گھر کے ہبہ یا عاریت پر ہونے میں چچا اور بھتیجے کے اختلاف کا حکم

سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم لوگ کل پانچ بھائی تھے،شادیاں ہونے تک ہم سب ماں باپ کے ساتھ ایک ساتھ رہ رہے تھے۔شادیاں ہوجانے کے بعد بیویوں کی وجہ سے گھر میں ناچاقیاں پیدا ہونے لگیں تو بھائیوں نے گھر چھوڑااورسب الگ الگ ہوکرکرایہ کے گھروں میں رہنے لگے۔اس کے بعد یہ سلسلہ شروع ہوا کہ ہرتین چار دن کے بعد کوئی نہ کوئی بھائی پدری گھرآکرکہتا تھا کہ اس گھرمیں میراحصہ ہے۔پھربات یہاں تک پہنچ گئی ہرکوئی پدری گھرآکرشورمچاتا اوربات گالم گلوچ تک پہنچ جاتی تھی۔آخرکارہمارے والدصاحب نے تنگ آکریہ گھرفروخت کردیا اور اس کے پیسے پانچوں بھائیوں میں برابر تقسیم کردیئے۔میں نے اپنے حصے کے پیسوں سے اپنے لیے گھرخریدا اوروالدین بھی میرے ساتھ میرے گھرمیں رہنے لگے۔ کچھ عرصہ کے بعد ہمارے والد صاحب کاانتقال ہوگیا۔والدہ صاحبہ میرے ساتھ ہی رہ رہی تھی۔والد صاحب کے انتقال کے کچھ عرصہ بعدمیرے بڑے بھائی صاحب کا بھی انتقال ہوگیا۔میری والدہ صاحبہ میرے ساتھ ہی رہ رہی تھی مگروہ بہت سخت مزاج خاتون تھی۔میری بیوی اورمیری والدہ کے مابین اکثرلڑائی جھگڑا رہتا تھا۔اکثر اوقات میرے علم کے مطابق میری بیوی بے گناہ ہوتی تھی مگروالدہ کی خاطرمیں بیوی ہی پرغصہ کیا کرتا تھا اور بسا اوقات پٹائی بھی کرتا تھا۔یہ سلسلہ جب کئی ماہ تک جاری رہا اور ان دونوں کے مابین صلح صفائی کی کوئی صورت بنتی نظر نہیں آئی تو تنگ آکرمیں نے اپنا یہ گھر 1200000بارہ لاکھ روپے میں فروخت کردیا۔ان پیسوں میں سے میں 600000چھ لاکھ روپے سے اپنی والدہ کے لیے ایک الگ پلاٹ خرید کروہاں ایک الگ مکان تعمیر کیا اوروالدہ سے کہا کہ آپ کاسارانان نفقہ میں دیتا رہوں گا مگرآپ اس گھرمیں رہا کرو تاکہ روز روز کے یہ جھگڑے ختم ہوجائیں۔یہ گھرمیں نے خود اپنے ذاتی خرچے پرتعمیر کیا تھا اور گھرمیں نے اپنے لیے ہی بنایا تھا ۔والدہ کوصرف رہنے کے لیے دیا تھا۔جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ والدصاحب کے وفات کے کچھ عرصہ بعد میرے بڑے بھائی کا بھی انتقال ہوگیا تھا تو اس کی اولاد ضائع ہو رہی تھی ،اس وجہ سے والدہ صاحبہ نے ان کو اپنے پاس بلالیا اور وہ دادی کے ساتھ اسی گھرمیں رہنے لگے۔اب دوسال پہلے میری والدہ صاحبہ کا بھی انتقال ہوا ہے۔اب اُس گھر پر جس گھر میں میری والدہ کے ساتھ میرے بھائی کی اولاد رہ رہی تھی ،میرے ایک بھتیجے نے دعویٰ کیا ہے کہ اس گھرمیں میرا بھی حصہ ہے۔پڑوسیوں نے بھی اسے ابھارا ہے کہ یہ گھر تیرے دادی کا ہے اس وجہ سے اس میں تیرا بھی حصہ ہے،حالانکہ وہ گھرمیرا ہے میں نے ذاتی پیسوں سے تعمیر کیا تھا۔والدہ صاحبہ کو صرف رہائش کے لیے دیا تھا۔علاوہ ازیں اس گھر کااسٹامپ پیپر بھی میرے پاس ہے ۔میرابھتیجا اس بات پر ڈٹا ہوا ہے کہ نہیں یہ گھر آپ نے دادی کو دیا تھا اور اس میں میرا بھی حصہ ہے۔شریعت مطہرہ کی روشنی میں مذکورہ صورت حال کومدنظر رکھتے ہوئے یہ بتائیں کہ آیا اس گھرمیں میرے بھتیجے کا حصہ بنتا ہے یا نہیں؟جزاکم اللہ خیراًالمستفتیمحمدسلیممٹونہ ٹوپی(صوابی)0312-9524979

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق (بتقدیر صحت سوال) سارے معاملے کی نوعیت پرغور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کااورآپ کے بھتیجے کااختلاف درحقیقت اس بات میں ہے کہ آپ کادعویٰ یہ ہے کہ آپ نے جومکان تعمیر کرکے اپنی والدہ مرحومہ کو دیا تھا وہ صرف رہائش کے لیے بطور عاریت کے تھا ،بطور ہبہ یا تملیک کے نہیں تھا۔آپ کابھتیجا جو اس مکان میں اپنی دادی کے ساتھ رہ رہا تھا اوراب اس مکان میں حصے کا مطالبہ کررہا ہے درحقیقت اس بات کا مدعی ہے کہ آپ نے یہ مکان اپنی والدہ مرحومہ کو بطور ہبہ اور تملیک کے دیا تھا۔اصل اختلاف اس مکان کاوالدہ صاحبہ کو دینے کی نوعیت میں ہےکہ وہ بطور ہبہ کے تھا یا صرف عاریت کے طور پرتھا۔
عاریت اور ہبہ میں اصل حیثیت ہبہ کی ہے اورآپ کابھتیجا اُسی کادعویٰ کرہاہے لہٰذا آپ کے بھتیجے کی حیثیت مدعی کی ہے اور آپ کی حیثیت مدعیٰ علیہ کی ہے۔اختلاف کی ایسی صورت جہاں مملک یعنی چیز دینے والے اورقابض یعنی چیز لینے والے کااختلاف ہوجائےکہ یہ چیز کس طور پر دی گئی تھی بطور ہبہ،تملیک یا عاریت وغیرہ۔وہ ایسی صورت میں سب سے پہلے چیز لینے والے سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے دعویٰ پر گواہی پیش کرے،اگر وہ شرعاً معتبر گواہ پیش کرتا ہے تواس کا دعویٰ ثابت ہو جائےگا۔اوراگر وہ گواہ پیش نہیں کرسکتا تو فریق مخالف سے قسم کا مطالبہ کیا جائے گا اور قسم کے ساتھ پھراس کے قول کااعتبار ہوتاہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں سب سے پہلے آپ کے بھتیجے سے کہا جائے گا کہ وہ شرعاً معتبر گواہی پیش کرے کہ واقعی یہ مکان آپ نے اپنی والدہ مرحومہ کو بطور ہبہ یا تملیک کے دیا تھا۔اگروہ گواہی پیش کرتا ہے تو پھر اُس کے قول کااعتبار ہوگا۔البتہ یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ اگر آپ نے بھتیجے نے گواہی پیش کی کہ آپ نے یہ مکان اپنی والدہ کو بطور عاریت کے نہیں بلکہ بطور ہبہ یا تملیک کے دیا تھا تواُس صورت میں بیشک آپ کے بھتیجے کے قول کااعتبار ہوگا مگر اُسے گھرمیں حصہ پھر بھی نہیں ملے گا کیونکہ دادی کی میراث میں پوتے کوحصہ نہیں ملتا،بلکہ اس صورت میں یہ گھر آپ سمیت آپ کی والدہ مرحومہ کے دیگر ورثاء میں شریعت کے مقرر کردہ قانون وراثت کے مطابق تقسیم ہوگا،اورچونکہ آپ کا بھائی(دعویٰ کرنے والے بھتیجے کا والد)آپ کی والدہ صاحبہ کی زندگی میں ہی فوت ہوا تھا اس وجہ سے اب آپ کے بھتیجے کو دادی کی وراثت میں حصہ نہیں ملے گا۔
اوراگرآپ کابھتیجا شرعاً معتبرگواہ پیش نہیں کرسکتا توآپ سے قسم کا مطالبہ ہوگا۔اگر آپ اس بات پر قسم اٹھا لیتے ہو کہ واقعی یہ مکان آپ نے اپنی والدہ کو بطور ہبہ یا تملیک کے نہیں دیا تھا بلکہ بطور عاریت کے تھا تو اس صورت میں آپ کے قول کااعتبار ہوگا اور گھرسارا کا سارا آپ کو مل جائے گا،اور دیگر ورثاء کا اس گھر سے کوئی حصہ متعلق نہیں ہوگا۔جہاں تک آپ کے بھتیجے کاسوال ہے تو وہ دونوں صورتوں میں اس گھر میں حصے سے محروم رہے گا۔
حوالہ جات
عن أبي أمامة قال: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول في الخطبة عام حجة الوداع:العارية مؤداة، والزعيم غارم، والدين مقضي۔
سنن الترمذی،مطبعۃ مصطفیٰ البابی،مصر،الطبعۃ الثانیۃ،1395ھ،رقم الحدیث:1265۔
عن ابن عباس:أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى أن اليمين على المدعى عليه۔هذاحديث حسن صحيح والعمل على هذا عند أهل العلم من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، وغيرهم: أن البينة على المدعي، واليمين على المدعى عليه۔
سنن الترمذی،مطبعۃ مصطفیٰ البابی،مصر،الطبعۃ الثانیۃ،1395ھ،رقم الحدیث:1342۔
و إذا مات المستعير أو المعير تبطل الإعارة كما تبطل الإجارة بموت أحد المتقاعدين۔
فتاویٰ قاضی خان،ج:3،ص:233۔
قوله وعارية الثمنين والمكيل والموزون والمعدود قرض ومراده أن إعارة ما لا يمكن الانتفاع به مع بقاء العين قرض ولو كان قيميا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔قيدنا بكونه لا يمكن الانتفاع به مع بقاء عينه لأنه لو أمكن بأن استعار درهما ليعاير به ميزانه كان عارية فليس له الانتفاع بعينه كعارية الحلي۔۔۔۔الخ
البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،ج:7،ص:282۔
وَلَوْ قَالَ مَنَحْتُك هَذِهِ الْجَارِيَةَ كَانَتْ عَارِيَّةً قَالَ فِي الْكَرْخِيِّ إذَا مَنَحَهُ بَعِيرًا أَوْ شَاةً أَوْ ثَوْبًا أَوْ دَارًا فَهِيَ عَارِيَّةٌ، وَإِنْ مَنَحَهُ طَعَامًا أَوْ لَبَنًا أَوْ دَرَاهِمَ فَفِيهِ رِوَايَتَانِ إحْدَاهُمَا هِبَةٌ وَالْأُخْرَى قَرْضٌ وَالْأَصْلُ فِيهِ أَنَّ كُلَّ مَا يُنْتَفَعُ بِهِ لِلسُّكْنَى أَوْ لِلُّبْسِ أَوْ لِلرُّكُوبِ فَهُوَ عَارِيَّةٌ وَكُلُّ مَا لَا يُنْتَفَعُ إلَّا بِأَكْلِهِ أَوْ اسْتِهْلَاكِهِ فَفِيهِ رِوَايَتَانِ.
الجوہرۃ النیرۃ،المطبعۃ الخیریۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1322ھ،ج:1،ص:325۔
قال محمد في الجامع : رجل اشترى من رجل عبداً بألف درهم وقبضه ووهب البائع عبداً آخر للمشتري و سلمه إليه فمات أحد العبدين فجاء المشتري يرد الباقي بالعبد فقال البائع: لم أبعك هذا العبد الذي فات و هذا العبد وهبته منك وقال المشتري: لا بل هذا الحي هو الذي اشتريته منك بألف درهم ولا بينة لواحد منهما كان القول قول البائع مع يمينه؛ لأن المشتري يدعي فسخ البيع في العبد الحي والبائع ينكر، ولأن المملك هو البائع فيكون القول قوله في بيان سبب الملك أني ملكت هذا العبد بالهبة ولو لم يجد المشتري بالعبد عيناً ولكن أراد البائع الرجوع في الهبة وقال: إن الحي هو الذي وهبته وأنكر المشتري فالقول قول البائع لما قلنا من المعنى الثاني، وإذا رجع فيه كان للمشتري أن يرجع على البائع بالثمن الذي نقده لأنا إنما جعلنا القول قول البائع في كيفية تمليك العبد باعتبار أن تمليك العبد استفيد من جهته وتمليك الثمن وجد من جهة المشتري فوجب أن يقبل قوله كيفية تمليك الثمن أيضاً۔۔۔۔۔الخ
المحیط البرہانی،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1424ھ،ج:6،ص:463۔
وَأَمَّا صِفَةُ الْحُكْمِ فَهِيَ أَنَّ الْمِلْكَ الثَّابِتَ لِلْمُسْتَعِيرِ مِلْكٌ غَيْرُ لَازِمٍ؛ لِأَنَّهُ مِلْكٌ لَا يُقَابِلُهُ عِوَضٌ، فَلَا يَكُونُ لَازِمًا كَالْمِلْكِ الثَّابِتِ بِالْهِبَةِ، فَكَانَ لِلْمُعِيرِ أَنْ يَرْجِعَ فِي الْعَارِيَّةِ سَوَاءٌ أَطْلَقَ الْعَارِيَّةَ أَوْ وَقَّتَ لَهَا وَقْتًا، وَعَلَى هَذَا إذَا اسْتَعَارَ مِنْ آخَرَ أَرْضًا لِيَبْنِيَ عَلَيْهَا أَوْ لِيَغْرِسَ فِيهَا، ثُمَّ بَدَا لِلْمَالِكِ أَنْ يُخْرِجَهُ فَلَهُ ذَلِكَ سَوَاءٌ كَانَتْ الْعَارِيَّةُ مُطْلَقَةً أَوْ مُوَقَّتَةً، لِمَا قُلْنَا غَيْرَ أَنَّهَا إنْ كَانَتْ مُطْلَقَةً لَهُ أَنْ يُجْبِرَ الْمُسْتَعِيرَ عَلَى قَلْعِ الْغَرْسِ وَنَقْضِ الْبِنَاءِ؛ لِأَنَّ فِي التَّرْكِ ضَرَرًا بِالْمُعِيرِ؛ لِأَنَّهُ لَا نِهَايَةَ لَهُ، وَإِذَا قَلَعَ وَنَقَضَ لَا يَضْمَنُ الْمُعِيرُ شَيْئًا مِنْ قِيمَةِ الْغَرْسِ وَالْبِنَاءِ؛ لِأَنَّهُ لَوْ وَجَبَ عَلَيْهِ الضَّمَانُ لَوَجَبَ بِسَبَبِ الْغُرُورِ، وَلَا غُرُورَ مِنْ جِهَتِهِ، حَيْثُ أَطْلَقَ الْعَقْدَ وَلَمْ يُوَقِّتْ فِيهِ وَقْتًا فَأَخْرَجَهُ قَبْلَ الْوَقْتِ، بَلْ هُوَ الَّذِي غَرَّرَ نَفْسَهُ حَيْثُ حَمَلَ الْمُطْلَقَ عَلَى الْأَبَدِ۔۔۔۔الخ
بدائع الصنائع،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1406ھ،ج:6،ص:216۔
قَالَ: وَمَا سِوَى ذَلِكَ مِنْ الْحُقُوقِ يُقْبَلُ فِيهَا شَهَادَةُ رَجُلَيْنِ أَوْ رَجُلٍ وَامْرَأَتَيْنِ سَوَاءٌ كَانَ الْحَقُّ مَالًا أَوْ غَيْرَ مَالٍ مِثْلُ النِّكَاحِ وَالطَّلَاقِ وَالْعَتَاقِ وَالْعِدَّةِ وَالْحَوَالَةِ وَالْوَقْفِ وَالصُّلْحِ وَالْوَكَالَةِ وَالْوَصِيَّةِ وَالْهِبَةِ وَالْإِقْرَارِ وَالْإِبْرَاءِ وَالْوَلَدِ وَالْوِلَادِ وَالنَّسَبِ وَنَحْوِ ذَلِكَ۔۔۔۔الخ
فتح القدیر،دارالفکر،بیروت،ج:7،ص:370۔
تُرَجَّحُ بَيِّنَةُ الْخَارِجِ أَيْضًا عَلَى بَيِّنَةِ ذِي الْيَدِ فِي دَعَاوَى الْمِلْكِ الْمُقَيَّدِ بِسَبَبٍ قَابِلٍ لِلتَّكَرُّرِ. وَلَمْ يُبَيَّنْ فِيهَا التَّارِيخُ كَالشِّرَاءِ لِكَوْنِهَا فِي حُكْمِ دَعْوَى الْمِلْكِ الْمُطْلَقِ وَلَكِنْ إذَا ادَّعَى كِلَاهُمَا بِأَنَّهُمَا تَلَقَّيَا الْمِلْكَ مِنْ شَخْصٍ وَاحِدٍ تُرَجَّحُ بَيِّنَةُ ذِي الْيَدِ. مَثَلًا إذَا ادَّعَى أَحَدٌ عَلَى آخَرَ الْحَانُوتَ الَّذِي فِي يَدِهِ بِأَنَّهُ مِلْكِي , وَأَنَا اشْتَرَيْته مِنْ زَيْدٍ وَحَالّ كَوْنِهِ مِلْكِي بِهَذِهِ الْجِهَةِ وَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهِ هَذَا الرَّجُلُ بِغَيْرِ حَقٍّ وَقَالَ ذُو الْيَدِ: اشْتَرَيْته مِنْ بَكْرٍ أَوْ هُوَ مَوْرُوثٌ مِنْ وَالِدِي وَبِهَذِهِ الْجِهَةِ قَدْ وَضَعْت يَدِي عَلَيْهِ تُرَجَّحُ بَيِّنَةُ الْخَارِجِ وَتُسْمَعُ وَلَكِنْ إذَا قَالَ ذُو الْيَدِ أَنَا اشْتَرَيْت الْحَانُوتَ مِنْ زَيْدِ تُرَجَّحُ بَيِّنَةُ ذِي الْيَدِ عَلَى بَيِّنَةِ الْخَارِجِ بِهَذَا الْحَالِ.
مجلۃ الاحکام العدلیۃ،نورمحمد کتب خانہ،آرام باغ،کراچی،ج:1،ص:358،المادۃ:1758۔
وأما بيان الوقت الذي يجري فيه الإرث فنقول هذا فصل اختلف المشايخ فيه قال مشايخ العراق الإرث يثبت في آخر جزء من أجزاء حياة المورث وقال مشايخ بلخ الإرث يثبت بعد موت المورث۔۔۔الخ
البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،ج:8،ص:557۔

واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی
فتویٰ نمبر:43/1444
تاریخ اجراء:16/04/2023