مرہونہ چیز سے نفع اٹھانے کی شرعی حیثیت

سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرے والد صاحب مرحوم نے تقریباً پندرہ(15) سال پہلے ظہورخان ولدشیخ فریدمرحوم کے پاس بعوض رقم ساٹھ ہزار(60000)کچھ زمین رہن رکھوائی تھی۔بقول ظہورخان کاکا کے یہ مرہونہ زمین سالانہ 350تا400کی تعداد میں گھاس کی گٹھیاں(جس کو پشتو میں "دہ سرڈو گیڈی"کہتے ہیں)دیتی ہے،اور یہ سارا کا سارا گھاس آج تک ظہور خان کاکااستعمال کرتا چلاآرہا ہے۔ اب میں اس زمین کورہن سے آزاد کرانا چاہتا ہوں،شریعت کی روشنی میں اس معاملے کی درست نوعیت اور شرعی حکم بیان کرکے ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی محمدعاصم ترک اتلہ گدون صوابی

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب

حامداً ومصلیاً!

صورت مسئولہ کے مطابق بتقدیر صحت سوال آپ کے والد مرحوم نے جوساٹھ ہزار(60000)روپے ظہورخان کاکا سے قرض لیے تھے اور بطور رہن کے اپنی زمین اس کے پاس رکھوائی تھی توظہور خان کاکا کے لیے اس زمین سے نفع حاصل کرنا جائز نہیں تھا کیونکہ رہن سے فائدہ اٹھاناسود کے زمرے میں شامل ہے۔پندرہ (15)سال تک ظہور خان کاکا نے جوگھاس سے فائدہ اٹھایا ہے اور بقول اُن کے یہ زمین 350سے لے کر400تک کی تعدا دمیں گھاس کی گٹھیاں بطور پیداوار دیتی چلی آرہی ہے تو یہ نفع اس کے لیے جائز نہیں تھا۔اب اس کاحکم یہ ہے کہ سب سے پہلے آپ بھی اور ظہورخان کاکا بھی سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے حضورمیں توبہ اور استغفار کریں اور پندرہ سال سے سود کے اس معاملے میں ملوث ہونے کااللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں۔اس کے بعدگذشتہ پندرہ سالوں سے اس زمین نے جو گھاس بطور پیداوار دی ہے اس کی کل قیمت معلوم کی جائے اور ظہورخان کاکا کے قرض کے رقم مبلغ ساٹھ ہزار(60000)سے اس کو منہا کیا جائے۔قیمت کا تعین کسی دوایسے عادل لوگوں سے کیا جائے جو گھاس کے معاملے میں تجربہ رکھتے ہوں۔اگر گھاس کی پندرہ سالوں کی کل قیمت ساٹھ ہزار سے کم بنتی ہو توآپ باقی رقم ظہور خان کاکا کوحوالہ کریں اور اگر گھاس کی پندرہ سالوں کی قیمت ساٹھ ہزار سے زیادہ بنتی ہو تو ظہورخان کاکاوہ زائدرقم آپ کے حوالے کرے اور اس معاملے کو فی الفور ختم کیا جائے۔

إنه لا يحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن، لأنه أذن له في الربا لأنه يستوفي دينه كاملا فتبقى له المنفعة فضلا، فتكون ربا وهذا أمر عظيم.

ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:05،ص:166۔

وفي المنبع ويكره قرض يستفاد به من أمن الطريق صورته رجل دفع إلى تاجر عشرة دراهم قرضا ليدفعه إلى صديقه ليستفيد به سقوط خطر الطريق وهو معنى قوله وتكره السفاتج وهي جمع سفتجة بضم السين وفتح التاء وإنما يكره ذلك لقوله صلى الله عليه وسلم كل قرض جر نفعا فهو ربا وإنما قال ويكره قرض الخ لأنه إنما دفعه على سبيل القرض إليه فجر نفعا وهو أمن الطريق فإنه حرام والله أعلم۔

لسان الحکام،البابی الحلبی،قاہرہ،الطبعۃ الثانیۃ،1393،ج:01،ص:261۔

وعن عبد الله بن محمد بن أسلم السمرقندي وكان من كبار علماء سمرقند أنه لا يحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن، لأنه أذن له في الربا لأنه يستوفي دينه كاملا فتبقى له المنفعة فضلا فيكون ربا، وهذا أمر عظيم.قلت: وهذا مخالف لعامة المعتبرات من أنه يحل بالإذن إلا أن يحمل على الديانة، وما في المعتبرات على الحكم ثم رأيت في جواهر الفتاوى: إذا كان مشروطا صار قرضا فيه منفعة وهو ربا وإلا فلا بأس، ما في المنح ملخصا وأقره ابنه الشيخ صالح.وتعقبه الحموي بأن ما كان ربا لا يظهر فيه فرق بين الديانة والقضاء.على أنه لا حاجة إلى التوفيق بعد لأن الفتوى على ما تقدم: أي من أنه يباح.أقول: ما في الجواهر يصلح للتوفيق وهو وجيه، وذكروا نظيره فيما لو أهدى المستقرض للمقرض، إن كانت بشرط كره وإلا فلا، وما نقله الشارح عن الجواهر أيضا من قوله لا يضمن يفيد أنه ليس بربا، لأن الربا مضمون فيحمل على غير المشروط وما في الأشباه من الكراهة على المشروط، ويؤيده قول الشارح الآتي آخر الرهن إن التعليل بأنه ربا يفيد أن الكراهة تحريمية فتأمل. وإذا كان مشروطا ضمن كما أفتى به في الخيرية فيمن رهن شجر زيتون على أن يأكل المرتهن ثمرته نظير صبره بالدين.قال: قلت والغالب من أحوال الناس أنهم إنما يريدون عند الدفع الانتفاع، ولولاه لما أعطاه الدراهم وهذا بمنزلة الشرط، لأن المعروف كالمشروط وهو مما يعين المنع، والله تعالى أعلم۔

ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:06،ص:482۔

مرہونہ زمین سے مرتہن کے لیے نفع اٹھانا اورآمدنی کھانا کسی بھی صورت میں جائز نہیں،فقہائے کرام نے اسے سود قرار دیا ہے۔

فتاویٰ عثمانیہ،العصراکیڈمی،پشاور،اشاعت ہفتم،ج:08،ص:240۔

پانچ ہزار روپیہ قرض دے کر مقروض کی ایک بیکھہ زمین جوبطور رہن ہے ،اس سے پیداوار وغیرہ کے ذریعہ نفع اٹھانا جائز نہیں اور یہ شرعاً سود ہے جس کا لین دین مسلمانوں کے لیے ناجائز اورحرام ہے۔

فتاویٰ قاسمیہ،مکتبہ اشرفیہ،دیوبند،انڈیا،ج:22،ص:87۔

رہن کا مکان حاصل کرکے اس سے نفع اٹھانا کسی طرح بھی جائز نہیں ہے اگرچہ مالک اس کی اجازت دے دے۔

کتاب النوازل،المرکزالعلمی للنشر والتحقیق،مرادآباد،انڈیا،ج:17،ص:140۔

مرہونہ زمین سے انتفاع لیناراہن کی اجازت کے باوجود بھی مفتیٰ بہ قول کے مطابق ناجائز وحرام ہے۔اب اگر کسی نے ایسا کیا ہے اوروہ اپنے آپ کو اس ذمہ داری سے فارغ کرنا چاہتا ہے تواسے چاہیئے کہ مرہونہ زمین سے اس نے جومحاصل لیے ہیں وہ جملہ محاصل یا ان کی قیمت راہن کوواپس کردے تب اس کاذمہ فارغ ہوگا۔

فتاویٰ حقانیہ،جامعہ دارالعلوم حقانیہ،اکوڑہ خٹک،ج:06،ص:234۔

واللہ اعلم بالصواب

مفتی ابوالاحراراُتلوی

دارالافتاء

جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی

محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی