گڈ ول اور ٹھیے کی قیمت لینے کا شرعی حکم

سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نے عمرو سے کہا کہ میں آپ کے لیے دوکان کھولتا ہوں ،پیسے میری طرف سے ہوں گےاور دوکان میں تم بیٹھوگے اور جونفع ہوگا وہ ہم دونوں کے درمیان آدھا آدھا ہوگا۔(یعنی زید رب المال ،عمرو مضارب اور یہ معاملہ عقد مضاربت کاتھا)زید نے دوکان کے مالک کو دس لاکھ روپے بطور پگڑی کے ادا کیے اوردوکان دس لاکھ روپے سے شروع کیا۔ دو سال بعد آٹھ لاکھ کامنافع ہوا جو دونوں نے آپس میں آدھا آدھا تقسیم کیا۔ اب عمرو چاہتا ہے کہ اس مضاربت کے معاملے کوختم کرےاور سارا دوکان خود لے لے۔عمرو زید سے کہتا ہے کہ میں آپ کو دس لاکھ پگڑی والے اور دس لاکھ سامان کے دیتا ہوں اور آپ یہ دوکان مجھے دیجیئے۔زید عمروسے کہتا ہے کہ آپ مجھے پگڑی کے دس لاکھ اور سامان کے دس لاکھ کے علاوہ دس لاکھ اور بھی دوگے یعنی کل تیس لاکھ روپے دوگے توتب میں یہ دوکان آپ کو دوں گا۔زید کا عمرو سے کہنا یہ ہے کہ یہ مزید دس لاکھ میں اس وجہ سے مانگ رہا ہوں کہ میں آپ کو اپناکاروبارچھوڑ رہا ہوں،اپناگاہک یعنی خریدار آپ کو چھوڑ رہا ہوں،میں نے آپ کو مارکیٹ میں متعارف کروایا ہے اس وجہ سے لے رہا ہوں ،میرے ہی پیسوں سے یہ دوکان اور کاروبار چل پڑا ہے اس وجہ سے لیتا ہوں۔ سوال یہ ہے کہ ان مذکورہ بالا باتوں کی وجہ سے کیا زید کے لیے عمرو سے یہ اضافی دس لاکھ روپے لینا جائز ہے یا نہیں؟شریعت کی روشنی میں جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی محمد نفیس حقانی ٹوپی

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب

حامداً ومصلیاً!

صورت مسئولہ کے مطابق زید کے لیے عمروسے یہ اضافی دس لاکھ روپے لینا جائز نہیں ہے۔زید کا عمرو سے یہ کہنا " کہ یہ مزید دس لاکھ میں اس وجہ سے مانگ رہا ہوں کہ میں آپ کو اپناکاروبارچھوڑ رہا ہوں،اپناگاہک یعنی خریدار آپ کو چھوڑ رہا ہوں،میں نے آپ کو مارکیٹ میں متعارف کروایا ہے اس وجہ سے لے رہا ہوں ،میرے ہی پیسوں سے یہ دوکان اور کاروبار چل پڑا ہے اس وجہ سے لیتا ہوں۔"اضافی دس لاکھ روپے لینے کے جواز کاسبب نہیں بن سکتا کیونکہ زید کا یہ کہنا کہ" میرے ہی پیسوں سے یہ دوکان اور کاروبار چل پڑا ہے"یہ بات تو اس وجہ سے اضافی دس لاکھ روپے لینے کا سبب نہیں  بن سکتی کہ زید اور عمرو کے مابین یہ معاملہ عقد مضاربت کا تھا اور مضاربت میں پیسے رب المال  کے ہوتے ہیں اور یہاں رب المال زید ہی تھااور زید کا یہ کہنا کہ" کہ یہ مزید دس لاکھ میں اس وجہ سے مانگ رہا ہوں کہ میں آپ کو اپناکاروبارچھوڑ رہا ہوں،اپناگاہک یعنی خریدار آپ کو چھوڑ رہا ہوں،میں نے آپ کو مارکیٹ میں متعارف کروایا ہے اس وجہ سے لے رہا ہوں "اس وجہ سےاضافی رقم لینے کے جواز کا سبب نہیں بن سکتا کہ یہ بظاہر گڈوِل اورٹھیےکی قیمت لینا ہے اور گڈوِل فی نفسہ کوئی ایسی چیز نہیں کہ شرعاً اس کی خرید وفروخت ہوسکے بلکہ یہ صرف ایک عرفی حیثیت اور کاروباری شہرت ہوتی ہے ۔تاجروں کے ہاں جو ٹھیے اور گڈوِل کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں یہ درحقیقت حقوق مجردۃ ہی ہوتے ہیں اور بقول شیخ الاسلام حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم العالیہ  جب تک گڈوِل کی سرکاری  اور قانونی طور پر رجسٹریشن نہیں ہوتی تب تک مستقل طور پراس کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے،اور یہاں صورت مسئولہ میں مارکیٹ کے اندر صرف ایک دوکان کی شہرت کا سوال ہے جس کی زید کے نام کوئی ٹریڈمارک وغیرہ بھی رجسٹرڈ نہیں ہے اور نہ ہی اس کوسرکار کے قانون میں کاروباری رجسٹریشن کی حیثیت حاصل ہے اس وجہ سے اس بات کو بنیاد بنا کر زید عمرو سے اضافی دس لاکھ کی رقم نہیں لے سکتا۔البتہ بائع اورمشتری باہمی رضامندی اور خوشی سے مبیع کی جو بھی  مقرر کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں ،اس وجہ سے گڈوِل اور ٹھیہ وغیرہ کی قیمت دس لاکھ روپے لینے کی بجائے دونوں باہمی رضامندی سےاگرسامان کی قیمت دس لاکھ سے زیادہ لگائیں تواس کی گنجائش ہے۔

الحقوق المجردة لا يجوز الاعتياض عنها.

الاشباہ والنظائر،دارالکتب العلمیہ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1419ھ،ج:01،ص:178۔

وفي الأشباه لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة كحق الشفعة وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف(وقال الشامی) مطلب: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة (قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها. أقول: وكذا لا تضمن بالإتلاف قال: في شرح الزيادات للسرخسي وإتلاف مجرد الحق لا يوجب الضمان؛ لأن الاعتياض عن مجرد الحق باطل إلا إذا فوت حقا مؤكدا، فإنه يلحق بتفويت حقيقة الملك في حق الضمان كحق المرتهن؛ ولذا لا يضمن بإتلاف شيء من الغنيمة أو وطء جارية منها قبل الإحراز؛ لأن الفائت مجرد الحق وإنه غير مضمون، وبعد الإحراز بدار الإسلام، ولو قبل القسمة يضمن لتفويت حقيقة الملك ويجب عليه القيمة في قتله عبدا من الغنيمة يعد الإحراز في ثلاث سنين بيري، وأراد بقوله لتفويت حقيقة الملك الحق المؤكد إذ لا تحصل حقيقة الملك إلا بعد القسمة كما مر۔           ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:04،ص:518۔

ویبدولھٰذا العبدالضعیف عفااللہ عنہ:ان حق الاسم التجاری والعلامات التجاریۃ ،وان کان فی الاصل حقا مجردا غیرثابت فی عین قائمۃ ،ولکنہ بعدالتسجیل الحکومی الذی یتطلب جھدا کبیرا وبذل اموال جمۃ،والذی تحصل لہ بعد ذالک صفۃ قانونیۃ تمثلھا شھادات مکتوبۃ بیدالحامل وفی دفاتر الحکومۃ ،اشبہ الحق المستقر فی العین،والتحق فی عرف التجار باالاعیان فینبغی ان یجوز الاعتیاض عنہ علیٰ وجہ البیع ایضاً۔

فقہ البیوع،مکتبۃ معارف القرآن کراچی،1443ھ،ج:01،ص:266۔

گڈوِل یعنی نام درحقیقت مال نہیں بلکہ بمنزلہ حیثیت عرفیہ کی ہے جس کی کوئی قیمت نہیں ،قانون نے اس کو جو کچھ حیثیت دی ہے وہ شریعت کی رو سے فتویٰ لے کر نہیں دی ہے،اس لیے یہ باہمی رضامندی سے معاملہ طے کرلیا جائے۔

فتاویٰ محمودیہ،دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی،ج:16،ص:178۔

حقوق گڈوِل کی تنہا قیمت کچھ نہیں۔ہاں یہ درست ہے کہ حقوق گڈ وِل کی وجہ سے مجموعی دوکان کی قیمت زیادہ شمارکی جائے مگرچونکہ تنہا یہ حقوق شرعاً قیمتی نہیں اس لیے یہ جائز نہیں کہ ایک شریک کو صرف حقوق گڈوِل کی وجہ سے ایک لاکھ کا شریک مانا جائے بلکہ اس کی طرف سے تھوڑا بہت مال بھی ہو جس کی قیمت حقوق گڈول کی وجہ سے زیادہ شمار کی جائے۔

امدادالاحکام،مکتبہ دارالعلوم کراچی،ج:03،ص:453۔

واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب

مفتی ابوالاحراراُتلوی

دارالافتاء

جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی

محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی