ہبہ،اولاد کی تعلیم پر خرچہ اور یتیم پوتے کی میراث سے متعلق سوالات کا شرعی حکم

سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مندرجہ ذیل پانچ مسائل کے بارے میں 1۔میرے والد صاحب 22جون 2023ء کو فوت ہوئے ہیں۔میرے والد نے رُو بہ صحت سال 2001ء میں مجھے اجازت دی کہ گاؤں کا پرانا مکان فروخت کرکے اس رقم سے اپنے لیے گھر بنانے کے لیے پلاٹ خرید لوں۔گاؤں والا مکان 210000 روپے میں 2001ء میں فروخت ہوا۔میں نے والد صاحب کے کہنے پر مزید کچھ رقم لگا کر 250000پر شہر میں 2003ء میں 05مرلہ کا پلاٹ خریدا۔پھرآہستہ آہستہ اس پلاٹ پراپنی ذاتی آمدنی سے مکان بنایا،اس دوران والد صاحب نے بھی کبھی کبھار میری مالی مدد کی۔یہ پلاٹ میں نے 2003ء میں اپنی بیوی کے نام پرخریدا جواب بھی اسی کے نام ہے۔کیا اب جون 2023ء میں والد صاحب کی وفات کے بعد یہ پلاٹ وراثت میں آئے گا جبکہ اس کی رقم والد نے مجھ کو ہبہ کی اور میں نے اس کواپنی بیوی کے نام پلاٹ خرید کرگھربنایا؟یہ سوال اس لیے ہے کہ میری بہن اس پلاٹ اور گھر میں سے حصے کی طلب گار ہے۔ 2۔میں سال 1976-1980میں طالب علم تھا۔میں نے والد کی اجازت سے اپنے نام سال 1976ء میں بندوق لائنسس اور پھر پسٹل لائنسس سال 1978ء میں حاصل کیا۔دونوں لائنسسوں پر 1976ء میں بندوق اور 1978ء میں پسٹل والد کے دیے گئے رقم سے خریدے،جن کے لائنسس فیسیں میں آج تک اداکررہا ہوں۔کیا یہ اسلحہ والد کے ترکہ میں آئے گا؟اوراس میں دوسرے ورثاء(میری بہن) کا شرعی حصہ بنتا ہےجومیری کمائی میں سے حصے کی طلب گار ہے؟ 3۔میں نے والد کی رقم سے خانپور ضلع ہری پور میں کچھ رقبہ خریدا۔یہ رقبہ والد کی اجازت سے سال 2005ء میں مبلغ 135000روپے میں فروخت کیا۔رقم میرے پاس پڑی تھی۔سال 2007ء میں میں نے والد صاحب کو کہا کہ رقبہ خانپور کی رقم مبلغ 135000روپےپڑی ہے،اس کاکیا کروں؟تووالد صاحب نے کہاکہ اس پرحج کرلو۔اس طرح میں نے حج کاداخلہ کیا، حج درخواست منظور ہوئی اور رقم مبلغ 135000روپے اخراجات حج کی مد میں خرچ ہوئے۔کیا اب دیگر ورثاء(میری بہن )کو اس اس رقم مبلغ 135000روہے میں حصہ طلب کرنے کاحق بنتا ہے یا نہیں؟ 4۔میں والد کااکلوتا بیٹا تھا۔میری دو بہنیں تھیں۔والد نے مجھے پڑھایا،کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم دینے پرخرچہ کیا۔آج بہن کہہ رہی ہے کہ آپ پرجوخرچہ ہوا ہے وہ میرے والد کی رقم تھی،لہٰذا اس میں حصہ دیں۔کیا اس طرح بہن کا والد کی وفات کے بعد کوئی حق بنتا ہے؟ 5۔والد صاحب کی زندگی میں میری ایک بہن فوت ہوئی ہے۔کیا اب والد صاحب کی وفات کے بعد مرحومہ بہن کے ورثاء والدصاحب کی وراثت میں حصہ لینے کے حقدار ہیں یا نہیں؟ المستفتی گل حسین ایڈووکیٹ ولد شاہ حسین سکنہ موضع بادہ گدون،تحصیل ٹوپی ضلع صوابی 0309-5185443

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب

حامداً ومصلیاً!

صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال آپ کے پانچوں سوالات کے جوابات حسب ترتیب مندرجہ ذیل ہیں۔

پہلے سوال کاجواب

آپ کے والد مرحوم کے لیے مناسب یہ تھا کہ وہ ہبہ میں اپنی اولادمیں مساوات سے کام لیتے اورجتنا کچھ آپ کو ہبہ میں دیا ہے اتنا آپ کی بہن کو بھی دے دیتے۔شریعت کی روشنی میں ہبہ میں اولاد کے مابین مساوات اور برابری سے کام لیناچاہیئے۔ کسی ایک کوکم دے کرضررپہنچانا اور دوسرے کو زیادہ دے کر فائدہ پہنچانامکروہ تحریمی ہے،البتہ اگرکسی کی شرافت، دینداری، خدمت گزاری،غربت یا کسی اورمعقول وجہ کی بناء کراُسے دوسروں کے مقابلے میں کچھ زیادہ دیا جائے تو بھی درست ہے۔ بہرحال جب آپ کے بقول آپ کے والد صاحب نےگاؤں کے مکان کی رقم آپ کو ہبہ کی ہے اور آپ کے پاس ہبہ کاکوئی ثبوت گواہ(دو مرد یاایک مرد اور دو عورتیں) وغیرہ بھی ہوں جس سے آپ یہ ثابت کر سکیں کہ واقعی آپ کو والد صاحب نے یہ رقم بطور ہبہ کے دی تھی تو اس صورت میں اس مکان میں آپ کے ساتھ آپ کی بہن کا کوئی حصہ نہیں بنتا، کیونکہ سوال کے مطابق آپ نے اپنے ذاتی رقم سے یہ مکان بنایا ہےاور بیوی کے نام کیا ہے۔جہاں تک والد صاحب کی رقم کامعاملہ ہے تو اس کے بارے میں آپ کا دعویٰ چونکہ یہ ہے کہ یہ رقم آپ کو ہبہ میں ملی تھی اور ہبہ پر جب قبضہ ہو جائے تو ہبہ تام ہو جاتا ہے اور وہ چیز موہوب لہ کی ملکیت میں آجاتی ہے۔ لہٰذا اب یہ مکان آپ ہی کی ملکیت ہے اور آپ کی بہن کااس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔اور اگر آپ گواہی کے نہ ہونے کی وجہ سے ہبہ کو ثابت نہیں کر پاتے تو پھر آپ کی بہن (اور دیگر ورثاء اگر کوئی ہوں)سے قسم کیا جائے گا کہ انہیں اس ہبہ کاعلم نہیں ہے۔اور وہ قسم کھانے سے انکار کریں تو آپ کا دعویٰ ثابت ہوجائے گا اور اگر وہ قسم اٹھاتے ہیں  تو اس صورت میں پھریہ مکان والد مرحوم کی ملکیت شمار ہوگی اور اس صورت میں آپ کی بہن آپ کے ساتھ بقدر حصہ شریک ہو گی۔

دوسرے سوال کاجواب

جہاں تک آپ کے دوسرے سوال کاتعلق ہے تو بقول آپ کے" میں سال 1976-1980میں طالب علم تھا۔میں نے والد کی اجازت سے اپنے نام سال 1976ء میں بندوق لائنسس اور پھر پسٹل لائنسس سال 1978ء میں حاصل کیا۔دونوں لائنسسوں پر 1976ء میں بندوق اور 1978ء میں پسٹل والد کے دیے گئے رقم سے خریدے،جن کے لائنسس فیسیں میں آج تک اداکررہا ہوں" آپ نے اپنے نام پربندوق اورپسٹل کالائنسس حاصل کیا ہے لیکن صرف سرکاری کاغذات میں نام کرنے سے ہبہ پرقبضہ متحقق نہیں ہوتااس وجہ سے اگر آپ کے والد صاحب نے یہ بندوق اور پسٹل آپ کو ہبہ یاہدیہ  وغیرہ کے طور پر دیئے ہوں اور آپ نے والد صاحب کے ہبہ کرنے کے بعد ان چیزوں کو اپنے قبضہ میں بھی لیا ہو اور اب حسب سابق آپ ہبہ اور قبضہ دونوں کو ثابت کر پاتے ہوتواس صورت میں یہ دونوں چیزیں آپ کی ہیں ورنہ پھر یہ بھی والد صاحب کی میراث میں شامل ہوں گی۔

تیسرے سوال کاجواب

آپ کے بقول"میں نے والد کی رقم سے خانپور ضلع ہری پور میں کچھ رقبہ خریدا۔یہ رقبہ والد کی اجازت سے سال 2005ء میں مبلغ 135000روپے میں فروخت کیا۔رقم میرے پاس پڑی تھی۔سال 2007ء میں میں نے والد صاحب کو کہا کہ رقبہ خانپور کی رقم مبلغ 135000روپےپڑی ہے،اس کاکیا کروں؟تووالد صاحب نے کہاکہ اس پرحج کرلو۔اس طرح میں نے حج کاداخلہ کیا،حج درخواست منظور ہوئی اور رقم مبلغ 135000روپے اخراجات حج کی مد میں خرچ ہوئے۔کیا اب دیگر ورثاء(میری بہن ) کواس اس رقم مبلغ 135000روہے میں حصہ طلب کرنے کاحق بنتا ہے یا نہیں"اگر حسب سابق آپ ان 135000روپے کے بارے میں یہ ثابت کر پاتے ہو کہ واقعی آپ کے والد مرحوم نے یہ رقم آپ کو ہدیہ اور ہبہ میں دی تھی توپھر چونکہ آپ نے اس رقم پرقبضہ کرکے اسے مصارف حج میں خرچ کیا ہے اس وجہ سے وہ رقم آپ کی ہے اور آپ کی بہن کواس رقم میں مطالبہ کا کوئی حق نہیں ہے اور اگر آپ ان 135000روپے کے بارے میں اپنے دعویٰ ہبہ کوثابت نہیں کر پاتے تو پھرآپ کی ہمشیرہ کے قول کااعتبار ہوگا۔یہاں پر یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ تینوں جوابات میں ہم باربار اس ہبہ کوثابت کرنے والےجملہ کاتکرار اس وجہ سے کررہے ہیں کہ اس وقت آپ کے والد مرحوم کی اولاد میں سے ان کی میراث کے مستحق آپ اور آپ کی بہن ہیں اور مذکورہ بالاتینوں سوالات میں آپ کی بہن آپ کے ہرایک دعویٰ کی تردید کررہی ہے اس وجہ سے آپ کے ساتھ والد صاحب کی میراث میں شریک ہونے کی وجہ سے اس کا آپ کے ہرایک دعویٰ کوجھٹلانا اپنے اندرایک معنی رکھتا ہے اس وجہ سے آپ کے لیے ہبہ کومذکورہ طریقے کے مطابق ثابت کرناضروری ہے۔

چوتھے سوال کاجواب

آپ کاچوتھا سوال" میں والد کااکلوتا بیٹا تھا۔میری دو بہنیں تھیں۔والد نے مجھے پڑھایا،کالج اور یونیورسٹی میں تعلیم دینے پرخرچہ کیا۔آج بہن کہہ رہی ہے کہ آپ پرجوخرچہ ہوا ہے وہ میرے والد کی رقم تھی،لہٰذا اس میں حصہ دیں۔کیا اس طرح بہن کا والد کی وفات کے بعد کوئی حق بنتا ہے؟"اس کاجواب یہ ہے کہ آپ کی بہن کایہ مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔والدصاحب نے آپ کی تعلیم پرزمانہ طالب علمی میں جوبھی خرچ کیا ہے وہ یا تواُن کی شرعی ذمہ داری یازیادہ سے زیادہ اُن کااپنی طرف سے ایک تبرع اور احسان تھا ،اس وجہ سے اس کے معاوضے کے طور پراُن کی وفات کے بعد آپ کی بہن کاآپ سے رقم وغیرہ کامطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔

پانچویں سوال کاجواب

آپ کاپانچواں سوال کہ "والد صاحب کی زندگی میں  میری ایک بہن فوت ہوئی ہے۔کیا اب والد صاحب کی وفات کے بعد مرحومہ بہن کے ورثاء والدصاحب کی وراثت میں حصہ لینے کے حقدار ہیں یا نہیں"تو اس کا جواب یہ ہے کہ وراثت میں حق دار بننے لیے لازمی ہے کہ مورث کے انتقال کے وقت وارث زندہ ہواور جس وارث کاانتقال مورث کی زندگی میں ہوا ہو اس کے ورثاء کومورث کی میراث میں مطالبہ کا حق نہیں ہے۔آپ کی جس بہن کاانتقال آپ کے والد صاحب کی زندگی میں ہوا ہے تو اب اس بہن کے ورثاء کوآپ کے والد صاحب کی میراث میں مطالبے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔

 

 

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ۔                                                                                   سورۃ المائدۃ،آیت:8۔

حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَاللَّفْظُ لَهُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: تَصَدَّقَ عَلَيَّ أَبِي بِبَعْضِ مَالِهِ، فَقَالَتْ أُمِّي عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ: لَا أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقَ أَبِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُشْهِدَهُ عَلَى صَدَقَتِي، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَفَعَلْتَ هَذَا بِوَلَدِكَ كُلِّهِمْ؟قَالَ: لَا، قَالَ:اتَّقُوا اللهَ، وَاعْدِلُوا فِي أَوْلَادِكُمْ ، فَرَجَعَ أَبِي، فَرَدَّ تِلْكَ الصَّدَقَةَ۔

صحیح مسلم،داراحیاء التراث العربی،بیروت،رقم الحدیث:1623۔

فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى۔۔۔الخ

ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،1412ھ،ج:4،ص:444۔

ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة  رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى  أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية۔۔۔الخ                  

الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،1310،ج:4،ص:391۔

عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ كَانَ نَحَلَهَا جَادَّ عِشْرِينَ وَسْقًا مِنْ مَالِهِ بِالْغَابَةِ، فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ: " وَاللَّهِ يَا بُنَيَّةُ مَا مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَحَبُّ إِلَيَّ غِنًى بَعْدِي مِنْكِ، وَلَا أَعَزُّ عَلَيَّ فَقْرًا بَعْدِي مِنْكِ، وَإِنِّي كُنْتُ نَحَلْتُكِ جَادَّ عِشْرِينَ وَسْقًا، فَلَوْ كُنْتِ جَدَدْتِيهِ وَاحْتَزْتِيهِ كَانَ لَكِ. وَإِنَّمَا هُوَ الْيَوْمَ مَالُ وَارِثٍ، وَإِنَّمَا هُمَا أَخَوَاكِ، وَأُخْتَاكِ، فَاقْتَسِمُوهُ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ، قَالَتْ عَائِشَةُ، فَقُلْتُ: يَا أَبَتِ، وَاللَّهِ لَوْ كَانَ كَذَا وَكَذَا لَتَرَكْتُهُ، إِنَّمَا هِيَ أَسْمَاءُ، فَمَنِ الْأُخْرَى؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: ذُو بَطْنِ بِنْتِ خَارِجَةَ، أُرَاهَا جَارِيَةً۔

مؤطا امام مالک،داراحیاء التراث العربی،بیروت،1406ھ،ج:2،ص:752،رقم الحدیث:41۔

(ولنا) إجماع الصحابةرضي الله عنهم فإنه روي أن سيدنا أبا بكر قال في مرض موته لسيدتنا عائشة رضي الله عنها إن أحب الناس إلي غنى أنت وأعزهم علي فقرا أنت وإني كنت نحلتك جداد عشرين وسقا من مالي بالعالية وإنك لم تكوني قبضتيه ولا جذيتيه وإنما هو اليوم مال الوارث اعتبر سيدنا الصديق رضي الله عنه القبض والقيمة في الهبة لثبوت الملك لأن الحيازة في اللغة جمع الشيء المفرق في حيز وهذا معنى القسمة لأن الأنصباء الشائعة قبل القسمة كانت متفرقة والقسمة تجمع كل نصيب في حيز وروي عن سيدنا عمررضي الله عنه قال ما بال أحدكم ينحل ولده نحلا لا يحوزها ولا يقسمها ويقول إن مت فهو له وإن مات رجعت إلي وأيم الله لا ينحل أحدكم ولده نحلى لا يحوزها ولا يقسمها فيموت إلا جعلتها ميراثا لورثته.والمراد من الحيازة القبض هنا

بدائع الصنائع،دارلکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1406ھ،ج:6،ص:120۔

 (وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلا لا، فلو وهب جرابا فيه طعام الواهب أو دارا فيها متاعه، أو دابة عليها سرجه وسلمها كذلك لا تصح وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط لأن كلا منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به لأن شغله بغير ملك واهبه لا يمنع تمامها كرهن وصدقة لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية۔                

الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:5،ص:690۔

وَهِيَ مَشْرُوعَةٌ مَنْدُوبٌ إلَيْهَا بِالْإِجْمَاعِ وَشَرْطُهَا أَنْ يَكُونَ الْوَاهِبُ عَاقِلًا بَالِغًا حُرًّا وَالْمَوْهُوبُ لَهُ مُمَيِّزًا وَالْمَوْهُوبُ مَقْبُوضًا وَرُكْنُهَا الْإِيجَابُ وَالْقَبُولُ۔۔۔۔۔۔ (قَوْلُهُ وَشَرْطُهَا) قَالَ الْأَتْقَانِيُّ وَأَمَّا شَرْطُ جَوَازِهَا فَالْقَبْضُ حَتَّى لَا يَثْبُتَ الْمِلْكُ لِلْمَوْهُوبِ لَهُ عِنْدَنَا قَبْلَ الْقَبْضِ خِلَافًا لِابْنِ أَبِي لَيْلَى وَمَالِكٍ فَإِنَّهُ لَيْسَ بِشَرْطٍ عِنْدَهُمَا وَكَوْنُهَا غَيْرَ مَشَاعٍ إذَا كَانَتْ مِمَّا يَحْتَمِلُ الْقِسْمَةَ۔

تبیین الحقائق وحاشیۃ الشلبی،المطبعۃ الکبریٰ الامیریۃ،الطبعۃ الاولیٰ 1313ھ،ج:5،ص:91۔

الموهوب له إن كان من أهل القبض فحق القبض إليه، وإن كان الموهوب له صغيرا أو مجنونا فحق القبض إلى وليه، ووليه أبوه أو وصي أبيه ثم جده ثم وصي وصيه ثم القاضي ومن نصبه القاضي، سواء كان الصغير في عيال واحد منهم أو لم يكن، كذا في شرح الطحاوي.

الفتاویٰ الہندیہ،دارلفکر،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:4،ص:392۔

ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية.رجل وهب في صحته كل المال للولد جاز في القضاء ويكون آثما فيما صنع، كذا في فتاوى قاضي خان. وإن كان في ولده فاسق لا ينبغي أن يعطيه أكثر من قوته كي لا يصير معينا له في المعصية، كذا في خزانة المفتين.ولو كان ولده فاسقا وأراد أن يصرف ماله إلى وجوه الخير ويحرمه عن الميراث هذا خير من تركه، كذا في الخلاصة.ولو كان الولد مشتغلا بالعلم لا بالكسب فلا بأس بأن يفضله على غيره، كذا في الملتقط.وهبة الأب لطفله تتم بالعقد ولا فرق في ذلك بينما إذا كان في يده أو في يد مودعه بخلاف ما إذا كان في يد الغاصب أو في يد المرتهن أو في يد المستأجر حيث لا تجوز الهبة لعدم قبضه، وكذا لو وهبته أمه وهو في يدها والأب ميت وليس له وصي، وكذا كل من يعوله، كذا في التبيين وهكذا في الكافي.

الفتاویٰ الہندیہ،دارلفکر،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:4،ص:391۔

بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة۔۔۔۔ (وقوله: بخلاف جعلته باسمك) قال في البحر: قيد بقوله: لك؛ لأنه لو قال: جعلته باسمك، لا يكون هبة؛ ولهذا قال في الخلاصة: لو غرس لابنه كرما إن قال: جعلته لابني، يكون هبة، وإن قال: باسم ابني، لا يكون هبة۔

الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:5،ص:689۔

ولو مات الواهب قبل قبض الموهوب له لا يتمكن من قبضه؛ لأنها صارت ملكا للورثة، كذا في فتح القدير.

الفتاویٰ الہندیہ،دارلفکر،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:2،ص:139۔

لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية۔

 الفتاویٰ الہندیہ،دارلفکر،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:4،ص:378۔

ومن حلف على غير فعله يحلف على العلم؛ لأنه لا علم له بما ليس بفعله، ومن حلف على فعل نفسه يحلف على البتات.

بدائع الصنائع،دارلکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1406ھ،ج:05،ص:279۔

(وَعَلَى الْعِلْمِ لَوْ وَرِثَ عَبْدًا فَادَّعَاهُ آخَرُ) أَيْ يَحْلِفُ عَلَى الْعِلْمِ إذَا وَرِثَ عَبْدًا وَادَّعَى آخَرُ أَنَّهُ لَهُ وَلَا يَحْلِفُ عَلَى الْبَتَاتِ؛ لِأَنَّ الْوَارِثَ لَا يَعْلَمُ بِمَا فَعَلَ الْمُوَرِّثُ فَيَمْتَنِعُ عَنْ الْيَمِينِ فَيَلْحَقُهُ بِذَلِكَ ضَرَرٌ وَهُوَ مُحِقٌّ ظَاهِرًا فَلَا يُصَارُ إلَيْهِ دَفْعًا لِلضَّرَرِ عَنْهُ قَالَ - رَحِمَهُ اللَّهُ - (وَعَلَى الْبَتَاتِ لَوْ وُهِبَ لَهُ أَوْ اشْتَرَاهُ) يَعْنِي يَحْلِفُ عَلَى الْبَتَاتِ إنْ كَانَ مَلَكَهُ بِالْهِبَةِ أَوْ بِشِرَائِهِ إيَّاهُ؛ لِأَنَّ الْهِبَةَ وَالشِّرَاءَ سَبَبٌ مَوْضُوعٌ لِلْمِلْكِ بِاخْتِيَارِ الْمَالِكِ وَمُبَاشَرَتِهِ، وَلَوْ لَمْ يَعْلَمْ أَنَّهُ مِلْكٌ لِلْمُمَلَّكِ لَهُ لَمَا بَاشَرَ السَّبَبَ ظَاهِرًا فَيَحْلِفُ عَلَى الْعِلْمِ وَهَذَا؛ لِأَنَّ الْمِلْكَ بِاخْتِيَارِهِ لَا يَكُونُ إلَّا بَعْدَ التَّفَحُّصِ ظَاهِرًا فَيُطْلَقُ لَهُ الْحَلِفُ عَلَى الْبَتَاتِ.فَإِذَا امْتَنَعَ عَمَّا أُطْلِقَ لَهُ يَكُونُ بَاذِلًا أَمَّا الْوَارِثُ، فَإِنَّهُ لَا اخْتِيَارَ لَهُ فِي الْمِلْكِ وَلَا يَدْرِي مَا فَعَلَ الْمُوَرِّثُ فَلَمْ يُوجَدْ مَا يُطْلَقُ لَهُ الْيَمِينُ عَلَى الْبَتَاتِ وَلِأَنَّ الْوَارِثَ خَلَفٌ عَنْ الْمَيِّتِ وَالْيَمِينُ لَا تَجْرِي فِيهَا النِّيَابَةُ فَلَا يَحْلِفُ عَلَى الْبَتَاتِ وَالْمُشْتَرِي وَالْمَوْهُوبُ لَهُ أَصْلٌ بِنَفْسِهِ فَيَحْلِفُ عَلَيْهِ وَالْأَصْلُ فِيهِ أَنَّ الْيَمِينَ مَتَى وَقَعَتْ عَلَى فِعْلِ الْغَيْرِ فَالْيَمِينُ عَلَى الْعِلْمِ وَمَتَى وَقَعَتْ عَلَى فِعْلِ نَفْسِهِ تَكُونُ عَلَى الْبَتَاتِ۔۔۔الخ

تبیین الحقائق،المطبعۃ الکبریٰ،الطبعۃ الاولیٰ،1313ھ،ج:04،ص:303۔

وشروطه: ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة أو تقديرا كالحمل و العلم بجهة إرثه۔

الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:06،ص:758۔

ہبہ کی صحت کے لیے تین امور کاہونا ضروری ہے(1)ایجاب(2)قبول(3)قبض۔لہٰذا اگرباقاعدہ طور پر ان تین امور کا لحاظ رکھتے ہوئے ہبہ ہوچکا ہوتوبلاشک وشبہ وہ زمین کا مالک ہے،سرکاری کاغذات میں انتقال ہونے یا نہ ہونے سے شرعاً ہبہ پرکوئی فرق نہیں پڑتا۔           فتاویٰ حقانیہ،جامعہ دارالعلوم حقانیہ،اکوڑہ خٹک،طبع ہفتم،1431ھ،ج:6،ص:376۔

واللہ اعلم بالصواب

مفتی ابوالاحراراُتلوی

دارالافتاء

جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی

محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی