دو بیویوں اور تین چچازاد بھائیوں میں تقسیم میراث

سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسمی ظاہرشاہ ولد ضامن شاہ مورخہ جولائی 2022ءکواس دارفانی سے رحلت فرما چکے ہیں۔ مرحوم کی کوئی اولاد نہیں ہے اورنہ ہی اس کے والدین میں سے کوئی زندہ ہے۔مرحوم کاکوئی بھائی بھی نہیں تھا،صرف ایک بہن تھی جوکہ اس کی زندگی میں ہی فوت ہو چکی ہے۔مرحوم کی دوبیویاں مسماۃ زرین جان اورمسماۃ پرمین ہیں جو کہ ابھی بھی بقید حیات ہیں۔علاوہ ازیں مرحوم کے تین چچازاد بھائی مسمی جان زیب،مسمی اورنگ زیب،مسمی حکیم خان اور تین چچازاد بہنیں بھی اس وقت بقیدحیات ہیں۔مذکورہ صورت حال کوسامنے رکھ کریہ بتائیں کہ مرحوم کی میراث ان مذکورہ ورثاء میں شریعت مطہرہ کی رُو سے کس طرح تقسیم ہوگی۔المستفتیجمیل اکبرگبائی گدون0343-9582899

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب حامداًومصلیاً! صورت مسئولہ کےمطابق مرحوم ظاہرشاہ کے موجودہ ترکے میں سے سب سے پہلے تجہیز وتکفین کاخرچہ نکالنے کے بعد اگر مرحوم کے ذمے کوئی قرض ہوتو اس کو اداکیاجائے گا۔ اس کے بعد اگرمرحوم نے کوئی وصیت کی ہو توکل مال کے تہائی حصہ میں سے وصیت کو نافذ کیاجائے گا۔ پھراس کے بعد بقیہ ترکے کوآٹھ حصوں میں تقسیم کیا جائے گا۔دوحصے مرحوم کی بیویوں مسماۃ زرین جان اورمسماۃ پرمین کے ہوں گے جن میں سے ہرایک بیوی کو ایک ایک حصہ ملے گا۔بقیہ چھ حصے چچازاد بھائیوں کے ہوں گے جن میں سے ہرایک کو دو دو حصے ملیں گے۔چچازاد بھائیوں کی موجودگی میں چچازادبہنیں میراث سےمحروم ہوں گی۔ فیصد کے اعتبار سے ہرایک وارث کاحصہ مندرجہ ذیل ہے: وارث حصہ زرین جان 12.5فیصد پرمین 12.5فیصد جان زیب 25فیصد اورنگ زیب 25فیصد حکیم خان 25فیصد وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ. سورۃ النساء،آیت:12 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَلْحِقُوا الفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا تَرَكَتِ الفَرَائِضُ فَلِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ۔ صحیح بخاری،دارطوق النجاۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،رقم الحدیث:6746۔ وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل والعلم بجهة إرثه، وأسبابه وموانعه۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:758۔ ومن لا فرض لھا من الاناث واخوھا عصبۃ لاتصیر عصبۃ باخیھا۔ السراجی فی المیراث،ص:23۔ ثم العصبات بأنفسهم أربعة أصناف جزء الميت ثم أصله ثم جزء أبيه ثم جزء جده (ويقدم الأقرب فالأقرب منهم) بهذا الترتيب فيقدم جزء الميت (كالابن ثم ابنه وإن سفل ثم أصله الأب ويكون مع البنت) بأكثر (عصبة وذا سهم) كما مر (ثم الجد الصحيح) وهو أبو الأب (وإن علا) وأما أبو الأم ففاسد من ذوي الأرحام (ثم جزء أبيه الأخ) لأبوين (ثم) لأب ثم (ابنه) لأبوين ثم لأب (وإن سفل) تأخير الإخوة عن الجد وإن علا قول أبي حنيفة وهو المختار للفتوى خلافا لهما وللشافعي. قيل وعليه الفتوى (ثم جزء جده العم) لأبوين ثم لأب ثم ابنه لأبوين ثم لأب (وإن سفل ثم عم الأب ثم ابنه ثم عم الجد ثم ابنه) كذلك وإن سفلا فأسبابها أربعة: بنوة ثم أبوة ثم أخوة ثم عمومة (و) بعد ترجيحهم بقرب الدرجة (يرجحون) عند التفاوت بأبوين وأب كما مر۔۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:774۔ وأما العصبة بغيره فأربع من النسوة وهن اللاتي فرضهن النصف والثلثان يصرن عصبة بإخوتهن ومن لا فرض لها من الإناث وأخوها عصبة لا تصير عصبة بأخيها كالعم والعمة فالمال كله للعم دون العمة وابن العم المال لابن العم دون الابنة وكبنت الأخت وابن الأخ المال كله لابن الأخ.۔۔۔الخ البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،ج:8،ص:567 واللہ اعلم بالصواب مفتی ابوالاحراراُتلوی دارالافتاء جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی