والد کا اپنی زندگی میں ہی اپنی اولاد میں مال ومتاع تقسیم کرنے کا حکم
سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہمارے والد گرامی مسمی سردار خان ہمارے داداجان مسمی زردادشاہ مرحوم کی اکلوتی اولاد ہے۔ہمارے والد صاحب کااورکوئی بہن بھائی نہیں ہے۔اس وقت ہمارے والد صاحب بقید حیات ہیں اور وہ اپنی زندگی میں ہی اپنی اولادمیں مال ومتاع کو تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔ہم کل پانچ بھائی ہیں،مسمی نعیم خان،مسمی تاج نبی خان، مسمی بلال خان،مسمی عبدالولی اورمسمی عبدالرحیم۔ہماری چار بہنیں ہیں،مسماۃ زرین تاجہ،مسماۃ مؤمنہ بی بی،مسماۃ مریم بی بی اور مسماۃ منیرہ بی بی۔ہماری والدہ صاحبہ بھی بقید حیات ہے۔مذکورہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ بتائیں کہ شریعت مطہرہ کی روشنی میں ہماری تقسیم کا طریقہ کار کیا ہوگا؟بینو افتوجرواالمستفتیمولانا عبدالرحیمتکیل گدون
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق آپ کے والد صاحب اپنی زندگی میں مرض الوفات سے پہلے پہلے اپنے تمام جائیداد اوراموال کے تنہا مالک ہیں۔اولاد یا دیگر وارثوں کا ان کی زندگی میں کوئی حق نہیں ہے۔آپ کے والدصاحب اپنی تمام جائیداد وغیرہ میں جس طرح چاہےتصرف کر سکتے ہیں۔لہٰذا اگروہ اپنی زندگی میں اپنی مرضی سے بغیر کسی جبرواکراہ کے اپنامال وجائیداد اپنے متعلقین میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو تقسیم کرسکتے ہیں اور ایسا کرنا ان کے لیے جائز ہے۔اس تقسیم کا طریقہ کار مندجہ ذیل ہے:
1۔سب سے پہلے مناسب یہ ہے کہ وہ ایک محتاط اندازے کے مطابق اپنی بقیہ زندگی کے لیے کچھ رکھ لےتاکہ بعدمیں محتاج نہ ہونا پڑے،اورکسی کے سامنے دست سوال درازکرنے کی نوبت نہ آئے۔
2۔چونکہ آپ کی والدہ صاحبہ بھی بقید حیات ہے اس وجہ سے ان کے لیے بھی کچھ حصہ الگ کیا جائے جو کہ کل مال ومتاع کے آٹھویں حصے سے کم نہ ہو۔
3۔باقی جائیداد اور دیگرمال ومتاع کو نو حصوں میں تقسیم کرکے بہن بھائیوں میں سے ہرایک کوایک ایک حصہ دیا جائے۔زندگی میں تقسیم ہبہ کے حکم میں ہوتی ہے اس وجہ سے اولاد میں برابری اور مساوات ضروری ہے،بغیرکسی وجہ کے کسی کو کم اورکسی کو زیادہ دینا جائز نہیں ہے۔
4۔چونکہ یہ ہبہ ہے اس وجہ سے باقاعدہ تقسیم کرکے ہر ایک کو اس کے حصے کا مالک بناناضروری ہے تاکہ اس کا عملی طور پر اپنے حصے پر قبضہ آجائے۔صرف کاغذات میں نام کردینا کافی نہیں ہے۔
5۔اگرآپ کے والدصاحب میراث کے اصولوں کے مطابق بیٹے کو بیٹی سے دوگنا دینا چاہے تو بھی درست ہےلیکن بیٹی کاحصہ مجموعی طور پربیٹے کے آدھے حصے سے مزید کم کردینا جائز نہیں ہے۔
6۔اولاد کے مابین برابری اورمساوات ضروری ہے کسی ایک کوکم دے کرضررپہنچانا اور دوسرے کو زیادہ دے کر فائدہ پہنچانا جائز نہیں ہے۔البتہ اگرکسی کی شرافت،دینداری،خدمت گزاری،غربت یا کسی اورمعقول وجہ کی بناء کراسے کچھ زیادہ دیا جائے تو بھی درست ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ۔ سورۃالمائدۃ،آیت:8۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَاللَّفْظُ لَهُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: تَصَدَّقَ عَلَيَّ أَبِي بِبَعْضِ مَالِهِ، فَقَالَتْ أُمِّي عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ: لَا أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقَ أَبِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُشْهِدَهُ عَلَى صَدَقَتِي، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَفَعَلْتَ هَذَا بِوَلَدِكَ كُلِّهِمْ؟قَالَ: لَا، قَالَ:اتَّقُوا اللهَ، وَاعْدِلُوا فِي أَوْلَادِكُمْ ، فَرَجَعَ أَبِي، فَرَدَّ تِلْكَ الصَّدَقَةَ۔
صحیح مسلم،داراحیاء التراث العربی،بیروت،رقم الحدیث:1623۔
فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،1412ھ،ج:4،ص:444
ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية۔۔۔الخ الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،1310،ج:4،ص:391۔
لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية.۔۔۔الخ
الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،1310،ج:4،ص:378۔
قال العبدالضعیف عفاللہ عنہ:قدثبت بما ذکرنا ان مذھب المجھور فی التسویۃ بین الذکروالانثیٰ فی حالۃ الحیاۃاقویٰ وارجح من حیث الدلیل ولکن ربما یخطربالبال ان ھٰذافیماقصد فیہ الاب العطیۃ والصلۃ ،واما اذااراد الرجل ان یقسم املاکہ فیما بین اولادہ فی حیاتہ لئلا یقع بینھم نزاع بعد موتہ فانہ وان کان ھبۃ ولکنہ فی الحقیقۃ والمقصود استعجال بمایکون بعد الموت وحینئذ ینبغی ان یکون سبیلہ سبیل المیراث۔۔۔الخ تکملہ فتح الملھم،داراحیاء التراث العربی،بیروت،1426ھ،الطبعۃ الاولیٰ،ج:2،ص:68۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحرار اُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی
سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی
فتویٰ نمبر :37/1444
تاریخ اجراء:07/02/2023
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق آپ کے والد صاحب اپنی زندگی میں مرض الوفات سے پہلے پہلے اپنے تمام جائیداد اوراموال کے تنہا مالک ہیں۔اولاد یا دیگر وارثوں کا ان کی زندگی میں کوئی حق نہیں ہے۔آپ کے والدصاحب اپنی تمام جائیداد وغیرہ میں جس طرح چاہےتصرف کر سکتے ہیں۔لہٰذا اگروہ اپنی زندگی میں اپنی مرضی سے بغیر کسی جبرواکراہ کے اپنامال وجائیداد اپنے متعلقین میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں تو تقسیم کرسکتے ہیں اور ایسا کرنا ان کے لیے جائز ہے۔اس تقسیم کا طریقہ کار مندجہ ذیل ہے:
1۔سب سے پہلے مناسب یہ ہے کہ وہ ایک محتاط اندازے کے مطابق اپنی بقیہ زندگی کے لیے کچھ رکھ لےتاکہ بعدمیں محتاج نہ ہونا پڑے،اورکسی کے سامنے دست سوال درازکرنے کی نوبت نہ آئے۔
2۔چونکہ آپ کی والدہ صاحبہ بھی بقید حیات ہے اس وجہ سے ان کے لیے بھی کچھ حصہ الگ کیا جائے جو کہ کل مال ومتاع کے آٹھویں حصے سے کم نہ ہو۔
3۔باقی جائیداد اور دیگرمال ومتاع کو نو حصوں میں تقسیم کرکے بہن بھائیوں میں سے ہرایک کوایک ایک حصہ دیا جائے۔زندگی میں تقسیم ہبہ کے حکم میں ہوتی ہے اس وجہ سے اولاد میں برابری اور مساوات ضروری ہے،بغیرکسی وجہ کے کسی کو کم اورکسی کو زیادہ دینا جائز نہیں ہے۔
4۔چونکہ یہ ہبہ ہے اس وجہ سے باقاعدہ تقسیم کرکے ہر ایک کو اس کے حصے کا مالک بناناضروری ہے تاکہ اس کا عملی طور پر اپنے حصے پر قبضہ آجائے۔صرف کاغذات میں نام کردینا کافی نہیں ہے۔
5۔اگرآپ کے والدصاحب میراث کے اصولوں کے مطابق بیٹے کو بیٹی سے دوگنا دینا چاہے تو بھی درست ہےلیکن بیٹی کاحصہ مجموعی طور پربیٹے کے آدھے حصے سے مزید کم کردینا جائز نہیں ہے۔
6۔اولاد کے مابین برابری اورمساوات ضروری ہے کسی ایک کوکم دے کرضررپہنچانا اور دوسرے کو زیادہ دے کر فائدہ پہنچانا جائز نہیں ہے۔البتہ اگرکسی کی شرافت،دینداری،خدمت گزاری،غربت یا کسی اورمعقول وجہ کی بناء کراسے کچھ زیادہ دیا جائے تو بھی درست ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَى أَلَّا تَعْدِلُوا اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَى وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ۔ سورۃالمائدۃ،آیت:8۔
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِيرٍ، ح وحَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، وَاللَّفْظُ لَهُ أَخْبَرَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ النُّعْمَانِ بْنِ بَشِيرٍ، قَالَ: تَصَدَّقَ عَلَيَّ أَبِي بِبَعْضِ مَالِهِ، فَقَالَتْ أُمِّي عَمْرَةُ بِنْتُ رَوَاحَةَ: لَا أَرْضَى حَتَّى تُشْهِدَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَانْطَلَقَ أَبِي إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُشْهِدَهُ عَلَى صَدَقَتِي، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:أَفَعَلْتَ هَذَا بِوَلَدِكَ كُلِّهِمْ؟قَالَ: لَا، قَالَ:اتَّقُوا اللهَ، وَاعْدِلُوا فِي أَوْلَادِكُمْ ، فَرَجَعَ أَبِي، فَرَدَّ تِلْكَ الصَّدَقَةَ۔
صحیح مسلم،داراحیاء التراث العربی،بیروت،رقم الحدیث:1623۔
فالعدل من حقوق الأولاد في العطايا والوقف عطية فيسوي بين الذكر والأنثى، لأنهم فسروا العدل في الأولاد بالتسوية في العطايا حال الحياة. وفي الخانية ولو وهب شيئا لأولاده في الصحة، وأراد تفضيل البعض على البعض روي عن أبي حنيفة لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل في الدين وإن كانوا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف أنه لا بأس به إذا لم يقصد الإضرار وإلا سوى بينهم وعليه الفتوى۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،1412ھ،ج:4،ص:444
ولو وهب رجل شيئا لأولاده في الصحة وأراد تفضيل البعض على البعض في ذلك لا رواية لهذا في الأصل عن أصحابنا، وروي عن أبي حنيفة رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا كان التفضيل لزيادة فضل له في الدين، وإن كانا سواء يكره وروى المعلى عن أبي يوسف رحمه الله تعالى أنه لا بأس به إذا لم يقصد به الإضرار، وإن قصد به الإضرار سوى بينهم يعطي الابنة مثل ما يعطي للابن وعليه الفتوى هكذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار، كذا في الظهيرية۔۔۔الخ الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،1310،ج:4،ص:391۔
لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية.۔۔۔الخ
الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،1310،ج:4،ص:378۔
قال العبدالضعیف عفاللہ عنہ:قدثبت بما ذکرنا ان مذھب المجھور فی التسویۃ بین الذکروالانثیٰ فی حالۃ الحیاۃاقویٰ وارجح من حیث الدلیل ولکن ربما یخطربالبال ان ھٰذافیماقصد فیہ الاب العطیۃ والصلۃ ،واما اذااراد الرجل ان یقسم املاکہ فیما بین اولادہ فی حیاتہ لئلا یقع بینھم نزاع بعد موتہ فانہ وان کان ھبۃ ولکنہ فی الحقیقۃ والمقصود استعجال بمایکون بعد الموت وحینئذ ینبغی ان یکون سبیلہ سبیل المیراث۔۔۔الخ تکملہ فتح الملھم،داراحیاء التراث العربی،بیروت،1426ھ،الطبعۃ الاولیٰ،ج:2،ص:68۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحرار اُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی
سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی
فتویٰ نمبر :37/1444
تاریخ اجراء:07/02/2023