وجوب قربانی میں ضم بالاجزاء کا شرعی حکم
سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص کے پاس گھرمیں ڈیڑھ تولہ سونا موجودہے۔گھرکاسارا سامان اُس کے زیراستعمال ہے اور اُس کے پاس ضرورت سے زائد کوئی سازوسامان نہیں ہے۔نہ ہی اُس کے پاس کوئی چاندی ہے اور نہ ہی اُس کا کوئی کاروبار ہے۔گھر کی ماہانہ آمدنی دس سے پندرہ ہزار تک ہے جوکہ کل خرچہ کے برابر بھی نہیں ہے۔مذکورہ صورت حال کومدنظررکھتے ہوئے یہ بتائیں کہ آیاڈیڑھ تولہ سونا اور ہزار یاپانچ سو روپے کی موجودگی میں اس شخص پرقربانی واجب ہے یا نہیں ؟اورکیا صاحبین کے قول کے مطابق ضم بالاجزاء پرعمل کرتےہوئے مذکورہ صورت حال میں اِس شخص پر قربانی کے عدم وجوب کا فتویٰ دیا جاسکتا ہے یا نہیں؟بینوافتوجرواالمستفتیمفتی محمدقاسم صوفی آبادکوٹھا (صوابی)
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! قربانی ہراُس مسلمان پرواجب ہے جوایام قربانی میں آزاد،عاقل،بالغ،مقیم اورصاحب نصاب ہو۔نصاب سے مراد یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سوناہویاساڑھے باون تولہ چاندی ہویا ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرنقد رقم ہو یااس کاسامان تجارت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرہویااس کے پاس گھرمیں ضرورت سے زائد سازوسامان اتنا ہو کہ اس کی مالیت ساڑھےباون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو اوریہ مال اس کی حاجات اصلیہ ،قرض اور دیگر واجب الادآء اخراجات سے زائد ہو۔قربانی واجب ہونے کے لیے مال کا تجارتی ہونا بھی ضروری نہیں اور نہ ہی اس پر سال کاگزرنا شرط ہے۔ تجب على حر مسلم موسر مقيم۔۔۔۔۔۔قيد بالحر لأنها عبادة مالية فلا تجب على العبد لأنه لا يملك ولو ملك. وبالإسلام لأنها عبادة والكافر ليس بأهل لها، وباليسار لأنها لا تجب إلا على القادر وهو الغني دون الفقير ومقداره مقدار ما تجب فيه صدقة الفطر ۔۔۔۔الخ البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،بیروت،ج:8،ص:197۔ والغنى الشرعي مقدر بالنصاب، وشرط أن يكون فاضلا عن حوائجه الأصلية؛ لأن المستحق بالحاجة كالمعدوم كالماء المستحق للعطش فخرج النصاب المشغول بالدين، ولما كان حوائج عياله الأصلية كحوائجه لم يذكرها فإنه لا بد أن يكون النصاب فاضلا عن حوائجه وحوائج عياله كما صرح به في الفتاوى الظهيرية، ولم يقيد النصاب بالنمو كما في الزكاة لما قدمناه۔۔۔۔الخ البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،بیروت،ج:2،ص:271۔ وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) كما مر۔۔۔۔ (قوله واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضا يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية ولو له عقار يستغله فقيل تلزم لو قيمته نصابا، وقيل لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:312۔ وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلا عن حوائجه الأصلية كذا في الاختيار شرح المختار، ولا يعتبر فيه وصف النماء ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب هكذا في فتاوى قاضي خان.۔۔۔۔الخ الفتاویٰ الھندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:1،ص:191۔ ماقبل میں گزرا کہ نصاب کے لیے سونے کا ساڑھے سات تولہ ہونا اورچاندی کا ساڑھے باون تولہ ہونا ضروری ہے۔نقد پیسے بھی چاندی کے حکم میں ہیں کہ اگرساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر نقد روپے ہو توآدمی صاحب نصاب بن جاتاہے۔لیکن اگر سونے چاندی میں سے کوئی بھی نصاب مکمل نہ ہو ،بلکہ دوناقص نصاب ہوں،یعنی کچھ سونا اور کچھ چاندی ہو ،یا کچھ سونا اورکچھ نقد رقم ہو(جیسا کہ سوال میں مذکورہے)توایسی صورت میں ان کو باہم ملا کردیکھا جائے گا کہ یہ نصاب تک پہنچتے ہیں یا نہیں؟ اس باہم ملانے میں امام صاحب اورحضرات صاحبین کا اختلاف ہے۔امام صاحب کے ہاں قیمت کے حساب سے دونصابوں کو باہم ملایا جائے گا اورحضرات صاحبین کے ہاں اجزاء کے حساب سے ملایا جائے گا۔پہلی صورت کو ضم بالقیمۃ اور دوسری صورت کوضم بالاجزاء سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں سونے اورچاندی کی قیمتوں میں بہت زیادہ فرق آیا ہے۔آج کل ایک تولہ سونے کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے زیادہ ہے۔اب اگرامام صاحب رحمہ اللہ کے قول کو لیا جائے تو جس شخص کی ملکیت میں ایک تولہ سونا اور ایک تولہ چاندی،یاایک تولہ سونا اور ہزار روپے نقدہوں تو اس پر قربانی واجب ہوگی جبکہ صاحبین کے ہاں واجب نہیں ہوگی۔ امام صاحب کے قول پر عمل کرنے کی صورت میں بہت سارے نادار لوگوں پر بھی قربانی واجب ہوجاتی ہے۔مثلاً: کوئی غریب آدمی جس کی ایک چھوٹی سی دکان ہو یا جو سڑک کے کنارے ٹھیلا،ریڑھی وغیرہ لگائے تواس کے سامان تجارت کی قیمت اور اس کے گھر میں موجود ضرورت سے زائد چند ایک چیزوں کی قیمت، دونوں کو اگر جمع کیا جائےتو بھی چاندی کانصاب ضم بالقیمۃ کے اعتبارسےمکمل ہو جائے گا۔اگر کچھ کمی ہوئی تو اس کی جیب میں خرچہ کے لیے موجود چارپانچ ہزار روپے سے وہ کمی پوری ہوجائے گی۔اب اگر یہ شخص قربانی کرے گا تو قربانی کا بکراخریدنے یا حصہ ڈالنے کے لیے اس کو اپنا کم ازکم ایک تہائی یا ایک چوتھائی سرمایہ لگانا پڑے گا۔اب یا تو اسےقربانی کے لیے قرض لینا ہوگایااپنے سرمایہ سے قربانی کرکے دوبارہ کاروبار کے لیے قرض لینا پڑے گا۔دونوں صورتوں میں اس کاحرج ہونا ظاہر ہے۔ ایک غریب عورت جس کے پاس آج کل ایک تولہ سونا ہو اور قربانی کے ایام میں اُس کے پاس کہیں سے سو دوسو روپے آجائیں تو بھی امام صاحب کے قول کے مطابق اُس پر قربانی واجب ہوجائے گی۔اوراگراُس کے پاس قربانی کے لیے رقم موجود نہ ہو تو شرعاً اُس پراپنازیورفروخت کرکے قربانی لازم ہوگی ،اوراس صورت کاحرج ہونا بھی ظاہر ہے۔ ایک تنخواہ دار آدمی جس نے اپنے پاس ایمرجنسی ضروریات کے لیے تیس چالیس ہزار روپے بچا کرجمع کیے ہوں اور عید الاضحیٰ سے پہلے اسے تنخواہ مل جائے تو اس کے پاس بھی چاندی کانصاب ضم بالقیمۃ کے اعتبارسے مکمل ہوجانے کا قوی امکان ہے اگر کچھ کمی رہ جائے تو وہ گھر کی ضرورت سے زائد چندایک چیزوں سے پوری ہو جائے گی۔اب اگریہ آدمی قربانی کرے گا تو باقی مہینہ قرض لے کرگزارنا پڑے گا،اوریہ بھی حرج ہے۔ اسی طرح دینی مدارس کے اساتذہ کرام اور مساجد کے ائمہ عظام کو جو وظیفہ ملتا ہے وہ تو صرف قوت لایموت کا مصداق ہے۔ اگر ان کے گھر میں خواتین کے پاس ایک تولہ سونا بھی موجود ہوتو ان پر بھی قربانی لازم ہوجائے گی جس کا حرج عظیم ہونا اظہرمن الشمس ہے۔ الغرض ان سب حالات میں امام صاحب کے قول پر عمل کرنے میں ایک عام متوسط طبقہ کے آدمی کوبہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس وجہ سے ان حالات میں اگرحضرات صاحبین کے قول پر عمل کیا جائے تو کسی حدتک سہولت ہوگی۔اس وجہ سے ہماری رائے میں حضرات صاحبین کے قول پر عمل کرتے ہوئے ضم بالاجزاء پرفتویٰ دینے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ ضم بالاجزاء کے دوطریقے ہیں۔پہلا طریقہ یہ ہے کہ جس کے پاس جو سونا موجود ہو تو اُس کو سات میں ضرب دیا جائے ،جو حاصل ضرب آجائے اُسے ساڑھے باون سے منفی کیا جائے۔اُس سے جو جواب آئے گا اگر اس مقدار کی چاندی یا چاندی کی مالیت کے برابر نقد رقم اُس کے پاس موجود ہو تو اس پر قربانی واجب ہوگی ورنہ نہیں۔مثلاً سوال میں ڈیڑھ تولہ سونے کا ذکر ہے تو سب سے پہلے اس ڈیڑھ تولہ کو ہم سات سے ضرب دیں گے ۔جب ڈیڑھ تولہ کو سات سے ضرب دیا تو ساڑھے دس جواب آیا۔ اب اس ساڑھے دس کو جب ساڑھے باون سے منفی کیا تو بیالیس جواب آیا۔مطلب یہ کہ اگر اس سائل کے پاس بیالیس تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر نقد روپے ہوں تو اس پر قربانی واجب ہوگی ورنہ نہیں ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ موجود سونے کو ساڑھے سات سے منفی کیا جائے،جو جواب آجائے تواُسے سات میں ضرب دیا جائے۔ اُس سے جو جواب آئے گا وہ چاندی کی وہ مقدار ہوگی کہ جس کے پاس اُس مقدار کی چاندی یا اُس مقدار کی چاندی کی قیمت کے برابر نقد رقم موجود ہوتووہ صاحب نصاب بن جائے گا۔مثلاً صورت مسئولہ میں سائل کے پاس ڈیڑھ تولہ سونا ہے جب اس کو ساڑھے سات سے منفی کریں گے تو جواب چھ آئے گا۔اب اس چھ کو جب سات سے ضرب دیں گے تو جواب بیالیس آئے گا۔ مطلب یہ کہ اگر اس سائل کے پاس بیالیس تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر نقد روپے ہوں تو اس پر قربانی واجب ہوگی ورنہ نہیں ۔ صورت مسئولہ میں چونکہ سائل کے پاس صرف ڈیڑھ تولہ سونا اور ہزار یا پانچ سو روپے ہے تواس پر قربانی واجب نہیں ہے، کیونکہ ضم بالاجزاء کی صورت میں اس پر قربانی تب واجب ہوگی جب اس کے پاس ڈیڑھ تولہ سونے کے ساتھ ساتھ بیالیس تولہ چاندی یا بیالیس تولہ چاندی کی قیمت کے برابر نقد رقم ہو۔ لأن الحرج مدفوع بالنص، هو ظاهر إطلاق المتون۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:1،ص:234۔ (قوله: قيمة) أي من جهة القيمة، فمن له مائة درهم وخمسة مثاقيل قيمتها مائة عليه زكاتها خلافا لهما، ولو له إبريق فضة وزنه مائة وقيمته بصياغته مائتان لا تجب الزكاة باعتبار القيمة لأن الجودة والصنعة في أموال الربا لا قيمة لها عند انفرادها ولا عند المقابلة بجنسها، ثم لا فرق بين ضم الأقل إلى الأكثر كما مر، وعكسه كما لو كان له مائة وخمسون درهما وخمسة دنانير لا تساوي خمسين درهما تجب على الصحيح عنده ويضم الأكثر إلى الأقل؛ لأن المائة والخمسين بخمسة عشر دينارا، وهذا دليل على أنه لا اعتبار بتكامل الأجزاء عنده وإنما يضم أحد النقدين إلى الآخر قيمة ط عن البحر. قلت: ومن ضم الأكثر إلى الأقل ما في البدائع أنه روى عن الإمام أنه قال: إذا كان لرجل خمسة وتسعون درهما ودينار يساوي خمسة دراهم أنه تجب الزكاة، وذلك بأن تقوم الفضة كل خمسة منها بدينار (قوله: وقالا بالأجزاء) فإن كان من هذا ثلاثة أرباع نصاب ومن الآخر ربع ضم، أو النصف من كل أو الثلث من أحدهما والثلثان من الآخر، فيخرج من كل جزء بحسابه، حتى إنه في صورة الشارح يخرج من كل نصف ربع عشره كما ذكره صاحب البحر۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:2،ص:303۔ يضم (الذهب إلى الفضة) والفضة إلى الذهب للمجانسة بجامع الثمينة (قيمة) أي: من حيث القيمة عند الإمام وقالا: من حيث الأجزاء بأن يعتبر تكميل أجزاء النصاب من نحو الربع والنصف لأن المعتبر فيها القدر دون القيمة حتى لا يحب في مصوغ وزنه أقل من مائتي وقيمته فوقها وله أن الضم للمجانسة وهي تحقق باعتبار القيمة دون الصورة وأثر الخلاف يظهر فيمن له مائة وخمسة مثاقيل قيمتها مائة كان عليه الزكاة عنده خلافاً لهما۔۔۔۔الخ النھرالفائق،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،ج:1،ص:442۔ (قَالَ:) وَإِنْ كَانَ لَهُ عَشَرَةُ مَثَاقِيلَ ذَهَبٍ وَمِائَةُ دِرْهَمٍ ضَمَّ أَحَدَهُمَا إلَى الْآخَرِ فِي تَكْمِيلِ النِّصَابِ عِنْدَنَا، وَعَلَى قَوْلِ الشَّافِعِيِّ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى لَا يَضُمُّ أَحَدَهُمَا إلَى الْآخَرِ بَلْ يَعْتَبِرُ كَمَالَ النِّصَابِ مِنْ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى حِدَةٍ؛ لِأَنَّهُمَا جِنْسَانِ مُخْتَلِفَانِ فَلَا يَضُمُّ أَحَدَهُمَا إلَى الْآخَرِ لِيُكْمِلَ النِّصَابَ كَالسَّوَائِمِ، وَبَيَانُ الْوَصْفِ مِنْ حَيْثُ الْحَقِيقَةُ غَيْرُ مُشْكِلٍ وَمِنْ حَيْثُ الْمَعْنَى أَنَّهُ لَا يَجْرِي بَيْنَهُمَا رِبَا الْفَضْلِ.(وَلَنَا) حَدِيثُ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:مِنْ السُّنَّةِ أَنْ يَضُمَّ الذَّهَبَ إلَى الْفِضَّةِ لِإِيجَابِ الزَّكَاةِ، وَمُطْلَقُ السُّنَّةِ يَنْصَرِفُ إلَى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِأَنَّهُمَا مَالَانِ يُكْمِلُ نِصَابَ أَحَدِهِمَا بِمَا يُكْمِلُ بِهِ نِصَابَ الْآخَرِ فَيُكْمِلُ نِصَابَ أَحَدِهِمَا بِالْآخَرِ كَالسُّودِ مَعَ الْبِيضِ وَالنَّيْسَابُورِيّ مِنْ الدَّنَانِيرِ مَعَ الْهَرَوِيِّ، وَبَيَانُ الْوَصْفِ أَنَّ نِصَابَ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا يَكْمُلُ بِمَالِ التِّجَارَةِ، وَهَذَا لِأَنَّهُمَا وَإِنْ كَانَا جِنْسَيْنِ مُخْتَلِفَيْنِ صُورَةً فَفِي حُكْمِ الزَّكَاةِ هُمَا جِنْسٌ وَاحِدٌ حَتَّى يَتَّفِقَ الْوَاجِبُ فِيهِمَا فَيَتَقَدَّرُ بِرُبُعِ الْعُشْرِ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَوُجُوبُ الزَّكَاةِ فِيهِمَا بِاعْتِبَارِ مَعْنًى وَاحِدٍ وَهُوَ الْمَالِيَّةُ الْقَائِمَةُ بِاعْتِبَارِ أَصْلِهِمَا فَإِذَا وَجَبَتْ الزَّكَاةُ عِنْدَ ضَمِّ أَحَدِهِمَا إلَى الْآخَرِ اخْتَلَفَتْ الرِّوَايَةُ فِيمَا يُؤَدَّى فَرَوَى الْحَسَنُ بْنُ أَبِي مَالِكٍ عَنْ أَبِي يُوسُفَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى أَنَّهُ يُؤَدِّي مِنْ مِائَةِ دِرْهَمٍ دِرْهَمَيْنِ وَنِصْفًا وَمِنْ عَشْرَةِ مَثَاقِيلَ ذَهَبٍ رُبُعَ مِثْقَالٍ وَهُوَ إحْدَى الرِّوَايَتَيْنِ عَنْ أَبِي يُوسُفَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَوَجْهُهُ أَنَّهُ أَقْرَبُ إلَى الْمُعَادَلَةِ وَالنَّظَرِ مِنْ الْجَانِبَيْنِ وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى فِي رِوَايَةٍ أُخْرَى أَنَّهُ يُقَوِّمُ أَحَدَهُمَا بِالْآخَرِ ثُمَّ يُؤَدِّي الزَّكَاةَ مِنْ نَوْعٍ وَاحِدٍ وَهَذَا أَقْرَبُ إلَى مُوَافَقَةِ نُصُوصِ الزَّكَوَاتِ. ثُمَّ اخْتَلَفُوا فِي كَيْفِيَّةِ الضَّمِّ، فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى : يَضُمُّ أَحَدَهُمَا إلَى الْآخَرِ بِاعْتِبَارِ الْقِيمَةِ، وَقَالَ أَبُو يُوسُفَ وَمُحَمَّدٌ بِاعْتِبَارِ الْأَجْزَاءِ وَهُوَ إحْدَى الرِّوَايَتَيْنِ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى ذَكَرَهُ فِي نَوَادِرِ هِشَامٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى. وَبَيَانُ ذَلِكَ أَنَّهُ إذَا كَانَ لَهُ مِائَةُ دِرْهَمٍ وَخَمْسَةُ مَثَاقِيلَ ذَهَبٍ تُسَاوِي مِائَةَ دِرْهَمٍ أَوْ خَمْسُونَ دِرْهَمًا وَعَشْرَةُ مَثَاقِيلَ ذَهَبٍ تُسَاوِي مِائَةً وَخَمْسِينَ دِرْهَمًا فَعِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى يَضُمُّ أَحَدَهُمَا إلَى الْآخَرِ وَتَجِبُ الزَّكَاةُ وَعِنْدَهُمَا يَضُمُّ بِاعْتِبَارِ الْأَجْزَاءِ، وَقَدْ مَلَكَ نِصْفَ نِصَابِ أَحَدِهِمَا وَرُبُعَ نِصَابِ الْآخَرِ فَلَا يَجِبُ فِيهِمَا شَيْءٌ ثُمَّ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى يُعْتَبَرُ فِي التَّقْوِيمِ مَنْفَعَةُ الْفُقَرَاءِ كَمَا هُوَ أَصْلُهُ حَتَّى رُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ إذَا كَانَ لِلرَّجُلِ مِائَةٌ وَخَمْسَةٌ وَتِسْعُونَ دِرْهَمًا وَدِينَارٌ يُسَاوِي خَمْسَةَ دَرَاهِمَ أَنَّهُ تَجِبُ الزَّكَاةُ، وَذَلِكَ بِأَنْ يُقَوِّمَ الذَّهَبَ بِالْفِضَّةِ. المبسوط للامام السرخسی،دارالمعرفۃ،بیروت،1414ھ،ج:2،ص:192۔ شمس الائمۃ السرخسی رحمہ اللہ نے تو یہ صراحت بھی کردی ہے کہ ایک روایت میں امام صاحب کا قول بھی ضم بالاجزاء کا ہے" وَهُوَ إحْدَى الرِّوَايَتَيْنِ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى ذَكَرَهُ فِي نَوَادِرِ هِشَامٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى. "اس صورت میں تو پھراختلاف ہی ختم ہو جائے گا۔ ومتی کان قول ابی یوسف ومحمد موافق قولہ لا یتعدیٰ عنہ الا فیما مست الیہ الضرورۃ،وعلم انہ لا کان ابوحنیفۃ رایٰ ماراوا لافتیٰ بہ وکذا اذاکان احدھما معہ۔۔۔الخ شرح عقود رسم المفتی،مطلب فی الترتیب بین روایات المذھب،ص:87۔ یہاں پر ایک شبہ کا ازالہ ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ احناف کے ہاں امام صاحب کی ایک روایت یہ ہےدونصابوں کو ملاتے وقت انفع للفقرآء کاخیال رکھنا ضروری ہے۔اور انفع للفقرآء یہی ہے کہ چاندی کانصاب ضم بالقیمۃ کے اعتبار سے مان لیا جائے۔کیونکہ اس صورت میں ہی فقرآء کا زیادہ فائدہ ہے۔اس شبہ کے دوجواب ہیں: پہلا جواب یہ ہے کہ یہ بات وجوب زکوٰۃ کے بارے میں ہے کہ وجوب زکوٰۃ میں انفع للفقرآء کا خیال رکھا جائے کیونکہ زکوٰۃ کا مقصد ہی یہ ہے کہ معاشرے کے غریب اور نادار طبقات کی مددکی جائے۔اس وجہ سے زکوٰۃ کے باب میں آج تک تمام تر مفتیان کا فتویٰ اسی بات پر ہے کہ وجوب زکوٰۃ کا معیار ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت ہی ہے کیونکہ اسی میں غریبوں کا زیادہ فائدہ ہے۔مگرقربانی کامقصد غربآء کی حاجت برآری نہیں ،اس وجہ سے قربانی کے باب میں انفع للفقرآء کو دلیل بنانا درست نہیں ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ بات احناف کی ظاہرالروایۃ نہیں ، بلکہ شمس الائمۃ السرخسی ؒنے اسے "امالی"اور ابن نجیم ؒ نے "نوادر " کی روایت قراردیا ہے۔احناف کے ہاں ظاہر الروایۃ یہ ہے کہ کرنسی اورمال تجارت کی قیمت لگانے میں مالک کو اختیار ہے کہ وہ سونے یا چاندی میں سے جس کا بھی اعتبار کرکے اپنے مال تجارت وغیرہ کی قیمت لگانا چاہے لگا سکتا ہے۔اور یہ بات بھی کسی پرمخفی نہیں کہ ظاہر الروایۃ کو امالی اور نوادر کی روایت پرترجیح حاصل ہوتی ہے۔چنانچہ امام السرخسی فرماتے ہیں : وَيُقَوِّمُهَا يَوْمَ حَالَ الْحَوْلُ عَلَيْهَا إنْ شَاءَ بِالدَّرَاهِمِ وَإِنْ شَاءَ بِالدَّنَانِيرِ وَعَنْ أَبِي حَنِيفَةَرَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى فِي الْأَمَالِي أَنَّهُ يُقَوِّمُهَا بِأَنْفَعِ النَّقْدَيْنِ لِلْفُقَرَاءِ وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّهُ يُقَوِّمُهَا بِمَا اشْتَرَاهَا إنْ كَانَ اشْتَرَاهَا بِأَحَدِ النَّقْدَيْنِ فَيُقَوِّمُهَا بِهِ وَإِنْ كَانَ اشْتَرَاهَا بِغَيْرِ نُقُودٍ قَوَّمَهَا بِالنَّقْدِ الْغَالِبِ فِي الْبَلَدِ وَعَنْ مُحَمَّدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّهُ يُقَوِّمُهَا بِالنَّقْدِ الْغَالِبِ عَلَى كُلِّ حَالٍ. وَجْهُ قَوْلِ مُحَمَّدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّ التَّقْوِيمَ فِي حَقِّ اللَّهِ تَعَالَى مُعْتَبَرٌ بِالتَّقْوِيمِ فِي حَقِّ الْعِبَادِ وَمَتَى وَقَعَتْ الْحَاجَةُ إلَى تَقْوِيمِ الْمَغْصُوبِ وَالْمُسْتَهْلَكِ يُقَوَّمُ بِالنَّقْدِ الْغَالِبِ فِي الْبَلَدِ فَهَذَا مِثْلُهُ وَأَبُو يُوسُفَ يَقُولُ الْبَدَلُ مُعْتَبَرٌ بِأَصْلِهِ فَإِنْ كَانَ اشْتَرَى بِأَحَدِ النَّقْدَيْنِ فَتَقْوِيمُهُ بِمَا هُوَ أَصْلُهُ أَوْلَى. وَجْهُ قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّ الْمَالَ كَانَ فِي يَدِ الْمَالِكِ وَهُوَ الْمُنْتَفِعُ بِهِ فِي زَمَانٍ طَوِيلٍ فَلَا بُدَّ مِنْ اعْتِبَارِ مَنْفَعَةِ الْفُقَرَاءِ عِنْدَ التَّقْوِيمِ لِأَدَاءِ الزَّكَاةِ فَيُقَوِّمُهَا بِأَنْفَعِ النَّقْدَيْنِ. أَلَا تَرَى أَنَّهُ لَوْ كَانَ بِتَقْوِيمِهِ بِأَحَدِ النَّقْدَيْنِ يُتِمُّ النِّصَابَ وَبِالْآخِرِ لَا يُتِمُّ فَإِنَّهُ يُقَوَّمُ بِمَا يُتِمُّ بِهِ النِّصَابَ لِمَنْفَعَةِ الْفُقَرَاءِ فَهَذَا مِثْلُهُ. وَجْهُ رِوَايَةِ الْكِتَابِ أَنَّ وُجُوبَ الزَّكَاةِ فِي عُرُوضِ التِّجَارَةِ بِاعْتِبَارِ مَالِيَّتِهَا دُونَ أَعْيَانِهَا، وَالتَّقْوِيمُ لِمَعْرِفَةِ مِقْدَارِ الْمَالِيَّةِ وَالنَّقْدَانِ فِي ذَلِكَ عَلَى السَّوَاءِ فَكَانَ الْخِيَارُ إلَى صَاحِبِ الْمَالِ يُقَوِّمُهَا بِأَيِّهِمَا شَاءَ.۔۔۔۔الخ المبسوط للامام السرخسی،دارالمعرفۃ،بیروت،1414ھ،ج:2،ص:191۔ وإذا كان تقدير النصاب من أموال التجارة بقيمتها من الذهب والفضة وهو أن تبلغ قيمتها مقدار نصاب من الذهب والفضة فلا بد من التقويم حتى يعرف مقدار النصاب ثم بماذا تقوم؟ ذكر القدوري في شرحه مختصر الكرخي أنه يقوم بأوفى القيمتين من الدراهم والدنانير حتى إنها إذا بلغت بالتقويم بالدراهم نصابا ولم تبلغ بالدنانير قومت بما تبلغ به النصاب.وكذا روي عن أبي حنيفة في الأمالي أنه يقومها بأنفع النقدين للفقراء.وعن أبي يوسف أنه يقومها بما اشتراها به فإن اشتراها بالدراهم قومها بالدراهم وإن اشتراها بالدنانير قومها بالدنانير وإن اشتراها بغيرهما من العروض أو لم يكن اشتراها بأن كان وهب له فقبله ينوي به التجارة قومها بالنقد الغالب في ذلك الموضع.وعند محمد يقومها بالنقد الغالب على كل حال وذكر في كتاب الزكاة أنه يقومها يوم حال الحول إن شاء بالدراهم وإن شاء بالدنانير.۔۔۔الخ بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1406ھ،ج:2،ص:21۔ والمذكور في (الأصل) أن المالك مخير في تقويمها بأيهما شاء وعن الإمام في (رواية النوادر) يقومها بالأنفع للفقراء وجعله الشارح مذهب الإمام۔۔۔۔الخ النھرالفائق،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،ج:1،ص:441۔ مذکورہ عبارتوں سے تومعلوم ہوتا ہے کہ مالک کواختیار ہے کہ سونے اور چاندی میں سے جس کو بھی نصاب بناناچاہے بنا سکتا ہے، لیکن ہمارے دور میں سونے اورچاندی کی قیمتوں میں جو بُعدالمشرقین ہے وہ ان فقہائے کرام کے زمانے میں نہیں تھا۔اب اگر چاندی کو نصاب بنا کر ضم بالقیمۃ کا اعتبارکیاجائے توبہت سے نادار لوگوں پر بھی قربانی واجب ہوجائے گی اور اگرسونے کااعتبار کرکے سونے کو نصاب بنایا جائے تو پھر بہت سارے مستطیع بھی قربانی سے بچ جائیں گےاس وجہ سے درمیانی راہ اعتدال یہ ہے کہ چاندی ہی کو نصاب مانتے ہوئے ضم بالاجزاء کااعتبار کیا جائے۔ یہ بات بھی ملحوظ خاطررہے کہ قربانی کے باب میں ضم بالاجزاء کے اعتبار کرنے میں ہم متفرد نہیں ہیں بلکہ ہمارے کئی ایک اکابر علمائے کرام نےقربانی کے حوالے سے ضم بالاجزاء کےقول کو ترجیح دی ہے۔چند ایک حوالہ جات ملاحظہ ہوں: حضرت مولانامفتی غلام قادر نعمانی صاحب (رئیس دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک)فرماتے ہیں: افتی الفقہاء علیٰ قول ابی حنیفۃ لان قولہ احوط والفتویٰ علیٰ قولہ موافق لاصول الافتاء ،لان الاصل فی العبادات الفتویٰ علیٰ قول ابی حنیفۃ لکن قولھما اوفق للقیاس لان علیٰ قول ابی حنیفۃ یصیر نصاب الذھب تابعا لقیمۃ الفضۃ مع ان القیمۃ تابع للذھب والفضہ فی تعیین النصاب وایضا فی صورۃ الذھب واما علیٰ قولھما فیکون القیمۃ تابعا للذھب والفضۃ ولایکون الموجود تابعا للمعدوم وان قولھما ارفق بالناس فینبغی ان یفتی بقولھما فی ھٰذاالزمان وخصوصا فی مسئلۃ الاضحیۃ ترفقا بالنساء لان اکثر النساء یوجدمعھن شئی من الذھب وھو یساوی نصاب الفضۃ باعتبار القیمۃ وھن لایستعدن لبیع الذھب ولشراء الاضحیہ واذا کان الانضمام بالاجزاء فحینئذ یکون الحکم اسھل علیھن ۔وقول الامام قول المتون۔۔۔۔الخ ترجیح الراجح بالروایۃفی مسائل الھدایۃ ،ج:1،ص:174۔ حضرت مولانا مفتی غلام الرحمٰن صاحب (مہتمم ورئیس دارالافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور)فرماتے ہیں: واضح رہے کہ جس مرد یا عورت کے پاس سونااورچاندی یانقدی ہو لیکن کوئی بھی جنس اپنی نصاب تک نہیں پہنچا ہو توسب کو ملا کر ایک نصاب بنایا جائے گا۔اس ملانے کی کیفیت میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورصاحبین کااختلاف ہے۔امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک قیمت کے اعتبار سے ملایا جائے گا جبکہ صاحبین کے نزدیک ان کواجزاء کے اعتبار سے ملایا جائے گا۔فقہ حنفی کی کتابوں میں اگرچہ امام صاحب کا قول مفتیٰ بہ قرار دیا گیا ہے،لیکن موجودہ حالات میں سونے اورچاندی کی قیمتوں کے درمیان پائے جانے والے تفاوت کی وجہ سے امام ابوحنیفہ ؒ کے قول پر عمل کرنے کی صورت میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس لیے حالات کو مدنظر رکھ کرصاحبین کے قول (ضم بالاجزاء)پرفتویٰ دینا زیادہ مناسب ہےتاکہ عام لوگ مشکل میں نہ پڑیں۔علاوہ ازیں خود امام ابوحنیفہؒ سے بھی ایک قول اجزاء کے اعتبار سے ملانےکامروی ہے۔۔۔۔الخ فتاویٰ عثمانیہ،العصراکیڈمی ،مکتبۃ العصر،پشاور،اشاعت ششم،1442ھ،ج:8،ص:322۔ حضرت مولانامفتی رضاء الحق صاحب (شیخ الحدیث وصدرمفتی دارالعلوم زکریا،جنوبی افریقہ)فرماتے ہیں: اور موجودہ دور میں زربام عروج پر ہے جبکہ سیم اسفل السافلین میں ہے جس کی وجہ سے نصاب زکوٰۃ میں دقتیں پیش آتی ہیں۔ اگر سونے کونصاب بنائیں (جیسا کہ ہم نے مفصل تحریرکیا تھا)توعام متوسطین زکوٰۃ،صدقہ ،قربانی وغیرہ سے سبکدوش ہوجائیں گے ،اوراگرچاندی معیار ہو جیسا کہ مشہور اور مفتیٰ بہ قول ہے توہرایک تنخواہ دار پر ان چیزوں کا بار ہوگاجبکہ وہ بال بچوں کی وجہ سے پریشان ہوتا ہے یابیوہ عورتیں اوربالغ لڑکیاں جن کے پاس کچھ زیورات ہوتے ہیں وہ بھی پریشانی کا شکار ہوجائیں گی۔ تو درمیانی راہ یہی ہے کہ صاحبین کے مذھب کے مطابق جوکہ امام ابوحنیفہ ؒ کی ایک روایت ہے دونوں چیزوں یعنی سونا اورچاندی کو باعتبار اجزاء ملا کر نصاب مقررکریں ،توعوام الناس کے لیے زیادہ آسانی ہوگی۔۔۔۔الخ فتاویٰ دارالعلوم زکریا،زم زم پبلشرز،کراچی،اشاعت سوم،2016ء،ج:3،ص:665۔ حضرت مولانا خالدسیف اللہ رحمانی صاحب "جدیدفقہی مسائل"میں تحریرفرماتے ہیں: اگرسونے اور چاندی کی قدر میں وہی تناسب ہوتا جوصدراول میں تھا،تو"ضم نصاب" کامسئلہ عین انصاف ہوتا جیسے کہ احناف کا مسلک ہے کہ اس میں فقراء کا فائدہ بھی ہے۔مگرموجودہ حالات میں جب کہ ان دونوں کی قدرمیں نمایاں فرق پیدا ہوگیا ہے ، ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اس جزئیہ پر نظرثانی کی جائےاورجمہور کی رائے اختیار کی جائے یا کم ازکم صاحبین کی رائے اختیار کی جائے کہ سونے اورچاندی کے نصاب کا انضمام اجزاء کے لحاظ سے ہو نہ کہ قیمت کے اعتبار سے۔۔۔۔الخ جدید فقہی مسائل،زم زم پبلشرز،کراچی،2010ء،ج:2،ص:103۔ علاوہ ازیں جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک،جامعہ امدادالعلوم درویش مسجد پشاوراوردارالایمان جامعہ زکریا کربوغہ شریف جیسے مستند اداروں نے بھی ضم بالاجزاء پرفتویٰ دیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! قربانی ہراُس مسلمان پرواجب ہے جوایام قربانی میں آزاد،عاقل،بالغ،مقیم اورصاحب نصاب ہو۔نصاب سے مراد یہ ہے کہ اس کی ملکیت میں ساڑھے سات تولہ سوناہویاساڑھے باون تولہ چاندی ہویا ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرنقد رقم ہو یااس کاسامان تجارت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرہویااس کے پاس گھرمیں ضرورت سے زائد سازوسامان اتنا ہو کہ اس کی مالیت ساڑھےباون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہو اوریہ مال اس کی حاجات اصلیہ ،قرض اور دیگر واجب الادآء اخراجات سے زائد ہو۔قربانی واجب ہونے کے لیے مال کا تجارتی ہونا بھی ضروری نہیں اور نہ ہی اس پر سال کاگزرنا شرط ہے۔ تجب على حر مسلم موسر مقيم۔۔۔۔۔۔قيد بالحر لأنها عبادة مالية فلا تجب على العبد لأنه لا يملك ولو ملك. وبالإسلام لأنها عبادة والكافر ليس بأهل لها، وباليسار لأنها لا تجب إلا على القادر وهو الغني دون الفقير ومقداره مقدار ما تجب فيه صدقة الفطر ۔۔۔۔الخ البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،بیروت،ج:8،ص:197۔ والغنى الشرعي مقدر بالنصاب، وشرط أن يكون فاضلا عن حوائجه الأصلية؛ لأن المستحق بالحاجة كالمعدوم كالماء المستحق للعطش فخرج النصاب المشغول بالدين، ولما كان حوائج عياله الأصلية كحوائجه لم يذكرها فإنه لا بد أن يكون النصاب فاضلا عن حوائجه وحوائج عياله كما صرح به في الفتاوى الظهيرية، ولم يقيد النصاب بالنمو كما في الزكاة لما قدمناه۔۔۔۔الخ البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،بیروت،ج:2،ص:271۔ وشرائطها: الإسلام والإقامة واليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) كما مر۔۔۔۔ (قوله واليسار إلخ) بأن ملك مائتي درهم أو عرضا يساويها غير مسكنه وثياب اللبس أو متاع يحتاجه إلى أن يذبح الأضحية ولو له عقار يستغله فقيل تلزم لو قيمته نصابا، وقيل لو يدخل منه قوت سنة تلزم، وقيل قوت شهر، فمتى فضل نصاب تلزمه۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:312۔ وهي واجبة على الحر المسلم المالك لمقدار النصاب فاضلا عن حوائجه الأصلية كذا في الاختيار شرح المختار، ولا يعتبر فيه وصف النماء ويتعلق بهذا النصاب وجوب الأضحية، ووجوب نفقة الأقارب هكذا في فتاوى قاضي خان.۔۔۔۔الخ الفتاویٰ الھندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:1،ص:191۔ ماقبل میں گزرا کہ نصاب کے لیے سونے کا ساڑھے سات تولہ ہونا اورچاندی کا ساڑھے باون تولہ ہونا ضروری ہے۔نقد پیسے بھی چاندی کے حکم میں ہیں کہ اگرساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر نقد روپے ہو توآدمی صاحب نصاب بن جاتاہے۔لیکن اگر سونے چاندی میں سے کوئی بھی نصاب مکمل نہ ہو ،بلکہ دوناقص نصاب ہوں،یعنی کچھ سونا اور کچھ چاندی ہو ،یا کچھ سونا اورکچھ نقد رقم ہو(جیسا کہ سوال میں مذکورہے)توایسی صورت میں ان کو باہم ملا کردیکھا جائے گا کہ یہ نصاب تک پہنچتے ہیں یا نہیں؟ اس باہم ملانے میں امام صاحب اورحضرات صاحبین کا اختلاف ہے۔امام صاحب کے ہاں قیمت کے حساب سے دونصابوں کو باہم ملایا جائے گا اورحضرات صاحبین کے ہاں اجزاء کے حساب سے ملایا جائے گا۔پہلی صورت کو ضم بالقیمۃ اور دوسری صورت کوضم بالاجزاء سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ موجودہ زمانے میں سونے اورچاندی کی قیمتوں میں بہت زیادہ فرق آیا ہے۔آج کل ایک تولہ سونے کی قیمت ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت سے زیادہ ہے۔اب اگرامام صاحب رحمہ اللہ کے قول کو لیا جائے تو جس شخص کی ملکیت میں ایک تولہ سونا اور ایک تولہ چاندی،یاایک تولہ سونا اور ہزار روپے نقدہوں تو اس پر قربانی واجب ہوگی جبکہ صاحبین کے ہاں واجب نہیں ہوگی۔ امام صاحب کے قول پر عمل کرنے کی صورت میں بہت سارے نادار لوگوں پر بھی قربانی واجب ہوجاتی ہے۔مثلاً: کوئی غریب آدمی جس کی ایک چھوٹی سی دکان ہو یا جو سڑک کے کنارے ٹھیلا،ریڑھی وغیرہ لگائے تواس کے سامان تجارت کی قیمت اور اس کے گھر میں موجود ضرورت سے زائد چند ایک چیزوں کی قیمت، دونوں کو اگر جمع کیا جائےتو بھی چاندی کانصاب ضم بالقیمۃ کے اعتبارسےمکمل ہو جائے گا۔اگر کچھ کمی ہوئی تو اس کی جیب میں خرچہ کے لیے موجود چارپانچ ہزار روپے سے وہ کمی پوری ہوجائے گی۔اب اگر یہ شخص قربانی کرے گا تو قربانی کا بکراخریدنے یا حصہ ڈالنے کے لیے اس کو اپنا کم ازکم ایک تہائی یا ایک چوتھائی سرمایہ لگانا پڑے گا۔اب یا تو اسےقربانی کے لیے قرض لینا ہوگایااپنے سرمایہ سے قربانی کرکے دوبارہ کاروبار کے لیے قرض لینا پڑے گا۔دونوں صورتوں میں اس کاحرج ہونا ظاہر ہے۔ ایک غریب عورت جس کے پاس آج کل ایک تولہ سونا ہو اور قربانی کے ایام میں اُس کے پاس کہیں سے سو دوسو روپے آجائیں تو بھی امام صاحب کے قول کے مطابق اُس پر قربانی واجب ہوجائے گی۔اوراگراُس کے پاس قربانی کے لیے رقم موجود نہ ہو تو شرعاً اُس پراپنازیورفروخت کرکے قربانی لازم ہوگی ،اوراس صورت کاحرج ہونا بھی ظاہر ہے۔ ایک تنخواہ دار آدمی جس نے اپنے پاس ایمرجنسی ضروریات کے لیے تیس چالیس ہزار روپے بچا کرجمع کیے ہوں اور عید الاضحیٰ سے پہلے اسے تنخواہ مل جائے تو اس کے پاس بھی چاندی کانصاب ضم بالقیمۃ کے اعتبارسے مکمل ہوجانے کا قوی امکان ہے اگر کچھ کمی رہ جائے تو وہ گھر کی ضرورت سے زائد چندایک چیزوں سے پوری ہو جائے گی۔اب اگریہ آدمی قربانی کرے گا تو باقی مہینہ قرض لے کرگزارنا پڑے گا،اوریہ بھی حرج ہے۔ اسی طرح دینی مدارس کے اساتذہ کرام اور مساجد کے ائمہ عظام کو جو وظیفہ ملتا ہے وہ تو صرف قوت لایموت کا مصداق ہے۔ اگر ان کے گھر میں خواتین کے پاس ایک تولہ سونا بھی موجود ہوتو ان پر بھی قربانی لازم ہوجائے گی جس کا حرج عظیم ہونا اظہرمن الشمس ہے۔ الغرض ان سب حالات میں امام صاحب کے قول پر عمل کرنے میں ایک عام متوسط طبقہ کے آدمی کوبہت سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔اس وجہ سے ان حالات میں اگرحضرات صاحبین کے قول پر عمل کیا جائے تو کسی حدتک سہولت ہوگی۔اس وجہ سے ہماری رائے میں حضرات صاحبین کے قول پر عمل کرتے ہوئے ضم بالاجزاء پرفتویٰ دینے کی گنجائش معلوم ہوتی ہے۔ ضم بالاجزاء کے دوطریقے ہیں۔پہلا طریقہ یہ ہے کہ جس کے پاس جو سونا موجود ہو تو اُس کو سات میں ضرب دیا جائے ،جو حاصل ضرب آجائے اُسے ساڑھے باون سے منفی کیا جائے۔اُس سے جو جواب آئے گا اگر اس مقدار کی چاندی یا چاندی کی مالیت کے برابر نقد رقم اُس کے پاس موجود ہو تو اس پر قربانی واجب ہوگی ورنہ نہیں۔مثلاً سوال میں ڈیڑھ تولہ سونے کا ذکر ہے تو سب سے پہلے اس ڈیڑھ تولہ کو ہم سات سے ضرب دیں گے ۔جب ڈیڑھ تولہ کو سات سے ضرب دیا تو ساڑھے دس جواب آیا۔ اب اس ساڑھے دس کو جب ساڑھے باون سے منفی کیا تو بیالیس جواب آیا۔مطلب یہ کہ اگر اس سائل کے پاس بیالیس تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر نقد روپے ہوں تو اس پر قربانی واجب ہوگی ورنہ نہیں ۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ موجود سونے کو ساڑھے سات سے منفی کیا جائے،جو جواب آجائے تواُسے سات میں ضرب دیا جائے۔ اُس سے جو جواب آئے گا وہ چاندی کی وہ مقدار ہوگی کہ جس کے پاس اُس مقدار کی چاندی یا اُس مقدار کی چاندی کی قیمت کے برابر نقد رقم موجود ہوتووہ صاحب نصاب بن جائے گا۔مثلاً صورت مسئولہ میں سائل کے پاس ڈیڑھ تولہ سونا ہے جب اس کو ساڑھے سات سے منفی کریں گے تو جواب چھ آئے گا۔اب اس چھ کو جب سات سے ضرب دیں گے تو جواب بیالیس آئے گا۔ مطلب یہ کہ اگر اس سائل کے پاس بیالیس تولہ چاندی یا اس کی قیمت کے برابر نقد روپے ہوں تو اس پر قربانی واجب ہوگی ورنہ نہیں ۔ صورت مسئولہ میں چونکہ سائل کے پاس صرف ڈیڑھ تولہ سونا اور ہزار یا پانچ سو روپے ہے تواس پر قربانی واجب نہیں ہے، کیونکہ ضم بالاجزاء کی صورت میں اس پر قربانی تب واجب ہوگی جب اس کے پاس ڈیڑھ تولہ سونے کے ساتھ ساتھ بیالیس تولہ چاندی یا بیالیس تولہ چاندی کی قیمت کے برابر نقد رقم ہو۔ لأن الحرج مدفوع بالنص، هو ظاهر إطلاق المتون۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:1،ص:234۔ (قوله: قيمة) أي من جهة القيمة، فمن له مائة درهم وخمسة مثاقيل قيمتها مائة عليه زكاتها خلافا لهما، ولو له إبريق فضة وزنه مائة وقيمته بصياغته مائتان لا تجب الزكاة باعتبار القيمة لأن الجودة والصنعة في أموال الربا لا قيمة لها عند انفرادها ولا عند المقابلة بجنسها، ثم لا فرق بين ضم الأقل إلى الأكثر كما مر، وعكسه كما لو كان له مائة وخمسون درهما وخمسة دنانير لا تساوي خمسين درهما تجب على الصحيح عنده ويضم الأكثر إلى الأقل؛ لأن المائة والخمسين بخمسة عشر دينارا، وهذا دليل على أنه لا اعتبار بتكامل الأجزاء عنده وإنما يضم أحد النقدين إلى الآخر قيمة ط عن البحر. قلت: ومن ضم الأكثر إلى الأقل ما في البدائع أنه روى عن الإمام أنه قال: إذا كان لرجل خمسة وتسعون درهما ودينار يساوي خمسة دراهم أنه تجب الزكاة، وذلك بأن تقوم الفضة كل خمسة منها بدينار (قوله: وقالا بالأجزاء) فإن كان من هذا ثلاثة أرباع نصاب ومن الآخر ربع ضم، أو النصف من كل أو الثلث من أحدهما والثلثان من الآخر، فيخرج من كل جزء بحسابه، حتى إنه في صورة الشارح يخرج من كل نصف ربع عشره كما ذكره صاحب البحر۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:2،ص:303۔ يضم (الذهب إلى الفضة) والفضة إلى الذهب للمجانسة بجامع الثمينة (قيمة) أي: من حيث القيمة عند الإمام وقالا: من حيث الأجزاء بأن يعتبر تكميل أجزاء النصاب من نحو الربع والنصف لأن المعتبر فيها القدر دون القيمة حتى لا يحب في مصوغ وزنه أقل من مائتي وقيمته فوقها وله أن الضم للمجانسة وهي تحقق باعتبار القيمة دون الصورة وأثر الخلاف يظهر فيمن له مائة وخمسة مثاقيل قيمتها مائة كان عليه الزكاة عنده خلافاً لهما۔۔۔۔الخ النھرالفائق،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،ج:1،ص:442۔ (قَالَ:) وَإِنْ كَانَ لَهُ عَشَرَةُ مَثَاقِيلَ ذَهَبٍ وَمِائَةُ دِرْهَمٍ ضَمَّ أَحَدَهُمَا إلَى الْآخَرِ فِي تَكْمِيلِ النِّصَابِ عِنْدَنَا، وَعَلَى قَوْلِ الشَّافِعِيِّ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى لَا يَضُمُّ أَحَدَهُمَا إلَى الْآخَرِ بَلْ يَعْتَبِرُ كَمَالَ النِّصَابِ مِنْ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا عَلَى حِدَةٍ؛ لِأَنَّهُمَا جِنْسَانِ مُخْتَلِفَانِ فَلَا يَضُمُّ أَحَدَهُمَا إلَى الْآخَرِ لِيُكْمِلَ النِّصَابَ كَالسَّوَائِمِ، وَبَيَانُ الْوَصْفِ مِنْ حَيْثُ الْحَقِيقَةُ غَيْرُ مُشْكِلٍ وَمِنْ حَيْثُ الْمَعْنَى أَنَّهُ لَا يَجْرِي بَيْنَهُمَا رِبَا الْفَضْلِ.(وَلَنَا) حَدِيثُ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ:مِنْ السُّنَّةِ أَنْ يَضُمَّ الذَّهَبَ إلَى الْفِضَّةِ لِإِيجَابِ الزَّكَاةِ، وَمُطْلَقُ السُّنَّةِ يَنْصَرِفُ إلَى سُنَّةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلِأَنَّهُمَا مَالَانِ يُكْمِلُ نِصَابَ أَحَدِهِمَا بِمَا يُكْمِلُ بِهِ نِصَابَ الْآخَرِ فَيُكْمِلُ نِصَابَ أَحَدِهِمَا بِالْآخَرِ كَالسُّودِ مَعَ الْبِيضِ وَالنَّيْسَابُورِيّ مِنْ الدَّنَانِيرِ مَعَ الْهَرَوِيِّ، وَبَيَانُ الْوَصْفِ أَنَّ نِصَابَ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا يَكْمُلُ بِمَالِ التِّجَارَةِ، وَهَذَا لِأَنَّهُمَا وَإِنْ كَانَا جِنْسَيْنِ مُخْتَلِفَيْنِ صُورَةً فَفِي حُكْمِ الزَّكَاةِ هُمَا جِنْسٌ وَاحِدٌ حَتَّى يَتَّفِقَ الْوَاجِبُ فِيهِمَا فَيَتَقَدَّرُ بِرُبُعِ الْعُشْرِ عَلَى كُلِّ حَالٍ وَوُجُوبُ الزَّكَاةِ فِيهِمَا بِاعْتِبَارِ مَعْنًى وَاحِدٍ وَهُوَ الْمَالِيَّةُ الْقَائِمَةُ بِاعْتِبَارِ أَصْلِهِمَا فَإِذَا وَجَبَتْ الزَّكَاةُ عِنْدَ ضَمِّ أَحَدِهِمَا إلَى الْآخَرِ اخْتَلَفَتْ الرِّوَايَةُ فِيمَا يُؤَدَّى فَرَوَى الْحَسَنُ بْنُ أَبِي مَالِكٍ عَنْ أَبِي يُوسُفَ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُمَا اللَّهُ تَعَالَى أَنَّهُ يُؤَدِّي مِنْ مِائَةِ دِرْهَمٍ دِرْهَمَيْنِ وَنِصْفًا وَمِنْ عَشْرَةِ مَثَاقِيلَ ذَهَبٍ رُبُعَ مِثْقَالٍ وَهُوَ إحْدَى الرِّوَايَتَيْنِ عَنْ أَبِي يُوسُفَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَوَجْهُهُ أَنَّهُ أَقْرَبُ إلَى الْمُعَادَلَةِ وَالنَّظَرِ مِنْ الْجَانِبَيْنِ وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى فِي رِوَايَةٍ أُخْرَى أَنَّهُ يُقَوِّمُ أَحَدَهُمَا بِالْآخَرِ ثُمَّ يُؤَدِّي الزَّكَاةَ مِنْ نَوْعٍ وَاحِدٍ وَهَذَا أَقْرَبُ إلَى مُوَافَقَةِ نُصُوصِ الزَّكَوَاتِ. ثُمَّ اخْتَلَفُوا فِي كَيْفِيَّةِ الضَّمِّ، فَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى : يَضُمُّ أَحَدَهُمَا إلَى الْآخَرِ بِاعْتِبَارِ الْقِيمَةِ، وَقَالَ أَبُو يُوسُفَ وَمُحَمَّدٌ بِاعْتِبَارِ الْأَجْزَاءِ وَهُوَ إحْدَى الرِّوَايَتَيْنِ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى ذَكَرَهُ فِي نَوَادِرِ هِشَامٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى. وَبَيَانُ ذَلِكَ أَنَّهُ إذَا كَانَ لَهُ مِائَةُ دِرْهَمٍ وَخَمْسَةُ مَثَاقِيلَ ذَهَبٍ تُسَاوِي مِائَةَ دِرْهَمٍ أَوْ خَمْسُونَ دِرْهَمًا وَعَشْرَةُ مَثَاقِيلَ ذَهَبٍ تُسَاوِي مِائَةً وَخَمْسِينَ دِرْهَمًا فَعِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى يَضُمُّ أَحَدَهُمَا إلَى الْآخَرِ وَتَجِبُ الزَّكَاةُ وَعِنْدَهُمَا يَضُمُّ بِاعْتِبَارِ الْأَجْزَاءِ، وَقَدْ مَلَكَ نِصْفَ نِصَابِ أَحَدِهِمَا وَرُبُعَ نِصَابِ الْآخَرِ فَلَا يَجِبُ فِيهِمَا شَيْءٌ ثُمَّ عِنْدَ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى يُعْتَبَرُ فِي التَّقْوِيمِ مَنْفَعَةُ الْفُقَرَاءِ كَمَا هُوَ أَصْلُهُ حَتَّى رُوِيَ عَنْهُ أَنَّهُ إذَا كَانَ لِلرَّجُلِ مِائَةٌ وَخَمْسَةٌ وَتِسْعُونَ دِرْهَمًا وَدِينَارٌ يُسَاوِي خَمْسَةَ دَرَاهِمَ أَنَّهُ تَجِبُ الزَّكَاةُ، وَذَلِكَ بِأَنْ يُقَوِّمَ الذَّهَبَ بِالْفِضَّةِ. المبسوط للامام السرخسی،دارالمعرفۃ،بیروت،1414ھ،ج:2،ص:192۔ شمس الائمۃ السرخسی رحمہ اللہ نے تو یہ صراحت بھی کردی ہے کہ ایک روایت میں امام صاحب کا قول بھی ضم بالاجزاء کا ہے" وَهُوَ إحْدَى الرِّوَايَتَيْنِ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى ذَكَرَهُ فِي نَوَادِرِ هِشَامٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى. "اس صورت میں تو پھراختلاف ہی ختم ہو جائے گا۔ ومتی کان قول ابی یوسف ومحمد موافق قولہ لا یتعدیٰ عنہ الا فیما مست الیہ الضرورۃ،وعلم انہ لا کان ابوحنیفۃ رایٰ ماراوا لافتیٰ بہ وکذا اذاکان احدھما معہ۔۔۔الخ شرح عقود رسم المفتی،مطلب فی الترتیب بین روایات المذھب،ص:87۔ یہاں پر ایک شبہ کا ازالہ ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ احناف کے ہاں امام صاحب کی ایک روایت یہ ہےدونصابوں کو ملاتے وقت انفع للفقرآء کاخیال رکھنا ضروری ہے۔اور انفع للفقرآء یہی ہے کہ چاندی کانصاب ضم بالقیمۃ کے اعتبار سے مان لیا جائے۔کیونکہ اس صورت میں ہی فقرآء کا زیادہ فائدہ ہے۔اس شبہ کے دوجواب ہیں: پہلا جواب یہ ہے کہ یہ بات وجوب زکوٰۃ کے بارے میں ہے کہ وجوب زکوٰۃ میں انفع للفقرآء کا خیال رکھا جائے کیونکہ زکوٰۃ کا مقصد ہی یہ ہے کہ معاشرے کے غریب اور نادار طبقات کی مددکی جائے۔اس وجہ سے زکوٰۃ کے باب میں آج تک تمام تر مفتیان کا فتویٰ اسی بات پر ہے کہ وجوب زکوٰۃ کا معیار ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت ہی ہے کیونکہ اسی میں غریبوں کا زیادہ فائدہ ہے۔مگرقربانی کامقصد غربآء کی حاجت برآری نہیں ،اس وجہ سے قربانی کے باب میں انفع للفقرآء کو دلیل بنانا درست نہیں ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ بات احناف کی ظاہرالروایۃ نہیں ، بلکہ شمس الائمۃ السرخسی ؒنے اسے "امالی"اور ابن نجیم ؒ نے "نوادر " کی روایت قراردیا ہے۔احناف کے ہاں ظاہر الروایۃ یہ ہے کہ کرنسی اورمال تجارت کی قیمت لگانے میں مالک کو اختیار ہے کہ وہ سونے یا چاندی میں سے جس کا بھی اعتبار کرکے اپنے مال تجارت وغیرہ کی قیمت لگانا چاہے لگا سکتا ہے۔اور یہ بات بھی کسی پرمخفی نہیں کہ ظاہر الروایۃ کو امالی اور نوادر کی روایت پرترجیح حاصل ہوتی ہے۔چنانچہ امام السرخسی فرماتے ہیں : وَيُقَوِّمُهَا يَوْمَ حَالَ الْحَوْلُ عَلَيْهَا إنْ شَاءَ بِالدَّرَاهِمِ وَإِنْ شَاءَ بِالدَّنَانِيرِ وَعَنْ أَبِي حَنِيفَةَرَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى فِي الْأَمَالِي أَنَّهُ يُقَوِّمُهَا بِأَنْفَعِ النَّقْدَيْنِ لِلْفُقَرَاءِ وَعَنْ أَبِي يُوسُفَ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّهُ يُقَوِّمُهَا بِمَا اشْتَرَاهَا إنْ كَانَ اشْتَرَاهَا بِأَحَدِ النَّقْدَيْنِ فَيُقَوِّمُهَا بِهِ وَإِنْ كَانَ اشْتَرَاهَا بِغَيْرِ نُقُودٍ قَوَّمَهَا بِالنَّقْدِ الْغَالِبِ فِي الْبَلَدِ وَعَنْ مُحَمَّدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّهُ يُقَوِّمُهَا بِالنَّقْدِ الْغَالِبِ عَلَى كُلِّ حَالٍ. وَجْهُ قَوْلِ مُحَمَّدٍ رَحِمَهُ اللَّهُ تَعَالَى أَنَّ التَّقْوِيمَ فِي حَقِّ اللَّهِ تَعَالَى مُعْتَبَرٌ بِالتَّقْوِيمِ فِي حَقِّ الْعِبَادِ وَمَتَى وَقَعَتْ الْحَاجَةُ إلَى تَقْوِيمِ الْمَغْصُوبِ وَالْمُسْتَهْلَكِ يُقَوَّمُ بِالنَّقْدِ الْغَالِبِ فِي الْبَلَدِ فَهَذَا مِثْلُهُ وَأَبُو يُوسُفَ يَقُولُ الْبَدَلُ مُعْتَبَرٌ بِأَصْلِهِ فَإِنْ كَانَ اشْتَرَى بِأَحَدِ النَّقْدَيْنِ فَتَقْوِيمُهُ بِمَا هُوَ أَصْلُهُ أَوْلَى. وَجْهُ قَوْلِ أَبِي حَنِيفَةَ أَنَّ الْمَالَ كَانَ فِي يَدِ الْمَالِكِ وَهُوَ الْمُنْتَفِعُ بِهِ فِي زَمَانٍ طَوِيلٍ فَلَا بُدَّ مِنْ اعْتِبَارِ مَنْفَعَةِ الْفُقَرَاءِ عِنْدَ التَّقْوِيمِ لِأَدَاءِ الزَّكَاةِ فَيُقَوِّمُهَا بِأَنْفَعِ النَّقْدَيْنِ. أَلَا تَرَى أَنَّهُ لَوْ كَانَ بِتَقْوِيمِهِ بِأَحَدِ النَّقْدَيْنِ يُتِمُّ النِّصَابَ وَبِالْآخِرِ لَا يُتِمُّ فَإِنَّهُ يُقَوَّمُ بِمَا يُتِمُّ بِهِ النِّصَابَ لِمَنْفَعَةِ الْفُقَرَاءِ فَهَذَا مِثْلُهُ. وَجْهُ رِوَايَةِ الْكِتَابِ أَنَّ وُجُوبَ الزَّكَاةِ فِي عُرُوضِ التِّجَارَةِ بِاعْتِبَارِ مَالِيَّتِهَا دُونَ أَعْيَانِهَا، وَالتَّقْوِيمُ لِمَعْرِفَةِ مِقْدَارِ الْمَالِيَّةِ وَالنَّقْدَانِ فِي ذَلِكَ عَلَى السَّوَاءِ فَكَانَ الْخِيَارُ إلَى صَاحِبِ الْمَالِ يُقَوِّمُهَا بِأَيِّهِمَا شَاءَ.۔۔۔۔الخ المبسوط للامام السرخسی،دارالمعرفۃ،بیروت،1414ھ،ج:2،ص:191۔ وإذا كان تقدير النصاب من أموال التجارة بقيمتها من الذهب والفضة وهو أن تبلغ قيمتها مقدار نصاب من الذهب والفضة فلا بد من التقويم حتى يعرف مقدار النصاب ثم بماذا تقوم؟ ذكر القدوري في شرحه مختصر الكرخي أنه يقوم بأوفى القيمتين من الدراهم والدنانير حتى إنها إذا بلغت بالتقويم بالدراهم نصابا ولم تبلغ بالدنانير قومت بما تبلغ به النصاب.وكذا روي عن أبي حنيفة في الأمالي أنه يقومها بأنفع النقدين للفقراء.وعن أبي يوسف أنه يقومها بما اشتراها به فإن اشتراها بالدراهم قومها بالدراهم وإن اشتراها بالدنانير قومها بالدنانير وإن اشتراها بغيرهما من العروض أو لم يكن اشتراها بأن كان وهب له فقبله ينوي به التجارة قومها بالنقد الغالب في ذلك الموضع.وعند محمد يقومها بالنقد الغالب على كل حال وذكر في كتاب الزكاة أنه يقومها يوم حال الحول إن شاء بالدراهم وإن شاء بالدنانير.۔۔۔الخ بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1406ھ،ج:2،ص:21۔ والمذكور في (الأصل) أن المالك مخير في تقويمها بأيهما شاء وعن الإمام في (رواية النوادر) يقومها بالأنفع للفقراء وجعله الشارح مذهب الإمام۔۔۔۔الخ النھرالفائق،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،ج:1،ص:441۔ مذکورہ عبارتوں سے تومعلوم ہوتا ہے کہ مالک کواختیار ہے کہ سونے اور چاندی میں سے جس کو بھی نصاب بناناچاہے بنا سکتا ہے، لیکن ہمارے دور میں سونے اورچاندی کی قیمتوں میں جو بُعدالمشرقین ہے وہ ان فقہائے کرام کے زمانے میں نہیں تھا۔اب اگر چاندی کو نصاب بنا کر ضم بالقیمۃ کا اعتبارکیاجائے توبہت سے نادار لوگوں پر بھی قربانی واجب ہوجائے گی اور اگرسونے کااعتبار کرکے سونے کو نصاب بنایا جائے تو پھر بہت سارے مستطیع بھی قربانی سے بچ جائیں گےاس وجہ سے درمیانی راہ اعتدال یہ ہے کہ چاندی ہی کو نصاب مانتے ہوئے ضم بالاجزاء کااعتبار کیا جائے۔ یہ بات بھی ملحوظ خاطررہے کہ قربانی کے باب میں ضم بالاجزاء کے اعتبار کرنے میں ہم متفرد نہیں ہیں بلکہ ہمارے کئی ایک اکابر علمائے کرام نےقربانی کے حوالے سے ضم بالاجزاء کےقول کو ترجیح دی ہے۔چند ایک حوالہ جات ملاحظہ ہوں: حضرت مولانامفتی غلام قادر نعمانی صاحب (رئیس دارالافتاء جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک)فرماتے ہیں: افتی الفقہاء علیٰ قول ابی حنیفۃ لان قولہ احوط والفتویٰ علیٰ قولہ موافق لاصول الافتاء ،لان الاصل فی العبادات الفتویٰ علیٰ قول ابی حنیفۃ لکن قولھما اوفق للقیاس لان علیٰ قول ابی حنیفۃ یصیر نصاب الذھب تابعا لقیمۃ الفضۃ مع ان القیمۃ تابع للذھب والفضہ فی تعیین النصاب وایضا فی صورۃ الذھب واما علیٰ قولھما فیکون القیمۃ تابعا للذھب والفضۃ ولایکون الموجود تابعا للمعدوم وان قولھما ارفق بالناس فینبغی ان یفتی بقولھما فی ھٰذاالزمان وخصوصا فی مسئلۃ الاضحیۃ ترفقا بالنساء لان اکثر النساء یوجدمعھن شئی من الذھب وھو یساوی نصاب الفضۃ باعتبار القیمۃ وھن لایستعدن لبیع الذھب ولشراء الاضحیہ واذا کان الانضمام بالاجزاء فحینئذ یکون الحکم اسھل علیھن ۔وقول الامام قول المتون۔۔۔۔الخ ترجیح الراجح بالروایۃفی مسائل الھدایۃ ،ج:1،ص:174۔ حضرت مولانا مفتی غلام الرحمٰن صاحب (مہتمم ورئیس دارالافتاء جامعہ عثمانیہ پشاور)فرماتے ہیں: واضح رہے کہ جس مرد یا عورت کے پاس سونااورچاندی یانقدی ہو لیکن کوئی بھی جنس اپنی نصاب تک نہیں پہنچا ہو توسب کو ملا کر ایک نصاب بنایا جائے گا۔اس ملانے کی کیفیت میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اورصاحبین کااختلاف ہے۔امام ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک قیمت کے اعتبار سے ملایا جائے گا جبکہ صاحبین کے نزدیک ان کواجزاء کے اعتبار سے ملایا جائے گا۔فقہ حنفی کی کتابوں میں اگرچہ امام صاحب کا قول مفتیٰ بہ قرار دیا گیا ہے،لیکن موجودہ حالات میں سونے اورچاندی کی قیمتوں کے درمیان پائے جانے والے تفاوت کی وجہ سے امام ابوحنیفہ ؒ کے قول پر عمل کرنے کی صورت میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس لیے حالات کو مدنظر رکھ کرصاحبین کے قول (ضم بالاجزاء)پرفتویٰ دینا زیادہ مناسب ہےتاکہ عام لوگ مشکل میں نہ پڑیں۔علاوہ ازیں خود امام ابوحنیفہؒ سے بھی ایک قول اجزاء کے اعتبار سے ملانےکامروی ہے۔۔۔۔الخ فتاویٰ عثمانیہ،العصراکیڈمی ،مکتبۃ العصر،پشاور،اشاعت ششم،1442ھ،ج:8،ص:322۔ حضرت مولانامفتی رضاء الحق صاحب (شیخ الحدیث وصدرمفتی دارالعلوم زکریا،جنوبی افریقہ)فرماتے ہیں: اور موجودہ دور میں زربام عروج پر ہے جبکہ سیم اسفل السافلین میں ہے جس کی وجہ سے نصاب زکوٰۃ میں دقتیں پیش آتی ہیں۔ اگر سونے کونصاب بنائیں (جیسا کہ ہم نے مفصل تحریرکیا تھا)توعام متوسطین زکوٰۃ،صدقہ ،قربانی وغیرہ سے سبکدوش ہوجائیں گے ،اوراگرچاندی معیار ہو جیسا کہ مشہور اور مفتیٰ بہ قول ہے توہرایک تنخواہ دار پر ان چیزوں کا بار ہوگاجبکہ وہ بال بچوں کی وجہ سے پریشان ہوتا ہے یابیوہ عورتیں اوربالغ لڑکیاں جن کے پاس کچھ زیورات ہوتے ہیں وہ بھی پریشانی کا شکار ہوجائیں گی۔ تو درمیانی راہ یہی ہے کہ صاحبین کے مذھب کے مطابق جوکہ امام ابوحنیفہ ؒ کی ایک روایت ہے دونوں چیزوں یعنی سونا اورچاندی کو باعتبار اجزاء ملا کر نصاب مقررکریں ،توعوام الناس کے لیے زیادہ آسانی ہوگی۔۔۔۔الخ فتاویٰ دارالعلوم زکریا،زم زم پبلشرز،کراچی،اشاعت سوم،2016ء،ج:3،ص:665۔ حضرت مولانا خالدسیف اللہ رحمانی صاحب "جدیدفقہی مسائل"میں تحریرفرماتے ہیں: اگرسونے اور چاندی کی قدر میں وہی تناسب ہوتا جوصدراول میں تھا،تو"ضم نصاب" کامسئلہ عین انصاف ہوتا جیسے کہ احناف کا مسلک ہے کہ اس میں فقراء کا فائدہ بھی ہے۔مگرموجودہ حالات میں جب کہ ان دونوں کی قدرمیں نمایاں فرق پیدا ہوگیا ہے ، ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ اس جزئیہ پر نظرثانی کی جائےاورجمہور کی رائے اختیار کی جائے یا کم ازکم صاحبین کی رائے اختیار کی جائے کہ سونے اورچاندی کے نصاب کا انضمام اجزاء کے لحاظ سے ہو نہ کہ قیمت کے اعتبار سے۔۔۔۔الخ جدید فقہی مسائل،زم زم پبلشرز،کراچی،2010ء،ج:2،ص:103۔ علاوہ ازیں جامعہ دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک،جامعہ امدادالعلوم درویش مسجد پشاوراوردارالایمان جامعہ زکریا کربوغہ شریف جیسے مستند اداروں نے بھی ضم بالاجزاء پرفتویٰ دیا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی