مسافت سفر کے شرعی مقدار کے تعین میں قول راجح کی وضاحت
سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ مسافت سفرکی شرعی مقدار کیا ہے؟اوراس مقدار مسافت کے بارے میں ہمارے اکابر علمائے دیوبند کے ہاں راجح قول کون سا ہے؟ اور ہمیں کس قول پر عمل کرنا چاہیئے؟ہمارے اکثر اکابر کے ہاں ساڑھے ستتر کلومیٹر(77.50km)کا قول پایا جاتا ہے جبکہ بعض بزرگوں نے بیاسی کلومیٹر(82km)کے قول کواختیار کیا ہے۔فی زماننا ہمیں کس قول کواختیار کرنا چاہیئے؟اور اگر کوئی شخص ساڑھے ستتر کلومیٹر(77.50km) کی بجائے 82کلومیٹر والے قول پر عمل کرتا ہے تو کیا اسے اکابر علمائے دیوبند کامخالف کہنا درست ہوگا یا نہیں؟۔شریعت مطہرہ کی روشنی میں تفصیلی اور مدلل جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی مولانا ابن آیازمحمد حفیظ محلہ سلیمان خیل جبر ٹوپی
جواب :-
الجواب باسم ملہم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کا جواب دینے سے پہلے ایک تمہیدی مقدمہ کا سمجھنا ضروری ہے۔حدیث شریف میں تین منزل کی مقدار کومسافت سفر قرار دیا گیا ہےاور فقہائے کرام نے تین منزل کی مسافت کی تشریح تین دن کی مسافت کے ساتھ کی ہےیعنی تین دن رات میں آسانی کے ساتھ پیدل چل کر یا اونٹ پر سوار ہوکر جس قدر مسافت ایک آدمی طے کرسکتا ہے وہ شرعی مقدار مسافت کہلائے گا۔ مزیدبرآں یہ وضاحت بھی حضرات فقہائے کرام نے کی ہے کہ تین دن رات کی مسافت سے مراد یہ نہیں کہ تین دن رات مسلسل چلے ،رات کو چلنا اس میں شامل نہیں صرف دن کو چلنا مراد ہے اور دن سے بھی پورا دن مراد نہیں بلکہ تمام استراحات اور ضروریات شرعیہ وطبعیہ کالحاظ رکھتے ہوئے جس قدر عادۃً متوسط قوت والا آدمی چل سکتا ہو۔مگر چونکہ عامۃ الناس کے لیے اس کا تعین پھر بھی مشکل ہے اس وجہ سے ان تین منزل یا تین دن رات کی مسافت کی جو مقدار صحابہ کرام ،تابعین عظام اور جمہور فقہائے کرام نے متعین کی ہے ،اس مقدار کو اپنانے کی ضرورت ہے۔کتب فقہ کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعداور تمام اقوال اور مقادیر کی تشریح و تطبیق میں غور کرنے کے بعد جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس مقدار مسافت کے تعین کے سلسلے میں ہمارے فقہائے کرام کے ہاں چار اقوال پائے جاتے ہیں:15فرسخ،16فرسخ،18فرسخ اور 21فرسخ۔ایک فرسخ میں کل 03میل ہوتے ہیں ،اس وجہ سے میلوں کے اعتبار سے ان چار اقوال کی تفصیل یوں ہوگی:
پہلاقول:15فرسخ،ایک فرسخ 03 میل کا،15فرسخ برابر ہوئے 45میل کے۔فقہائے خوارزم کا فتویٰ اسی قول پر ہے۔
دوسرا قول:16فرسخ، ایک فرسخ 03 میل کا،16فرسخ برابر ہوئے 48میل کے۔جمہور فقہائے کرام کے ہاں راجح قول یہی ہے۔
تیسراقول:18فرسخ، ایک فرسخ 03 میل کا،18فرسخ برابر ہوئے 54میل کے۔
چوتھا قول:21فرسخ، ایک فرسخ 03 میل کا،21فرسخ برابر ہوئے 63میل کے۔
اس کے بعد یہ جاننا چاہیئے کہ ایک میل شرعی میں4000شرعی گز ہوتے ہیں ۔ایک شرعی گز18انچ(ڈیڑھ فٹ)کا ہوتا ہے یعنی انگریزی گز کانصف،کیونکہ انگریزی گز 36انچ (تین فٹ) کا ہوتا ہے۔اس حساب سے 4000شرعی گز سے 2000انگریزی گز بن جاتے ہیں۔جدید زمانے کے کلومیٹر کے حساب سے ایک شرعی میل 01کلومیٹر،828میٹر اور80سینٹی میٹر کا ہوتا ہے۔اب مذکورہ بالا چاروں اقوال کااگرکلومیٹر کے حساب سے اندازہ لگایا جائےتو چاروں کی تفصیل یوں ہوگی:
پہلاقول:15فرسخ،ایک فرسخ 03 میل کا،15فرسخ برابر ہوئے 45میل کے۔ ایک شرعی میل 01کلومیٹر،828میٹر اور80سینٹی میٹر کا ہوتا ہے،اس حساب سے 45شرعی میل سے 82کلومیٹر 696میٹر بنتے ہیں۔
دوسرا قول:16فرسخ، ایک فرسخ 03 میل کا،16فرسخ برابر ہوئے 48میل کے۔ ایک شرعی میل 01کلومیٹر،828میٹر اور80 سینٹی میٹر کا ہوتا ہے،اس حساب سے 48میل شرعی سے 87کلومیٹر782میٹراور40سینٹی میٹر بنتے ہیں۔
تیسراقول:18فرسخ، ایک فرسخ 03 میل کا،18فرسخ برابر ہوئے 54میل کے۔ ایک شرعی میل 01کلومیٹر،828میٹر اور80سینٹی میٹر کا ہوتا ہے،اس حساب سے 54شرعی میل سے 98کلومیٹر 755میٹر اور 20سینٹی میٹر بنتے ہیں۔
چوتھا قول:21فرسخ، ایک فرسخ 03 میل کا،21فرسخ برابر ہوئے 63میل کے۔ ایک شرعی میل 01کلومیٹر،828میٹر اور80سینٹی میٹر کا ہوتا ہے،اس حساب سے 63میل شرعی سے 115کلومیٹر 214میٹر اور40سینٹی میٹر بنتے ہیں۔
مذکورہ بالا چاروں اقوال میں سب سے کم مسافت والا قول پہلا قول ہے یعنی 82کلومیٹر اور 696میٹر ۔خوارزم کے فقہائے کرام نے اسی قول کو اپنایا ہے جبکہ جمہور فقہاءنے 48میل والے قول کو ترجیح دی ہے۔اس کے بعد یہ سمجھنا چاہیئے کہ شرعی میل اور انگریزی میل میں تھوڑا فرق ہے،شرعی میل زیادہ جبکہ انگریزی میل اس کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔چونکہ جمہور کے ہاں 48میل والا قول ہی راجح ہے اس وجہ سے 48 میل سے اگر شرعی میل مراد لیا جائے تو48 میل شرعی سے 87کلومیٹر782میٹراور40سینٹی میٹر بنتے ہیں،اور اگرمیل سے شرعی میل نہیں بلکہ انگریزی میل کو مراد لیا جائے تو 48 انگریزی میل سے 77کلومیٹر 51سینٹی میٹر بنتے ہیں۔
مذکورہ بالا چاروں اقوال میں سے چونکہ سب سے کم مسافت والا قول 15فرسخ والا ہے جس سے شرعی میل کے اعتبار سے 82کلومیٹر اور696میٹر بنتے ہیں اس وجہ سے ہمارے جن بزرگوں نے شرعی میل کااعتبار کیا ہے ان کے ہاں کم سے کم مسافت سفر کی مقدار 82کلومیٹر اور696میٹر ہے،البتہ ان کے ہاں بھی احتیاط اسی میں ہے کہ 16فرسخ والے قول کو ہی اختیار کیا جائے کیونکہ جمہور کا اعتماد 16فرسخ پر ہی ہے اور 16فرسخ سے شرعی میل کے اعتبار سے 87کلومیٹر782میٹراور40سینٹی میٹر بنتے ہیں،اور اگرمیل سے شرعی میل نہیں بلکہ انگریزی میل کو مراد لیا جائے تو 16فرسخ سےانگریزی میل کے اعتبارسے 77کلومیٹر 51سینٹی میٹر بنتے ہیں۔ اس پوری بحث کا نتیجہ اور لب لباب یہ نکلتا ہے کہ درحقیقت مسافت سفر کے مقدار کے تعیین کا یہ اختلاف میل کے اعتبار کرنے پر مبنی ہے اگرمیل سے مراد شرعی میل لیا جائے تو کم سے کم مسافت سفر82کلومیٹر بنے گی اور اگر میل سے مراد انگریزی میل کو لیا جائے تو پھر77کلومیٹر مسافت سفر ہو گی ۔روایات اور متقدمین فقہائے کرام کے ہاں تو تین دن کی مسافت،تین منزل،برید یا پھر فرسخ کے الفاظ ہی ملتے ہیں ،متاخرین فقہائے کرام کے ہاں بھی میل تک کا لفظ مل جاتا ہے مگر کلومیٹر کالفظ کہیں بھی نہیں ملتا کیونکہ یہ ایک جدید اصطلاح ہے جس کا وجود ہی اس وقت نہیں تھا۔اب ماضی قریب میں جب سے MKSسسٹم تقریباً پوری دنیا میں رائج ہوا ہے تو یہ سوال ہمارے اکابر کے ہاں بھی پیدا ہوا کہ ایک میل سے کتنے کلومیٹر بنیں گے؟اور اسی سے صورت مسئولہ والا اختلاف بھی پیدا ہوا کہ میل سے میل شرعی مراد لیں گے یا انگریزی میل۔ہمارے زیادہ تر اکابرعلمائے دیوبند کے ہاں مسافت سفر کے تعیین میں میل سے مراد انگریزی میل ہے اس وجہ سے علمائے دیوبند کے اکثر فتاویٰ میں مسافت سفر کی مقدار77کلومیٹر ہی بیان کی جاتی ہے، جبکہ بعض دوسرے اکابر جن میں حضرت مولانامفتی رشید احمد لدھیانوی،حضرت مولانامفتی شبیراحمد القاسمی اورحضرت مولانامفتی سلمان احمد منصورپوری،حضرت مولانامفتی عبدالستار صاحب اورحضرت مولانا مفتی محمد انور صاحب جیسے حضرات سرفہرست ہیں، ان کے ہاں مسافت سفرکی تعیین میں میل سے مراد انگریزی میل نہیں بلکہ شرعی میل ہے اور اسی وجہ سے ان اکابر کے ہاں کم سے کم مسافت سفر82کلومیٹر ہے۔کسی زمانے میں یہ مسئلہ خود ہمارے اکابرعلمائے دیوبند کے ہاں بھی کافی معرکۃ الآراء رہا ہے اور جانبین سے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ایضاح المسائل اور القول الاظہرمن تحقیق مسافۃ السفر جیسی کتب کے علاوہ احسن الفتاویٰ ، کتاب النوازل،خیر الفتاویٰ اور فتاویٰ قاسمیہ کے فتاویٰ جات اس پر شاہد ہیں،بلکہ ایک دور ایسا بھی آیا ہے کہ حضرت مولانا مفتی مہربان علی شاہ صاحب نے حضرت مولانامفتی رشید احمد لدھیانوی کے تردید میں"مسافت شرعی"کے نام سے ایک پوری کتاب لکھ ڈالی۔بہرحال اس بحث میں جانے کی ہمارے خیال میں کوئی ضرورت نہیں ہے ،دونوں طرف ہمارے جید اکابر ہی ہیں اور یہ مسئلہ بھی کو ئی منصوص نہیں ہے کہ جس میں اختلاف کی گنجائش نہ ہو ،کیونکہ اختلاف تو میل کے اعتبار کرنے میں ہے جوکہ ایک مجتہد فیہ صورت ہےاورروایات اور متقدمین کے عبارات سے جو برید،منزل یا فرسخ وغیرہ کاثبوت ہوتا ہےاس میں تو کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔دونوں ہی اقوال ہمارے ہی اکابر کے ہیں جن کے علم و تقویٰ میں کوئی شک نہیں ہے اس وجہ سے دونوں میں سے جس پر بھی عمل کیا جائے وہ درست ہے۔اس مسئلہ میں شدت نکیر کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے اکابر علمائے دیوبند ہی میں اس بارے میں کئی ایک اقوال ملتے ہیں۔کسی ایک خاص قول کو دیوبندیت کا معیار قرار دے کر مخالف قول والے کو علمائے دیوبند کا مخالف قرار دینا نہ صرف یہ کہ بالکل غلط ہے بلکہ ہمارے اکابر علمائے دیوبند کے مزاج ومذاق کے بھی خلاف ہے۔
حضرت مولانا مفتی رشیداحمد لدھیانوی صاحب ؒ نے احسن الفتاویٰ میں 82کلومیٹر والے قول کو ہی اپنایا ہے اور القول الاظہر من تحقیق مسافۃ السفر کے نام سے اس موضوع پر ایک جامع اور مدلل رسالہ بھی تحریر کیا ہے۔حضرت مولانامفتی سیدمحمد سلمان منصور پوری صاحب نے "کتاب النوازل"میں ،حضرت مولانامفتی شبیر احمدالقاسمی نے "فتاویٰ قاسمیہ"اور"ایضاح المسائل" میں، حضرت مولانامفتی عبدالستار صاحب ؒ نے "خیرالفتاویٰ"میں اور حضرت مولانامفتی رضاء الحق صاحب نے"فتاویٰ دارالعلوم زکریا"میں 82 کلومیٹر والے قول کو ہی اپناتے ہوئے اس فتویٰ دیا ہے۔اس سے اگرہم اورآگے چلے جائیں توہمارے اکابر علمائے دیوبند ہی میں سے بعض بزرگوں نے 77کلومیٹر سے بھی کم پر فتویٰ دیا ہے،چنانچہ حضرت مولانامفتی کفایت اللہ صاحب ؒ نے "کفایت المفتی"میں 36 انگریزی میل پر فتویٰ دیا ہے۔علاوہ ازیں احسن الفتاویٰ میں "شرعی مسافت"نامی کتاب کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت مولانا رشیداحمد گنگوہی ؒ تو سرے کسی تحدید کے ہی قائل نہیں تھے،اور حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی ؒ 24انگریزی میل کوشرعی مسافت مانتے تھے۔حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ،حضرت مولانامحمد یحییٰ کاندہلویؒ، حضرت مولاناعبدالحئ لکھنویؒ اور حضرت مولانا عبدالشکور لکھنویؒ ان سارے اکابر کے ہاں شرعی مقدار سفر36کلومیٹر ہے۔ حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی ؒ 45 انگریزی میل کے قائل تھے۔یہ سب کے سب ہمارے وہ اکابر ہیں جن کے علم وتقویٰ میں کوئی شک نہیں لیکن ان حضرات نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر دوسروں سے اختلاف کیا ہےاور اس اختلاف پرآج تک کسی نے ان کو ملامت نہیں کیا۔ میل شرعی یامیل انگریزی کے اعتبار کرنے یا نہ کرنے کا تعلق ایک اجتہادی صورت کے ساتھ ہےجس میں اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔اس وجہ سے اس مسئلہ میں شدت اور سختی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ،77کلومیٹر یا 82کلومیٹر میں سے جس پر بھی کوئی عمل کرے،درست ہے۔البتہ ہماری اپنی ذاتی رائے اورخیال کے مطابق احتیاط اسی میں ہے کہ میل سے مراد شرعی میل کو لیا جائے اور شرعی میل ہی کااعتبار کرتے ہوئے کم سے کم مسافت سفر 82کلومیٹر کو قرار دیا جائے، اور اس کی کئی ایک وجوہات ہیں:
پہلی وجہ یہ ہے کہ کتب فقہ میں وزن،مساحت،کیل یا دیگر پیمائش کے لیے جتنے بھی مقادیر کو بیان کیا جاتا ہے ،عام طور پر ان سے مقادیر شرعیہ ہی کو مراد لیا جاتا ہےمثلاً پانی کے قلیل یا کثیر ہونے کے باب میں دہ دردہ کی بحث ہماری تمام کتب میں موجود ہے ،اور ہمارے تمام بزرگوں کا اس پراتفاق ہے کہ یہاں دہ در دہ کی بحث میں دس گز سے مراد انگریزی گز نہیں بلکہ شرعی گز ہے۔توجب دیگر مقادیر میں شرعی مقادیر ہی کواپنایا جاتا ہے تو میل میں بھی انگریزی میل کی بجائے شرعی میل کااعتبار کرنا زیادہ مناسب ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق مقام قصرمیں اتمام سے نماز مع الکراہۃ ہوجاتی ہے مگر مقام اتمام میں قصر سے نماز بالکل ہی نہیں ہوتی۔اس کی وضاحت یوں ہے کہ سفرکی حالت میں اگر کوئی شخص نماز میں قصر نہ کرے بلکہ پوری نماز پڑھتے ہوئے اتمام کرے تو بے شک اس نے غلط کیا مگر وہ بری الذمہ ہوجائے گایعنی اس کا فرض ادا ہوجائےگا،مگر اقامت کی حالت میں اگر کوئی پوری نماز نہ پڑھے بلکہ نماز میں قصر کرے تو کسی کے ہاں بھی وہ بری الذمہ نہیں ہوگا۔اب 77کلومیٹر اور82کلومیٹر میں 77کم اور 82زیادہ ہے۔اب اگر کوئی شخص مثلاً 80کلومیٹر کی مسافت طے کرکے نماز میں قصر کرے تو جن کے ہاں 77کلومیٹر مقدار سفر ہے توان کے ہاں تو اس نے ٹھیک کیا اور یہ بری الذمہ بھی ہوگیا ،لیکن 82کلومیٹر کے قائلین کے ہاں اس کی سرے سے نماز ہی نہیں ہوئی اور یہ بری الذمہ نہیں ہوا،کیونکہ اس کے ذمہ پوری نماز پڑھنی تھی اور اس نے قصر کیا۔لیکن اگر یہ شخص 82 پر جاکر قصر کرتا ہے تو سب کے ہاں اس کی نماز درست ہوجائے گی اور یہ بری الذمہ ہوجائے گا۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ فی الواقع عنداللہ تعالیٰ اگر 77کلومیٹر والا قول درست ہو تو 80کلومیٹر پر اتمام کرنے والا اگرچہ گنہگار تو ہوجائے گا لیکن نماز کی ادائیگی سے بری الذمہ ہوجائے گا،لیکن اگر فی الواقع عنداللہ تعالیٰ اگر82 والاقول درست ہو تو پھر 80کلومیٹر پر قصر کرنے والا نہ صرف یہ کہ گنہگار ہو گا بلکہ نماز کی ادائیگی سے بھی بری الذمہ نہیں ہوگا اور یہ نماز اس کے ذمہ واجب الاعادہ رہے گی۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ قصر کا تعلق عبادات سےہے اورعبادات کے باب میں احتیاط کو ہی ترجیح دی جاتی ہے اور احتیاط اسی میں ہے کہ 82 کلومیٹر والے قول کو ہی اختیار کیا جائےکیونکہ اتمام اصل ہے اور قصر بوجہ عارض کے ہوتا ہے،لہٰذا جب تک عارض کا تیقن نہیں ہوتا تو قصر سے احتراز کرنا ہی احوط ہے۔77اور82کے اختلاف کی صورت میں 82ہی میں تیقن ہوتا ہے نہ کہ 77میں،کیونکہ 82میں 77شامل ہے لیکن 77میں 82 شامل نہیں ہوتا۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ تمام جدید وقدیم کتب میں یہاں تک کہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ؒ نے بھی "اوزان شرعیہ"میں لکھا ہے کہ میل 4000ذراع کا ہوتا ہے اور 4000ذراع سے 2000انگریزی گز بنتےہیں اور 2000انگریزی گز سےجو میل بنتا ہے وہ انگریزی میل نہیں بلکہ شرعی میل ہوتا ہے اور شرعی میل کے حساب سے کم سے کم مسافت سفر82کلومیٹر ہی بنتی ہے۔
یہاں پریہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ 82کلومیٹر والے قول کواحتیاط کی بنیاد پر ترجیح دینے میں ہم متفرد نہیں بلکہ ہمارے کئی ایک مستنداکابرمفتیان کرام نے اسی قول کواپنایا ہے،چندایک اقوال ملاحظہ ہوں:
حضرت مولانارشیداحمد گنگوہی صاحب ؒ کا قول
ایک جگہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ سفر کی مقدار مسافت کتنی ہے ؟اور دوسرا سوال ہوا کہ میل کتنا ہوتا ہے؟تو حضرت نے پہلے سوال کے جواب میں فرمایا ہے کہ"چار برید جس کی سولہ سولہ میل کی تین منزلیں ہوتی ہیں"اور دوسرے سوال کے جواب میں فرمایا ہے"فرسخ تین میل کا اور میل چار ہزار قدم کا"۔
فتاویٰ رشیدیہ،دارالاشاعت،کراچی،ص:434۔
چار ہزار قدم کا شرعی میل ہوتا ہے اور سولہ سولہ میل کی تین منزلوں سے 48میل بن گئے گویا حضرت کے ہاں 48شرعی میل ہی کا قول قابل بیان ہے۔حضرت کااپنارجحان عدم تحدید ہی کا ہے مگر سائل کے سوال کے مطابق جو جواب دیا ہے تو اس سے شرعی میل ہی کاثبوت ہوتا ہے نہ کہ انگریزی میل کا۔
حضرت مولانامفتی شبیراحمد القاسمی صاحب کا قول
شریعت میں شرعی میل کااعتبار ہوتا ہے،انگریزی میل کا اعتبار نہیں ہے۔ہمارے بعض بزرگوں نے 48میل انگریزی کااعتبار فرمایا ہے ،جس میں 77کلومیٹر248میٹر51سینٹی میٹر ہوتے ہیں ،اسلاف سے یہ قول منقول نہیں ہے۔حضرات اسلاف اور فقہاء سے جوچار اقوال منقول ہیں ،جن کو ہم نے اوپرذکرکیا ہے ،اس میں سب سے کم مسافت والا قول 82کلومیٹر296میٹروالاقول ہے،اس لیے اس سے کم مسافت میں نمازوں کاقصر کرنا ہم صحیح نہیں سمجھتے ہیں۔
فتاویٰ قاسمیہ،مکتبہ اشرفیہ،دیوبند،پہلا ایڈیشن ،1437ھ،ج:8،ص:589۔
حضرت مولانامفتی سیدمحمدسلمان منصورپوری صاحب کا قول
اصل میں احتیاط اسی میں ہے کہ میل انگریزی کے بجائے میل شرعی کے اعتبار سے مسافت سفر کا تعین کیا جائے،اور اس بارے میں فقہاء کا کم سے کم قول 15فرسخ 45میل شرعی کا ہے،جس کے اعتبار سے 82کلومیٹر286میٹر سے کم میں قصر کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔
کتاب النوازل،المرکزالعلمی للنشر والتحقیق،مرادآباد،انڈیا،ج:5،ص:393۔
حضرت مولانامفتی عبدالستار صاحب کا قول
حضرت مفتی صاحب نے "خیرالفتاویٰ"میں مسافت شرعی کی مقدار اور میل شرعی ومیل انگریزی پرمدلل گفتگو فرمائی ہے۔آخر میں خلاصہ کے طورپرتحریر فرماتے ہیں:"الحاصل اڑتالیس میل انگریزی کومسافت قصر قرار دینا سمجھ میں نہیں آیا،یہ مسافت 45،48یا54میل شرعی ہونی چاہیئے،درمیانی قول کوراجح اورمعمول بہ بنایا جائے بوجوہ بالا تواولیٰ ہوگا۔
خیرالفتاویٰ،مکتبہ امدادیہ،ملتان،ج:2،ص:668۔
حضرت مولانامفتی محمد انور صاحب کا فتویٰ
مسافت قصر میں 48میل سے مراد میل شرعی ہے جس کے انگریزی میل تقریباً 54اور کلومیٹر کے حساب سے 87کلومیٹر بنتے ہیں۔
خیرالفتاویٰ،مکتبہ امدادیہ،ملتان،ج:2،ص:674۔
حضرت مولانامفتی رضاء الحق صاحب کا فتویٰ
حضرت مفتی صاحب نے بھی "فتاویٰ دارالعلوم زکریا"میں مسافت شرعی کی مقدار اور میل شرعی ومیل انگریزی پرمدلل گفتگو فرمائی ہے۔ آخر میں خلاصہ کے طورپرتحریر فرماتے ہیں:"خلاصہ یہ ہے کہ ائمہ خوارزم کےقول کااعتبار کرتے ہوئے جس کو ہمارے اکابر نے اختیار فرمایا ہے،مسافت شرعی کی مقدار 15فرسخ،یعنی 45میل شرعی بحساب 82کلومیٹر296میٹر ہے۔یہ قول اس وجہ سے اختیار کیا گیا ہے کہ اکابر کی موافقت کے ساتھ ساتھ ائمہ ثلاثہ کے قول کے قریب بھی ہے اور اس میں آسانی بھی ہے۔"
فتاویٰ دارالعلوم زکریا،زم زم پبلشرز،کراچی،ج:2،ص:602۔
واختلفوا في التقدير قال أصحابنا: مسير ثلاثة أيام سير الإبل ومشي الأقدام وهو المذكور في ظاهر الروايات.وروي عن أبي يوسف يومان وأكثر الثالث، وكذا روى الحسن عن أبي حنيفة وابن سماعة عن محمد ومن مشايخنا من قدره بخمسة عشر فرسخا وجعل لكل يوم خمس فراسخ، ومنهم من قدره بثلاث مراحل.وقال مالك: أربعة برد كل بريد اثنا عشر ميلا، واختلفت أقوال الشافعي فيه، قيل: ستة وأربعون ميلا وهو قريب من قول بعض مشايخنا؛ لأن العادة أن القافلة لا تقطع في يوم أكثر من خمسة فراسخ، وقيل: يوم وليلة.وهو قول الزهري والأوزاعي، وأثبت أقواله أنه مقدر بيومين۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وكذا لو سار في البر إلى موضع في يوم أو يومين وأنه بسير الإبل والمشي المعتاد ثلاثة أيام يقصر اعتبارا للسير المعتاد، وعلى هذا إذا سافر في الجبال والعقبات أنه يعتبر مسيرة ثلاثة أيام فيها لا في السهل، فالحاصل أن التقدير بمسيرة ثلاثة أيام أو بالمراحل في السهل والجبل والبر والبحر ثم يعتبر في كل ذلك السير المعتاد فيه وذلك معلوم عند الناس فيرجع إليهم عند الاشتباه، والتقدير بالفراسخ غير سديد؛ لأن ذلك يختلف باختلاف الطريق.
بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،دارالکتب العلمیہ،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1406ھ،ج:1،ص:93۔
قال علمائنا رحمهم الله: أدناها مسيرة ثلاثة أيام ولياليها، والأصل في ذلك قوله عليه السلام: «يمسح المقيم يوماً وليلة والمسافر ثلاثة أيام ولياليها» ذكر المسافر بلام التعريف ... فقد جوّز لكل مسافر مسح ثلاثة أيام ولياليها ولا يتصور أن يمسح كل مسافر ثلاثة أيام ولياليها إلا وأن تكون أقل مدة السفر ثلاثة أيام ولياليها. والمعنى في ذلك: أن القصر في السفر لمكان الحرج والمشقة والحرج والمشقة في أن يحمل رحله من غير أهله، ويحط في غير أهله وذلك لا يتحقق فيما دون الثلاث، لأن في اليوم الأول يحمل من أهله وفي اليوم الثاني يحط في أهله، أما يتحقق في الثلاث؛ لأن في اليوم الثاني يحمل الرحل في غير أهله ويحط في غير أهله، فتحقق معنى الحرج، فلهذا قدر بثلاثة أيام ولياليها.ثم وصف في «الكتاب» : السير فقال سير الإبل ومشي الأقدام وهو سير الوسط والعام الغالب، وهذا لأن أعجل السير سير البريد وأبطأه سير العجلة، وخير الأمور أوساطها ثم معنى قول علمائنا رحمهم الله أدنى مدة السفر مسيرة ثلاثة أيام ولياليها السير الذي يكون في ثلاثة أيام ولياليها مع الاستراحات التي تكون في خلال ذلك، وهذا لأن المسافر لا يمكنه أن يمشي أبداً بل يمشي في بعض الأوقات، وفي بعض الأوقات يستريح ويأكل ويشرب، وعن أبي حنيفة رحمه الله أنه اعتبر ثلاث مراحل، فعلى قياس هذه الرواية من بخارى إلى أرمينة مدة سفر، وكذلك إلى فربر وبه أخذ بعض مشايخ بخارى رحمهم الله.
وعن أبي يوسف رحمه الله أنه قدره بيومين، والأكثر من اليوم الثالث مقام كله، وهكذا روى الحسن عن أبي حنيفة رحمه الله، وابن سماعة عن محمد رحمة الله عليهما ثم على قياس هذه الرواية، إذا قدر بالمراحل عند أبي حنيفة يقدر بالمرحلتين والأكثر من المرحلة الثالثة، وهو على قياس تقدير أقل مدة الحيض على قول أبي يوسف ولم يعتبر بعض مشايخنا الفراسخ، قالوا: لأن ذلك يختلف باختلاف الطرق في السهولة والصعوبة والجبال والبر والبحر.وعامة مشايخنا قدروه بالفراسخ أيضاً، واختلفوا فيما بينهم، بعضهم قالوا: أحد وعشرين فرسخاً، وبعضهم قالوا: ثمانية عشر فرسخاً أدنى مدة السفر ثمانية عشر فرسخاً، وبعضهم قالوا: خمسة عشر، والفتوى على ثمانية عشر؛ لأنها أوسط الأعداد، وإن كان السفر سفر جبال، فعبارة بعض مشايخنا رحمهم الله أن التقدير فيه بمنزلة ثلاثة أيام ولياليها على حسب ما تبين بحال الجبل، وعبارة الشيخ الإمام الأجل شمس الأئمة الحلواني رحمة الله عليه: أن التقدير فيه بالمراحل لا محالة يقدر ثلاثة مراحل مرحلة الجبل، لا مرحلة السهل.
المحیط البرہانی،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1424ھ،ج:2،ص:22۔
(قوله ولا اعتبار بالفراسخ) الفرسخ ثلاثة أميال والميل أربعة آلاف ذراع على ما تقدم في باب التيمم (قوله على المذهب) لأن المذكور في ظاهر الرواية. اعتبار ثلاثة أيام كما في الحلية وقال في الهداية: هو الصحيح احترازا عن قول عامة المشايخ من تقديرها بالفراسخ. ثم اختلفوا فقيل: واحد وعشرون، وقيل: ثمانية عشر، وقيل: خمسة عشر والفتوى على الثاني لأنه الأوسط. وفي المجتبى فتوى أئمة خوارزم على الثالث.
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:2،ص:123۔
وَأَقْرَبُ الْأَقْوَالِ الْمِيلُ وَهُوَ ثُلُثُ فَرْسَخٍ أَرْبَعَةُ آلَافِ ذِرَاعٍ بِذِرَاعِ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَرَجِ بْنِ الشَّاشِيِّ طُولُهَا أَرْبَعَةٌ وَعِشْرُونَ إصْبَعًا وَعَرْضُ كُلِّ إصْبَعٍ سِتُّ حَبَّاتٍ مِنْ شَعِيرٍ مُلْصَقَةٍ ظَهْرًا لِبَطْنٍ، وَالْبَرِيدُ اثْنَا عَشَرَ مِيلًا ذَكَرَهُ فِي الصِّحَاحِ۔
تبیین الحقائق،المطبعۃ الکبریٰ الامیریۃ،قاہرہ،الطبعۃ الاولیٰ،1313ھ،ج:1،ص:37۔
فإن البريد أربع فراسخ، والفرسخ ثلاثة أميال، والميل أربعة آلاف خطوة۔
اللباب ،دارالقلم،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1414ھ،ج:2،ص:618۔
إن البريد من الفراسخ أربع ... ولفرسخ فثلاث أميال ضعوا
والميل ألف أي من الباعات قل ... والباع أربع أذرع تتتبع
ثم الذراع من الأصابع أربع ... من بعدها العشرون ثم الأصبع
ست شعيرات فظهر شعيرة ... منها إلى بطن لأخرى توضع
ثم الشعيرة ست شعرات فقل ... من شعر بغل ليس فيها مدفع
منحۃ الخالق علیٰ البحر الرائق،دارالکتاب الاسلامی،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،ج:1،ص:147۔
ذكر الْمسَافَة الَّتِي تقصر فِيهَا الصَّلَاة: اخْتلف الْعلمَاء فِيهَا، فَقَالَ أَبُو حنيفَة وَأَصْحَابه والكوفيون: الْمسَافَة الَّتِي تقصر فِيهَا الصَّلَاة ثَلَاثَة أَيَّام ولياليهن بسير الْإِبِل ومشي الْأَقْدَام. وَقَالَ أَبُو يُوسُف: يَوْمَانِ وَأكْثر الثَّالِث، وَهِي رِوَايَة الْحسن عَن أبي حنيفَة وَرِوَايَة ابْن سَمَّاعَة عَن مُحَمَّد وَلم يُرِيدُوا بِهِ السّير لَيْلًا وَنَهَارًا لأَنهم جعلُوا النَّهَار للسير وَاللَّيْل للاستراحة، وَلَو سلك طَرِيقا هِيَ مسيرَة ثَلَاثَة أَيَّام وَأمكنهُ أَن يصل إِلَيْهَا فِي يَوْم من طَرِيق أُخْرَى قصر، ثمَّ قدرُوا ذَلِك بالفراسخ، فَقيل: أحد وَعِشْرُونَ فرسخا، وَقيل: ثَمَانِيَة عشر، وَعَلِيهِ الفتوي، وَقيل: خَمْسَة عشر فرسخا، وَإِلَى ثَلَاثَة أَيَّام ذهب عُثْمَان بن عَفَّان وَابْن مَسْعُود وسُويد بن غَفلَة وَالشعْبِيّ وَالنَّخَعِيّ وَالثَّوْري وَابْن حييّ وَأَبُو قلَابَة وَشريك بن عبد الله وَسَعِيد بن جُبَير وَمُحَمّد بن سِيرِين، وَهُوَ رِوَايَة عَن عبد الله بن عمر. وَعَن مَالك: لَا يقصر فِي أقل من ثَمَانِيَة وَأَرْبَعين ميلًا بالهاشمي، وَذَلِكَ سِتَّة عشر فرسخا، وَهُوَ قَول أَحْمد، والفرسخ ثَلَاثَة أَمْيَال، والميل سِتَّة آلَاف ذِرَاع، والذراع أَربع وَعِشْرُونَ إصبعا مُعْتَرضَة معتدلة، والأصبع سِتّ شعيرات معترضات معتدلات، وَذَلِكَ يَوْمَانِ، وَهُوَ أَرْبَعَة برد، هَذَا هُوَ الْمَشْهُور عَنهُ. كَأَنَّهُ احْتج بِمَا رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيّ من حَدِيث عبد الْوَهَّاب بن مُجَاهِد عَن أَبِيه وَعَطَاء بن أبي رَبَاح (عَن ابْن عَبَّاس، قَالَ: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: يَا أهل مَكَّة لَا تقصرُوا الصَّلَاة فِي أدنى من أَرْبَعَة برد من مَكَّة إِلَى عسفان) . وَعبد الْوَهَّاب ضَعِيف، وَمِنْهُم من يكذبهُ، وَعنهُ أَيْضا: خَمْسَة وَأَرْبَعُونَ ميلًا، وَللشَّافِعِيّ: سَبْعَة نُصُوص فِي الْمسَافَة الَّتِي تقصر فِيهَا الصَّلَاة: ثَمَانِيَة وَأَرْبَعُونَ ميلًا، سِتَّة وَأَرْبَعُونَ، أَكثر من أَرْبَعِينَ، أَرْبَعُونَ، يَوْمَانِ وَلَيْلَتَانِ، يَوْم وَلَيْلَة، وَهَذَا الآخر قَالَ بِهِ الْأَوْزَاعِيّ.
عمدۃ القاری،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:7،ص:119۔
أَن أَصْحَابنَا أَيْضا اخْتلفُوا فِي هَذَا الْبَاب إختلافا كثيرا، فَالَّذِي ذكره صَاحب (الْهِدَايَة) : السّفر الَّذِي تَتَغَيَّر بِهِ الْأَحْكَام أَن يقْصد الْإِنْسَان مسيرَة ثَلَاثَة أَيَّام ولياليها بسير الْإِبِل ومشي الْأَقْدَام، وَقدر أَبُو يُوسُف بيومين وَأكْثر الثَّالِث، وَهُوَ رِوَايَة الْحسن عَن أبي حنيفَة، وَرِوَايَة ابْن سَمَّاعَة عَن مُحَمَّد، وَقَالَ المرغيناني وَعَامة الْمَشَايِخ: قدروها بالفراسخ، فَقيل: أحد وَعِشْرُونَ فرسخا، وَقيل: ثَمَانِيَة عشر فرسخا. قَالَ المرغيناني: وَعَلِيهِ الْفَتْوَى.
عمدۃ القاری،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:7،ص:125۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر) ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملہم الصواب
حامداً ومصلیاً!
صورت مسئولہ کا جواب دینے سے پہلے ایک تمہیدی مقدمہ کا سمجھنا ضروری ہے۔حدیث شریف میں تین منزل کی مقدار کومسافت سفر قرار دیا گیا ہےاور فقہائے کرام نے تین منزل کی مسافت کی تشریح تین دن کی مسافت کے ساتھ کی ہےیعنی تین دن رات میں آسانی کے ساتھ پیدل چل کر یا اونٹ پر سوار ہوکر جس قدر مسافت ایک آدمی طے کرسکتا ہے وہ شرعی مقدار مسافت کہلائے گا۔ مزیدبرآں یہ وضاحت بھی حضرات فقہائے کرام نے کی ہے کہ تین دن رات کی مسافت سے مراد یہ نہیں کہ تین دن رات مسلسل چلے ،رات کو چلنا اس میں شامل نہیں صرف دن کو چلنا مراد ہے اور دن سے بھی پورا دن مراد نہیں بلکہ تمام استراحات اور ضروریات شرعیہ وطبعیہ کالحاظ رکھتے ہوئے جس قدر عادۃً متوسط قوت والا آدمی چل سکتا ہو۔مگر چونکہ عامۃ الناس کے لیے اس کا تعین پھر بھی مشکل ہے اس وجہ سے ان تین منزل یا تین دن رات کی مسافت کی جو مقدار صحابہ کرام ،تابعین عظام اور جمہور فقہائے کرام نے متعین کی ہے ،اس مقدار کو اپنانے کی ضرورت ہے۔کتب فقہ کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعداور تمام اقوال اور مقادیر کی تشریح و تطبیق میں غور کرنے کے بعد جو بات سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ اس مقدار مسافت کے تعین کے سلسلے میں ہمارے فقہائے کرام کے ہاں چار اقوال پائے جاتے ہیں:15فرسخ،16فرسخ،18فرسخ اور 21فرسخ۔ایک فرسخ میں کل 03میل ہوتے ہیں ،اس وجہ سے میلوں کے اعتبار سے ان چار اقوال کی تفصیل یوں ہوگی:
پہلاقول:15فرسخ،ایک فرسخ 03 میل کا،15فرسخ برابر ہوئے 45میل کے۔فقہائے خوارزم کا فتویٰ اسی قول پر ہے۔
دوسرا قول:16فرسخ، ایک فرسخ 03 میل کا،16فرسخ برابر ہوئے 48میل کے۔جمہور فقہائے کرام کے ہاں راجح قول یہی ہے۔
تیسراقول:18فرسخ، ایک فرسخ 03 میل کا،18فرسخ برابر ہوئے 54میل کے۔
چوتھا قول:21فرسخ، ایک فرسخ 03 میل کا،21فرسخ برابر ہوئے 63میل کے۔
اس کے بعد یہ جاننا چاہیئے کہ ایک میل شرعی میں4000شرعی گز ہوتے ہیں ۔ایک شرعی گز18انچ(ڈیڑھ فٹ)کا ہوتا ہے یعنی انگریزی گز کانصف،کیونکہ انگریزی گز 36انچ (تین فٹ) کا ہوتا ہے۔اس حساب سے 4000شرعی گز سے 2000انگریزی گز بن جاتے ہیں۔جدید زمانے کے کلومیٹر کے حساب سے ایک شرعی میل 01کلومیٹر،828میٹر اور80سینٹی میٹر کا ہوتا ہے۔اب مذکورہ بالا چاروں اقوال کااگرکلومیٹر کے حساب سے اندازہ لگایا جائےتو چاروں کی تفصیل یوں ہوگی:
پہلاقول:15فرسخ،ایک فرسخ 03 میل کا،15فرسخ برابر ہوئے 45میل کے۔ ایک شرعی میل 01کلومیٹر،828میٹر اور80سینٹی میٹر کا ہوتا ہے،اس حساب سے 45شرعی میل سے 82کلومیٹر 696میٹر بنتے ہیں۔
دوسرا قول:16فرسخ، ایک فرسخ 03 میل کا،16فرسخ برابر ہوئے 48میل کے۔ ایک شرعی میل 01کلومیٹر،828میٹر اور80 سینٹی میٹر کا ہوتا ہے،اس حساب سے 48میل شرعی سے 87کلومیٹر782میٹراور40سینٹی میٹر بنتے ہیں۔
تیسراقول:18فرسخ، ایک فرسخ 03 میل کا،18فرسخ برابر ہوئے 54میل کے۔ ایک شرعی میل 01کلومیٹر،828میٹر اور80سینٹی میٹر کا ہوتا ہے،اس حساب سے 54شرعی میل سے 98کلومیٹر 755میٹر اور 20سینٹی میٹر بنتے ہیں۔
چوتھا قول:21فرسخ، ایک فرسخ 03 میل کا،21فرسخ برابر ہوئے 63میل کے۔ ایک شرعی میل 01کلومیٹر،828میٹر اور80سینٹی میٹر کا ہوتا ہے،اس حساب سے 63میل شرعی سے 115کلومیٹر 214میٹر اور40سینٹی میٹر بنتے ہیں۔
مذکورہ بالا چاروں اقوال میں سب سے کم مسافت والا قول پہلا قول ہے یعنی 82کلومیٹر اور 696میٹر ۔خوارزم کے فقہائے کرام نے اسی قول کو اپنایا ہے جبکہ جمہور فقہاءنے 48میل والے قول کو ترجیح دی ہے۔اس کے بعد یہ سمجھنا چاہیئے کہ شرعی میل اور انگریزی میل میں تھوڑا فرق ہے،شرعی میل زیادہ جبکہ انگریزی میل اس کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔چونکہ جمہور کے ہاں 48میل والا قول ہی راجح ہے اس وجہ سے 48 میل سے اگر شرعی میل مراد لیا جائے تو48 میل شرعی سے 87کلومیٹر782میٹراور40سینٹی میٹر بنتے ہیں،اور اگرمیل سے شرعی میل نہیں بلکہ انگریزی میل کو مراد لیا جائے تو 48 انگریزی میل سے 77کلومیٹر 51سینٹی میٹر بنتے ہیں۔
مذکورہ بالا چاروں اقوال میں سے چونکہ سب سے کم مسافت والا قول 15فرسخ والا ہے جس سے شرعی میل کے اعتبار سے 82کلومیٹر اور696میٹر بنتے ہیں اس وجہ سے ہمارے جن بزرگوں نے شرعی میل کااعتبار کیا ہے ان کے ہاں کم سے کم مسافت سفر کی مقدار 82کلومیٹر اور696میٹر ہے،البتہ ان کے ہاں بھی احتیاط اسی میں ہے کہ 16فرسخ والے قول کو ہی اختیار کیا جائے کیونکہ جمہور کا اعتماد 16فرسخ پر ہی ہے اور 16فرسخ سے شرعی میل کے اعتبار سے 87کلومیٹر782میٹراور40سینٹی میٹر بنتے ہیں،اور اگرمیل سے شرعی میل نہیں بلکہ انگریزی میل کو مراد لیا جائے تو 16فرسخ سےانگریزی میل کے اعتبارسے 77کلومیٹر 51سینٹی میٹر بنتے ہیں۔ اس پوری بحث کا نتیجہ اور لب لباب یہ نکلتا ہے کہ درحقیقت مسافت سفر کے مقدار کے تعیین کا یہ اختلاف میل کے اعتبار کرنے پر مبنی ہے اگرمیل سے مراد شرعی میل لیا جائے تو کم سے کم مسافت سفر82کلومیٹر بنے گی اور اگر میل سے مراد انگریزی میل کو لیا جائے تو پھر77کلومیٹر مسافت سفر ہو گی ۔روایات اور متقدمین فقہائے کرام کے ہاں تو تین دن کی مسافت،تین منزل،برید یا پھر فرسخ کے الفاظ ہی ملتے ہیں ،متاخرین فقہائے کرام کے ہاں بھی میل تک کا لفظ مل جاتا ہے مگر کلومیٹر کالفظ کہیں بھی نہیں ملتا کیونکہ یہ ایک جدید اصطلاح ہے جس کا وجود ہی اس وقت نہیں تھا۔اب ماضی قریب میں جب سے MKSسسٹم تقریباً پوری دنیا میں رائج ہوا ہے تو یہ سوال ہمارے اکابر کے ہاں بھی پیدا ہوا کہ ایک میل سے کتنے کلومیٹر بنیں گے؟اور اسی سے صورت مسئولہ والا اختلاف بھی پیدا ہوا کہ میل سے میل شرعی مراد لیں گے یا انگریزی میل۔ہمارے زیادہ تر اکابرعلمائے دیوبند کے ہاں مسافت سفر کے تعیین میں میل سے مراد انگریزی میل ہے اس وجہ سے علمائے دیوبند کے اکثر فتاویٰ میں مسافت سفر کی مقدار77کلومیٹر ہی بیان کی جاتی ہے، جبکہ بعض دوسرے اکابر جن میں حضرت مولانامفتی رشید احمد لدھیانوی،حضرت مولانامفتی شبیراحمد القاسمی اورحضرت مولانامفتی سلمان احمد منصورپوری،حضرت مولانامفتی عبدالستار صاحب اورحضرت مولانا مفتی محمد انور صاحب جیسے حضرات سرفہرست ہیں، ان کے ہاں مسافت سفرکی تعیین میں میل سے مراد انگریزی میل نہیں بلکہ شرعی میل ہے اور اسی وجہ سے ان اکابر کے ہاں کم سے کم مسافت سفر82کلومیٹر ہے۔کسی زمانے میں یہ مسئلہ خود ہمارے اکابرعلمائے دیوبند کے ہاں بھی کافی معرکۃ الآراء رہا ہے اور جانبین سے اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ایضاح المسائل اور القول الاظہرمن تحقیق مسافۃ السفر جیسی کتب کے علاوہ احسن الفتاویٰ ، کتاب النوازل،خیر الفتاویٰ اور فتاویٰ قاسمیہ کے فتاویٰ جات اس پر شاہد ہیں،بلکہ ایک دور ایسا بھی آیا ہے کہ حضرت مولانا مفتی مہربان علی شاہ صاحب نے حضرت مولانامفتی رشید احمد لدھیانوی کے تردید میں"مسافت شرعی"کے نام سے ایک پوری کتاب لکھ ڈالی۔بہرحال اس بحث میں جانے کی ہمارے خیال میں کوئی ضرورت نہیں ہے ،دونوں طرف ہمارے جید اکابر ہی ہیں اور یہ مسئلہ بھی کو ئی منصوص نہیں ہے کہ جس میں اختلاف کی گنجائش نہ ہو ،کیونکہ اختلاف تو میل کے اعتبار کرنے میں ہے جوکہ ایک مجتہد فیہ صورت ہےاورروایات اور متقدمین کے عبارات سے جو برید،منزل یا فرسخ وغیرہ کاثبوت ہوتا ہےاس میں تو کسی کا بھی اختلاف نہیں ہے۔دونوں ہی اقوال ہمارے ہی اکابر کے ہیں جن کے علم و تقویٰ میں کوئی شک نہیں ہے اس وجہ سے دونوں میں سے جس پر بھی عمل کیا جائے وہ درست ہے۔اس مسئلہ میں شدت نکیر کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ہمارے اکابر علمائے دیوبند ہی میں اس بارے میں کئی ایک اقوال ملتے ہیں۔کسی ایک خاص قول کو دیوبندیت کا معیار قرار دے کر مخالف قول والے کو علمائے دیوبند کا مخالف قرار دینا نہ صرف یہ کہ بالکل غلط ہے بلکہ ہمارے اکابر علمائے دیوبند کے مزاج ومذاق کے بھی خلاف ہے۔
حضرت مولانا مفتی رشیداحمد لدھیانوی صاحب ؒ نے احسن الفتاویٰ میں 82کلومیٹر والے قول کو ہی اپنایا ہے اور القول الاظہر من تحقیق مسافۃ السفر کے نام سے اس موضوع پر ایک جامع اور مدلل رسالہ بھی تحریر کیا ہے۔حضرت مولانامفتی سیدمحمد سلمان منصور پوری صاحب نے "کتاب النوازل"میں ،حضرت مولانامفتی شبیر احمدالقاسمی نے "فتاویٰ قاسمیہ"اور"ایضاح المسائل" میں، حضرت مولانامفتی عبدالستار صاحب ؒ نے "خیرالفتاویٰ"میں اور حضرت مولانامفتی رضاء الحق صاحب نے"فتاویٰ دارالعلوم زکریا"میں 82 کلومیٹر والے قول کو ہی اپناتے ہوئے اس فتویٰ دیا ہے۔اس سے اگرہم اورآگے چلے جائیں توہمارے اکابر علمائے دیوبند ہی میں سے بعض بزرگوں نے 77کلومیٹر سے بھی کم پر فتویٰ دیا ہے،چنانچہ حضرت مولانامفتی کفایت اللہ صاحب ؒ نے "کفایت المفتی"میں 36 انگریزی میل پر فتویٰ دیا ہے۔علاوہ ازیں احسن الفتاویٰ میں "شرعی مسافت"نامی کتاب کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت مولانا رشیداحمد گنگوہی ؒ تو سرے کسی تحدید کے ہی قائل نہیں تھے،اور حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی ؒ 24انگریزی میل کوشرعی مسافت مانتے تھے۔حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری ؒ،حضرت مولانامحمد یحییٰ کاندہلویؒ، حضرت مولاناعبدالحئ لکھنویؒ اور حضرت مولانا عبدالشکور لکھنویؒ ان سارے اکابر کے ہاں شرعی مقدار سفر36کلومیٹر ہے۔ حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی ؒ 45 انگریزی میل کے قائل تھے۔یہ سب کے سب ہمارے وہ اکابر ہیں جن کے علم وتقویٰ میں کوئی شک نہیں لیکن ان حضرات نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر دوسروں سے اختلاف کیا ہےاور اس اختلاف پرآج تک کسی نے ان کو ملامت نہیں کیا۔ میل شرعی یامیل انگریزی کے اعتبار کرنے یا نہ کرنے کا تعلق ایک اجتہادی صورت کے ساتھ ہےجس میں اختلاف کی گنجائش موجود ہے۔اس وجہ سے اس مسئلہ میں شدت اور سختی کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ،77کلومیٹر یا 82کلومیٹر میں سے جس پر بھی کوئی عمل کرے،درست ہے۔البتہ ہماری اپنی ذاتی رائے اورخیال کے مطابق احتیاط اسی میں ہے کہ میل سے مراد شرعی میل کو لیا جائے اور شرعی میل ہی کااعتبار کرتے ہوئے کم سے کم مسافت سفر 82کلومیٹر کو قرار دیا جائے، اور اس کی کئی ایک وجوہات ہیں:
پہلی وجہ یہ ہے کہ کتب فقہ میں وزن،مساحت،کیل یا دیگر پیمائش کے لیے جتنے بھی مقادیر کو بیان کیا جاتا ہے ،عام طور پر ان سے مقادیر شرعیہ ہی کو مراد لیا جاتا ہےمثلاً پانی کے قلیل یا کثیر ہونے کے باب میں دہ دردہ کی بحث ہماری تمام کتب میں موجود ہے ،اور ہمارے تمام بزرگوں کا اس پراتفاق ہے کہ یہاں دہ در دہ کی بحث میں دس گز سے مراد انگریزی گز نہیں بلکہ شرعی گز ہے۔توجب دیگر مقادیر میں شرعی مقادیر ہی کواپنایا جاتا ہے تو میل میں بھی انگریزی میل کی بجائے شرعی میل کااعتبار کرنا زیادہ مناسب ہے۔
دوسری وجہ یہ ہے فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق مقام قصرمیں اتمام سے نماز مع الکراہۃ ہوجاتی ہے مگر مقام اتمام میں قصر سے نماز بالکل ہی نہیں ہوتی۔اس کی وضاحت یوں ہے کہ سفرکی حالت میں اگر کوئی شخص نماز میں قصر نہ کرے بلکہ پوری نماز پڑھتے ہوئے اتمام کرے تو بے شک اس نے غلط کیا مگر وہ بری الذمہ ہوجائے گایعنی اس کا فرض ادا ہوجائےگا،مگر اقامت کی حالت میں اگر کوئی پوری نماز نہ پڑھے بلکہ نماز میں قصر کرے تو کسی کے ہاں بھی وہ بری الذمہ نہیں ہوگا۔اب 77کلومیٹر اور82کلومیٹر میں 77کم اور 82زیادہ ہے۔اب اگر کوئی شخص مثلاً 80کلومیٹر کی مسافت طے کرکے نماز میں قصر کرے تو جن کے ہاں 77کلومیٹر مقدار سفر ہے توان کے ہاں تو اس نے ٹھیک کیا اور یہ بری الذمہ بھی ہوگیا ،لیکن 82کلومیٹر کے قائلین کے ہاں اس کی سرے سے نماز ہی نہیں ہوئی اور یہ بری الذمہ نہیں ہوا،کیونکہ اس کے ذمہ پوری نماز پڑھنی تھی اور اس نے قصر کیا۔لیکن اگر یہ شخص 82 پر جاکر قصر کرتا ہے تو سب کے ہاں اس کی نماز درست ہوجائے گی اور یہ بری الذمہ ہوجائے گا۔دوسری بات یہ بھی ہے کہ فی الواقع عنداللہ تعالیٰ اگر 77کلومیٹر والا قول درست ہو تو 80کلومیٹر پر اتمام کرنے والا اگرچہ گنہگار تو ہوجائے گا لیکن نماز کی ادائیگی سے بری الذمہ ہوجائے گا،لیکن اگر فی الواقع عنداللہ تعالیٰ اگر82 والاقول درست ہو تو پھر 80کلومیٹر پر قصر کرنے والا نہ صرف یہ کہ گنہگار ہو گا بلکہ نماز کی ادائیگی سے بھی بری الذمہ نہیں ہوگا اور یہ نماز اس کے ذمہ واجب الاعادہ رہے گی۔
تیسری وجہ یہ ہے کہ قصر کا تعلق عبادات سےہے اورعبادات کے باب میں احتیاط کو ہی ترجیح دی جاتی ہے اور احتیاط اسی میں ہے کہ 82 کلومیٹر والے قول کو ہی اختیار کیا جائےکیونکہ اتمام اصل ہے اور قصر بوجہ عارض کے ہوتا ہے،لہٰذا جب تک عارض کا تیقن نہیں ہوتا تو قصر سے احتراز کرنا ہی احوط ہے۔77اور82کے اختلاف کی صورت میں 82ہی میں تیقن ہوتا ہے نہ کہ 77میں،کیونکہ 82میں 77شامل ہے لیکن 77میں 82 شامل نہیں ہوتا۔
چوتھی وجہ یہ ہے کہ تمام جدید وقدیم کتب میں یہاں تک کہ حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ؒ نے بھی "اوزان شرعیہ"میں لکھا ہے کہ میل 4000ذراع کا ہوتا ہے اور 4000ذراع سے 2000انگریزی گز بنتےہیں اور 2000انگریزی گز سےجو میل بنتا ہے وہ انگریزی میل نہیں بلکہ شرعی میل ہوتا ہے اور شرعی میل کے حساب سے کم سے کم مسافت سفر82کلومیٹر ہی بنتی ہے۔
یہاں پریہ بات بھی ملحوظ خاطر رہے کہ 82کلومیٹر والے قول کواحتیاط کی بنیاد پر ترجیح دینے میں ہم متفرد نہیں بلکہ ہمارے کئی ایک مستنداکابرمفتیان کرام نے اسی قول کواپنایا ہے،چندایک اقوال ملاحظہ ہوں:
حضرت مولانارشیداحمد گنگوہی صاحب ؒ کا قول
ایک جگہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ سفر کی مقدار مسافت کتنی ہے ؟اور دوسرا سوال ہوا کہ میل کتنا ہوتا ہے؟تو حضرت نے پہلے سوال کے جواب میں فرمایا ہے کہ"چار برید جس کی سولہ سولہ میل کی تین منزلیں ہوتی ہیں"اور دوسرے سوال کے جواب میں فرمایا ہے"فرسخ تین میل کا اور میل چار ہزار قدم کا"۔
فتاویٰ رشیدیہ،دارالاشاعت،کراچی،ص:434۔
چار ہزار قدم کا شرعی میل ہوتا ہے اور سولہ سولہ میل کی تین منزلوں سے 48میل بن گئے گویا حضرت کے ہاں 48شرعی میل ہی کا قول قابل بیان ہے۔حضرت کااپنارجحان عدم تحدید ہی کا ہے مگر سائل کے سوال کے مطابق جو جواب دیا ہے تو اس سے شرعی میل ہی کاثبوت ہوتا ہے نہ کہ انگریزی میل کا۔
حضرت مولانامفتی شبیراحمد القاسمی صاحب کا قول
شریعت میں شرعی میل کااعتبار ہوتا ہے،انگریزی میل کا اعتبار نہیں ہے۔ہمارے بعض بزرگوں نے 48میل انگریزی کااعتبار فرمایا ہے ،جس میں 77کلومیٹر248میٹر51سینٹی میٹر ہوتے ہیں ،اسلاف سے یہ قول منقول نہیں ہے۔حضرات اسلاف اور فقہاء سے جوچار اقوال منقول ہیں ،جن کو ہم نے اوپرذکرکیا ہے ،اس میں سب سے کم مسافت والا قول 82کلومیٹر296میٹروالاقول ہے،اس لیے اس سے کم مسافت میں نمازوں کاقصر کرنا ہم صحیح نہیں سمجھتے ہیں۔
فتاویٰ قاسمیہ،مکتبہ اشرفیہ،دیوبند،پہلا ایڈیشن ،1437ھ،ج:8،ص:589۔
حضرت مولانامفتی سیدمحمدسلمان منصورپوری صاحب کا قول
اصل میں احتیاط اسی میں ہے کہ میل انگریزی کے بجائے میل شرعی کے اعتبار سے مسافت سفر کا تعین کیا جائے،اور اس بارے میں فقہاء کا کم سے کم قول 15فرسخ 45میل شرعی کا ہے،جس کے اعتبار سے 82کلومیٹر286میٹر سے کم میں قصر کی اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔
کتاب النوازل،المرکزالعلمی للنشر والتحقیق،مرادآباد،انڈیا،ج:5،ص:393۔
حضرت مولانامفتی عبدالستار صاحب کا قول
حضرت مفتی صاحب نے "خیرالفتاویٰ"میں مسافت شرعی کی مقدار اور میل شرعی ومیل انگریزی پرمدلل گفتگو فرمائی ہے۔آخر میں خلاصہ کے طورپرتحریر فرماتے ہیں:"الحاصل اڑتالیس میل انگریزی کومسافت قصر قرار دینا سمجھ میں نہیں آیا،یہ مسافت 45،48یا54میل شرعی ہونی چاہیئے،درمیانی قول کوراجح اورمعمول بہ بنایا جائے بوجوہ بالا تواولیٰ ہوگا۔
خیرالفتاویٰ،مکتبہ امدادیہ،ملتان،ج:2،ص:668۔
حضرت مولانامفتی محمد انور صاحب کا فتویٰ
مسافت قصر میں 48میل سے مراد میل شرعی ہے جس کے انگریزی میل تقریباً 54اور کلومیٹر کے حساب سے 87کلومیٹر بنتے ہیں۔
خیرالفتاویٰ،مکتبہ امدادیہ،ملتان،ج:2،ص:674۔
حضرت مولانامفتی رضاء الحق صاحب کا فتویٰ
حضرت مفتی صاحب نے بھی "فتاویٰ دارالعلوم زکریا"میں مسافت شرعی کی مقدار اور میل شرعی ومیل انگریزی پرمدلل گفتگو فرمائی ہے۔ آخر میں خلاصہ کے طورپرتحریر فرماتے ہیں:"خلاصہ یہ ہے کہ ائمہ خوارزم کےقول کااعتبار کرتے ہوئے جس کو ہمارے اکابر نے اختیار فرمایا ہے،مسافت شرعی کی مقدار 15فرسخ،یعنی 45میل شرعی بحساب 82کلومیٹر296میٹر ہے۔یہ قول اس وجہ سے اختیار کیا گیا ہے کہ اکابر کی موافقت کے ساتھ ساتھ ائمہ ثلاثہ کے قول کے قریب بھی ہے اور اس میں آسانی بھی ہے۔"
فتاویٰ دارالعلوم زکریا،زم زم پبلشرز،کراچی،ج:2،ص:602۔
واختلفوا في التقدير قال أصحابنا: مسير ثلاثة أيام سير الإبل ومشي الأقدام وهو المذكور في ظاهر الروايات.وروي عن أبي يوسف يومان وأكثر الثالث، وكذا روى الحسن عن أبي حنيفة وابن سماعة عن محمد ومن مشايخنا من قدره بخمسة عشر فرسخا وجعل لكل يوم خمس فراسخ، ومنهم من قدره بثلاث مراحل.وقال مالك: أربعة برد كل بريد اثنا عشر ميلا، واختلفت أقوال الشافعي فيه، قيل: ستة وأربعون ميلا وهو قريب من قول بعض مشايخنا؛ لأن العادة أن القافلة لا تقطع في يوم أكثر من خمسة فراسخ، وقيل: يوم وليلة.وهو قول الزهري والأوزاعي، وأثبت أقواله أنه مقدر بيومين۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وكذا لو سار في البر إلى موضع في يوم أو يومين وأنه بسير الإبل والمشي المعتاد ثلاثة أيام يقصر اعتبارا للسير المعتاد، وعلى هذا إذا سافر في الجبال والعقبات أنه يعتبر مسيرة ثلاثة أيام فيها لا في السهل، فالحاصل أن التقدير بمسيرة ثلاثة أيام أو بالمراحل في السهل والجبل والبر والبحر ثم يعتبر في كل ذلك السير المعتاد فيه وذلك معلوم عند الناس فيرجع إليهم عند الاشتباه، والتقدير بالفراسخ غير سديد؛ لأن ذلك يختلف باختلاف الطريق.
بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع،دارالکتب العلمیہ،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1406ھ،ج:1،ص:93۔
قال علمائنا رحمهم الله: أدناها مسيرة ثلاثة أيام ولياليها، والأصل في ذلك قوله عليه السلام: «يمسح المقيم يوماً وليلة والمسافر ثلاثة أيام ولياليها» ذكر المسافر بلام التعريف ... فقد جوّز لكل مسافر مسح ثلاثة أيام ولياليها ولا يتصور أن يمسح كل مسافر ثلاثة أيام ولياليها إلا وأن تكون أقل مدة السفر ثلاثة أيام ولياليها. والمعنى في ذلك: أن القصر في السفر لمكان الحرج والمشقة والحرج والمشقة في أن يحمل رحله من غير أهله، ويحط في غير أهله وذلك لا يتحقق فيما دون الثلاث، لأن في اليوم الأول يحمل من أهله وفي اليوم الثاني يحط في أهله، أما يتحقق في الثلاث؛ لأن في اليوم الثاني يحمل الرحل في غير أهله ويحط في غير أهله، فتحقق معنى الحرج، فلهذا قدر بثلاثة أيام ولياليها.ثم وصف في «الكتاب» : السير فقال سير الإبل ومشي الأقدام وهو سير الوسط والعام الغالب، وهذا لأن أعجل السير سير البريد وأبطأه سير العجلة، وخير الأمور أوساطها ثم معنى قول علمائنا رحمهم الله أدنى مدة السفر مسيرة ثلاثة أيام ولياليها السير الذي يكون في ثلاثة أيام ولياليها مع الاستراحات التي تكون في خلال ذلك، وهذا لأن المسافر لا يمكنه أن يمشي أبداً بل يمشي في بعض الأوقات، وفي بعض الأوقات يستريح ويأكل ويشرب، وعن أبي حنيفة رحمه الله أنه اعتبر ثلاث مراحل، فعلى قياس هذه الرواية من بخارى إلى أرمينة مدة سفر، وكذلك إلى فربر وبه أخذ بعض مشايخ بخارى رحمهم الله.
وعن أبي يوسف رحمه الله أنه قدره بيومين، والأكثر من اليوم الثالث مقام كله، وهكذا روى الحسن عن أبي حنيفة رحمه الله، وابن سماعة عن محمد رحمة الله عليهما ثم على قياس هذه الرواية، إذا قدر بالمراحل عند أبي حنيفة يقدر بالمرحلتين والأكثر من المرحلة الثالثة، وهو على قياس تقدير أقل مدة الحيض على قول أبي يوسف ولم يعتبر بعض مشايخنا الفراسخ، قالوا: لأن ذلك يختلف باختلاف الطرق في السهولة والصعوبة والجبال والبر والبحر.وعامة مشايخنا قدروه بالفراسخ أيضاً، واختلفوا فيما بينهم، بعضهم قالوا: أحد وعشرين فرسخاً، وبعضهم قالوا: ثمانية عشر فرسخاً أدنى مدة السفر ثمانية عشر فرسخاً، وبعضهم قالوا: خمسة عشر، والفتوى على ثمانية عشر؛ لأنها أوسط الأعداد، وإن كان السفر سفر جبال، فعبارة بعض مشايخنا رحمهم الله أن التقدير فيه بمنزلة ثلاثة أيام ولياليها على حسب ما تبين بحال الجبل، وعبارة الشيخ الإمام الأجل شمس الأئمة الحلواني رحمة الله عليه: أن التقدير فيه بالمراحل لا محالة يقدر ثلاثة مراحل مرحلة الجبل، لا مرحلة السهل.
المحیط البرہانی،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1424ھ،ج:2،ص:22۔
(قوله ولا اعتبار بالفراسخ) الفرسخ ثلاثة أميال والميل أربعة آلاف ذراع على ما تقدم في باب التيمم (قوله على المذهب) لأن المذكور في ظاهر الرواية. اعتبار ثلاثة أيام كما في الحلية وقال في الهداية: هو الصحيح احترازا عن قول عامة المشايخ من تقديرها بالفراسخ. ثم اختلفوا فقيل: واحد وعشرون، وقيل: ثمانية عشر، وقيل: خمسة عشر والفتوى على الثاني لأنه الأوسط. وفي المجتبى فتوى أئمة خوارزم على الثالث.
ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیہ،1412ھ،ج:2،ص:123۔
وَأَقْرَبُ الْأَقْوَالِ الْمِيلُ وَهُوَ ثُلُثُ فَرْسَخٍ أَرْبَعَةُ آلَافِ ذِرَاعٍ بِذِرَاعِ مُحَمَّدِ بْنِ الْفَرَجِ بْنِ الشَّاشِيِّ طُولُهَا أَرْبَعَةٌ وَعِشْرُونَ إصْبَعًا وَعَرْضُ كُلِّ إصْبَعٍ سِتُّ حَبَّاتٍ مِنْ شَعِيرٍ مُلْصَقَةٍ ظَهْرًا لِبَطْنٍ، وَالْبَرِيدُ اثْنَا عَشَرَ مِيلًا ذَكَرَهُ فِي الصِّحَاحِ۔
تبیین الحقائق،المطبعۃ الکبریٰ الامیریۃ،قاہرہ،الطبعۃ الاولیٰ،1313ھ،ج:1،ص:37۔
فإن البريد أربع فراسخ، والفرسخ ثلاثة أميال، والميل أربعة آلاف خطوة۔
اللباب ،دارالقلم،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1414ھ،ج:2،ص:618۔
إن البريد من الفراسخ أربع ... ولفرسخ فثلاث أميال ضعوا
والميل ألف أي من الباعات قل ... والباع أربع أذرع تتتبع
ثم الذراع من الأصابع أربع ... من بعدها العشرون ثم الأصبع
ست شعيرات فظهر شعيرة ... منها إلى بطن لأخرى توضع
ثم الشعيرة ست شعرات فقل ... من شعر بغل ليس فيها مدفع
منحۃ الخالق علیٰ البحر الرائق،دارالکتاب الاسلامی،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،ج:1،ص:147۔
ذكر الْمسَافَة الَّتِي تقصر فِيهَا الصَّلَاة: اخْتلف الْعلمَاء فِيهَا، فَقَالَ أَبُو حنيفَة وَأَصْحَابه والكوفيون: الْمسَافَة الَّتِي تقصر فِيهَا الصَّلَاة ثَلَاثَة أَيَّام ولياليهن بسير الْإِبِل ومشي الْأَقْدَام. وَقَالَ أَبُو يُوسُف: يَوْمَانِ وَأكْثر الثَّالِث، وَهِي رِوَايَة الْحسن عَن أبي حنيفَة وَرِوَايَة ابْن سَمَّاعَة عَن مُحَمَّد وَلم يُرِيدُوا بِهِ السّير لَيْلًا وَنَهَارًا لأَنهم جعلُوا النَّهَار للسير وَاللَّيْل للاستراحة، وَلَو سلك طَرِيقا هِيَ مسيرَة ثَلَاثَة أَيَّام وَأمكنهُ أَن يصل إِلَيْهَا فِي يَوْم من طَرِيق أُخْرَى قصر، ثمَّ قدرُوا ذَلِك بالفراسخ، فَقيل: أحد وَعِشْرُونَ فرسخا، وَقيل: ثَمَانِيَة عشر، وَعَلِيهِ الفتوي، وَقيل: خَمْسَة عشر فرسخا، وَإِلَى ثَلَاثَة أَيَّام ذهب عُثْمَان بن عَفَّان وَابْن مَسْعُود وسُويد بن غَفلَة وَالشعْبِيّ وَالنَّخَعِيّ وَالثَّوْري وَابْن حييّ وَأَبُو قلَابَة وَشريك بن عبد الله وَسَعِيد بن جُبَير وَمُحَمّد بن سِيرِين، وَهُوَ رِوَايَة عَن عبد الله بن عمر. وَعَن مَالك: لَا يقصر فِي أقل من ثَمَانِيَة وَأَرْبَعين ميلًا بالهاشمي، وَذَلِكَ سِتَّة عشر فرسخا، وَهُوَ قَول أَحْمد، والفرسخ ثَلَاثَة أَمْيَال، والميل سِتَّة آلَاف ذِرَاع، والذراع أَربع وَعِشْرُونَ إصبعا مُعْتَرضَة معتدلة، والأصبع سِتّ شعيرات معترضات معتدلات، وَذَلِكَ يَوْمَانِ، وَهُوَ أَرْبَعَة برد، هَذَا هُوَ الْمَشْهُور عَنهُ. كَأَنَّهُ احْتج بِمَا رَوَاهُ الدَّارَقُطْنِيّ من حَدِيث عبد الْوَهَّاب بن مُجَاهِد عَن أَبِيه وَعَطَاء بن أبي رَبَاح (عَن ابْن عَبَّاس، قَالَ: قَالَ رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: يَا أهل مَكَّة لَا تقصرُوا الصَّلَاة فِي أدنى من أَرْبَعَة برد من مَكَّة إِلَى عسفان) . وَعبد الْوَهَّاب ضَعِيف، وَمِنْهُم من يكذبهُ، وَعنهُ أَيْضا: خَمْسَة وَأَرْبَعُونَ ميلًا، وَللشَّافِعِيّ: سَبْعَة نُصُوص فِي الْمسَافَة الَّتِي تقصر فِيهَا الصَّلَاة: ثَمَانِيَة وَأَرْبَعُونَ ميلًا، سِتَّة وَأَرْبَعُونَ، أَكثر من أَرْبَعِينَ، أَرْبَعُونَ، يَوْمَانِ وَلَيْلَتَانِ، يَوْم وَلَيْلَة، وَهَذَا الآخر قَالَ بِهِ الْأَوْزَاعِيّ.
عمدۃ القاری،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:7،ص:119۔
أَن أَصْحَابنَا أَيْضا اخْتلفُوا فِي هَذَا الْبَاب إختلافا كثيرا، فَالَّذِي ذكره صَاحب (الْهِدَايَة) : السّفر الَّذِي تَتَغَيَّر بِهِ الْأَحْكَام أَن يقْصد الْإِنْسَان مسيرَة ثَلَاثَة أَيَّام ولياليها بسير الْإِبِل ومشي الْأَقْدَام، وَقدر أَبُو يُوسُف بيومين وَأكْثر الثَّالِث، وَهُوَ رِوَايَة الْحسن عَن أبي حنيفَة، وَرِوَايَة ابْن سَمَّاعَة عَن مُحَمَّد، وَقَالَ المرغيناني وَعَامة الْمَشَايِخ: قدروها بالفراسخ، فَقيل: أحد وَعِشْرُونَ فرسخا، وَقيل: ثَمَانِيَة عشر فرسخا. قَالَ المرغيناني: وَعَلِيهِ الْفَتْوَى.
عمدۃ القاری،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:7،ص:125۔
واللہ اعلم بالصواب
مفتی ابوالاحراراُتلوی
دارالافتاء
جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی
محلہ سلیمان خیل(جبر) ٹوپی صوابی