نذر کا مصرف

سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید نامی ایک شخص نے یہ نذر مانی تھی کہ اگر میرا یہ فلاں کام ہوگیا تو میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر چاول کا دیگ پکھاؤں گا۔اب زید کا وہ کام ہوگیا ہے تو اگر وہ اب چاول کی دیگ پکھائے گا تو کون کون لوگ وہ چاول کھا سکتے ہیں؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی فاروق حسین گبائی گدون

جواب :-

الجواب باسم ملہم الصواب

حامداً ومصلیاً!

سوال کاجواب دینے سے پہلے ایک تمہیدی بات کا جاننا ضروری ہےاور وہ یہ ہے کہ شریعت  کی رُو سے تمام صدقات واجبہ کا مصرف ایک ہی ہے۔صدقات واجبہ میں زکاۃ،عشر،،خراج،نذرومنت،صدقہ فطر،کفارات،فدیہ،حرم کے شکار کی جزا اور چرم قربانی کی قیمت شامل ہے ۔ان تمام کامصرف وہ شخص ہے جس میں مندرجہ ذیل بارہ (12)شرائط موجود ہوں:

1۔وہ مسلمان ہو۔

2۔غیرہاشمی ہو یعنی وہ آل علی،آل عباس،آل عقیل،آل جعفر اورآل حارث بن عبدالمطلب میں سے نہ ہو۔

3۔اُس کے پاس ضروریات اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرسونا نہ ہو۔

4۔اُس کے پاس ضروریات اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرچاندی نہ ہو۔

5۔اُس کے پاس ضروریات اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرنقد روپے نہ ہو۔

6۔اُس کے پاس ضروریات اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرمال تجارت نہ ہو۔

7۔ اُس کے پاس ضروریات اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرضرورت سے زائد سازوسامان وغیرہ نہ ہو۔

8۔اُس کے پاس ضروریات اصلیہ کے علاوہ ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابرمذکورہ بالاپانچوں میں سے بعض یا کل کامجموعہ نہ ہو۔

9۔وہ صدقات واجبہ  دینے والےشخص کے اصول میں سے نہ ہو،یعنی اس کا باپ،دادایاماں،دادی وغیرہ نہ ہو۔

10۔ وہ صدقات واجبہ دینے والےشخص کےفروع میں سے نہ ہو،یعنی اس کا بیٹا،بیٹی،پوتا،پوتی وغیرہ نہ ہو۔

۱۱۔وہ صدقات واجبہ دینے والے کی بیوی نہ ہو۔

12۔وہ صدقات واجبہ دینے والی کا شوہر نہ ہو۔

صورت مسئولہ کے مطابق شریعت مطہرہ کی رُو سے نذرمانے ہوئے یہ چاول صرف وہی لوگ کھا سکتے ہیں جو صدقات واجبہ کےمستحق ہوں،جو شخص مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق صدقات واجبہ کامستحق نہیں وہ یہ چاول نہیں کھا سکتا۔ چونکہ صدقات واجبہ میں قیمت دی جاسکتی ہے اس وجہ سے اگرصرف مستحقین ہی  کوکھلانا مشکل ہو تو پھر مستحقین میں ان چاولوں کے دیگ کی قیمت تقسیم کی جاسکتی ہے جو کہ یقیناً کوئی مشکل نہیں ہے۔

ولا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا من أي مال كان " لأن الغني الشرعي مقدر به والشرط أن يكون فاضلا عن الحاجة الأصلية وإنما النماء شرط الوجوب " ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من ذلك وإن كان صحيحا مكتسبا " لأنه فقير والفقراء هم المصارف ولأن حقيقة الحاجة لا يوقف عليها فأدير الحكم على دليلها وهو فقد النصاب۔۔۔الخ

الہدایۃ،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:1،ص:112۔

واعلم أنه لا يجوز دفعها إلى ثمانية الغني وولد الغني الصغير وزوجة الغني إذا كان لها مهر عليه وعبد الغني القن ودفعها إلى ولده وولد ولده وأبويه وأجداده وأحد الزوجين إلى الآخر وبني هاشم والكافر سواء كان ذميا أو حربيا فقوله إلى غني يعني غنيا يمكنه الانتفاع بماله حتى لا يدخل عليه ابن السبيل والغني هو من يملك نصابا من النقدين أو ما قيمته نصاب فاضلا عن حوائجه الأصلية من ثيابه ودار سكناه وأثاثه وعبيد خدمته ودواب ركوبه وسلاح استعماله ثم الغني على ضربين غني يحرم عليه طلب الصدقة وقبولها وغني يحرم عليه السؤال ولا يحرم الأخذ من غير سؤال فالأول أن يكون محلا لوجوب الفطرة والأضحية وكما يحرم عليه القبول كذلك يحرم على المتصدق الإعطاء إذا كان عالما بحاله يقينا أو بأكثر رأيه ولا تسقط عنه الزكاة بالتصدق عليه ويحل للأغنياء صدقة الأوقاف إذا سماهم الواقف ولو دفع إلى الغني صدقة التطوع جاز له أخذها وأما الغني الذي يحرم السؤال عليه فهو أن يكون له قوت يومه فصاعدا۔۔۔الخ

الجوھرۃ النیرۃ،المطبعۃ الخیریۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1322ھ،ج:1،ص:129۔

(قوله ولا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا من أي مال كان) سواء كان النصاب ناميا أو غير نام حتى لو كان له بيت لا يسكنه يساوي مائتي درهم لا يجوز صرف الزكاة إليه وهذا النصاب المعتبر في وجوب الفطرة والأضحية قال في المرغيناني إذا كان له خمس من الإبل قيمتها أقل من مائتي درهم يحل له الزكاة وتجب عليه ولهذا يظهر أن المعتبر نصاب النقد من أي مال كان بلغ نصابا من جنسه أو لم يبلغ وقوله إلى من يملك نصابا بشرط أن يكون النصاب فاضلا عن حوائجه الأصلية.

الجوھرۃ النیرۃ،المطبعۃ الخیریۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1322ھ،ج:1،ص:131۔

أي مصرف الزكاة والعشر۔۔۔۔۔۔۔ وهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني

حاشیہ ابن عابدین، دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:2،ص:339۔

ومصرف هذه الصدقة ما هو مصرف الزكاة كذا في الخلاصة.

الفتاویٰ الہندیہ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1310ھ،ج:1،ص:194۔

لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي. ولا يدفع إلى مملوك غني غير مكاتبه كذا في معراج الدراية۔۔۔۔۔۔۔۔ ولا يدفع إلى بني هاشم، وهم آل علي وآل عباس وآل جعفر وآل عقيل وآل الحارث بن عبد المطلب كذا في الهداية۔۔۔۔الخ

الفتاویٰ الہندیہ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1310ھ،ج:1،ص:189۔

 

ويجوز دفع القيم في الزكاة عندنا، وكذا في الكفارات وصدقة الفطر والعشر والنذر كذا في الهداية۔

الفتاویٰ الہندیہ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1310ھ،ج:1،ص:181۔

سونے،چاندی،مال تجارت اور گھر میں روزمرہ استعمال کی چیزوں سے زائد سامان کی قیمت لگا کر اس میں نقدی جمع کی جائے ،ان پانچوں کا مجموعہ یاان میں سے بعض 87.479گرام سونے یا 612.35گرام چاندی کے برابر ہوجائے تو زکوٰۃ نہیں لے سکتا۔تین جوڑے کپڑے سے زائد لباس اورریڈیو اور ٹیلی ویژن جیسی خرافات انسانی حاجات میں داخل نہیں ،اس لیے ان کی قیمت بھی حساب میں لگائی جائے گی۔

احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید،کراچی،ج:4،ص:264۔

واللہ اعلم بالصواب

مفتی ابوالاحرار اُتلوی

دارالافتاء

جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی

محلہ سلیمان خیل (جبر) ٹوپی صوابی