ننگے پیر چلنے کے بارے میں حدیث کی اسنادی حیثیت
سوال :-
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس حدیث کے بارے میں : «كان النبي صلى الله عليه وسلم يأمرنا أن نحتفي أحيانا»آ یایہ حدیث صحیح ہے یا نہیں ؟
جواب :-
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدا ومصلیا
اس روایت کو امام ابوداود نے اپنی سنن میں ( 4160) نمبر پر ذکر کیا ہےقال حدثنا الحسن بن علي، حدثنا يزيد بن هارون، أخبرنا الجريري، عن عبد الله بن بريدة، أن رجلا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم رحل إلى فضالة بن عبيد وهو بمصر، فقدم عليه، فقال: أما إني لم آتك زائرا، ولكني سمعت أنا وأنت حديثا من رسول الله صلى الله عليه وسلم رجوت أن يكون عندك منه علم، قال: وما هو؟ قال: كذا وكذا، قال: فما لي أراك شعثا وأنت أمير الأرض؟ قال: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ينهانا عن كثير من الإرفاه» ، قال: فما لي لا أرى عليك حذاء؟ قال: «كان النبي صلى الله عليه وسلم يأمرنا أن نحتفي أحيانا»
ترجمه: عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی رسول رضی اللہ عنہ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے پاس مصر گئے، جب وہاں پہنچے تو عرض کیا: میں یہاں آپ سے ملاقات کے لیے نہیں آیا ہوں، ہم نے اور آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی تھی مجھے امید ہے کہ اس کے متعلق آپ کو کچھ (مزید) علم ہو، انہوں نے پوچھا: وہ کون سی حدیث ہے؟ فرمایا: وہ اس اس طرح ہے، پھر انہوں نے فضالہ سے کہا: کیا بات ہے میں آپ کو پراگندہ سر دیکھ رہا ہوں حالانکہ آپ اس سر زمین کے حاکم ہیں؟ تو ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں زیادہ عیش عشرت سے منع فرماتے تھے، پھر انہوں نے پوچھا: آپ کے پیر میں جوتیاں کیوں نظر نہیں آتیں؟ تو وہ بولے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کبھی کبھی ننگے پیر رہنے کا بھی حکم دیتے تھے۔
اور امام احمد نے مسند احمد میں (23969) نمبر پر اور امام أبو بكر بن أبي عاصم نےالآحاد والمثاني لابن أبي عاصم میں (2929) نمبر پر اور امام بیہقی نے الآداب للبيهقي میں ( 563) نمبر پر اور شعب الإيمان میں (6050) نمبر پر ان سب نے الجريري، عن عبد الله بن بريدة کے طریق سے ذکر کیا ہے۔
ابوداود اور مسند احمد کے سند میں يزيد بن هارون، قال: أخبرني الجريري، ہےاور الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم اور الآداب للبيهقي اور شعب الإيمان میں حماد بن سلمة، عن سعيد الجريري ہے ۔
اور مذکور بالا سند کے تمام راوی ثقہ ہے سوائے جریری کے اسلئے کہ اس پر اخری عمر میں اختلاط طاری ہوا تھا اور یزید بن ہارون کا سماع بھی اس سے اختلاط کے بعد ہے لیکن بیہقی اور ابن ابی عاصم کے طریق میں اسکا تابع حماد بن سلمہ موجود ہے تو لہذا یہ حدیث اس سند کے ساتھ صحیح ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم بالصواب
نوراللہ برھانی
دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ
23/دسمبر /2022 الموافق 30/ جمادی الثانى/1444
الجواب صحیح
(حضرت مولانا) نورالحق (صاحب دامت برکاتہم العالیہ)
رئیس دارالافتاء ومدیر جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ
23/دسمبر /2022 الموافق 30/ جمادی الثانى/1444
جواب :-
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدا ومصلیا
اس روایت کو امام ابوداود نے اپنی سنن میں ( 4160) نمبر پر ذکر کیا ہےقال حدثنا الحسن بن علي، حدثنا يزيد بن هارون، أخبرنا الجريري، عن عبد الله بن بريدة، أن رجلا من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم رحل إلى فضالة بن عبيد وهو بمصر، فقدم عليه، فقال: أما إني لم آتك زائرا، ولكني سمعت أنا وأنت حديثا من رسول الله صلى الله عليه وسلم رجوت أن يكون عندك منه علم، قال: وما هو؟ قال: كذا وكذا، قال: فما لي أراك شعثا وأنت أمير الأرض؟ قال: «إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان ينهانا عن كثير من الإرفاه» ، قال: فما لي لا أرى عليك حذاء؟ قال: «كان النبي صلى الله عليه وسلم يأمرنا أن نحتفي أحيانا»
ترجمه: عبداللہ بن بریدہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی رسول رضی اللہ عنہ فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ کے پاس مصر گئے، جب وہاں پہنچے تو عرض کیا: میں یہاں آپ سے ملاقات کے لیے نہیں آیا ہوں، ہم نے اور آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث سنی تھی مجھے امید ہے کہ اس کے متعلق آپ کو کچھ (مزید) علم ہو، انہوں نے پوچھا: وہ کون سی حدیث ہے؟ فرمایا: وہ اس اس طرح ہے، پھر انہوں نے فضالہ سے کہا: کیا بات ہے میں آپ کو پراگندہ سر دیکھ رہا ہوں حالانکہ آپ اس سر زمین کے حاکم ہیں؟ تو ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں زیادہ عیش عشرت سے منع فرماتے تھے، پھر انہوں نے پوچھا: آپ کے پیر میں جوتیاں کیوں نظر نہیں آتیں؟ تو وہ بولے: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں کبھی کبھی ننگے پیر رہنے کا بھی حکم دیتے تھے۔
اور امام احمد نے مسند احمد میں (23969) نمبر پر اور امام أبو بكر بن أبي عاصم نےالآحاد والمثاني لابن أبي عاصم میں (2929) نمبر پر اور امام بیہقی نے الآداب للبيهقي میں ( 563) نمبر پر اور شعب الإيمان میں (6050) نمبر پر ان سب نے الجريري، عن عبد الله بن بريدة کے طریق سے ذکر کیا ہے۔
ابوداود اور مسند احمد کے سند میں يزيد بن هارون، قال: أخبرني الجريري، ہےاور الآحاد والمثاني لابن أبي عاصم اور الآداب للبيهقي اور شعب الإيمان میں حماد بن سلمة، عن سعيد الجريري ہے ۔
اور مذکور بالا سند کے تمام راوی ثقہ ہے سوائے جریری کے اسلئے کہ اس پر اخری عمر میں اختلاط طاری ہوا تھا اور یزید بن ہارون کا سماع بھی اس سے اختلاط کے بعد ہے لیکن بیہقی اور ابن ابی عاصم کے طریق میں اسکا تابع حماد بن سلمہ موجود ہے تو لہذا یہ حدیث اس سند کے ساتھ صحیح ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم بالصواب
نوراللہ برھانی
دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ
23/دسمبر /2022 الموافق 30/ جمادی الثانى/1444
الجواب صحیح
(حضرت مولانا) نورالحق (صاحب دامت برکاتہم العالیہ)
رئیس دارالافتاء ومدیر جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ
23/دسمبر /2022 الموافق 30/ جمادی الثانى/1444