کسی اور کے صحت کارڈ پر علاج کا شرعی حکم

سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرا بھتیجا (لقمان)جس کی عمر تقریباً دس سال ہے،اورایک دینی مدرسے کا طالب علم ہے،اسے دل کی بیماری کی شکایت ہے۔ڈاکٹر نے اس کے آپریشن کاکہا ہےجس پر تقریباً تین لاکھ سے زیادہ خرچہ آتاہے۔ ہماراتعلق گندف کیمپ سے ہےاورہماری مالی حیثیت کمزور ہے۔ڈاکٹر کاکہناہے کہ اگرکوئی قباحت اورگناہ نہ ہواورشریعت اجازت دیتی ہو تومیں اس بچے کاآپریشن کسی اور کے صحت کارڈ پر کرلوں گا،جس کاطریقہ کار یہ ہوگا کہ پشاور کاایک آدمی پیپرورک اوردیگر پراسس میں اس کواپنابیٹا ظاہر کردے گا۔پوچھنا یہ ہے کہ کیاشریعت مطہرہ کی رُو سے اس طرح کرنے کی گنجائش ہے یا نہیں؟المستفتینورفات خان 0311-9210072

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق اس بچے کا علاج کسی اور کے صحت کارڈ پر کرنا مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر جائز نہیں ہے: پہلی وجہ:جیسا کہ سوال میں بتایا گیا ہے کہ اس مریض بچے کا تعلق گندف کیمپ سے ہے تو افغانی ہونے کی وجہ سے وہ خیبرپختونخوا کا ڈومیسائل ہولڈرنہیں ہےجبکہ یہ سہولت صرف پاکستانی باشندگان کے لیے ہے۔ خیبرپختونخوا کے صحت کارڈ پر علاج کی سہولت کے لیے گورنمنٹ کی طرف سے یہ لازمی شرط ہے کہ مریض خیبر پختونخواکا مستقل رہائشی ہو، اور نادرا کے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ یا فارم "ب"پراس کامستقل پتہ خیبرپختونخوا کا ہو۔یہی وجہ ہے کہ انصاف کارڈ والے مریض کا ریکارڈ نادرا سے ویریفائی کرواتے ہیں ۔ صحت کارڈ کے معلوماتی کتابچہ میں لکھا ہے: "اس پروگرام میں صوبہ کے وہ تمام افراد جن کا نادرا ریکارڈ کے مطابق مستقل پتہ صوبہ خیبرپختونخوا کا ہے کو شامل کیا جا رہا ہے"آگے جاکر ایک اورمقام پر لکھا ہے "اس پروگرام کے تحت ہسپتال میں داخلے اور علاج کے لیے صرف وہی افراد مستحق ہیں جن کے قومی شناختی کارڈ میں مستقل پتہ خیبرپختونخواکا ہو"۔ معلوماتی کتابچہ،محکمہ صحت حکومت خیبرپختونخوا،زونل پروجیکٹ آفس،پشاور،ص:2،7۔ دوسری وجہ:جب ایک افغان باشندہ گورنمنٹ آف پاکستان کے نادرا میں رجسٹریشن کرکے افغان سیٹیزن والا کارڈ بنواتا ہے تو وہ یہ وعدہ کرتا ہے کہ گورنمنٹ آف پاکستان کےقوانین کی پابندی کروں گا ۔صورت مسئولہ میں اس وعدے کی بھی خلاف ورزی پائی جاتی ہےکہ یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ اس پروگرام کے لیے اہل نہیں ہے مگر پھر بھی اس سہولت کے حصول کی کوشش کرتا ہے۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَوْفُوا بِالْعُقُودِ أُحِلَّتْ لَكُمْ بَهِيمَةُ الْأَنْعَامِ إِلَّا مَا يُتْلَى عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّي الصَّيْدِ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ إِنَّ اللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ۔ سورۃ المائدۃ،آیت:1۔ حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الخَلَّالُ قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ العَقَدِيُّ قَالَ: حَدَّثَنَا كَثِيرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ المُزَنِيُّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:الصُّلْحُ جَائِزٌ بَيْنَ المُسْلِمِينَ، إِلَّا صُلْحًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا، وَالمُسْلِمُونَ عَلَى شُرُوطِهِمْ، إِلَّا شَرْطًا حَرَّمَ حَلَالًا، أَوْ أَحَلَّ حَرَامًا۔ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ۔ سنن الترمذی،مطبعۃمصطفیٰ البابی،مصر،الطبعۃ الثانیۃ،1395ھ،رقم الحدیث:1352۔ تیسری وجہ:ڈاکٹر صاحب کا یہ جانتے ہوئےبھی کہ یہ ایک غیر قانونی عمل ہے ،پھر بھی اس پرراضی ہونانہ صرف ملکی قانون کی خلاف ورزی ہے بلکہ اپنے پیشے سے بھی خیانت کے مترادف ہے۔ملکی قوانین کی تابعداری واجب اور خلاف ورزی گناہ ہے۔اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مفتی رشید احمد لدھیانویؒ فرماتے ہیں: "امور مباحہ میں حکومت کے قوانین کی خلاف ورزی سخت گناہ ہے"۔ احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید،کراچی،طبع چہارم،1425ھ،ج:8،ص:217۔ چوتھی وجہ:اگرڈاکٹر صاحب یاصحت کارڈ کے ملازم کے اس عمل کا افسران بالا کو پتہ چلا تویہ اُن کے لیے شرمندگی کا باعث بن جائے گا اور کسی جرم قانونی کا مرتکب ہوکر اپنے آپ کو ذلت اور سزا کے لیے پیش کرنے کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ الحَسَنِ، عَنْ جُنْدَبٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يُذِلَّ نَفْسَهُ قَالُوا: وَكَيْفَ يُذِلُّ نَفْسَهُ؟ قَالَ:يَتَعَرَّضُ مِنَ البَلَاءِ لِمَا لَا يُطِيقُ۔ سنن الترمذی،مطبعۃمصطفیٰ البابی،مصر،الطبعۃ الثانیۃ،1395ھ،رقم الحدیث:2254۔ وَإِذْلَالُ النَّفْسِ حَرَامٌ، قَالَ: صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يُذِلَّ نَفْسَهُ۔ المبسوط للسرخسی،دارالمعرفۃ،بیروت،1414ھ،ج:5،ص:23۔ "جان وعزت کو خطرہ میں ڈالنا جائز نہیں"۔ احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید،کراچی،طبع چہارم،1425ھ،ج:8،ص:217۔ پانچویں وجہ:جب پشاور والا آدمی اس بچے کو کاغذی کاروائی میں اپنا بیٹا ظاہر کرے گاتو یہ جھوٹ اوردھوکہ ہےجوکہ گناہ کبیرہ ہیں۔ حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى البِرِّ، وَإِنَّ البِرَّ يَهْدِي إِلَى الجَنَّةِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ حَتَّى يَكُونَ صِدِّيقًا. وَإِنَّ الكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الفُجُورِ، وَإِنَّ الفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا۔ صحیح البخاری،دارطوق النجاۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،رقم الحدیث:6094۔ وقوله الحرب خدعة معناه إباحة الخداع في الحرب وإن كان محظورا في غيرها من الأمور۔ معالم السنن،المطبعۃ العلمیۃ،حلب،الطبعۃ الاولیٰ،1351ھ،ج:2،ص:269۔ چھٹی وجہ:سرکاری کاغذات میں جب پشاور والا آدمی اس بچے کو اپنا بیٹا ظاہر کرے گا تو اس بچے کے نسب کو بدلنا ہے،جس کی شریعت میں اجازت نہیں ہے۔ حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ هُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ، عَنْ سَعْدٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:مَنِ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهُ غَيْرُ أَبِيهِ، فَالْجَنَّةُ عَلَيْهِ حَرَامٌ۔ صحیح البخاری،دارطوق النجاۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،رقم الحدیث:6766۔ ساتویں وجہ:پشاور والا آدمی ،ڈاکٹر صاحب اور صحت انصاف کارڈ کے ملازم تینوں کی ملی بگھت سے ہی ایساممکن ہوگا۔پشاور والا جھوٹ بولتے ہوئے،گورنمنٹ کو دھوکہ دیتے ہوئے اور غلط بیانی کاارتکاب کرتے ہوئے اس بچے کو اپنا بیٹا ظاہر کرے گا۔ڈاکٹر صاحب جھوٹ بولتے ہوئے،گورنمنٹ کو دھوکہ دیتے ہوئے اورغلط بیانی کاارتکاب کرتے ہوئے اس بیمار بچے کے جعلی کاغذات بنوائے گا۔ صحت انصاف کارڈ کا ملازم جھوٹ بولتے ہوئے،گورنمنٹ کو دھوکہ دیتے ہوئے ،غلط بیانی کا ارتکاب کرتے ہوئےاور اپنے فرائض منصبی سے روگردانی کرتے ہوئے ان جعلی کاغذات کو آگے پراسس کرے گا،یہ جانتے ہوئے بھی کہ نادرا اس کی تصدیق نہیں کرتی حالانکہ صحت کارڈ کا ملازم تنخواہ اسی بات کی لیتا ہے کہ وہ صرف درست کاغذات کو ہی آگے پراسس میں ڈالے گا۔اس وجہ سے اتنے سارے گناہوں کا مجموعہ ہونے کی وجہ سے شریعت میں اس کی اجازت نہیں ہے۔ آٹھویں وجہ:جوریاستی قوانین امور مباحات اور انتظامی معاملات سے متعلق ہوں اور شریعت مطہرہ کے خلاف نہ ہوں ،تو ان قوانین کی پاسداری شرعاً واجب ہے۔صورت مسئولہ میں مریض کے والدین،ڈاکٹر،پشاور والا آدمی اور صحت کارڈ کا ملازم چاروں اس ترک واجب کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے۔ خاتمۃ المحققین حضرت علامہ ابن عابدین شامیؒ فرماتے ہیں: (قوله: أمر السلطان إنما ينفذ) أي يتبع ولا تجوز مخالفته وسيأتي قبيل الشهادات عند قوله أمرك قاض بقطع أو رجم إلخ التعليل بوجوب طاعة ولي الأمر وفي ط عن الحموي أن صاحب البحر ذكر ناقلا عن أئمتنا أن طاعة الإمام في غير معصية واجبة فلو أمر بصوم وجب۔ وقدمنا أن السلطان لو حكم بين الخصمين ينفذ في الأصح وبه يفتى. ردالمحتار،دارالفکر، بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1992،ج:5،ص:422۔ (افترض عليه إجابته) لأن طاعة الإمام فيما ليس بمعصية فرض۔۔۔۔(قوله: افترض عليه إجابته) والأصل فيه قوله تعالى"وأولي الأمر منكم" وقال صلى الله عليه وسلم"اسمعوا وأطيعوا ولو أمر عليكم عبد حبشي أجدع"وروي "مجدع"وعن ابن عمر أنه عليه الصلاة والسلام قال"عليكم بالسمع والطاعة لكل من يؤمر عليكم ما لم يأمركم بمنكر"ففي المنكر لا سمع ولا طاعة۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر، بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1992،ج:4،ص:264۔ چونکہ یہ بیمار بچہ ایک دینی مدرسہ کا طالب علم بھی ہے اس وجہ سے ہمدردی کا زیادہ مستحق ہے اس وجہ سےسب سے پہلے تو اس بچے کے والدین رجوع الیٰ اللہ کااہتمام کرے اور اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں ،ان شاء اللہ رحیم وکریم پروردگار کی رحمت اس معصوم کی طرف ضرور متوجہ ہوگی۔علاوہ ازیں ڈاکٹر صاحب اور پشاور والا آدمی اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر اپنے جیب سے اس غریب طالب علم کی مدد کریں۔اسی طرح ڈاکٹروں کے کچھ ایسوسی ایشنز ہوتے ہیں اُن میں اس بچے کی بات کو پھیلائے۔ہمارے معاشرے میں بہت سارے ٹرسٹ اورفلاحی تنظیمیں ایسی ہیں جو غریبوں کی مددکا دعویٰ کیا کرتی ہیں ان تک اس بچے کے بات پہنچائے۔سوشل میڈیا کے ذریعے سے لوگوں سے تعاون کی اپیل کرے تو ان شاء اللہ اس بیمار بچے کے علاج کے اسباب نکل آئیں گے۔واللہ اعلم بالصواب کتبہ مفتی ساجد خان اُتلوی 16-06-2022