مہر کے عوض خلع کرنے کا شرعی حکم

سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ یہاں ایک جگہ میاں بیوی کے مابین شدید قسم کااختلاف پیدا ہوگیا ہے اور بات یہاں تک آپہنچی ہے کہ بیوی میکے جاکربیٹھ گئی ہے اور طلاق کامطالبہ کررہی ہے۔تفصیل یوں ہے کہ لڑکی کوشادی کے وقت سسرال والوں کی طرف سے ڈیڑھ تولہ سونا دیا گیا تھا۔شادی کے بعد سسرال میں ایک مریض کی بیماری شدت اختیار کر گئی جس کے لیے آپریشن کرنا پڑا۔آپریشن کے اخراجات کی وجہ سے سسرال والوں نے وہ سونافروخت کردیا۔ صرف اس لڑکی کے اس ڈیڑھ تولہ سونے کو ہی نہیں بلکہ انہوں نے دوسری بہو کے ڈیڑھ تولہ سونے کو بھی فروخت کردیاتھا۔اب وہ لڑکی ناراض ہوکرمیکے چلی گئی ہے ۔لڑکے والوں کی طرف سےلڑکی کوواپس لانے کے لیے جرگہ بھیجا گیاجس کامیں بھی ایک رکن ہوں۔وہاں جب ہم لوگ گئے تولڑکی نے سب سے پہلے اس ڈیڑھ تولے سونے کی بات کی کہ میراسوناکیوں فروخت کیا ہے؟ اس کے جواب میں لڑکے والوں نے بیماری والی بات کی اور یہ بھی کہا کہ صرف تمہارا ہی نہیں بلکہ مجبوری کی وجہ سے دوسری بہو کا سونا بھی فروخت کیا ہے اورجب حالات ٹھیک ہوجائیں تو دوبارہ بنا کر دیں گے۔اس پروہ راضی نہ ہوئی،جرگہ کے ایک ممبر ہونے کی وجہ سے میں نے لڑکی کو کہا کہ بیٹی!میں اپنے گھر سے ابھی ڈیڑھ تولہ سونالاکرتمہیں دیتا ہوں اور جب یہ لوگ آپ کو بنا کردے دیں تومیں اپنا والاسوناواپس لے لوں گا،اوراگرانہوں نے وعدہ خلافی کی توآپ وہی میرے والا سونا رکھ لینا،مگر وہ اس بات کو بھی ماننے کے لیے تیار نہ ہوئی۔پھراس نے الگ گھر والی بات کی اوراپنے الگ گھر کامطالبہ کیا۔اس پرمیاں اور اس کے والد یعنی لڑکی کے سسرنے کہا کہ فی الحال ہم تقریباً 600000کےمقروض ہیں اس وجہ سے فی الحال الگ گھر میں نہیں رکھ سکتے ، ہاں اس موجودہ گھرمیں آپ کوالگ کرلیں گے اورآپ باقی لوگوں سے بالکل الگ ہوجاؤگی ۔اس پرلڑکی نے کہا کہ مجھے پھراس گھر میں ایک الگ کچن بنا کر دوگے، سسرال والوں نے کہا کہ فی الحال ہم لوگ الگ کچن تعمیر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے آپ اسی موجودہ کچن کواپنے لیے الگ طور پر استعمال کیا کرو ،مگرلڑکی راضی نہ ہوئی۔اب لڑکی یہی مطالبہ کررہی ہے کہ مجھے طلاق دے دومیں آپ کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی۔اس مذکورہ تفصیل کوسامنے رکھتے ہوئے یہ بتائیں کہ اس صورت میں اگریہ لڑکاخلع کرے تو مہرکے بدلے خلع کرنا جائز ہوگا یا نہیں؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کرثواب دارین حاصل کریں۔المستفتیحاجی فقیرگلکالوگے ٹوپی(صوابی)

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کے مطابق سب سے پہلے میاں بیوی میں صلح کی پوری کوشش کرنی چاہیئے،اور جدائی تک بات لے جانے سے حتی الامکان گریز کرنی چاہیئے۔دونوں طرف سے حکمین مقرر کیے جائیں ،پھراگریہ حکمین خلوص نیت کے ساتھ میاں بیوی میں صلح کی کوشش کریں توان شاء اللہ العزیز بات بن جائے گی۔اس کے بعد بھی اگر بات نہیں بنتی اورہرحال میں بات خلع تک ہی جاپہنچتی ہے تو پھرصورت مسئولہ کے مطابق خلع کاحکم بیان کرنے سے پہلے خلع کے بارے میں مندرجہ ذیل پانچ باتوں کا جاننا ضروری ہے:
پہلی بات یہ کہ خلع طلاق بائن ہوتا ہے،اس وجہ سے اگردوبارہ دونوں راضی ہوں تونکاح جدید کرسکتے ہیں بشرط یہ کہ خلع کے بعد دوران عدت کوئی اور طلاق نہ دی ہو۔
دوسری بات یہ کہ چونکہ خلع طلاق بائن ہوتا ہے اس وجہ سے خلع کے بعد تین ماہ تک عدت گزارنا عورت پرلازم ہوگااورایام عدت کا نفقہ اورسکنیٰ یعنی خرچہ اور رہائش دونوں شوہر کے ذمے لازم ہوں گے۔ہاں اگر خلع کرنے سے پہلے شوہر نے یہ وضاحت کردی کہ میں ایام عدت کاخرچہ اوررہائش وغیرہ کسی بھی چیز کا ذمہ دار نہیں ہوں گا تو پھر اس کے ذمہ لازم نہیں ہوگا۔
تیسری بات یہ کہ خلع سے حقوق مالیہ ساقط ہوجاتے ہیں اس وجہ سے اگرابھی تک شوہرنے مہر ادانہ کیا ہو توخلع کرنے سے وہ ساقط ہوجائے گا اور بیوی کو پھرمہر کے مطالبہ کا کوئی حق نہیں ہوگا۔
چوتھی بات یہ کہ اگر قصورشوہرکا ہو تواس کے لیے طلاق کے عوض بیوی سے کچھ بھی لینا حرام ہے۔اوراگرقصوربیوی کا ہو یا میاں بیوی دونوں قصوروار ہوں تواس صورت میں شوہر کے لیے بیوی سے طلاق کے عوض مال لینا جائز ہے ،مگر جتناشوہرنے بیوی کودیا ہے مہروغیرہ کی صورت میں اس مقدار سے زیادہ لینا پسندیدہ نہیں ہے۔
پانچویں بات یہ کہ خلع میں میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے۔میاں بیوی دونوں کی اجازت اوربدل خلع کے بارے میں طے شدہ شرائط ومعاملات پررضامندی کے بعد ہی خلع ہو سکتا ہے۔
خلع کے بارے میں مذکورہ بالا وضاحت اور سوال میں ذکرشدہ صورت حال(بشرط صحت سوال) کوسامنے رکھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ:"صورت مسئولہ کے مطابق شوہر کے لیے مہر کے بدلے خلع کرنا جائز ہے۔چونکہ زیادتی بیوی کی طرف سے ہے یا پھر میاں بیوی دونوں کی طرف سے ہے، صرف میاں قصور وارنہیں ہے اس وجہ سے اگرابھی تک میاں نے مہر ادانہ کیا ہو تو وہ خود بخود خلع کی وجہ سے ساقط ہو جائے گا اور بیوی کو خلع کے بعد مہر کے مطالبہ کا کوئی حق نہیں ہوگا۔اوراگرمیاں مہر اداکرچکا ہو توپھر اگرخلع مہر پرہوا ہو توبیوی پرلازم ہوگا کہ مہر واپس کردے اور اگرمہر کے علاوہ مال پر ہوا ہو تو اس صورت میں شوہر مہر کے مقدار کے بقدرمال کابیوی سے مطالبہ کرسکتا ہے۔علاوہ ازیں اگرخلع سے پہلے میاں کی طرف سے یہ وضاحت کی جائے کہ میں ایام عدت کا خرچہ نہیں دوں گا توپھرخلع کے بعد وہ بھی نہیں ملے گا۔چونکہ خلع طلاق بائن ہوتا ہے اس وجہ سے دوبارہ دونوں اگر چاہیں تونکاح جدید کرسکتے ہیں"۔

الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ وَلَا يَحِلُّ لَكُمْ أَنْ تَأْخُذُوا مِمَّا آتَيْتُمُوهُنَّ شَيْئًا إِلَّا أَنْ يَخَافَا أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا يُقِيمَا حُدُودَ اللَّهِ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا فِيمَا افْتَدَتْ بِهِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلَا تَعْتَدُوهَا وَمَنْ يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ۔
سورۃ البقرۃ،آیت:229۔
(وكره) تحريما (أخذ شيء) ويلحق به الإبراء عما لها عليه (إن نشز وإن نشزت لا) ولو منه نشوز أيضا ولو بأكثر مما أعطاها على الأوجه فتح، وصحح الشمني كراهة الزيادة، وتعبير الملتقى لا بأس به يفيد أنها تنزيهية وبه يحصل التوفيق.
الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:3،ص:441۔
(قوله: وكره تحريما أخذ الشيء) أي قليلا كان، أو كثيرا.والحق أن الأخذ إذا كان النشوز منه حرام قطعا۔۔۔۔۔۔۔ يدل على الإباحة إذا كان النشوز من الجانبين بعبارة النص، وإذا كان من جانبها فقط بدلالته بالأولى۔
حاشیہ ابن عابدین، دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:3،ص:441۔
(إلا نفقة العدة) وسكناها فلا يسقطان (إلا إذا نص عليها) فتسقط النفقة لا السكنى.
الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:3،ص:443۔
الخلع إزالة ملك النكاح ببدل بلفظ الخلع كذا في فتح القدير وقد يصح بلفظ البيع والشراء وقد يكون بالفارسية كذا في الظهيرية(وشرطه) شرط الطلاق(وحكمه) وقوع الطلاق البائن كذا في التبيين.وتصح نية الثلاث فيه.ولو تزوجها مرارا وخلعها في كل عقد عندنا لا يحل له نكاحها بعد الثلاث قبل الزوج الثاني كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان.حضرة السلطان ليست بشرط لجواز الخلع عند عامة العلماء والصحيح قولهم هكذا في البدائع.إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية.إن كان النشوز من قبل الزوج فلا يحل له أخذ شيء من العوض على الخلع وهذا حكم الديانة فإن أخذ جاز ذلك في الحكم ولزم حتى لا تملك استرداده كذا في البدائع.وإن كان النشوز من قبلها كرهنا له أن يأخذ أكثر مما أعطاها من المهر ولكن مع هذا يجوز أخذ الزيادة في القضاء كذا في غاية البيان.
الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:،ص:488۔
فالخلع لا يخلو أما إن كان بغير بدل.وأما إن كان ببدل فإن كان بغير بدل بأن قال: خالعتك، ونوى الطلاق فحكمه أنه يقع الطلاق، ولا يسقط شيء من المهر، وإن كان ببدل فإن كان البدل هو المهر بأن خلعها على المهر فحكمه أن المهر إن كان غير مقبوض أنه يسقط المهر عن الزوج، وتسقط عنه النفقة الماضية، وإن كان مقبوضا فعليها أن ترده على الزوج، وإن كان البدل مالا آخر سوى المهر فحكمه حكم سقوط كل حكم، وجب بالنكاح قبل الخلع من المهر، والنفقة الماضية، ووجوب البدل حتى لو خلعها على عبد أو على مائة درهم، ولم يذكر شيئا آخر فله ذلك ۔۔۔۔۔۔۔۔وقال في الخلع إنه لا يسقط به إلا ما سميا.۔۔۔۔۔۔ وكذا لا تسقط نفقة العدة إلا بالتسمية۔۔۔۔الخ
بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1406ھ،ج:3،ص:151۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی
فتویٰ نمبر:42/1444
تاریخ اجراء:21/03/2023