی مواشی کی زکوٰۃ پرگفتگو کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"ان بکریوں کی زکوٰۃ میں بکری واجب نہیں بلکہ دوسرے اموال تجارت کی طرح ان بکریوں کی قیمت لگا کر اس کاچالیسواں حصہ زکوٰۃ میں دیا جائے"۔ احسن الفتاویٰ ،ایچ ایم سعید،کراچی،ج:4،ص:287۔
جوجانورتجارت کی نیت سے پالے جائیں تواس میں جانوروں کانصاب زکوٰۃ ضروری نہیں بلکہ جب ان جانوروں کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی یاساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت تک پہنچ جائے توزکوٰۃ واجب ہو جائے گی چاہے جانوروں کی تعداد نصاب زکوٰۃ تک پہنچتی ہو یا نہ ۔ فتاویٰ حقانیہ،جامعہ دارالعلوم حقانیہ،اکوڑہ خٹک،ج:3،ص:560۔
اگر جانورتجارت کی غرض سے خریدا اوراس کی خوراک کابندوبست گھر کے ذاتی اخراجات سے ہو یاباہرچراگاہ میں چرتا ہو،بہرصورت سامان تجارت میں داخل ہوکر سال گزرنے کے بعد اس میں زکوٰۃ واجب ہوگی ،بشرط یہ کہ اس کی قیمت زکوٰۃ کی مقدار نصاب تک پہنچتی ہو۔ فتاویٰ عثمانیہ،العصر اکیڈمی،پشاور،ج:3،ص:383۔
جوجانورافزائش نسل کی بجائے خرید وفروخت اورتجارت کے لیے رکھے جائیں توان میں مال تجارت کے حساب سے،یعنی قیمت لگا کر زکوٰۃ واجب ہوگی۔ فتاویٰ عثمانیہ،العصر اکیڈمی،پشاور،ج:3،ص:313۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحرار اُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی
فتویٰ نمبر:41/1444
تاریخ اجراء:17/03/2023