ناظرہ قرآن پڑھنے پر جنت میں درخت ملنے کی حدیث کی صحت کا حکم
سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان ِکرام اس حدیث کی صحت کے بارے میں کہ جس نے قرآن کو ناظرہ پر پڑھا ( یعنی ختم کیا )تو اللہ تعالیٰ اس کو جنت میں ایک ایسا درخت عطاء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی کوّا اس کی ٹہنیوں کو چھوڑ کر اڑے تو خالی اس کے پتوں کی بھی مسافت طے کرنے سے پہلے اس کوّے کو بڑھاپا پالے گا “۔
جواب :-
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب حامداًومصلیا ً
اس روایت کو امام طبرانی ؒ نے المعجم الاوسط اور المعجم الکبیر میں ایک ہی سند سے اس طرح ذکر کیا ہے کہ :
”3351 - حدثنا جعفر قال: نا محمد بن بحر الهجيمي قال: نا سعيد بن سالم، عن ابن جريج ، عن عبد الله بن أبي مليكة، عن عبد الله بن الزبير قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:«من قرأ القرآن ظاهرا أو نظرا أعطي شجرة في الجنة، لو أن غرابا أفرخ تحت ورقة منها ثم أدرك ذلك الفرخ فنهض لأدركه الهرم قبل أن يقطع تلك الورقة»(1)
اور امام ابو عبد اللہ الحاکم نے مستدرک میں (3/638)الشیخ ابو محمد المزنی سے اسی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔(2)
اس میں موجود راوی محمد بن بحر الھجیمی منکر اور متروک ہے ۔
اسی طرح امام ابو بکر البزارنے مسند بزار میں (6/148) اس کو ذکر کیا ہے اور اس میں موجود عبد اللہ بن شبیب راوی کو امام ذہبی نے ذاہب الحدیث کہاہے(3)،جبکہ امام ابن شاہین نے الترغیب فی فضائل ِالاعمال میں ( 1/66 ) اس کو نقل کیا ہے ، لیکن اس کے سند میں محمد بن مروان الکوفی راوی کو امام ابو حاتم الرازی نے متروک اور ذاہب الحدیث قرار دیا ہے۔(4)
لہٰذا اس روایت کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرنے اور بیان کرنے سے احتراز لازم ہے ۔
2021/اگست/11 المقوفق /2/المحرم الحرام/1443
مصادر ومراجع:
1. المعجم الأوسط للطبراني (المتوفى: 360هـ)3(/344) وفی المعجم الکبیر ایضا بهذا السند (13/112)
2. الضعفاء الکبیر للعقیلی (4/38)
3. المغنی فی الضعفاء للذهبى (1/342)
4. الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم (8/86 )
جواب :-
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الجواب حامداًومصلیا ً
اس روایت کو امام طبرانی ؒ نے المعجم الاوسط اور المعجم الکبیر میں ایک ہی سند سے اس طرح ذکر کیا ہے کہ :
”3351 - حدثنا جعفر قال: نا محمد بن بحر الهجيمي قال: نا سعيد بن سالم، عن ابن جريج ، عن عبد الله بن أبي مليكة، عن عبد الله بن الزبير قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:«من قرأ القرآن ظاهرا أو نظرا أعطي شجرة في الجنة، لو أن غرابا أفرخ تحت ورقة منها ثم أدرك ذلك الفرخ فنهض لأدركه الهرم قبل أن يقطع تلك الورقة»(1)
اور امام ابو عبد اللہ الحاکم نے مستدرک میں (3/638)الشیخ ابو محمد المزنی سے اسی سند کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔(2)
اس میں موجود راوی محمد بن بحر الھجیمی منکر اور متروک ہے ۔
اسی طرح امام ابو بکر البزارنے مسند بزار میں (6/148) اس کو ذکر کیا ہے اور اس میں موجود عبد اللہ بن شبیب راوی کو امام ذہبی نے ذاہب الحدیث کہاہے(3)،جبکہ امام ابن شاہین نے الترغیب فی فضائل ِالاعمال میں ( 1/66 ) اس کو نقل کیا ہے ، لیکن اس کے سند میں محمد بن مروان الکوفی راوی کو امام ابو حاتم الرازی نے متروک اور ذاہب الحدیث قرار دیا ہے۔(4)
لہٰذا اس روایت کو رسول اللہ ﷺ کی طرف منسوب کرنے اور بیان کرنے سے احتراز لازم ہے ۔
2021/اگست/11 المقوفق /2/المحرم الحرام/1443
مصادر ومراجع:
1. المعجم الأوسط للطبراني (المتوفى: 360هـ)3(/344) وفی المعجم الکبیر ایضا بهذا السند (13/112)
2. الضعفاء الکبیر للعقیلی (4/38)
3. المغنی فی الضعفاء للذهبى (1/342)
4. الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم (8/86 )