بیوی کے طلاق کو کراچی آنے کے ساتھ معلق کرنا

سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میری بہن حامدہ بی بی کا نکاح مسمی شیرین زادہ کے ساتھ ہوا ہے ۔شیرین زادہ کام کے سلسلے میں کراچی میں تھاوہاں کراچی سے شیرین زادہ نے اپنے والد صاحب یعنی میری بہن کے سسرکو فون کرکے بتایا کہ میری بیوی یعنی حامدہ بی بی کو میرے پاس کراچی بھیج دوتواس کے والد صاحب نے جواب میں کہا کہ آپ کی بیوی کراچی آنے کے لیے تیار نہیں ہے۔شیرین زادہ نے پھر اپنے والد صاحب کو فون کرکے بتایا کہ اگر میری بیوی میرے پاس کراچی نہیں آتی تو پھرمجھ پر طلاق ہے۔جب مجھے پتہ چلا کہ اس نے یہ جملہ کہا ہے تو میں نے اسے فون کرکے گاؤں بلالیااور اس جملہ کے کہنے کے اگلے ہی روز وہ اپنے گاؤں کے لیے روانہ ہوگیا۔گاؤں آکر بھی شیرین زادہ نے کئی لوگوں کے سامنے یہ کہا ہے کہ اگر میری بیوی حامدہ بی بی میرے ساتھ کراچی نہیں جاتی تو مجھ پر طلاق ہے۔اب میری بہن اس کے ساتھ جانے کو تیار ہے مگر سوال یہ ہے کہ کراچی میں ہوتے ہوئے بھی اورگاؤں آکر بھی جو اس نے یہ جملہ بار بار کہا ہے تو کیا اس کی وجہ سے میری بہن پر کوئی طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی لعل بخت شاہ گاؤں بیر گلی (گدون) 0301-3902818

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب

حامداً ومصلیاً!

صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال آپ کی بہن حامدہ بی بی پر ابھی تک کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ہے مگر اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اب اپنے شوہر شیرین زادہ کے ساتھ کراچی چلی جائے ورنہ اگر وہ اپنے شوہر کے ساتھ کراچی نہیں گئی تو پھر اس پر طلاق واقع ہو جائے گی۔

واذا اضافہ الیٰ شرط وقع عقیب الشرط مثل ان یقول لامراتہ:ان دخلت الدار فانت طالق وھٰذا بالاتفاق۔۔۔۔الخ

الھدایۃ،باب الایمان فی الطلاق،مکتبہ رحمانیہ،اردوبازار لاہور،ج:2،ص:398

واذا اضافہ الیٰ الشرط وقع عقیب الشرط اتفاقا مثل ان یقول لامراتہ:ان دخلت الدارفانت طالق۔۔۔۔۔الخ

الفتاویٰ الھندیۃ،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1421ھ،ج:1،ص:457

ولوقال لامراتہ کلمااکلت تمرۃ وجوزۃ فانت طالق فاکل ثلاث تمرات وجوزۃ واحدۃ لایقع الاواحدۃ۔۔۔۔۔الخ

الفتاویٰ الھندیۃ،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1421ھ،ج:1،ص:455

الطلاق المعلق ھومارتب وقوعہ علیٰ حصول امر فی المستقبل باداۃ من ادوات الشرط ای التعلیق مثل ان ومتیٰ ولو ونحوھا کان یقول الرجل لزوجتہ ان دخلت دار فلان فانت طالق اواذا سافرت الیٰ بلدک فانت طالق اوان خرجت من المنزل بغیر اذنی فانت طالق اومتیٰ کلمت فلاناً فانت طالق ۔۔۔۔۔فقال الائمۃ المذاھب الاربعۃ یقع الطلاق المعلق متیٰ وجد المعلق علیہ سواء اکان فعلاً لاحدالزوجین ام کان امرا سماویاً وسواء اکان التعلیق قسمیا وھو الحث علیٰ فعل شئی او ترکہ اوتاکیدالخبر ام شرطیا یقصد بہ حصول الجزاء عند حصول الشرط ۔ ۔

الفقہ الاسلامی وادلتہ،دارالفکر للطباعۃ والتوزیع والنشر،دمشق،الطبعۃ الثانیۃ،1405ھ،ج:7،ص:444،447

ابھی طلاق نہیں ہوئی،کیونکہ زید نے طلاق کو شرط پر معلق کیا ہے ،تنجیز طلاق نہیں ہوئی،لہٰذا تحقق شرط سے پہلے طلاق کا حکم نہیں ہوگا۔اورجس شرط پر تعلیق کی ہے اس کے لیے قید نہیں لگائی کہ اگر فلاں وقت تک نہیں آئے گی تو تجھ کو ایک طلاق،دو طلاق،تین طلاق،بلکہ مطلق رکھا ہے۔اگر بیوی جھگڑے کا فیصلہ ہونے سے پہلے ہی آجاوے توحسب سابق نکاح میں رہے گی، جدید نکاح کی ضرورت نہیں ہوگی۔                    

فتاویٰ محمودیہ،دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی،ج:13،ص:75۔

 

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

مفتی ابوالاحرار اُتلوی

 دارالافتاء

جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی

سلیمان خیل (جبر) ٹوپی صوابی