تبلیغی جماعت سے وابستہ احباب کے مقولے
سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان ِکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ تبلیغی جماعت سے وابستہ احباب عموماً اپنے بیانات میں یہ جملہ استعمال کیا کرتے ہیں
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق تبلیغی جماعت کے احباب کامذکورہ بالاجملہ شریعت ِمطہرہ کی رو سے بالکل درست ہےاورتین وجوہات کی بناء پرشرح الفقہ الاکبر کی مذکورہ عبارت کی وجہ سے اسے کلمہ کفر کہنا جائز نہیں ہے۔ پہلی وجہ :سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ تبلیغی جماعت کے احباب کی طرف منسوب جملےاور حضرت ملا علی القاریؒ کی عبارت دونوں کی تشریح کی جائے تاکہ جس ابہام کی وجہ سے ان دونوں میں سائل کو تعارض نظرآرہا ہے وہ ابہام دورہوجائے۔تبلیغی جماعت کے احباب کے مذکورہ بالا جملےاور حضرت ملا علی القاری ؒ کی عبارت کی تشریح وتطبیق میں تین احتمالات ہیں: پہلااحتمال: تبلیغی جماعت کے احباب کا یہ کہنا کہ"کچھ بھی نہ تھا مگراللہ تعالیٰ کی ذات موجود تھی اور آئندہ بھی ایک وقت ایسا آئے گا کہ کچھ بھی نہیں ہوگا مگر اللہ تعالیٰ کی ذات ہوگی"یہ درحقیقت اس دنیا کے اعتبارسے ہے۔یہ دنیااللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اورہرمخلوق اپنی تخلیق سے پہلے معدوم ہوا کرتی ہےلہٰذایہ دنیا بھی پہلے معدوم تھی۔بخاری شریف کی ایک روایت میں آیا ہے کہ کان اللہ ولم یکن شیئ غیرہ۔۔۔(صحیح بخاری،رقم الحدیث:3191)اس وجہ سے یہ کہنا درست ہوا کہ "کچھ بھی نہ تھا مگراللہ تعالیٰ کی ذات موجود تھی " کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات واجب الوجود اور قدیم ہے۔اسی طرح آئندہ بھی ایک وقت ایسا آئے گاکہ یہ دنیا فنا ہوجائے گی مگراللہ تعالیٰ کی ذات پھر بھی ہوگی جیساکہ سورۃ الرحمٰن میں ارشاد خداوندی ہے:کل من علیھا فان ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔تویہ کہنا بھی درست ہوا کہ " اور آئندہ بھی ایک وقت ایسا آئے گا کہ کچھ بھی نہیں ہوگا مگر اللہ تعالیٰ کی ذات ہوگی"خلاصہ یہ ہوا کہ تبلیغی احباب کے جملے کا تعلق اس دنیا کےساتھ ہے اور حضرت ملاعلی القاری ؒ نے جنت وجہنم کے فناء کےقول کوکفرکاسبب بنایا ہے ،اورظاہرہے کہ جنت وجہنم اس دنیا میں نہیں ہیں اس وجہ سے دونوں میں کوئی تعارض یاتضاد نہیں ہے۔ دوسرااحتمال:اگر یہ کہا جائے کہ تبلیغی جماعت کے احباب کا یہ جملہ کہ "کچھ بھی نہ تھا مگراللہ تعالیٰ کی ذات موجود تھی اور آئندہ بھی ایک وقت ایسا آئے گا کہ کچھ بھی نہیں ہوگا مگر اللہ تعالیٰ کی ذات ہوگی"صرف اس دنیا کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ عام ہے اور علیٰ الاطلاق جنت وجہنم کو بھی شامل ہے۔تو پھر بھی اسے کلمہ کفر قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ سورۃ القصص میں ارشاد خداوندی ہےکہ "کل شیئ ھالک الاوجھہ"اس آیت کریمہ کی تفسیر میں بعض مفسرین کرام نے یہ لکھا ہے کہ جنت اور جہنم پر بھی فناء آئے گی اگرچہ وہ ایک لمحہ ہی کے لیے کیوں نہ ہو۔چنانچہ علامہ اسماعیل حقی ؒ فرماتے ہیں : کل شیئ من الانسان والحیوان والجن والشیطان والملک والحورالعین والجنۃ والنار والعرش والکرسی ونحوھا (ھالک)والھلاک ھنا بطلان الشیئ من العالم وعدمہ راساًای فان وباطل ومعدوم ولولحظۃ (الاوجھہ)الاذاتہ تعالیٰ فانہ واجب الوجود وکل ماعداء ممکن فی حد ذاتہ عرضۃ للھلاک والعدم۔۔۔۔۔ روح البیان،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:6،ص:443 الفقہ الاکبر کے ایک اور مشہور شارح علامہ ابوالمنتہی احمد بن محمد المغنیساوی الحنفی ؒ فرماتے ہیں : لاتفنیان(ای الجنۃ والنار،اتلوی)ابدا ومعناہ یطرء علیھما الفناء ولکن لایکون فناؤھماابدیابل مؤقتاًلقولہ تعالیٰ:کل شیئ ھالک الا وجھہ۔۔۔ شرح الفقہ الاکبر،مجلس دائرۃ المعارف النظامیۃ،الھند،1321ھ،ص:160 فتاویٰ دارالعلوم حقانیہ میں لکھا ہے کہ: بعض حضرات نے الفاظ کے عموم اورظاہرکو دیکھ کر سب پر فناء ہونے کا حکم لگایا ہےکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سواتمام موجودات پرہلاکت طاری ہوگی حتیٰ کہ جنت،دوزخ وغیرہ بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات بابرکات باقی اور دائمی رہے گی،البتہ جنت وجہنم کے لیے یہ ہلاکت تھوڑی دیر ہوگی دائمی فنا ء نہ ہوگااس لیے کہ ہلاکت دائمی فنا کو مستلزم نہیں۔۔۔۔ فتاویٰ حقانیہ،ج:1،ص:235 اس صورت میں حضرت ملا علی القاری ؒ کی عبارت فناء دائمی پرمحمول ہو گی اور جماعتی احباب کے جملہ میں فناء سے مراد ایک لمحہ کے لیے فناء ہو گی۔اس وجہ سے اس صورت میں بھی دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہوگا۔ تیسرااحتمال:تبلیغی جماعت کے احباب کا یہ جملہ کہ " آئندہ بھی ایک وقت ایسا آئے گا کہ کچھ بھی نہیں ہوگا مگر اللہ تعالیٰ کی ذات ہوگی"یہ فناء بالفعل نہیں بلکہ فناء بالقوۃ ہے۔اس کی وضاحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات قدیم اور واجب الوجود ہے اوراللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ بقیہ تمام مخلوقات حادث اورممکن الوجود ہیں۔قدیم اورواجب الوجود پر عدم کا طاری ہونا محال ہوتا ہے کیونکہ قدیم نہ توبالفعل معدوم ہوسکتا ہے اور نہ ہی بالقوۃ۔اس کے برعکس جوحادث اورممکن ہوتا ہے اس پر عدم طاری ہوسکتا ہو چاہے بالفعل طاری ہوجائے یاچاہے بالقوۃ۔جنت اور جہنم بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور مخلوقات سب کے سب حادث ہیں اور حادث پر عدم طاری ہو سکتا ہے اس وجہ سے بالفعل نہ سہی مگر بالقوۃ تو جنت وجہنم کے فناء ہونے سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔اس صورت میں حضرت ملا علی القاری ؒ کی عبارت بالفعل فناء پرمحمول ہوگی،کیونکہ بالقوۃ جنت وجہنم کے فناء ہونے کا تو خود حضرت ملا علی القاری ؒ بھی قائل ہیں ۔ سورۃ القصص کی آیت مبارکہ"کل شیئ ھالک الا وجھہ"کی تفسیر میں خود حضرت ملا علی القاری ؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ : "کل شیئ ھالک الا وجھہ "الا ذاتہ المقدس عن الفناء،فان ماعداہ ممکن ھالک فی حد ذاتہ معدوم فی نعتہ یساعدہ حدیث:اشعر کلمۃ قالھا قوم لبید :الا کل شیئ ماخلااللہ باطل،ویؤیدہ قول بعض ارباب الشھود :سوی اللہ واللہ مافی الوجود۔۔۔۔ تفسیر الملاعلی القاری،دارالکتب العلمیۃ ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ ،ج:4،ص:110 مذکورہ تینوں احتمالات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جماعتی احباب کے جملے اور شرح الفقہ الاکبر کی عبارت میں کوئی تعارض نہیں ہے ،اور جب تعارض ہی باقی نہ رہا تو پھر حضرت ملا علی القاری ؒ کی عبارت کو بنیاد بنا کر جماعتی احباب کے جملے کو کلمہ کفر کہنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہوسکتا۔ دوسری وجہ:تکفیر مسلم میں احتیاط نہایت ہی ضروری ہے۔ فقہائے کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ اگر کسی کے کلام میں ایک سے زائد احتمالات کاامکان ہو تووہاں پر کفر کافتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔ علامہ علاؤالدین الحصکفی ؒ فرماتے ہیں : اذا کان فی المسئلۃ وجوہ توجب الکفر وواحد یمنعہ فعلی المفتی المیل لما یمنعہ ،ثم لونیتہ ذالک فمسلم والا لم ینفعہ حمل المفتی علیٰ خلافہ۔ حاشیہ ابن عابدین،باب المرتد،دارالثقافۃ والتراث،سوریۃ،الطبعۃ الاولیٰ،2000،ج:13،ص:31 اسی طرح خاتمۃ المحققین علامہ ابن عابدین شامیؒ فرماتے ہیں : فی التتارخانیۃلایکفربالمحتمل لان الکفر نھایۃ فی العقوبۃ فیستدعی نھایۃ فی الجنایۃ ومع الاحتمال لانھایۃ۔والذی تحرر انہ لایفتی بکفر مسلم امکن حمل کلامہ علیٰ محمل حسن۔ حاشیہ ابن عابدین،باب المرتد،دارالثقافۃ والتراث،سوریۃ،الطبعۃ الاولیٰ،2000،ج:13،ص:12 فتاویٰ عالمگیری (الفتاویٰ الھندیۃ)میں لکھا ہے: قول الرجل لااصلی یحتمل اربعۃ اوجہ:احدھا لااصلی لانی صلیت،والثانی:لااصلی بامرک فقد امرنی بھا من ھو خیر منک،والثالث:لااصلی فسقاً مجانۃ فھٰذہ الثلاثۃ لیست بکفر ،والرابع :لااصلی اذلیس یجب علی الصلوٰۃ ولم اومر بھا یکفر ولو اطلق وقال لااصلی لایکفر لاحتمال ھٰذہ الوجوہ۔ الفتاویٰ الھندیۃ،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1421ھ،ج:2،ص:289 فتاویٰ دارالعلوم حقانیہ میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ: واضح رہے کہ مذکورہ الفاظ انتہائی خطرناک ہیں جن سے ایمان زائل ہونے کااندیشہ ہے،تاہم بعید احتمالات کے امکان کی وجہ سے اس پر بصورت یقین کفر کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا ہے اس لیے کہ تکفیر مسلم میں احتیاط نہایت ضروری ہے۔ فتاویٰ حقانیہ،ج:1،ص:215 فتاویٰ فریدیہ میں بھی لکھا ہے کہ محتمل کلام پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔ایک سوال کے جواب میں قطب الاقطاب ،شیخ المشائخ حضرت مولانا مفتی محمد فرید صاحب ؒ فرماتے ہیں : تواس احتمال کے باوجود کفر کا فتویٰ دینا کسی کا مذھب نہیں ہے۔ فتاویٰ فریدیہ،ج:1،ص:98 اکابرکے مذکورہ عبارتوں سے صاف ظاہر ہے کہ جب کسی کلام میں ایک سے زائد احتمالات موجود ہوں تو وہاں پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔تبلیغی جماعت کے احباب کی طرف منسوب جملے میں بھی تین احتمالات موجود ہیں، اور ان احتمالات کے ہوتے ہوئے صرف ظاہری الفاظ دیکھ کر اس جملے کو کلمہ کفر کہنے کی اجازت نہیں ہوسکتی۔ تیسری وجہ: یہ جان لینا چاہیئے کہ شرح الفقہ الاکبر،فتاویٰ عالمگیری،مالابد منہ یادیگر کتب میں جو اس طرح کے کلمات کفر مذکور ہیں، تو ان کا مطلب لزوم کفر کا بیان ہوا کرتا ہے اور تکفیر کے لیے التزام کفر کی ضرورت ہوتی ہے لزوم کفر پر کفر کا فتویٰ نہیں لگتا۔یہی وجہ ہے کہ الفتاویٰ الخیریہ میں لکھا ہے کہ اس طرح کے الفاظ پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔چنانچہ لکھا ہے کہ: والذی تحرر انہ لا یفتی بتکفیر مسلم امکن حمل کلامہ علیٰ محمل حسن او کان فی کفرہ اختلاف ولو روایۃ ضعیفۃ،فعلیٰ ھٰذا فاکثر الفاظ التکفیر المذکورۃ لایفتی بالتکفیر بھا،ولقد الزمت نفسی ان لا افتی بشیئ منھا واللہ اعلم۔ الفتاویٰ الخیریۃ علیٰ ھامش الفتاویٰ تنقیح الحامدیۃ،مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ،ج:1،ص:177 واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجدخان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی سلیمان خیل(جبر)ٹوپی،صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق تبلیغی جماعت کے احباب کامذکورہ بالاجملہ شریعت ِمطہرہ کی رو سے بالکل درست ہےاورتین وجوہات کی بناء پرشرح الفقہ الاکبر کی مذکورہ عبارت کی وجہ سے اسے کلمہ کفر کہنا جائز نہیں ہے۔ پہلی وجہ :سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ تبلیغی جماعت کے احباب کی طرف منسوب جملےاور حضرت ملا علی القاریؒ کی عبارت دونوں کی تشریح کی جائے تاکہ جس ابہام کی وجہ سے ان دونوں میں سائل کو تعارض نظرآرہا ہے وہ ابہام دورہوجائے۔تبلیغی جماعت کے احباب کے مذکورہ بالا جملےاور حضرت ملا علی القاری ؒ کی عبارت کی تشریح وتطبیق میں تین احتمالات ہیں: پہلااحتمال: تبلیغی جماعت کے احباب کا یہ کہنا کہ"کچھ بھی نہ تھا مگراللہ تعالیٰ کی ذات موجود تھی اور آئندہ بھی ایک وقت ایسا آئے گا کہ کچھ بھی نہیں ہوگا مگر اللہ تعالیٰ کی ذات ہوگی"یہ درحقیقت اس دنیا کے اعتبارسے ہے۔یہ دنیااللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اورہرمخلوق اپنی تخلیق سے پہلے معدوم ہوا کرتی ہےلہٰذایہ دنیا بھی پہلے معدوم تھی۔بخاری شریف کی ایک روایت میں آیا ہے کہ کان اللہ ولم یکن شیئ غیرہ۔۔۔(صحیح بخاری،رقم الحدیث:3191)اس وجہ سے یہ کہنا درست ہوا کہ "کچھ بھی نہ تھا مگراللہ تعالیٰ کی ذات موجود تھی " کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات واجب الوجود اور قدیم ہے۔اسی طرح آئندہ بھی ایک وقت ایسا آئے گاکہ یہ دنیا فنا ہوجائے گی مگراللہ تعالیٰ کی ذات پھر بھی ہوگی جیساکہ سورۃ الرحمٰن میں ارشاد خداوندی ہے:کل من علیھا فان ویبقیٰ وجہ ربک ذوالجلال والاکرام۔تویہ کہنا بھی درست ہوا کہ " اور آئندہ بھی ایک وقت ایسا آئے گا کہ کچھ بھی نہیں ہوگا مگر اللہ تعالیٰ کی ذات ہوگی"خلاصہ یہ ہوا کہ تبلیغی احباب کے جملے کا تعلق اس دنیا کےساتھ ہے اور حضرت ملاعلی القاری ؒ نے جنت وجہنم کے فناء کےقول کوکفرکاسبب بنایا ہے ،اورظاہرہے کہ جنت وجہنم اس دنیا میں نہیں ہیں اس وجہ سے دونوں میں کوئی تعارض یاتضاد نہیں ہے۔ دوسرااحتمال:اگر یہ کہا جائے کہ تبلیغی جماعت کے احباب کا یہ جملہ کہ "کچھ بھی نہ تھا مگراللہ تعالیٰ کی ذات موجود تھی اور آئندہ بھی ایک وقت ایسا آئے گا کہ کچھ بھی نہیں ہوگا مگر اللہ تعالیٰ کی ذات ہوگی"صرف اس دنیا کے ساتھ خاص نہیں بلکہ یہ عام ہے اور علیٰ الاطلاق جنت وجہنم کو بھی شامل ہے۔تو پھر بھی اسے کلمہ کفر قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ سورۃ القصص میں ارشاد خداوندی ہےکہ "کل شیئ ھالک الاوجھہ"اس آیت کریمہ کی تفسیر میں بعض مفسرین کرام نے یہ لکھا ہے کہ جنت اور جہنم پر بھی فناء آئے گی اگرچہ وہ ایک لمحہ ہی کے لیے کیوں نہ ہو۔چنانچہ علامہ اسماعیل حقی ؒ فرماتے ہیں : کل شیئ من الانسان والحیوان والجن والشیطان والملک والحورالعین والجنۃ والنار والعرش والکرسی ونحوھا (ھالک)والھلاک ھنا بطلان الشیئ من العالم وعدمہ راساًای فان وباطل ومعدوم ولولحظۃ (الاوجھہ)الاذاتہ تعالیٰ فانہ واجب الوجود وکل ماعداء ممکن فی حد ذاتہ عرضۃ للھلاک والعدم۔۔۔۔۔ روح البیان،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:6،ص:443 الفقہ الاکبر کے ایک اور مشہور شارح علامہ ابوالمنتہی احمد بن محمد المغنیساوی الحنفی ؒ فرماتے ہیں : لاتفنیان(ای الجنۃ والنار،اتلوی)ابدا ومعناہ یطرء علیھما الفناء ولکن لایکون فناؤھماابدیابل مؤقتاًلقولہ تعالیٰ:کل شیئ ھالک الا وجھہ۔۔۔ شرح الفقہ الاکبر،مجلس دائرۃ المعارف النظامیۃ،الھند،1321ھ،ص:160 فتاویٰ دارالعلوم حقانیہ میں لکھا ہے کہ: بعض حضرات نے الفاظ کے عموم اورظاہرکو دیکھ کر سب پر فناء ہونے کا حکم لگایا ہےکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے سواتمام موجودات پرہلاکت طاری ہوگی حتیٰ کہ جنت،دوزخ وغیرہ بھی صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے صرف اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات بابرکات باقی اور دائمی رہے گی،البتہ جنت وجہنم کے لیے یہ ہلاکت تھوڑی دیر ہوگی دائمی فنا ء نہ ہوگااس لیے کہ ہلاکت دائمی فنا کو مستلزم نہیں۔۔۔۔ فتاویٰ حقانیہ،ج:1،ص:235 اس صورت میں حضرت ملا علی القاری ؒ کی عبارت فناء دائمی پرمحمول ہو گی اور جماعتی احباب کے جملہ میں فناء سے مراد ایک لمحہ کے لیے فناء ہو گی۔اس وجہ سے اس صورت میں بھی دونوں میں کوئی تعارض نہیں ہوگا۔ تیسرااحتمال:تبلیغی جماعت کے احباب کا یہ جملہ کہ " آئندہ بھی ایک وقت ایسا آئے گا کہ کچھ بھی نہیں ہوگا مگر اللہ تعالیٰ کی ذات ہوگی"یہ فناء بالفعل نہیں بلکہ فناء بالقوۃ ہے۔اس کی وضاحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ذات قدیم اور واجب الوجود ہے اوراللہ تعالیٰ کی ذات کے علاوہ بقیہ تمام مخلوقات حادث اورممکن الوجود ہیں۔قدیم اورواجب الوجود پر عدم کا طاری ہونا محال ہوتا ہے کیونکہ قدیم نہ توبالفعل معدوم ہوسکتا ہے اور نہ ہی بالقوۃ۔اس کے برعکس جوحادث اورممکن ہوتا ہے اس پر عدم طاری ہوسکتا ہو چاہے بالفعل طاری ہوجائے یاچاہے بالقوۃ۔جنت اور جہنم بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور مخلوقات سب کے سب حادث ہیں اور حادث پر عدم طاری ہو سکتا ہے اس وجہ سے بالفعل نہ سہی مگر بالقوۃ تو جنت وجہنم کے فناء ہونے سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔اس صورت میں حضرت ملا علی القاری ؒ کی عبارت بالفعل فناء پرمحمول ہوگی،کیونکہ بالقوۃ جنت وجہنم کے فناء ہونے کا تو خود حضرت ملا علی القاری ؒ بھی قائل ہیں ۔ سورۃ القصص کی آیت مبارکہ"کل شیئ ھالک الا وجھہ"کی تفسیر میں خود حضرت ملا علی القاری ؒ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ : "کل شیئ ھالک الا وجھہ "الا ذاتہ المقدس عن الفناء،فان ماعداہ ممکن ھالک فی حد ذاتہ معدوم فی نعتہ یساعدہ حدیث:اشعر کلمۃ قالھا قوم لبید :الا کل شیئ ماخلااللہ باطل،ویؤیدہ قول بعض ارباب الشھود :سوی اللہ واللہ مافی الوجود۔۔۔۔ تفسیر الملاعلی القاری،دارالکتب العلمیۃ ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ ،ج:4،ص:110 مذکورہ تینوں احتمالات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جماعتی احباب کے جملے اور شرح الفقہ الاکبر کی عبارت میں کوئی تعارض نہیں ہے ،اور جب تعارض ہی باقی نہ رہا تو پھر حضرت ملا علی القاری ؒ کی عبارت کو بنیاد بنا کر جماعتی احباب کے جملے کو کلمہ کفر کہنا کسی بھی صورت میں جائز نہیں ہوسکتا۔ دوسری وجہ:تکفیر مسلم میں احتیاط نہایت ہی ضروری ہے۔ فقہائے کرام نے یہ صراحت کی ہے کہ اگر کسی کے کلام میں ایک سے زائد احتمالات کاامکان ہو تووہاں پر کفر کافتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔ علامہ علاؤالدین الحصکفی ؒ فرماتے ہیں : اذا کان فی المسئلۃ وجوہ توجب الکفر وواحد یمنعہ فعلی المفتی المیل لما یمنعہ ،ثم لونیتہ ذالک فمسلم والا لم ینفعہ حمل المفتی علیٰ خلافہ۔ حاشیہ ابن عابدین،باب المرتد،دارالثقافۃ والتراث،سوریۃ،الطبعۃ الاولیٰ،2000،ج:13،ص:31 اسی طرح خاتمۃ المحققین علامہ ابن عابدین شامیؒ فرماتے ہیں : فی التتارخانیۃلایکفربالمحتمل لان الکفر نھایۃ فی العقوبۃ فیستدعی نھایۃ فی الجنایۃ ومع الاحتمال لانھایۃ۔والذی تحرر انہ لایفتی بکفر مسلم امکن حمل کلامہ علیٰ محمل حسن۔ حاشیہ ابن عابدین،باب المرتد،دارالثقافۃ والتراث،سوریۃ،الطبعۃ الاولیٰ،2000،ج:13،ص:12 فتاویٰ عالمگیری (الفتاویٰ الھندیۃ)میں لکھا ہے: قول الرجل لااصلی یحتمل اربعۃ اوجہ:احدھا لااصلی لانی صلیت،والثانی:لااصلی بامرک فقد امرنی بھا من ھو خیر منک،والثالث:لااصلی فسقاً مجانۃ فھٰذہ الثلاثۃ لیست بکفر ،والرابع :لااصلی اذلیس یجب علی الصلوٰۃ ولم اومر بھا یکفر ولو اطلق وقال لااصلی لایکفر لاحتمال ھٰذہ الوجوہ۔ الفتاویٰ الھندیۃ،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1421ھ،ج:2،ص:289 فتاویٰ دارالعلوم حقانیہ میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ: واضح رہے کہ مذکورہ الفاظ انتہائی خطرناک ہیں جن سے ایمان زائل ہونے کااندیشہ ہے،تاہم بعید احتمالات کے امکان کی وجہ سے اس پر بصورت یقین کفر کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا ہے اس لیے کہ تکفیر مسلم میں احتیاط نہایت ضروری ہے۔ فتاویٰ حقانیہ،ج:1،ص:215 فتاویٰ فریدیہ میں بھی لکھا ہے کہ محتمل کلام پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔ایک سوال کے جواب میں قطب الاقطاب ،شیخ المشائخ حضرت مولانا مفتی محمد فرید صاحب ؒ فرماتے ہیں : تواس احتمال کے باوجود کفر کا فتویٰ دینا کسی کا مذھب نہیں ہے۔ فتاویٰ فریدیہ،ج:1،ص:98 اکابرکے مذکورہ عبارتوں سے صاف ظاہر ہے کہ جب کسی کلام میں ایک سے زائد احتمالات موجود ہوں تو وہاں پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔تبلیغی جماعت کے احباب کی طرف منسوب جملے میں بھی تین احتمالات موجود ہیں، اور ان احتمالات کے ہوتے ہوئے صرف ظاہری الفاظ دیکھ کر اس جملے کو کلمہ کفر کہنے کی اجازت نہیں ہوسکتی۔ تیسری وجہ: یہ جان لینا چاہیئے کہ شرح الفقہ الاکبر،فتاویٰ عالمگیری،مالابد منہ یادیگر کتب میں جو اس طرح کے کلمات کفر مذکور ہیں، تو ان کا مطلب لزوم کفر کا بیان ہوا کرتا ہے اور تکفیر کے لیے التزام کفر کی ضرورت ہوتی ہے لزوم کفر پر کفر کا فتویٰ نہیں لگتا۔یہی وجہ ہے کہ الفتاویٰ الخیریہ میں لکھا ہے کہ اس طرح کے الفاظ پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔چنانچہ لکھا ہے کہ: والذی تحرر انہ لا یفتی بتکفیر مسلم امکن حمل کلامہ علیٰ محمل حسن او کان فی کفرہ اختلاف ولو روایۃ ضعیفۃ،فعلیٰ ھٰذا فاکثر الفاظ التکفیر المذکورۃ لایفتی بالتکفیر بھا،ولقد الزمت نفسی ان لا افتی بشیئ منھا واللہ اعلم۔ الفتاویٰ الخیریۃ علیٰ ھامش الفتاویٰ تنقیح الحامدیۃ،مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ،ج:1،ص:177 واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجدخان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی سلیمان خیل(جبر)ٹوپی،صوابی