نابالغ بچوں کے پرورش کا حق اور تقسیم وراثت
سوال :-
استفتاءمیرا نام زینب ہے اورمیں مرحوم عبد اللہ کی بیوہ ہوں۔میرے چار سوال ہیں جن کا مجھے شریعت کی روشنی میں جواب چاہیئے۔سوال نمبر1:میرے دو بچے ہیں ایک بیٹی جس کا نام انابیہ اورایک بیٹا جس کا نام ابیان ہے۔بیٹی کی عمر پانچ سال اور بیٹے کی عمر تین سال ہے۔میرے مرحوم شوہر کے چار بھائی ایک بہن اور والدہ یعنی میری ساس اس وقت بقید حیات ہیں۔میرے شوہر کی زندگی میں ہی گھر وں کی تقسیم ہوئی ہےاور اس وقت سب اپنے اپنے گھروں میں رہ رہے ہیں۔مرحوم عبد اللہ کے بھانجے سعد کے ساتھ میرادوسرا نکاح ہوا ہے مگرابھی تک رخصتی نہیں ہوئی ،دونوں طرفین مناسب وقت دیکھ کر باہمی رضامندی سے رخصتی کریں گے۔کیا شرعی طور پر مجھے اور میرے بچوں کو میرے مرحوم شوہر کے گھر میں رہنے سے کوئی روک سکتا ہےیا نہیں؟ سوال نمبر2:میرے شوہر نے شادی کے موقع پرمجھے پانچ تولہ سونے کاسیٹ دیاتھا۔ تین تولہ سونا میں اپنے ساتھ اپنے میکے سے لے کر آئی تھی۔دوتولہ سونا میں نے شادی کے بعد اپنے والد اور اپنے شوہر کے پیسوں سے بنوایا ہے جوانہوں نے وقتاً فوقتاً مجھے دیے تھے۔کل دس تولہ سونا ہوا۔اب میرے دیوریہ کہہ رہے ہیں کہ تم اپنے باپ کے گھر کا تین تولہ اور بقیہ سات تولہ میں سے اپنا آٹھواں حصہ لے کر باقی سونا ہمارے حوالے کرو۔کیا شرعی طور پر میرے دیوروں کا یہ مطالبہ درست ہے یا نہیں؟سوال نمبر3:عبد اللہ کے جائیداد میں سے میراآٹھواں حصہ بنتا ہے۔میرے دیوروں کا مطالبہ ہے کہ میں اپناآٹھواں حصہ اپنے بچوں کے نام کردوں ۔میں اپناآٹھواں حصہ کسی کے نام کرنا نہیں چاہتی جب تک کہ میرے بچے بالغ نہیں ہوجاتے۔کیا شرعی طور پر میرایہ عمل درست ہے یا نہیں؟سوال نمبر4:میراجس کے ساتھ نکاح ثانی ہوا ہے کیارخصتی کے بعد وہ اورہم اس گھر میں رہ سکتے ہیں جومیرااور میرے بچوں کے حصے کا ہے جبکہ میرے بچے ابھی چھوٹے ہیں؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں ان سولات کا جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔ سائلہزینبٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداًومصلیاً! سوال میں ذکر شدہ صورت حال کے مطابق اس وقت مرحوم عبد اللہ کے پسماندگان میں سے آپ یعنی عبد اللہ کی بیوہ، عبد اللہ کی والدہ،ایک بیٹا،ایک بیٹی،چاربھائی اور ایک بہن بقیدحیات ہیں۔شرعی ضابطہ میراث کے مطابق ان مذکورہ افراد میں سے عبد اللہ کی میراث کے حقدار اس کی والدہ،بیوی ،بیٹا اور بیٹی ہیں۔صورت مسئولہ کے مطابق مرحوم کے چاروں بھائی اور بہن مرحوم کی میراث سے محروم ہوں گے۔مرحوم کی میراث میں سے بیوی کاحصہ آٹھوں،والدہ کا چھٹا اور بقیہ بیٹے اور بیٹی کاہے۔ عبد اللہ کی جائیداد،کاروبار،سوناچاندی،بینک بیلنس الغرض جوکچھ بھی اس نے چھوڑا ہے ،وہ سب اُس کی میراث میں شامل ہوگا۔ مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ مرحوم کی کل جائیداد منقولہ وغیرمنقولہ میں سے مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے اورمرحوم کے ذمے کوئی قرضہ ہو(مثلاً زندگی میں کسی سے کوئی اُدھار لیا ہو یابیوی کامہرابھی تک ادا نہ کیا ہو وغیرہ )توقرضہ کی ادائیگی کے بعد،اوراگرمرحوم نےکوئی جائز وصیت کی ہو توایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرنے کے بعد بقیہ کل اثاثہ جات منقولہ وغیرمنقولہ کے 72حصے کرکے 9حصےمرحوم کی بیوہ کو،12حصے والدہ کو 34 حصے بیٹے کو اور 17حصے بیٹی کو ملیں گے۔یعنی مثلاً 100میں سے 12.5فیصد بیوی کا،16.66فیصد والدہ کا ،47.22فیصد بیٹے کا اور 23.61 فیصد بیٹی کا حصہ ہوگا۔ بیوہ والدہ بیٹا بیٹی 9حصے 12حصے 34حصے 17حصے 12.5فیصد 16.66 فیصد 47.22 فیصد 23.61 فیصد وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (سورۃ النسآء) اما لاولادالام فاحوال ثلاث :السدس للواحد والثلث بین الاثنین فصاعداً ذکورھم واناثھم فی القسمۃ والاستحقاق سوآء ویسقطون بالولدو ولدالابن وان سفل۔۔۔۔اماللزوجات فحالتان:الربع للواحدۃ فصاعدۃ عند عدم الولد وولد الابن وان سفل والثمن مع الولد اوولدالابن وان سفل۔۔۔۔وامالبنات الصلب فاحوال ثلاث :النصف للواحدۃ والثلثان للاثنتین فصاعدۃ ومع الابن للذکر مثل حظ الانثیین۔۔۔۔واماللام فاحوال ثلاث:السدس مع الولد اوولدالابن وان سفل۔۔۔۔الخ السراجیۃ فی المیراث،مکتبۃ المدینۃ للطباعۃ والنشر والتوزیع،کراچی،الطبعۃ الاولیٰ،2017ء،ص:19،20،21،26۔ مذکورہ بالا صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے شریعت مطہرہ کی روشنی میں آپ کے سوالات کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں: جواب نمبر1:آپ کے مرحوم شوہر کے گھر میں اس وقت چارلوگوں کا حصہ ہے:آپ کا،آپ کےبیٹے کا،آپ کی بیٹی کا اور آپ کی ساس کا۔آپ کی ساس اس گھر میں 16.66فیصد حصے کی حقدارہ ہے جبکہ بقیہ83.34 فیصدحصہ آپ کا اورآپ کے بچوں کا ہے۔ بقول آپ کے آپ کے بیٹے کی عمر تین سال اوربیٹی کی عمر پانچ سال ہے ۔بچے کی عمر سات سال اور بچی کی عمر نوسال ہونے تک ان کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہوتا ہے اس وجہ سے83.34 فیصدحصہ میں توآپ رہ سکتی ہے مگرچونکہ بقیہ16.66 فیصدحصہ آپ کی ساس کاہے اس وجہ سے اُس کی رضامندی اوراجازت ضروری ہے۔ اسی طرح بقول آپ کے "آپ کا دوسرا نکاح مرحوم عبد اللہ کے بھانجے سعدکے ساتھ ہوا ہے مگرابھی تک رخصتی نہیں ہوئی ،دونوں طرفین مناسب وقت دیکھ کر باہمی رضامندی سے رخصتی کریں گے"تو آپ کا نکاح ثانی ایک ایسے شخص کے ساتھ ہوا ہے جوکہ آپ کے بچوں کا محرم رشتہ دار نہیں ہےکیونکہ سعد رشتے میں ان بچوں کا پھوپھی زاد بھائی ہے اور پھوپھی زاد بھائی محرم نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس وجہ سے بچوں کی پرورش سے آپ کا حق ختم ہو جائے گا۔ ایسی صورت میں سات سال سے پہلے لڑکے اور نوسال سے پہلے لڑکی کی پرورش کا حق نانی اور پرنانی کو ملے گا ،ان کے بعد دادی اور پردادی کو،پھرخالہ اور پھوپھی کو ۔ اوراگربچوں کی رشتہ داروں میں سے کوئی عورت پرورش کے لیے نہ ملے توپھردادا وغیرہ عصبات کی ترتیب کے مطابق پرورش کریں گے۔ وَمَنْ نَكَحَتْ غَيْرَ مَحْرَمِهِ سَقَطَ حَقُّهَا أَيْ مَنْ تَزَوَّجَ مِمَّنْ لَهُ حَقُّ الْحَضَانَةِ بِغَيْرِ مَحْرَمٍ لِلصَّغِيرِ سَقَطَ حَقُّهَا لِمَا رَوَيْنَا، وَلِأَنَّ زَوْجَ الْأُمِّ يُعْطِيهِ نَزْرًا، وَيَنْظُرُ إلَيْهِ شَزْرًا فَلَا نَظَرَ فِي الدَّفْعِ إلَيْهِ بِخِلَافِ مَا إذَا كَانَ الزَّوْجُ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ لِلصَّغِيرِ كَالْجَدَّةِ إذَا كَانَ زَوْجُهَا الْجَدَّ، أَوْ الْأُمِّ إذَا كَانَ زَوْجُهَا عَمَّ الصَّغِيرِ، أَوْ الْخَالَةِ إذَا كَانَ زَوْجُهَا عَمَّهُ أَوْ أَخَاهُ، أَوْ عَمَّتِهِ إذَا كَانَ زَوْجُهَا خَالَهُ أَوْ أَخَاهُ مِنْ أُمِّهِ لَا يَسْقُطُ حَقُّهَا لِانْتِفَاءِ الضَّرَرِ عَنْ الصَّغِيرِ۔۔۔الخ تبیین الحقائق،المطبعۃ الکبریٰ الامیریۃ،قاہرہ،مصر،الطبعۃ الاولیٰ،1313ھ،ج:3،ص:47۔ قال الحصکفی:أي بعد الام بأن ماتت أو لم تقبل أو أسقطت حقها أو تزوجت بأجنبي (أم الام) وإن علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الاب وإن علت) بالشرط المذكور، وأما أم أبي الام فتؤخر عن أم الاب بل عن الخالة أيضا.بحر (ثم الاخت لاب وأم، ثم لام) لان هذا الحق لقرابة الام (ثم) الاخت (لاب) ثم بنت الاخت لابوين ثم لام، ثم لاب (ثم الخالات كذلك) أي لابوين، ثم لام ثم الاب، ثم بنت الاخت لاب، ثم بنات الاخ (ثم العمات كذلك) ثم خالة الام كذلك، ثم خالة الاب كذلك، ثم عمات الامهات والآباء بهذا الترتيب، ثم العصبات بترتيب الارث فيقدم الاب ثم الجد ثم الاخ الشقيق، ثم لاب ثم بنوه كذلك، ثم العم ثم بنوه.۔۔۔۔الخ الدر المختار،باب الحضانۃ،دارالفکر،بیروت،ج:3،ص:563۔ بچے کی عمر سات سال اور بچی کی عمر نوسال ہونے تک ان کی پرورش کا حق والدہ کو حاصل ہے بشرطیکہ وہ ایسی جگہ نکاح نہ کرے جو ان بچوں کے لیے غیرمحرم ہو۔ خیر الفتاویٰ،مکتبہ امدادیہ ملتان،ج:4،ص:578۔ جواب نمبر2:جو تین تولہ سونا آپ اپنے میکے سے اپنے ساتھ لے کر آئی ہے وہ آپ ہی کا ہے ۔اسی طرح وہ دو تولہ سونا جو بقول آپ کے آپ نے اُن پیسوں سےبنوایا ہے جو وقتاً فوقتاً آپ کو آپ کے مرحوم شوہر اور والد نے دیے ہیں وہ بھی آپ ہی کا ہے۔ یہ کل پانچ تولہ سونا ہوا ۔اور باقی وہ پانچ تولہ سونےکا سیٹ جو بقول آپ کے آپ کو شادی کے موقع پر آپ کے مرحوم شوہر نے دیا تھاتو اس میں برادری کےعرف اور رواج کا اعتبار ہوگا۔اگر شوہر کے خاندان اوربرادری کا عرف ورواج یہ ہو کہ اس طرح کے زیورات پورے طور پر لڑکی کے ملکیت میں دے دیے جاتے ہیں تو پھر وہ آپ کے ہوں گے، اور اگر شوہر کے خاندان و برادری کا عرف ورواج یہ ہو کہ اس طرح کے زیورات پرتصرف اورملکیت کاحق لڑکے والوں کا ہوتا ہے تو پھر اس صورت میں ان پانچ تولہ سونے میں آپ کا صرف آٹھواں حصہ ہوگا اور بقیہ سونا دیگر ورثاء کا ہوگا۔ ہمارے عرف ورواج میں عام طور پر سسرال کی طرف سے ملنے والے زیورات میں ملکیت لڑکی کی نہیں ہوتی بلکہ شوہر اور سسرال والوں کی ہی ملکیت برقرار رہتی ہے۔لڑکی کو صرف ان زیورات کے استعمال کا حق حاصل ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ ان زیورات کی مالک نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ لڑکی ان زیورات کو شوہر کی اجازت کے بغیر فروخت نہیں کرسکتی اور نہ ہی کسی کو دے سکتی ہے۔ان زیورات میں کسی بھی قسم کاتصرف کرنے سے پہلے بیوی اپنے شوہر سے اجازت لینے کا پابند ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ہمارے عرف ورواج کومدنظر رکھتے ہوئے ان پانچ تولے سونے میں آپ کا صرف آٹھواں حصہ ہوگا اور بقیہ سونا آپ کے مرحوم شوہر کے دیگر ورثاء کا ہوگا۔ جهز ابنته ثم ادعى أن ما دفعه لها عارية وقالت هو تمليك أو قال الزوج ذلك بعد موتها ليرث منه وقال الأب أو ورثته بعد موته عارية فالمعتمد أن القول للزوج ولها إذا كان العرف مستمرا أن الأب يدفع مثله جهازا لا عارية۔۔۔۔۔۔قلت: ومقتضاه أن المراد من استمرار العرف هنا غلبته، ومن الاشتراك كثرة كل منهما إذ لا نظر إلى النادر ولأن حمل الاستمرار على كل واحد من أفراد الناس في تلك البلدة لا يمكن، ويلزم عليه إحالة المسألة إذ لا شك في صدور العارية من بعض الأفراد والعادة الفاشية الغالبة في أشراف الناس وأوساطهم دفع ما زاد على المهر من الجهاز تمليكا سوى ما يكون على الزوجة ليلة الزفاف من الحلي والثياب، فإن الكثير منه أو الأكثر عارية۔۔۔۔ ورأيت في حاشية الأشباه للسيد محمد أبي السعود عن حاشية الغزي قال الشيخ الإمام الأجل الشهيد: المختار للفتوى أن يحكم بكون الجهاز ملكا لا عارية لأن الظاهر الغالب إلا في بلدة جرت العادة بدفع الكل عارية فالقول للأب. وأما إذا جرت في البعض يكون الجهاز تركة يتعلق بها حق الورثة هو الصحيح. اهـ. ولعل وجهه أن البعض الذي يدعيه الأب بعينه عارية لم تشهد به العادة، بخلاف ما لو جرت العادة بإعارة الكل فلا يتعلق به حق ورثتها بل يكون كله للأب، والله تعالى أعلم. حاشیہ ابن عابدین،دار عالم الکتب للطباعۃ والنشر والتوزیع،الریاض،2003ء،ج:4ص:308۔ جواب نمبر3:آپ کواپنے مرحوم شوہر کی میراث میں سے جو آٹھواں حصہ ملتا ہے ،شریعت کی روشنی میں وہ آپ ہی کا ہے۔کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ آپ کی اجازت اورآپ کی مرضی کے بغیر آپ کےحصہ پرقبضہ کرے۔آپ کا یہ کہنا کہ آپ کے دیور آپ سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ آپ اپناحصہ اپنے بچوں کے نام کرلواور بقول آپ کے آپ ایساکرنا نہیں چاہتی تو شرعاً آپ کی مرضی کے بغیر آپ کے دیوروں کا آپ سے یہ مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔وہ آٹھواں حصہ آپ ہی کا ہے ،آپ کی مرضی اورآپ کی اجازت کےبغیر کسی کو بھی اس میں تصرف کا حق حاصل نہیں۔ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، وَسَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ:هَذَا المَالُ وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ لِي يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا المَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِطِيبِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلاَ يَشْبَعُ، وَاليَدُ العُلْيَا خَيْرٌ مِنَ اليَدِ السُّفْلَى۔ صحیح البخاری،دارالحضارۃ للنشر والتوزیع،الطبعۃ الثالثہ،2015ء،رقم الحدیث:6441۔ علامہ ابن نجیم ؒ فرماتے ہیں : لا یجوز لاحد من المسلمین اخذ مال احد بغیر سبب شرعی۔۔۔الخ البحر الرائق،دار الکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1997ء،ج:5،ص:69. جواب نمبر4:آپ کا یہ کہنا کہ " میراجس کے ساتھ نکاح ثانی ہوا ہے کیارخصتی کے بعد وہ اورہم اس گھر میں رہ سکتے ہیں جو میرااور میرے بچوں کے حصے کا ہے جبکہ میرے بچے ابھی چھوٹے ہیں؟"اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ جس کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا ہےیعنی مرحوم عبد اللہ کے بھانجے سعد کے ساتھ، وہ آپ کے بچوں کا محرم رشتہ دار نہیں ہے۔تو چونکہ اس صورت میں بچوں کی پرورش سے آپ کا حق ختم ہوا ہےتو بچوں کے حصہ کوبھی بغیران کے اجازت کے استعمال کرنا درست نہیں ہے۔اور بقول آپ کےچونکہ بیٹے کی عمر تین سال اور بیٹی کی عمر پانچ سال ہے تو وہ دونوں ابھی نابالغ ہیں،اور نابالغ کی اجازت شرعاً معتبر نہیں ہوتی ،اس وجہ سے اس صورت میں آپ بچوں کے حصے کو بھی استعمال نہیں کرسکتی ۔لہٰذا اس گھر کا 87.5فیصد حصہ جو آپ کے بچوں اورآپ کی ساس کا ہے اس میں آپ نہیں رہ سکتی ،صرف اپنے 12.5فیصد حصے میں رہ سکتی ہے۔ (وتصرف الصبي والمعتوه) الذي يعقل البيع والشراء (إن كان نافعا) محضا (كالإسلام والاتهاب صح بلا إذن وإن ضارا كالطلاق والعتاق) والصدقة والقرض (لا وإن أذن به وليهما وما تردد) من العقود (بين نفع وضرر كالبيع والشراء توقف على الإذن) حتى لو بلغ فأجازه نفذ (فإن أذن لهما الولي فهما في شراء وبيع كعبد مأذون) في كل أحكامه.(والشرط) لصحة الإذن (أن يعقلا البيع سالبا للملك) عن البائع (والشراء جالبا له) زاد الزيلعي: وأن يقصد الربح ويعرف الغبن اليسير من الفاحش۔۔۔الخ الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،ج:6،ص:173۔ نابالغ بچوں کو جو پیسے ملتے ہیں وہ ان ہی کی ضروریات میں صرف کردینے چاہیئے۔والدین اپنی ضرورت میں استعمال نہیں کرسکتے۔ امداد الفتاویٰ،مکتبہ دارالعلوم کراچی،ج:3،ص:480۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداًومصلیاً! سوال میں ذکر شدہ صورت حال کے مطابق اس وقت مرحوم عبد اللہ کے پسماندگان میں سے آپ یعنی عبد اللہ کی بیوہ، عبد اللہ کی والدہ،ایک بیٹا،ایک بیٹی،چاربھائی اور ایک بہن بقیدحیات ہیں۔شرعی ضابطہ میراث کے مطابق ان مذکورہ افراد میں سے عبد اللہ کی میراث کے حقدار اس کی والدہ،بیوی ،بیٹا اور بیٹی ہیں۔صورت مسئولہ کے مطابق مرحوم کے چاروں بھائی اور بہن مرحوم کی میراث سے محروم ہوں گے۔مرحوم کی میراث میں سے بیوی کاحصہ آٹھوں،والدہ کا چھٹا اور بقیہ بیٹے اور بیٹی کاہے۔ عبد اللہ کی جائیداد،کاروبار،سوناچاندی،بینک بیلنس الغرض جوکچھ بھی اس نے چھوڑا ہے ،وہ سب اُس کی میراث میں شامل ہوگا۔ مرحوم کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ کار یہ ہے کہ مرحوم کی کل جائیداد منقولہ وغیرمنقولہ میں سے مرحوم کے حقوق متقدمہ یعنی تجہیز وتکفین کے اخراجات نکالنے اورمرحوم کے ذمے کوئی قرضہ ہو(مثلاً زندگی میں کسی سے کوئی اُدھار لیا ہو یابیوی کامہرابھی تک ادا نہ کیا ہو وغیرہ )توقرضہ کی ادائیگی کے بعد،اوراگرمرحوم نےکوئی جائز وصیت کی ہو توایک تہائی مال میں سے وصیت کو نافذ کرنے کے بعد بقیہ کل اثاثہ جات منقولہ وغیرمنقولہ کے 72حصے کرکے 9حصےمرحوم کی بیوہ کو،12حصے والدہ کو 34 حصے بیٹے کو اور 17حصے بیٹی کو ملیں گے۔یعنی مثلاً 100میں سے 12.5فیصد بیوی کا،16.66فیصد والدہ کا ،47.22فیصد بیٹے کا اور 23.61 فیصد بیٹی کا حصہ ہوگا۔ بیوہ والدہ بیٹا بیٹی 9حصے 12حصے 34حصے 17حصے 12.5فیصد 16.66 فیصد 47.22 فیصد 23.61 فیصد وَلَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ أَزْوَاجُكُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهُنَّ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَهُنَّ وَلَدٌ فَلَكُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْنَ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِينَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَلَهُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَكْتُمْ إِنْ لَمْ يَكُنْ لَكُمْ وَلَدٌ فَإِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَكْتُمْ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ تُوصُونَ بِهَا أَوْ دَيْنٍ وَإِنْ كَانَ رَجُلٌ يُورَثُ كَلَالَةً أَوِ امْرَأَةٌ وَلَهُ أَخٌ أَوْ أُخْتٌ فَلِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا السُّدُسُ فَإِنْ كَانُوا أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَهُمْ شُرَكَاءُ فِي الثُّلُثِ مِنْ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصَى بِهَا أَوْ دَيْنٍ غَيْرَ مُضَارٍّ وَصِيَّةً مِنَ اللَّهِ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَلِيمٌ يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ إِنِ امْرُؤٌ هَلَكَ لَيْسَ لَهُ وَلَدٌ وَلَهُ أُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ وَهُوَ يَرِثُهَا إِنْ لَمْ يَكُنْ لَهَا وَلَدٌ فَإِنْ كَانَتَا اثْنَتَيْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثَانِ مِمَّا تَرَكَ وَإِنْ كَانُوا إِخْوَةً رِجَالًا وَنِسَاءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنْثَيَيْنِ يُبَيِّنُ اللَّهُ لَكُمْ أَنْ تَضِلُّوا وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ (سورۃ النسآء) اما لاولادالام فاحوال ثلاث :السدس للواحد والثلث بین الاثنین فصاعداً ذکورھم واناثھم فی القسمۃ والاستحقاق سوآء ویسقطون بالولدو ولدالابن وان سفل۔۔۔۔اماللزوجات فحالتان:الربع للواحدۃ فصاعدۃ عند عدم الولد وولد الابن وان سفل والثمن مع الولد اوولدالابن وان سفل۔۔۔۔وامالبنات الصلب فاحوال ثلاث :النصف للواحدۃ والثلثان للاثنتین فصاعدۃ ومع الابن للذکر مثل حظ الانثیین۔۔۔۔واماللام فاحوال ثلاث:السدس مع الولد اوولدالابن وان سفل۔۔۔۔الخ السراجیۃ فی المیراث،مکتبۃ المدینۃ للطباعۃ والنشر والتوزیع،کراچی،الطبعۃ الاولیٰ،2017ء،ص:19،20،21،26۔ مذکورہ بالا صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے شریعت مطہرہ کی روشنی میں آپ کے سوالات کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں: جواب نمبر1:آپ کے مرحوم شوہر کے گھر میں اس وقت چارلوگوں کا حصہ ہے:آپ کا،آپ کےبیٹے کا،آپ کی بیٹی کا اور آپ کی ساس کا۔آپ کی ساس اس گھر میں 16.66فیصد حصے کی حقدارہ ہے جبکہ بقیہ83.34 فیصدحصہ آپ کا اورآپ کے بچوں کا ہے۔ بقول آپ کے آپ کے بیٹے کی عمر تین سال اوربیٹی کی عمر پانچ سال ہے ۔بچے کی عمر سات سال اور بچی کی عمر نوسال ہونے تک ان کی پرورش کا حق ماں کو حاصل ہوتا ہے اس وجہ سے83.34 فیصدحصہ میں توآپ رہ سکتی ہے مگرچونکہ بقیہ16.66 فیصدحصہ آپ کی ساس کاہے اس وجہ سے اُس کی رضامندی اوراجازت ضروری ہے۔ اسی طرح بقول آپ کے "آپ کا دوسرا نکاح مرحوم عبد اللہ کے بھانجے سعدکے ساتھ ہوا ہے مگرابھی تک رخصتی نہیں ہوئی ،دونوں طرفین مناسب وقت دیکھ کر باہمی رضامندی سے رخصتی کریں گے"تو آپ کا نکاح ثانی ایک ایسے شخص کے ساتھ ہوا ہے جوکہ آپ کے بچوں کا محرم رشتہ دار نہیں ہےکیونکہ سعد رشتے میں ان بچوں کا پھوپھی زاد بھائی ہے اور پھوپھی زاد بھائی محرم نہیں ہوتا۔ لہٰذا اس وجہ سے بچوں کی پرورش سے آپ کا حق ختم ہو جائے گا۔ ایسی صورت میں سات سال سے پہلے لڑکے اور نوسال سے پہلے لڑکی کی پرورش کا حق نانی اور پرنانی کو ملے گا ،ان کے بعد دادی اور پردادی کو،پھرخالہ اور پھوپھی کو ۔ اوراگربچوں کی رشتہ داروں میں سے کوئی عورت پرورش کے لیے نہ ملے توپھردادا وغیرہ عصبات کی ترتیب کے مطابق پرورش کریں گے۔ وَمَنْ نَكَحَتْ غَيْرَ مَحْرَمِهِ سَقَطَ حَقُّهَا أَيْ مَنْ تَزَوَّجَ مِمَّنْ لَهُ حَقُّ الْحَضَانَةِ بِغَيْرِ مَحْرَمٍ لِلصَّغِيرِ سَقَطَ حَقُّهَا لِمَا رَوَيْنَا، وَلِأَنَّ زَوْجَ الْأُمِّ يُعْطِيهِ نَزْرًا، وَيَنْظُرُ إلَيْهِ شَزْرًا فَلَا نَظَرَ فِي الدَّفْعِ إلَيْهِ بِخِلَافِ مَا إذَا كَانَ الزَّوْجُ ذَا رَحِمٍ مَحْرَمٍ لِلصَّغِيرِ كَالْجَدَّةِ إذَا كَانَ زَوْجُهَا الْجَدَّ، أَوْ الْأُمِّ إذَا كَانَ زَوْجُهَا عَمَّ الصَّغِيرِ، أَوْ الْخَالَةِ إذَا كَانَ زَوْجُهَا عَمَّهُ أَوْ أَخَاهُ، أَوْ عَمَّتِهِ إذَا كَانَ زَوْجُهَا خَالَهُ أَوْ أَخَاهُ مِنْ أُمِّهِ لَا يَسْقُطُ حَقُّهَا لِانْتِفَاءِ الضَّرَرِ عَنْ الصَّغِيرِ۔۔۔الخ تبیین الحقائق،المطبعۃ الکبریٰ الامیریۃ،قاہرہ،مصر،الطبعۃ الاولیٰ،1313ھ،ج:3،ص:47۔ قال الحصکفی:أي بعد الام بأن ماتت أو لم تقبل أو أسقطت حقها أو تزوجت بأجنبي (أم الام) وإن علت عند عدم أهلية القربى (ثم أم الاب وإن علت) بالشرط المذكور، وأما أم أبي الام فتؤخر عن أم الاب بل عن الخالة أيضا.بحر (ثم الاخت لاب وأم، ثم لام) لان هذا الحق لقرابة الام (ثم) الاخت (لاب) ثم بنت الاخت لابوين ثم لام، ثم لاب (ثم الخالات كذلك) أي لابوين، ثم لام ثم الاب، ثم بنت الاخت لاب، ثم بنات الاخ (ثم العمات كذلك) ثم خالة الام كذلك، ثم خالة الاب كذلك، ثم عمات الامهات والآباء بهذا الترتيب، ثم العصبات بترتيب الارث فيقدم الاب ثم الجد ثم الاخ الشقيق، ثم لاب ثم بنوه كذلك، ثم العم ثم بنوه.۔۔۔۔الخ الدر المختار،باب الحضانۃ،دارالفکر،بیروت،ج:3،ص:563۔ بچے کی عمر سات سال اور بچی کی عمر نوسال ہونے تک ان کی پرورش کا حق والدہ کو حاصل ہے بشرطیکہ وہ ایسی جگہ نکاح نہ کرے جو ان بچوں کے لیے غیرمحرم ہو۔ خیر الفتاویٰ،مکتبہ امدادیہ ملتان،ج:4،ص:578۔ جواب نمبر2:جو تین تولہ سونا آپ اپنے میکے سے اپنے ساتھ لے کر آئی ہے وہ آپ ہی کا ہے ۔اسی طرح وہ دو تولہ سونا جو بقول آپ کے آپ نے اُن پیسوں سےبنوایا ہے جو وقتاً فوقتاً آپ کو آپ کے مرحوم شوہر اور والد نے دیے ہیں وہ بھی آپ ہی کا ہے۔ یہ کل پانچ تولہ سونا ہوا ۔اور باقی وہ پانچ تولہ سونےکا سیٹ جو بقول آپ کے آپ کو شادی کے موقع پر آپ کے مرحوم شوہر نے دیا تھاتو اس میں برادری کےعرف اور رواج کا اعتبار ہوگا۔اگر شوہر کے خاندان اوربرادری کا عرف ورواج یہ ہو کہ اس طرح کے زیورات پورے طور پر لڑکی کے ملکیت میں دے دیے جاتے ہیں تو پھر وہ آپ کے ہوں گے، اور اگر شوہر کے خاندان و برادری کا عرف ورواج یہ ہو کہ اس طرح کے زیورات پرتصرف اورملکیت کاحق لڑکے والوں کا ہوتا ہے تو پھر اس صورت میں ان پانچ تولہ سونے میں آپ کا صرف آٹھواں حصہ ہوگا اور بقیہ سونا دیگر ورثاء کا ہوگا۔ ہمارے عرف ورواج میں عام طور پر سسرال کی طرف سے ملنے والے زیورات میں ملکیت لڑکی کی نہیں ہوتی بلکہ شوہر اور سسرال والوں کی ہی ملکیت برقرار رہتی ہے۔لڑکی کو صرف ان زیورات کے استعمال کا حق حاصل ہوتا ہے لیکن درحقیقت وہ ان زیورات کی مالک نہیں ہوتی۔یہی وجہ ہے کہ لڑکی ان زیورات کو شوہر کی اجازت کے بغیر فروخت نہیں کرسکتی اور نہ ہی کسی کو دے سکتی ہے۔ان زیورات میں کسی بھی قسم کاتصرف کرنے سے پہلے بیوی اپنے شوہر سے اجازت لینے کا پابند ہوتی ہے۔ اس وجہ سے ہمارے عرف ورواج کومدنظر رکھتے ہوئے ان پانچ تولے سونے میں آپ کا صرف آٹھواں حصہ ہوگا اور بقیہ سونا آپ کے مرحوم شوہر کے دیگر ورثاء کا ہوگا۔ جهز ابنته ثم ادعى أن ما دفعه لها عارية وقالت هو تمليك أو قال الزوج ذلك بعد موتها ليرث منه وقال الأب أو ورثته بعد موته عارية فالمعتمد أن القول للزوج ولها إذا كان العرف مستمرا أن الأب يدفع مثله جهازا لا عارية۔۔۔۔۔۔قلت: ومقتضاه أن المراد من استمرار العرف هنا غلبته، ومن الاشتراك كثرة كل منهما إذ لا نظر إلى النادر ولأن حمل الاستمرار على كل واحد من أفراد الناس في تلك البلدة لا يمكن، ويلزم عليه إحالة المسألة إذ لا شك في صدور العارية من بعض الأفراد والعادة الفاشية الغالبة في أشراف الناس وأوساطهم دفع ما زاد على المهر من الجهاز تمليكا سوى ما يكون على الزوجة ليلة الزفاف من الحلي والثياب، فإن الكثير منه أو الأكثر عارية۔۔۔۔ ورأيت في حاشية الأشباه للسيد محمد أبي السعود عن حاشية الغزي قال الشيخ الإمام الأجل الشهيد: المختار للفتوى أن يحكم بكون الجهاز ملكا لا عارية لأن الظاهر الغالب إلا في بلدة جرت العادة بدفع الكل عارية فالقول للأب. وأما إذا جرت في البعض يكون الجهاز تركة يتعلق بها حق الورثة هو الصحيح. اهـ. ولعل وجهه أن البعض الذي يدعيه الأب بعينه عارية لم تشهد به العادة، بخلاف ما لو جرت العادة بإعارة الكل فلا يتعلق به حق ورثتها بل يكون كله للأب، والله تعالى أعلم. حاشیہ ابن عابدین،دار عالم الکتب للطباعۃ والنشر والتوزیع،الریاض،2003ء،ج:4ص:308۔ جواب نمبر3:آپ کواپنے مرحوم شوہر کی میراث میں سے جو آٹھواں حصہ ملتا ہے ،شریعت کی روشنی میں وہ آپ ہی کا ہے۔کسی اور کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ آپ کی اجازت اورآپ کی مرضی کے بغیر آپ کےحصہ پرقبضہ کرے۔آپ کا یہ کہنا کہ آپ کے دیور آپ سے یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ آپ اپناحصہ اپنے بچوں کے نام کرلواور بقول آپ کے آپ ایساکرنا نہیں چاہتی تو شرعاً آپ کی مرضی کے بغیر آپ کے دیوروں کا آپ سے یہ مطالبہ کرنا درست نہیں ہے۔وہ آٹھواں حصہ آپ ہی کا ہے ،آپ کی مرضی اورآپ کی اجازت کےبغیر کسی کو بھی اس میں تصرف کا حق حاصل نہیں۔ حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ، يَقُولُ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ، وَسَعِيدُ بْنُ المُسَيِّبِ، عَنْ حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ، قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ سَأَلْتُهُ فَأَعْطَانِي، ثُمَّ قَالَ:هَذَا المَالُ وَرُبَّمَا قَالَ سُفْيَانُ: قَالَ لِي يَا حَكِيمُ، إِنَّ هَذَا المَالَ خَضِرَةٌ حُلْوَةٌ، فَمَنْ أَخَذَهُ بِطِيبِ نَفْسٍ بُورِكَ لَهُ فِيهِ، وَمَنْ أَخَذَهُ بِإِشْرَافِ نَفْسٍ لَمْ يُبَارَكْ لَهُ فِيهِ، وَكَانَ كَالَّذِي يَأْكُلُ وَلاَ يَشْبَعُ، وَاليَدُ العُلْيَا خَيْرٌ مِنَ اليَدِ السُّفْلَى۔ صحیح البخاری،دارالحضارۃ للنشر والتوزیع،الطبعۃ الثالثہ،2015ء،رقم الحدیث:6441۔ علامہ ابن نجیم ؒ فرماتے ہیں : لا یجوز لاحد من المسلمین اخذ مال احد بغیر سبب شرعی۔۔۔الخ البحر الرائق،دار الکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1997ء،ج:5،ص:69. جواب نمبر4:آپ کا یہ کہنا کہ " میراجس کے ساتھ نکاح ثانی ہوا ہے کیارخصتی کے بعد وہ اورہم اس گھر میں رہ سکتے ہیں جو میرااور میرے بچوں کے حصے کا ہے جبکہ میرے بچے ابھی چھوٹے ہیں؟"اس کا دارومدار اس بات پر ہے کہ جس کے ساتھ آپ کا نکاح ہوا ہےیعنی مرحوم عبد اللہ کے بھانجے سعد کے ساتھ، وہ آپ کے بچوں کا محرم رشتہ دار نہیں ہے۔تو چونکہ اس صورت میں بچوں کی پرورش سے آپ کا حق ختم ہوا ہےتو بچوں کے حصہ کوبھی بغیران کے اجازت کے استعمال کرنا درست نہیں ہے۔اور بقول آپ کےچونکہ بیٹے کی عمر تین سال اور بیٹی کی عمر پانچ سال ہے تو وہ دونوں ابھی نابالغ ہیں،اور نابالغ کی اجازت شرعاً معتبر نہیں ہوتی ،اس وجہ سے اس صورت میں آپ بچوں کے حصے کو بھی استعمال نہیں کرسکتی ۔لہٰذا اس گھر کا 87.5فیصد حصہ جو آپ کے بچوں اورآپ کی ساس کا ہے اس میں آپ نہیں رہ سکتی ،صرف اپنے 12.5فیصد حصے میں رہ سکتی ہے۔ (وتصرف الصبي والمعتوه) الذي يعقل البيع والشراء (إن كان نافعا) محضا (كالإسلام والاتهاب صح بلا إذن وإن ضارا كالطلاق والعتاق) والصدقة والقرض (لا وإن أذن به وليهما وما تردد) من العقود (بين نفع وضرر كالبيع والشراء توقف على الإذن) حتى لو بلغ فأجازه نفذ (فإن أذن لهما الولي فهما في شراء وبيع كعبد مأذون) في كل أحكامه.(والشرط) لصحة الإذن (أن يعقلا البيع سالبا للملك) عن البائع (والشراء جالبا له) زاد الزيلعي: وأن يقصد الربح ويعرف الغبن اليسير من الفاحش۔۔۔الخ الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،ج:6،ص:173۔ نابالغ بچوں کو جو پیسے ملتے ہیں وہ ان ہی کی ضروریات میں صرف کردینے چاہیئے۔والدین اپنی ضرورت میں استعمال نہیں کرسکتے۔ امداد الفتاویٰ،مکتبہ دارالعلوم کراچی،ج:3،ص:480۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی