نمازوں کا فدیہ دینے کی وصیت کرنے کا شرعی حکم

سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے والد صاحب کے ماموں جان کا انتقال ہوا ہے ۔انھوں نے کافی عرصہ بیماری کی حالت میں گزارا ہے جس کی وجہ سے اُن کی کافی عرصہ کی نمازیں بھی قضاہوگئیں تھیں۔مرحوم نے اپنی زندگی میں یہ وصیت کی تھی کہ میرے مرنے کے بعد 2000000(بیس لاکھ )روپے میرے نمازوں کا فدیہ دینا ہے۔اُن کی وفات کے بعد جب ہم نے اُن کی بیماری کے ایام کا اندازہ لگایا تو انھوں نے 9سال اور10 مہینے بیماری میں گزارے ہیں اوراس 9سال 10 مہینے کے دوران انھوں نے بیماری کی وجہ سے نمازیں نہیں پڑھی ہیں۔اس وقت اُن کے ترکہ میں زمین وجائیداد کے علاوہ 4551000(پینتالیس لاکھ اکیاون ہزار)روپے نقد موجود ہیں ۔علاوہ ازیں اُن کے بینک اکاؤنٹ میں بھی تقریباً 60روپے موجود ہیں۔مذکورہ صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے شریعت مطہرہ کی روشنی میں مندرجہ ذیل سوالات کے جوابات دے کر ثواب دارین حاصل کریں:1۔مرحوم نے جو وصیت کی ہے اُس کو پورا کرنا ورثاء کے ذمہ لازم ہے یا نہیں؟2۔اگروصیت کو پورا کرنا لازمی ہو تو اُس کا طریقہ کار کیا ہوگا؟3۔ورثاء کے ذمہ 2000000(بیس لاکھ) روپے دینا لازم ہوں گے یا 9سال 10 مہینوں کے نمازوں کا فدیہ دینا لازم ہوگا؟4۔فدیہ کی یہ رقم کس کودی جاسکتی ہے ؟یعنی اس رقم کا شریعت کی رُو سے مستحق کون ہوگا؟المستفتیمحمدنصیرزیارت بیلہ (آمازئی)

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق چاروں سوالات کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں: 1۔تجہیزوتکفین اورقرضوں کی ادائیگی کے بعد جومال بچے،اُس کے ایک تہائی میں میت کی جائز وصیت کے مطابق عمل کرنا ورثاء پر لازم ہوتا ہے ۔آپ کے والد صاحب کے مرحوم ماموں جان نےایک جائز وصیت کی ہے اس وجہ سے اُن کے کل ترکہ کے ایک تہائی (1/3)میں اُن کی وصیت کو پورا کرنا ورثاء پرلازم ہے۔ 2۔اس وصیت کو پورا کرنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے اُن کے قرضوں کو ادا کیا جائے۔اُس کے بعد اُن کے کل ترکہ کاحساب لگایا جائے ۔مرحوم کی ملکیت میں جو کچھ بھی تھا منقولہ وغیرمنقولہ مال وجائیدادمثلاًپلاٹ،گھر، زمین، نقدرقم، سونا، چاندی، مال تجارت،کپڑے،برتن اورمرحوم کا وہ قرضہ جو اُن کا کسی پر ہو اور مرحوم نے اپنی زندگی میں وہ وصول یامعاف نہ کیا ہو،یہ سب کچھ اُس کا ترکہ ہے۔اس کے بعد کل ترکہ کاایک تہائی(1/3)نکالا جائے اور مرحوم نے جو 2000000(بیس لاکھ)روپے فدیہ دینے کی وصیت کی ہے،وہ 2000000اس ایک تہائی میں سے ادا کیا جائے۔اگریہ 2000000اس ایک تہائی حصہ سے پورے ہو جاتے ہیں تواداکیے جائیں،اوراگرایک تہائی سے یہ 2000000کافدیہ پورا نہ ہوتا ہوتوجتنا ادا ہوسکتا ہے وہ ادا کیا جائےاور باقی ادا کرنا ورثاء پرلازم نہیں ہے۔البتہ اگرتمام ورثاء عاقل بالغ ہوں اوروہ باہمی رضامندی سے یہ چاہیں کہ مرحوم کا فدیہ ادا کردیں توبقیہ دو تہائی مال سے بھی فدیہ ادا کیا جاسکتا ہے۔البتہ اس میں بہترصورت یہ ہے کہ ترکہ تقسیم کیا جائے پھرجو وارث اپنی خوشی سے فدیہ ادا کرنا چاہے وہ ادا کردے۔ 3۔ورثاء کے ذمہ میت کی وصیت کو پورا کرنا لازم ہےاس وجہ سے ورثاء 2000000روپے ایک تہائی میں سے ادا کریں گے۔ 4۔فدیہ کی یہ رقم اُن لوگوں کو دی جاسکتی ہے جوزکوٰۃ کے مستحق ہیں۔جوشخص مستحق زکوٰۃ ہے اس کوفدیہ کی رقم دینا جائز ہے اورجو شخص مستحق زکوٰۃ نہیں اس کو فدیہ کی رقم دینا جائز نہیں ہے۔مستحق زکوٰۃ ہر وہ شخص ہوتا ہے جس میں مندرجہ ذیل دس(10) شرائط موجود ہوں: 1۔وہ مسلمان ہو، 2۔غیرہاشمی ہو یعنی وہ آل علی،آل عباس،آل عقیل،آل جعفر اورآل حارث بن عبدالمطلب میں سے نہ ہو۔ 3۔اُس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرسونا نہ ہو۔ 4۔اُس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرچاندی نہ ہو۔ 5۔اُس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرنقد روپے نہ ہو۔ 6۔اُس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرمال تجارت نہ ہو۔ 7۔ اُس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرضرورت سے زائد سازوسامان نہ ہو۔ 8۔اُس کے پاس ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرمذکورہ بالاپانچوں میں سے بعض یا کل کامجموعہ نہ ہو۔ 9۔وہ زکوٰۃ دینے والےشخص کے اصول میں سے نہ ہو،یعنی اس کا باپ،دادایاماں،دادی وغیرہ نہ ہو۔ 10۔ وہ زکوٰۃ دینے والےشخص کےفروع میں سے نہ ہو،یعنی اس کا بیٹا،بیٹی،پوتا،پوتی وغیرہ نہ ہو۔ ولو مات وعليه صلوات فائتة وأوصى بالكفارة يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر كالفطرة وكذا حكم الوتر والصوم، وإنما يعطي (من ثلث ماله۔۔۔۔الخ الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:2،ص:72۔ (قوله يعطى) بالبناء للمجهول: أي يعطي عنه وليه: أي من له ولاية التصرف في ماله بوصاية أو وراثة فيلزمه ذلك من الثلث إن أوصى، وإلا فلا يلزم الولي ذلك لأنها عبادة فلا بد فيها من الاختيار، فإذا لم يوص فات الشرط فيسقط في حق أحكام الدنيا للتعذر۔۔۔۔۔۔۔ثم اعلم أنه إذا أوصى بفدية الصوم يحكم بالجواز قطعا لأنه منصوص عليه. وأما إذا لم يوص فتطوع بها الوارث فقد قال محمد في الزيادات إنه يجزيه إن شاء الله تعالى، فعلق الإجزاء بالمشيئة لعدم النص، وكذا علقه بالمشيئة فيما إذا أوصى بفدية الصلاة لأنهم ألحقوها بالصوم احتياطا لاحتمال كون النص فيه معلولا بالعجز فتشمل العلة الصلاة وإن لم يكن معلولا تكون الفدية برا مبتدأ يصلح ماحيا للسيئات فكان فيها شبهة كما إذا لم يوص بفدية الصوم فلذا جزم محمد بالأول ولم يجزم بالأخيرين، فعلم أنه إذا لم يوص بفدية الصلاة فالشبهة أقوى.۔۔۔۔۔۔۔۔ أي فلو زادت الوصية على الثلث لا يلزم الولي إخراج الزائد إلا بإجازة الورثة۔ حاشیہ ابن عابدین، دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:2،ص:72۔ (و) لا إلى (غني) يملك قدر نصاب فارغ عن حاجته الأصلية من أي مال كان كمن له نصاب سائمة لا تساوي مائة درهم۔۔۔۔۔ (و) لا إلى (مملوكه) أي الغني ولو مدبرا أو زمنا ليس في عيال مولاه أو كان مولاه غائبا على المذهب لأن المانع وقوع الملك لمولاه (غير المكاتب) والمأذون المديون بمحيط فيجوز (و) لا إلى (طفله) بخلاف ولده الكبير وأبيه وامرأته الفقراء وطفل الغنية فيجوز لانتفاء المانع.(و) لا إلى (بني هاشم) إلا من أبطل النص قرابته وهم بنو لهب، فتحل لمن أسلم منهم كما تحل لبني المطلب. ثم ظاهر المذهب إطلاق المنع۔۔۔۔الخ الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:2،ص:353۔ أي مصرف الزكاة والعشر۔۔۔۔۔۔۔ وهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني حاشیہ ابن عابدین، دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:2،ص:339۔ ومصرف هذه الصدقة ما هو مصرف الزكاة كذا في الخلاصة. الفتاویٰ الہندیہ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1310ھ،ج:1،ص:194۔ إذا مات الرجل وعليه صلوات فائتة فأوصى بأن تعطى كفارة صلواته يعطى لكل صلاة نصف صاع من بر وللوتر نصف صاع ولصوم يوم نصف صاع من ثلث ماله ۔۔۔۔۔۔۔۔وفي فتاوى الحجة وإن لم يوص لورثته وتبرع بعض الورثة يجوز ويدفع عن كل صلاة نصف صاع حنطة منوين، ولو دفع جملة إلى فقير واحد۔۔۔الخ الفتاویٰ الہندیہ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1310ھ،ج:1،ص:125۔ لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي. ولا يدفع إلى مملوك غني غير مكاتبه كذا في معراج الدراية۔۔۔۔۔۔۔۔ ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية۔۔۔۔الخ الفتاویٰ الہندیہ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1310ھ،ج:1،ص:189۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل (جبر) ٹوپی صوابی