مضاربت میں نقصان ہوجانے کی صورت میں نقصان کی تلافی کا شرعی حکم

سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی ہول سیل اور پرچون دونوں طریقوں سےموبائل فون کے خرید و فروخت کا کاروبار اپنی دوکان میں کررہا تھا۔ایک دوسرے آدمی نے ہول سیل میں کاروبار کرنے کے لیے اس پہلے آدمی کو کچھ رقم مضاربت کے طور پر دے دی اور ایک تیسرے آدمی نے پرچون میں کاروبار کرنے کے لیے اس پہلے آدمی کو کچھ رقم بطور مضاربت کے دے دی۔یہ پہلا دوکاندار آدمی مضارب بن گیا اور دوسرا اور تیسرا آدمی رب المال بن گئے۔فرق یہ ہے کہ دوسرا ہول سیل کے کاروبار میں رب المال ہے اور تیسرا پرچون کے کاروبار میں رب المال ہے۔اچانک شارٹ سرکٹ کی وجہ سے دوکان میں آگ لگ گئی اور دوکان جل گیا۔اب سوال یہ ہے کہ یہ نقصان مضارب اور رب المال پر کس طرح سے تقسیم کیا جائے گا؟آیا پرچون میں شریک پر پرچون کا تاوان آئے گا اور ہول سیل والے پر ہول سیل کا تاوان آئے گا یا یہ سارا تاوان دونوں پر برابر تقسیم ہوگا؟اور دوسرا سوال یہ ہے کہ اب وہ اس دوکان کی دوبارہ مرمت کرنا چاہتے ہیں تو آیامرمت کاخرچہ بھی ان دونوں رب المال پر آئے گا یا مرمت کا خرچہ صرف دوکان کے مالک پر آئے گا؟شریعت کی روشنی میں جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی رئیس خان

جواب :-

 

الجواب باسم ملہم الصواب

حامداً ومصلیاً!

صورت مسئولہ کے مطابق سوال کا جواب دینے سے پہلے مضاربت کے بارے میں چند ایک باتوں کا جاننا ضروری ہے:

1۔جب ایک شخص کی طرف سے رقم  یعنی سرمایہ ہو اور دوسرا شخص اس مال کے ذریعے عمل کرکے کوئی کاروبار کرے اور دونوں نفع میں ایک متعین فیصدی کے اعتبار سے شریک ہوں تو اس کو شریعت کی روشنی میں عقد مضاربت کہا جاتا ہے۔اس عقدمضاربت میں جس شخص کا مال یعنی سرمایہ ہواس کورب المال کہا جاتا ہےاور جوشخص اس  سرمایہ کے ذریعےکام اور عمل کرتا ہے اسے مضارب کا نام دیا جاتا ہے،اور اس مال اور سرمایہ کو راس المال سے تعبیر کیا جاتا ہے۔

2۔مضاربت میں جب نفع ہوتا ہے تو رب المال اور مضارب دونوں اس نفع میں اپنے متعین کردہ تناسب کے مطابق شریک ہوتے ہیں ۔اگرنقصان ہوجائے تو پھر سب سے پہلے یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ نقصان  مضارب کی تعدی(غفلت،لاپرواہی،کوتاہی،دھوکہ یا خیانت وغیرہ)کی وجہ سے ہوا ہے یااس نقصان کے ہونے میں مضارب کی کوئی تعدی یاکوتاہی نہیں ہے۔اگرپہلی صورت ہو کہ نقصان مضارب کی تعدی کی وجہ سے ہوا ہو تو پھر اس صورت میں مضارب پر تاوان آئے گااور اگر دوسری صورت ہو کہ اس نقصان کے ہونے میں مضارب کی کوئی تعدی نہ ہو تو پھراس صورت میں مضارب پر کوئی تاوان نہیں آئے گا۔اس دوسری صورت میں نقصان کی تلافی سب سے پہلے کاروبار میں حاصل شدہ نفع سے کی جائے گی،اگر حاصل شدہ  مکمل نفع نقصان پورا کرنے میں صرف ہو جائے تومضارب کو کوئی اجرت نہیں ملتی۔اگر صورت حال ایسی ہو کہ نقصان کی تلافی حاصل شدہ نفع سے بھی ممکن نہ ہوتو راس المال یعنی اصل سرمایہ سے نقصان کی تلافی کی جائے گی۔اس صورت میں مضارب کو نہ تو کوئی اجرت ملے گی اور نہ ہی نقصان کی تلافی کے لیے اس سے کوئی رقم لی جائے گی۔اب اگر وہ دونوں یہاں پر ہی اس عقدمضاربت کو ختم کرنا چاہتے ہیں تو مضارب کی محنت گئی اور رب المال کے مال سے نقصان کی تلافی کے بقدر سرمایہ گیا۔اور اگر وہ اسی عقد مضاربت کو ختم کرنا نہیں چاہتے بلکہ اسی عقد کو آگے بھی جاری رکھنا چاہتے ہیں تو آئندہ جو نفع ہوگا اس سے سب سے پہلے راس المال کے نقصان کو پورا کیا جائے گا اوراس سے زائد جو نفع ہوگا وہ دونوں میں حسب سابق متعین تناسب کے مطابق تقسیم ہوگا۔

3۔عقدمضاربت میں مضارب ایک اور ارباب الاموال ایک سے زائد بھی ہو سکتے ہیں۔

4۔ایک سے زیادہ ارباب الاموال ہونے کی صورت میں اگر نقصان ہوجاتا ہے تو وہ نقصان ارباب الاموال میں ان کے سرمایہ کے تناسب کے حساب سے تقسیم کیا جائے گا۔ہر ایک رب المال کے سرمایہ کے مطابق اس پر تاوان آئے گا۔

5۔عقد مضاربت میں مضارب کے پاس اگرمختلف ارباب الاموال نے مختلف قسم کے کاروباروں میں مضاربت کرنے کے لیے رقم جمع کی ہوتومضارب پرلازم ہوتا ہے کہ وہ ہر ایک رب المال کے عائد کردہ  شرائط وضوابط(وہ شرائط جن کالگانا مضاربت میں درست ہو) کاخیال رکھےاوررب المال کے متعین کردہ کاروبار میں ہی اُس رب المال کا سرمایہ لگائے۔اسی طرح اس متعین کردہ کاروبار میں مضارب نے جس جس رب المال کا سرمایہ لگایا ہے اس کانفع ونقصان بھی صرف ان ہی ارباب الاموال کا ہوگا،دوسرا رب المال جس کا سرمایہ اس میں نہ لگا ہو وہ اس نفع یانقصان میں شریک نہیں ہوگا۔

6۔مضارب اگر تجارت کے لیے سفر کرے تو اس کا کھانا،پینا،کرایہ اور سواری کاخرچہ وغیرہ تاجروں کے عرف اور عادت کے مطابق مال مضاربت سے ہوگا اور اگر مضارب اپنے شہر میں ہی کام کرے تواس کاخرچہ اس کے اپنے ذاتی مال سے ہوگا۔

7۔کاروبار سے متعلق جتنے بھی اخراجات ہوں وہ عرف اور عادت کے مطابق مال مضاربت سے ہوں گے۔ان اخراجات کو نفع تقسیم کرنے سے پہلے ہی منافع سے منہا کیا جائے گا۔مضارب کااپنے ذاتی کام یاذاتی اغراض کے لیے صرف شدہ رقم مال مضاربت سے لینا بالکل جائز نہیں ہے۔دوکان کاکرایہ،مزدور کی دھاڑی،عرف کے مطابق کاروباری مہمان کی ضیافت،بجلی کا بل وغیرہ مال مضاربت سے وصول کیے جائیں گےبشرطیکہ ان میں سے کوئی بھی چیز مضارب کے ذاتی استعمال کے لیے نہ ہو۔

8۔اگرمضارب نے رب المال کے مال کے ساتھ اپنامال ملا کر شرکت کا عقد کیا توشرعاً یہ معاملہ درست ہوگا۔اوراگرکسی جگہ کا عرف ہی یہی ہو کہ مضارب عام طور سے اپنامال بھی شامل کرکے تجارت کرتا ہے،اور رب المال کو اس عرف کا علم ہو تو بھی مضارب کے لیے اپنامال شامل کرکے کاروبار کرنے کی گنجائش ہوگی۔اس صورت میں مضارب اور رب المال دونوں کی رقم کامجموعہ راس المال ہوگا۔نفع ہونے کی صورت میں مضارب کودوحیثیتوں سے نفع ملےگا،مضارب ہونے کی حیثیت سے متعین تناسب سے مضاربت کا نفع ملے گا اور شریک ہونے کی حیثیت سے اپنے سرمائے کے تناسب سے سرمایہ کا نفع بھی ملےگا۔اورنقصان ہونے کی صورت میں مضارب ہونے والی حیثیت سے تواس پرکوئی تاوان نہیں آئے گالیکن شریک ہونے کی حیثیت سے مضارب پرسرمائے کے بقدر تاوان آئے گا۔

مذکورہ بالا تمہیدی باتوں کو جاننے کے بعد سوال کا جواب مندرجہ ذیل ہے:

صورت مسئولہ کے مطابق  دوکان میں آگ چونکہ بجلی کی شارٹ سرکٹ کی وجہ سے لگی ہے جس میں بظاہر مضارب کی کوئی تعدی نہیں ہے اس وجہ سے اس نقصان کے تاوان میں مضارب شریک نہیں ہوگا بلکہ تاوان صرف ارباب الاموال پر  ہی آئے گا۔ہول سیل والے رب المال پر ہول سیل کا تاوان آئے گا اور پرچون والے رب المال پر پرچون کا تاوان آئے گا۔نقصان کی تلافی کی صورت یہ ہوگی کہ سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ کاروبار میں نفع ہوا ہے یا نہیں۔اگر نفع ہوا ہو تو اسی نفع سے اس نقصان کی تلافی کی جائے ۔اگر گذشتہ کئی سالوں سے مضاربت ہو رہی تھی اور نفع بھی مل رہا تھا تو اس صورت میں گذشتہ سالوں کے نفع کو دوبارہ واپس جمع کرکے اس سے نقصان کا ازالہ کیا جائے۔اور اگر نفع نہیں ہوا ہو یا نقصان زیادہ ہو اور نفع سے تلافی ممکن نہ ہو تو پھر راس المال سے نقصان کی تلافی ہوگی۔آئندہ کے لیے اگر وہ اسی عقدمضاربت کو جاری رکھنا چاہتے ہیں تو آئندہ جو نفع آئے گااس میں سے سب سے پہلے راس المال کو پورا کیا جائے گااور اس کے بعد جو بچے گاوہ رب المال اورمضارب میں متعین تناسب کے حساب سے تقسیم ہوگا۔سوال کااگلاحصہ کہ دوکان کی مرمت کس کے ذمے ہے؟توا س کاجواب یہ ہے کہ اگر تاجروں کے عرف کے مطابق دوکان کی مرمت کاروباری ضروریات میں سے ہوتوپھر دوکان کی مرمت مال مضاربت سے کی جاسکتی ہے۔

وما هلك من مال المضاربة فهو من الربح دون رأس المال" لأن الربح تابع وصرف الهلاك إلى ما هو التبع أولى كما يصرف الهلاك إلى العفو في الزكاة "فإن زاد الهالك على الربح فلا ضمان على المضارب" لأنه أمين "وإن كانا يقتسمان الربح والمضاربة بحالها ثم هلك المال بعضه أو كله ترادا الربح حتى يستوفي رب المال رأس المال" لأن قسمة الربح لا تصح قبل استيفاء رأس المال لأنه هو الأصل وهذا بناء عليه وتبع له، فإذا هلك ما في يد المضارب أمانة تبين أن ما استوفياه من رأس المال، فيضمن المضارب ما استوفاه لأنه أخذه لنفسه وما أخذه رب المال محسوب من رأس ماله "وإذا استوفى رأس المال، فإن فضل شيء كان بينهما لأنه ربح وإن نقص فلا ضمان على المضارب۔

الہدایۃ،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:3،ص:207۔

الأصل أن رب المال متى شرط على المضارب شرطا في المضاربة، إن كان شرطا لرب المال فيه فائدة فإنه يصح ويجب على المضارب مراعاته والوفاء به، وإذا لم يف به صار مخالفا وعاملا بغير أمره وإن كان شرطا لا فائدة فيه لرب المال فإنه لا يصح ويجعل كالمسكوت عنه كذا في المحيط.إن خص له رب المال التصرف في البلد بعينه أو في سلعة بعينها تتقيد به ولم يجز له أن يتجاوز ذلك وكذا ليس له أن يدفعه بضاعة إلى من يخرجها من تلك البلد فإن أخرج إلى غير ذلك البلد فاشترى ضمن ذلك له، وله ربحه وعليه وضيعته۔

الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310،ج:4،ص:297۔

إذا عمل المضارب في المصر فليست نفقته في المال وإن سافر فطعامه وشرابه وكسوته وركوبه معناه شراء وكراء في مال المضاربة فلو بقي شيء في يده بعدما قدم مصره رده في المضاربة ولو كان خروجه دون السفر إن كان بحيث يغدو ثم يروح فيبيت بأهله فهو بمنزلة السوقي في مصر وإن كان بحيث لا يبيت بأهله فنفقته في مال المضاربة كذا في الهداية. والنفقة هي ما يصرف إلى الحاجة الراتبة وهي الطعام والشراب والكسوة وفراش ينام عليه والركوب وعلف دابته كذا في محيط السرخسي. ومن ذلك غسل ثيابه والدهن في موضع يحتاج إليه كالحجاز وأجرة الحمام والحلاق وإنما يطلق في جميع ذلك بالعرف حتى يضمن الفضل إن جاوزه هكذا في الكافي۔

الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310،ج:4،ص:312۔

(قوله والخلط بمال نفسه) أي أو غيره كما في البحر إلا أن تكون معاملة التجار في تلك البلاد أن المضاربين يخلطون، ولا ينهونهم فإن غلب التعارف بينهم في مثله وجب أن لا يضمن كما في التتارخانية.وفيها قبله: والأصل أن التصرفات في المضاربة ثلاثة أقسام: قسم: هو من باب المضاربة، وتوابعها فيملكه من غير أن يقول له: اعمل ما بدا لك كالتوكيل بالبيع والشراء والرهن والارتهان والاستئجار والإيداع والإبضاع والمسافرة، وقسم: لا يملك بمطلق العقد بل إذا قيل اعمل برأيك كدفع المال إلى غيره مضاربة أو شركة أو خلط مالها بماله أو بمال غيره، وقسم: لا يملك بمطلق العقد، ولا بقوله: اعمل برأيك إلا أن ينص عليه، وهو ما ليس بمضاربة ولا يحتمل أن يلحق بها كالاستدانة عليها۔

ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:5،ص:649۔

(إذَا خَلَطَ الْمُضَارِبُ مَالَ الْمُضَارَبَةِ بِمَالِهِ فَيُقْسَمُ الرِّبْحُ الْحَاصِلُ عَلَى مِقْدَارِ رَأْسَيْ الْمَالِ أَيْ أَنَّهُ يَأْخُذُ رِبْحَ رَأْسِ مَالِهِ وَيُقْسَمُ مَالُ الْمُضَارَبَةِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَبِّ الْمَالِ عَلَى الْوَجْهِ الَّذِي شَرَطَاهُ) إذَا خَلَطَ الْمُضَارِبُ مَالَ الْمُضَارَبَةِ بِمَالِهِ حَسْبَ الْمَادَّةِ الْآنِفَةِ بِنَاءً عَلَى التَّفْوِيضِ أَوْ الْإِذْنِ الصَّرِيحِ مِنْ رَبِّ الْمَالِ فَيُقْسَمُ الرِّبْحُ الْحَاصِلُ عَلَى مِقْدَارِ رَأْسَيْ الْمَالِ أَيْ أَنَّهُ يَأْخُذُ رِبْحَ رَأْسِ مَالِهِ خَاصَّةً؛ لِأَنَّهُ رِبْحُ مَالِهِ وَيُقْسَمُ رِبْحُ مَالِ الْمُضَارَبَةِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ رَبِّ الْمَالِ عَلَى الْوَجْهِ الَّذِي شَرَطَاهُ (التَّتَارْخَانِيَّة فِي الْفَصْلِ الثَّانِي) مَثَلًا لَوْ أَعْطَى رَبُّ الْمَالِ خَمْسِينَ دِينَارًا مُضَارَبَةً لِآخَرَ بِنِصْفِ الرِّبْحِ وَخَلَطَ الْمُضَارِبُ عَلَى الْوَجْهِ الْمُبَيَّنِ فِي هَذِهِ الْمَادَّةِ مَالَ الْمُضَارَبَةِ الْمَذْكُورِ بِمِائَةِ دِينَارٍ لَهُ وَرَبِحَ ثَلَاثِينَ فَتَكُونُ عِشْرُونَ دِينَارًا رِبْحَ رَأْسَ مَالِهِ وَتَكُونُ لِلْمُضَارِبِ خَاصَّةً وَتَكُونُ الْعَشَرَةُ دَنَانِيرُ الْبَاقِيَةُ رِبْحَ مَالِ الْمُضَارَبَةِ فَيَقْتَسِمُهَا مَعَ رَبِّ الْمَالِ مُنَاصَفَةً۔

دررالحکام شرح مجلۃ الاحکام،دارالجیل،الطبعۃ الاولیٰ،1411ھ،ج:3،ص:448۔

قوله (وما هلك من مال المضاربة فمن الربح فإن زاد الهالك على الربح لم يضمن المضارب) لكونه أمينا سواء كان من عمله أو لا قوله (وإن قسم الربح وبقيت المضاربة ثم هلك المال أو بعضه ترادا الربح ليأخذ المالك رأس ماله وما فضل فهو بينهما وإن نقص لم يضمن) لأن قسمة الربح قبل قبض رأس المال موقوفة فإذا قبض رب المال رأس ماله نفذت القسمة وإن هلك ما أعد لرأس المال كانت القسمة باطلة وتبين أن المقسوم كان رأس المال قوله (وإن قسم الربح وفسخت ثم عقداها فهلك المال لم يترادا) وهذه مفهوم قوله وبقيت المضاربة لأن الأولى قد انتهت بالفسخ وهي الحيلة النافعة للمضاربة والله أعلم

البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،الطبعۃ الثانیۃ،ج:7،ص:268۔

اگرآئندہ کے لیے وہ اس معاملے کوجاری رکھنا چاہیں توآئندہ جو نفع ہوگا اس سے سب سے پہلے راس المال کے نقصان کو پوراکیا جائے گا،اس سے زائد جو نفع ہوگاوہ دونوں نفع کی طے شدہ شرح کے مطابق آپس میں تقسیم کر لیں گے۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل،مکتبہ لدھیانوی،کراچی،ج:6،ص:79۔

رب المال کی طرف سے کسی خاص جگہ اورمدت کی تحدید درست ہے۔اسی طرح تجارت کے لیے اشخاص،افراد اورمال کو متعین کرنا درست ہے۔اس صورت میں اگرمضارب نے شرط کی خلاف ورزی کی تو وہ اس کاضامن ہوگااورجو کچھ اس نے خرید وفروخت کی ہے اس کانفع ونقصان خود اس کی ذات سے متعلق ہوگا اور اس عقد سے ہونے والے نفع کو صدقہ کرنا اس پر واجب ہوگا۔

فتاویٰ عثمانیہ،مکتبہ العصر،پشاور،اشاعت ہفتم،2021ء،ج:7،ص:394۔

عقد مضاربت میں سرمایہ کاریعنی رب المال ایک سے زیادہ بھی ہوسکتے ہیں جیسے چند آدمی مل کر مضاربت کے لیے کسی کو سرمایہ دے دیں۔

                                                فتاویٰ عثمانیہ،مکتبہ العصر،پشاور،اشاعت ہفتم،2021ء،ج:7،ص:395۔

عقد مضاربت میں اگر نقصان ہو جائے تو یہ نقصان سرمائے سے پورا کیا جائے گا،تاہم اگر کئی سال سے مضاربت ہو رہی تھی اور نفع بھی مل رہا تھا،پھرنقصان ہوگیاتواولاً گذشتہ سالوں میں ہونے والے نفع سے اس نقصان کا ازالہ کیا جائے گا،اگراس نفع سے تلافی نہ ہوسکی توپھراصل سرمائے سے نقصان کی تلافی ہوگی۔

فتاویٰ عثمانیہ،مکتبہ العصر،پشاور،اشاعت ہفتم،2021ء،ج:7،ص:397۔

بکر کے دو ہزار روپے اور زید کی رقم کامجموعہ راس المال یعنی اصل ہے،اورنقصان اس تجارت سے حاصل ہونے والے منافع سے ادا کیا جائے گا۔البتہ اس سے نقصان کی تلافی نہ ہوتی ہو تواصل مال سے بقدر حصص ادا کیا جائے گا۔

احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید،کراچی،ج:7،ص:243۔

واللہ اعلم بالصواب

مفتی ابوالاحراراُتلوی

دارالافتاء

جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی

محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی