نقد اور ادھار کی قیمتوں میں فرق کا شرعی حکم

سوال :-
کیافرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ دوکاندارحضرات اگرکوئی چیز نقد پر فروخت کرتے ہیں تو اُس کی ایک قیمت لگاتے ہیں اور اگر اُدھار پربیچتے ہیں تو پھراُسی چیز کی دوسری قیمت لگاتے ہیں۔مثال کے طور پرنقد بیچنے کی صورت میں 400روپے قیمت مقرر کرتے ہیں تواُدھار فروخت کرنے کی صورت میں اس کی قیمت 450لگاتے ہیں۔شریعت مطہرہ کی روشنی میں ایسا کرنا جائز ہے یا نہیں؟المستفتیعاصم

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق اگردوکاندارکسی چیز کو اُدھار پربیچتا ہے اور نقد کے مقابلہ میں اُدھار پرفروخت کرنے کی وجہ سے اُس چیز کی قیمت میں اضافہ کرتا ہے تو ایسا کرنا جائز ہے ۔اشیاء کی اُدھار اور نقد قیمتوں کا مختلف ہونا شرعاً جائز ہے۔شریعت نے خریدوفروخت کی درستگی کے لیے عقد کے وقت قیمت متعین کرنا ضروری قرار دیا ہے۔بائع (بیچنے والا)اورمشتری(خریدار) کی باہمی رضامندی سےنقد خریدنے کی صورت میں کم قیمت اور اُدھار فروخت کرنے کی صورت میں زیادہ قیمت متعین کرنا شرعاً درست ہے،بشرطیکہ مندرجہ ذیل شرائط کی رعایت رکھی جائے: 1۔چیز کی قیمت متعین کی جائے،کیونکہ قیمت کو مجہول چھوڑ کرمعاملہ کرنا درست نہیں۔لہٰذا ضروری ہے کہ یہ وضاحت کی جائے کہ اس چیز کی نقد قیمت یہ ہے اور اُدھار کی صورت میں پھر اس کی قیمت یہ دوسری والی ہے۔ 2۔معاملے کی نوعیت کومتعین کیا جائے کہ آیامعاملہ نقد قیمت پر ہورہا ہے یا اُدھار پر،کیونکہ نقد یااُدھاردونوں میں سے کسی ایک نوعیت کو جب تک متعین نہ نہ کیا جائے تب تک معاملہ درست نہیں ہوگا۔ 3۔اُدھار فروخت کرنے کی صورت میں یہ بھی ضروری ہے کہ رقم کی ادائیگی کی تاریخ متعین کی جائے۔ 4۔ اُدھار فروخت کرنے کی صورت میں یہ بھی ضروری ہے کہ رقم کی ادائیگی کی وضاحت کی جائے کہ آیاخریدار ساری قیمت یکمشت اداکرے گا یا قسطوں کی صورت میں ادائیگی ہوگی۔ 5۔قسطوں کی صورت میں ہرایک قسط کی تعیین ضروری ہے۔ 6۔قسط کی ادائیگی یا مجموعی قیمت کی ادائیگی کی تاخیر کی صورت میں جرمانے یاکسی اور نام سے اضافی رقم وصول کرنے کی کوئی شرط نہ لگائی جائے۔ 7۔اسی طرح قسط یا مجموعی قیمت کی جلدی ادائیگی کی صورت میں قیمت میں کمی کرنے کی بھی کوئی شرط نہ لگائی جائے۔ اگرمذکورہ بالاشرائط کالحاظ رکھا جائے تو پھر ادھار بیچنے کی صورت میں زیادہ قیمت لگانا درست اور جائز ہے۔ وَإِذَا عَقَدَالْعَقْدَ عَلَى أَنَّهُ إلَى أَجَلِ كَذَا بِكَذَا وَبِالنَّقْدِ بِكَذَا أَوْ قَالَ إلَى شَهْرٍ بِكَذَا أَوْ إلَى شَهْرَيْنِ بِكَذَا فَهُوَ فَاسِدٌ؛ لِأَنَّهُ لَمْ يُعَاطِهِ عَلَى ثَمَنٍ مَعْلُومٍ وَلِنَهْيِ النَّبِيِّ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَنْ شَرْطَيْنِ فِي بِيَعٍ وَهَذَا هُوَ تَفْسِيرُ الشَّرْطَيْنِ فِي بِيَعٍ وَمُطْلَقُ النَّهْيِ يُوجِبُ الْفَسَادَ فِي الْعُقُودِ الشَّرْعِيَّةِ وَهَذَا إذَا افْتَرَقَا عَلَى هَذَا فَإِنْ كَانَ يَتَرَاضَيَانِ بَيْنَهُمَا وَلَمْ يَتَفَرَّقَا حَتَّى قَاطَعَهُ عَلَى ثَمَنٍ مَعْلُومٍ، وَأَتَمَّا الْعَقْدَ عَلَيْهِ فَهُوَ جَائِزٌ؛ لِأَنَّهُمَا مَا افْتَرَقَا إلَّا بَعْدَ تَمَامِ شَرَطِ صِحَّةِ الْعَقْدِ۔۔۔۔الخ المبسوط للسرخسی،دارالمعرفۃ،بیروت،1414ھ،ج:13،ص:8۔ وكذا إذا قال: بعتك هذا العبد بألف درهم إلى سنة أو بألف وخمسمائة إلى سنتين؛ لأن الثمن مجهول، وقيل: هو الشرطان في بيع وقد روي أن رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن شرطين في بيع ولو باع شيئا بربح ده يازده ولم يعلم المشتري رأس ماله فالبيع فاسد حتى يعلم فيختار أو يدع هكذا روى ابن رستم عن محمد؛ لأنه إذا لم يعلم رأس ماله كان ثمنه مجهولا وجهالة الثمن تمنع صحة البيع فإذا علم ورضي به جاز البيع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد وقد زالت في المجلس وله حكم حالة العقد فصار كأنه كان معلوما عند العقد وإن لم يعلم به حتى إذا افترقا تقرر الفساد.۔۔۔۔الخ بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1406ھ،ج:5،ص:158۔ لأن للأجل شبها بالمبيع؛ ألا يرى أنه يزاد في الثمن لأجل الأجل۔۔۔۔الخ الھدایۃ ،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:3،ص:58۔ ألا ترى أنه يزاد في الثمن لأجله۔۔۔۔الخ حاشیۃابن عابدین،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:5،ص:142۔ اماالائمۃ الاربعۃ وجمھورالفقھاء والمحدثین فقداجازواالبیع المؤجل باکثر من سعر النقد،بشرط ان یبت العاقدان بانہ بیع مؤجل باجل معلوم ،وبثمن متفق علیہ عند العقد۔۔۔۔الخ بحوث فی قضایافقھیۃ معاصرۃ،وزارۃ الاوقاف،قطر،ج:1،ص:12۔ ادھار کی وجہ سے قیمت زیادہ لینا اورنقد کی صورت میں قیمت کم لینا جائز اور درست ہے۔ فتاویٰ قاسمیہ،مکتبہ اشرفیہ ،دیوبند،پہلا ایڈیشن،1437ھ،ج:19،ص:520۔ ادھار کی وجہ سے قیمت میں زیادتی کرنا شرعاً وعرفاً درست ہے۔۔۔الخ فتاویٰ محمودیہ،دارالافتاء جامعہ فاروقیہ ،کراچی،ج:16،ص:153۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل (جبر) ٹوپی صوابی