بدھ کے دن ابتداء والی حدیث کی اسنادی حیثیت
                  سوال :- 
              کیا فرماتے    ہیں مفتیان کرام اس روایت کے بارے میں :آج کل ہمارے  ہاں    دستورہے کہ مدارس  میں بدھ کے دن سے اسباق کی ابتداء کی جاتی ہے اور بطور دلیل یہ حدیث پیش کی جاتی ہے 
            
             
               
                
                جواب :- 
بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب حامدا ومصلیا" علامہ برہان الاسلام الزرنوجی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تعلیم المتعلم میں اپنے شیخ مرغینانی صاحب ہدایہ کے بارے میں نقل کیا ہے کہ وہ بدھ تک سبق کی ابتداء کو روکتے تھے اور اس بارے میں فرماتے تھے کہ آپ ﷺ ارشاد فرماتے تھے کہ جس کام کی ابتداء بدھ کے دن سے ہو وہ پورا ہو جاتا ہے صاحب ہدایہ فرماتے ہیں کہ میرے والد ایسا کرتے تھے پھر صاحب ہدایہ اپنی سند سے قوام احمد بن عبد الرشید سے یہ نقل کرتے ہیں لیکن صاحب ہدایہ نے پوری سند ذکر نہیں کی۔ علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے اس کو المقاصد الحسنہ (1/574ح 943) میں ذکر کرکے فرمایا : "لم أقف له على أصل " اسی طرح امام عراق ؒ نے اپنی کتاب تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة (ج 2ص56 )میں اس حدیث کو بے اصل کہا ہے اور فرماتے ہیں :"وَالْأولَى أَن يلحظ فِي ذَلِك مَا فِي الصَّحِيح من أَن الله عز وَجل خلق النُّور يوْم الْأَرْبعَاء وَالْعلم نور فيتفاءل لتمامه ببداءته يوْم خلق النُّور، إِذْ يأبي الله إِلَّا أَن يتم نوره كَمَا قَالَ جلّ شَأْنه" اس حدیث کو امام مسلمؒ نے صحیح مسلم میں (ج4ص2149) پر نقل کیا ہے " یعنی بہتر ہے کہ یہ صحیح حدیث ملاحظہ ہو کہ اللہ تعالی نے بدھ کے دن اپنے نور کو پیدا کیا اور علم نور ہے لہذا بدھ کے دن ابتداء کرنا نیک فالی ہوگی کہ یہ پایہ تکمیل تک پہنچے گا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی اپنے نور کو ضرور پورا فرماینگے ۔لہذا سنت سمجھ کر بدھ کے دن سے ابتداء کرنا صحیح نہیں ہے ، ایک اور حدیث میں ہے جسکو امام بخاری نے "ادب المفرد "(ج1ص264)میں اورامام احمد نے اپنی "مسند "(ج22ص425)میں حضرت جابر بن عبداللہ سے نقل کیا ہے کہ دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم في هذا المسجد مسجد الفتح يوم الاثنين ويوم الثلاثاء ويوم الأربعاء فاستجيب له بين الصلاتين أي الظهر والعصر من الأربعاء قال جابر ولم ينزل بي أمر مهم إلا توخيت تلك الساعة فدعوت الله فيه بين الصلاتين يوم الأربعاء في تلك الساعة إلا عرفت الإجابةیعنی آپ ﷺ نےمسجد فتح میں پیر ٗ منگل اور بدھ کو دعا کی "چنانچہ بدھ کے دن ظہر اور عصر کے درمیان آپﷺ کی دعا قبول ہوگئ حضرت جابر فرماتے ہیں کہ مجھے جب بھی کوئ اہم بات پیش آتی میں اس گھڑی کا انتظار کرتا اور بروز بدھ اس گھڑی میں دعا کرتا تو میری دعا قبول ہوجاتی " سابقہ تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ یہ حدیث آپﷺسے ثابت نہیں ہے اسلئے آپ ﷺکی جانب منسوب کرنا صحیح نہیں ہے البتہ بدھ کو بعض معتبر روایات کی وجہ سےفضیلت حاصل ہے اسلئےان معتبرروایت سےاستدلال کرتےہوئےبدھ سےابتداءکرنابلاشبہ مستحسن ہےاور بدھ سےابتداءکرناحضرات علماءسلف کامعمول بھی رہا ہے اگرکوئ بدھ کےدن ابتداء کرے یادعامانگے تو نیک فالی کی وجہ سے مستحسن ہے خاص طور پر اگر کوئی ظہر کے بعد دعا مانگے تو قبول ہوجاتی ہے جیسا کہ اس مذکورہ روایت سے صراحۃ ثابت ہے اور حضرت جابرؓکامعمول بھی رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم بالصواب حیدر علی مردان دار الافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی 2023/1/7 الموافق 13/جمادی الثانی/1443ھ الجواب صحیح حضرت مولانا)نور الحق (صاحب دامت برکاتہم العالیہ) ریئس دار الافتاء ومدیر جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ) 2023/1/7 1الموافق23/جمادی الثانی/1443ھ
 
             
            
            
            
جواب :-
بسم اللہ الرحمن الرحیم الجواب حامدا ومصلیا" علامہ برہان الاسلام الزرنوجی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب تعلیم المتعلم میں اپنے شیخ مرغینانی صاحب ہدایہ کے بارے میں نقل کیا ہے کہ وہ بدھ تک سبق کی ابتداء کو روکتے تھے اور اس بارے میں فرماتے تھے کہ آپ ﷺ ارشاد فرماتے تھے کہ جس کام کی ابتداء بدھ کے دن سے ہو وہ پورا ہو جاتا ہے صاحب ہدایہ فرماتے ہیں کہ میرے والد ایسا کرتے تھے پھر صاحب ہدایہ اپنی سند سے قوام احمد بن عبد الرشید سے یہ نقل کرتے ہیں لیکن صاحب ہدایہ نے پوری سند ذکر نہیں کی۔ علامہ سخاوی رحمہ اللہ نے اس کو المقاصد الحسنہ (1/574ح 943) میں ذکر کرکے فرمایا : "لم أقف له على أصل " اسی طرح امام عراق ؒ نے اپنی کتاب تنزيه الشريعة المرفوعة عن الأخبار الشنيعة الموضوعة (ج 2ص56 )میں اس حدیث کو بے اصل کہا ہے اور فرماتے ہیں :"وَالْأولَى أَن يلحظ فِي ذَلِك مَا فِي الصَّحِيح من أَن الله عز وَجل خلق النُّور يوْم الْأَرْبعَاء وَالْعلم نور فيتفاءل لتمامه ببداءته يوْم خلق النُّور، إِذْ يأبي الله إِلَّا أَن يتم نوره كَمَا قَالَ جلّ شَأْنه" اس حدیث کو امام مسلمؒ نے صحیح مسلم میں (ج4ص2149) پر نقل کیا ہے " یعنی بہتر ہے کہ یہ صحیح حدیث ملاحظہ ہو کہ اللہ تعالی نے بدھ کے دن اپنے نور کو پیدا کیا اور علم نور ہے لہذا بدھ کے دن ابتداء کرنا نیک فالی ہوگی کہ یہ پایہ تکمیل تک پہنچے گا جیسا کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالی اپنے نور کو ضرور پورا فرماینگے ۔لہذا سنت سمجھ کر بدھ کے دن سے ابتداء کرنا صحیح نہیں ہے ، ایک اور حدیث میں ہے جسکو امام بخاری نے "ادب المفرد "(ج1ص264)میں اورامام احمد نے اپنی "مسند "(ج22ص425)میں حضرت جابر بن عبداللہ سے نقل کیا ہے کہ دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم في هذا المسجد مسجد الفتح يوم الاثنين ويوم الثلاثاء ويوم الأربعاء فاستجيب له بين الصلاتين أي الظهر والعصر من الأربعاء قال جابر ولم ينزل بي أمر مهم إلا توخيت تلك الساعة فدعوت الله فيه بين الصلاتين يوم الأربعاء في تلك الساعة إلا عرفت الإجابةیعنی آپ ﷺ نےمسجد فتح میں پیر ٗ منگل اور بدھ کو دعا کی "چنانچہ بدھ کے دن ظہر اور عصر کے درمیان آپﷺ کی دعا قبول ہوگئ حضرت جابر فرماتے ہیں کہ مجھے جب بھی کوئ اہم بات پیش آتی میں اس گھڑی کا انتظار کرتا اور بروز بدھ اس گھڑی میں دعا کرتا تو میری دعا قبول ہوجاتی " سابقہ تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ یہ حدیث آپﷺسے ثابت نہیں ہے اسلئے آپ ﷺکی جانب منسوب کرنا صحیح نہیں ہے البتہ بدھ کو بعض معتبر روایات کی وجہ سےفضیلت حاصل ہے اسلئےان معتبرروایت سےاستدلال کرتےہوئےبدھ سےابتداءکرنابلاشبہ مستحسن ہےاور بدھ سےابتداءکرناحضرات علماءسلف کامعمول بھی رہا ہے اگرکوئ بدھ کےدن ابتداء کرے یادعامانگے تو نیک فالی کی وجہ سے مستحسن ہے خاص طور پر اگر کوئی ظہر کے بعد دعا مانگے تو قبول ہوجاتی ہے جیسا کہ اس مذکورہ روایت سے صراحۃ ثابت ہے اور حضرت جابرؓکامعمول بھی رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم بالصواب حیدر علی مردان دار الافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی 2023/1/7 الموافق 13/جمادی الثانی/1443ھ الجواب صحیح حضرت مولانا)نور الحق (صاحب دامت برکاتہم العالیہ) ریئس دار الافتاء ومدیر جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ) 2023/1/7 1الموافق23/جمادی الثانی/1443ھ

 
  
       
  
  
 