من جمع بين الصلاتين من غير عذر فقد أتى بابا من أبواب الكبائر کی اسنادی حیثیت

سوال :-
کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس حدیث کے بارے میں : عن ابن عباس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من جمع بين الصلاتين من غير عذر فقد أتى بابا من أبواب الكبائر آ یایہ حدیث صحیح ہے یا نہیں ؟المستفتی:طالب العلم عبدالرحمن

جواب :-

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامدا ومصلیا
اس روایت کو امام حاکم نے المستدرک علی الصحیحین میں (1020 ) نمبر پر اور امام ترمذی نے اپنی سنن میں ( 188 ) نمبر پر اور امام بیہقی نے السنن الكبرى میں (5561 ) نمبر پر اور امام طبرانی نے المعجم الکبیر میں ( 11540 ) نمبر پر اور امام دار قطنی نے اپنی سنن میں ( 1475 ) نمبر پر ان سب نے عن حنش، عن عكرمة، عن ابن عباس،کے طریق سے ذکر کیا ہے ۔
اور امام بیہقی نے اس روایت کو ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ اسمیں حنش راوی متفرد ہے اور حنش کو علماء نے متروک کہا ہے جیسا کہ اما م احمدنے العلل ومعرفة الرجال (3198) میں فرمایا کہ حنش متروك الحديث ہے اور دار قطنی نے السنن الكبرى (5561) میں فرمایا کہ اسکی روایت قابل حجت نہیں ہے اور امام نسائی نے الضعفاء والمتروكون (148) میں فرمایا کہ متروك الحديث ہے اور امام ابو حاتم نے الجرح والتعدیل (286)میں اس کو ضعيف الحديث اورمنكر الحديث کہا ہے اورابن القیسرانی نے تذکرۃ الحفاظ (610)میں اس کو متروك الحديث قرار دیا ہے ۔
لہذا یہ روایت اس سند کے ساتھ صحیح نہیں ہے جیسا کہ امام ابن جوزی نے بھی اس روایت کو الموضوعات (ج2 ص101)میں اور امام سیوطی نے اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة (ج2 ص22)میں ذکر کیا ہے جو کہ صحیح نہ ہونے کی دلیل ہے اور امام عقیلی نے الضعفاء الكبير (ج1 ص247)میں فرمایا کہ" لا اصل لہ" کہ اس روایت کی کوئی اصل نہیں ہے ۔
البتہ ایک روایت عمرؓسےموقوفا صحیح سند کے ساتھ ثابت ہےجس میں دو نمازوں کو بلا عذر اکٹھا کرنا گناہ کبیرہ شمار کیا گیا ہےجیسا کہ عبدالرزاق نے اپنے مصنف (2035) میں ذکر کیا ہے قال عبد الرزاق، عن معمر، عن قتادة، عن أبي العالية الرياحي، أن عمر بن الخطاب، كتب إلى أبي موسى: « واعلم أن جمعا بين الصلاتين من غير عذر من الكبائر»
اور امام سیوطی نے اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة (ج2 ص22)میں حنش کے روایت ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ وله شاهد موقوف أخرجه البيهقي عن أبي قتادة العدوي أن عمر رضي الله عنه: كتب إلى عامل له ثلاث من الكبائر الجمع بين الصلاتين إلا من عذر والفرار من الزحف والنهب. وأخرج من وجه آخر عن أبي العالية عن عمر رضي الله عنه قال: جمع الصلاتين من غير عذر من الكبائر أخرجه عبد الرزاق في المصنف عن معمر عن قتادة عن أبي العالية الرياحي أن عمر بن الخطاب كتب إلى أبي موسى واعلم أن جمعا بين الصلاتين من غير عذر من الكبائر. وقال حدثنا حفص بن غياث عن أبي بن عبد الله قال جاءنا كتاب عمر بن عبد العزيز: لا تجمعوا بين الصلاتين إلا من عذر
خلاصہ یہ ہوا کہ یہ روایت نبی ﷺ سے مرفوعا صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں ہے البتہ عمرؓسے موقوفا صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے جسکی تفصیل اوپر درج کی گئی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم بالصواب

نوراللہ برھانی
دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ
19/دسمبر /2022 الموافق 25/ جمادی الثانى/1444
الجواب صحیح
(حضرت مولانا) نورالحق (صاحب دامت برکاتہم العالیہ)
رئیس دارالافتاء ومدیر جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ
19/دسمبر /2022 الموافق 25/ جمادی الثانى/1444