مرغ لڑانے والوں کو مرغ فروخت کرنے کا شرعی حکم
سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میرااصیل مرغیوں کا فارم ہے جس میں ہمارے پاس بہت عمدہ قسم کے مرغ بھی ہوتے ہیں۔بسا اوقات ہم سے ایسے لوگ بھی مرغ خرید لیتے ہیں جن کے بارے میں ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ ان مرغوں کو لڑائیں گے۔ایسے لوگوں کے ہاتھوں اگرہم یہ مرغ فروخت کرتے ہیں تو شریعت مطہرہ کی روشنی میں ایسا کرناجائز ہے یا نہیں ؟بینوافتوجرواالمستفتیمولانانصراللہ جانجہانگیرہ (صوابی)
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق چونکہ مرغیوں کا کاروبار فی نفسہ جائز ہے اس وجہ سےبعض لوگوں کامرغ خرید کرلڑانے کی وجہ سے آپ کا کاروبار ناجائز نہیں ہوتا۔جوچیز اپنی ذات کے اعتبار سے کسی گناہ کاآلہ نہ ،لیکن لوگ اس کااستعمال ناجائز طریقہ سے بھی کرتے ہوں،تواس چیز کی خرید وفروخت میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہوتی۔ وعلم من هذا أنه لا يكره بيع ما لم تقم المعصية به كبيع الجارية المغنية والكبش النطوح والحمامة الطيارة والعصير والخشب ممن يتخذ منه المعازف۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دار الفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:391۔ أن جواز البيع يدور مع حل الانتفاع۔۔۔الخ ردالمحتار،دار الفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:5،ص:51۔ وعرف بهذا أنه لا يكره بيع ما لم تقم المعصية به كبيع الجارية المغنية والكبش النطوح والحمامة الطيارة والعصير والخشب الذي يتخذ منه المعازف۔۔۔الخ النہرالفائق،دارالکتب العلمیہ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،ج:3،ص:268۔ وفي الفتاوى العتابية ولا بأس ببيع العصير ممن يتخذها خمرا ولا ببيع الأرض ممن يتخذها كنيسة كذا في التتارخانية. الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،۱۳۱۰ھ،ج:۳،ص:۱۱۶۔ ولو استأجر الذمي مسلما ليبني له بيعة أو كنيسة جاز ويطيب له الأجر. كذا في المحيط. الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،۱۳۱۰ھ،ج:۴،ص:۴۵۰۔ جوچیزبالذات معصیت کاآلہ نہ ہو،لیکن لوگ اس کااستعمال ناجائزطریقہ سے بھی کرتے ہوں،اس کی خریدوفروخت میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ۔ فتاویٰ عثمانیہ،مکتبہ العصر،پشاور،اشاعت ہفتم،ج:۷،ص:۱۷۱۔ پوجا میں استعمال ہونے والے چراغ یا تانبا کی پلیٹ یالوٹا اورکٹوری وغیرہ بیچنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے،اوران اشیاءکوپوجامیں استعمال کرنے کی کوئی ذمہ داری بیچنے والے پر نہیں۔ کتاب النوازل،مکتبہ عزیزیہ،پشاور،اشاعت اول،2022ء،ج:17،ص:500۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ابوالاحراراُتلوی دارالافتاء جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی،صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق چونکہ مرغیوں کا کاروبار فی نفسہ جائز ہے اس وجہ سےبعض لوگوں کامرغ خرید کرلڑانے کی وجہ سے آپ کا کاروبار ناجائز نہیں ہوتا۔جوچیز اپنی ذات کے اعتبار سے کسی گناہ کاآلہ نہ ،لیکن لوگ اس کااستعمال ناجائز طریقہ سے بھی کرتے ہوں،تواس چیز کی خرید وفروخت میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ہوتی۔ وعلم من هذا أنه لا يكره بيع ما لم تقم المعصية به كبيع الجارية المغنية والكبش النطوح والحمامة الطيارة والعصير والخشب ممن يتخذ منه المعازف۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دار الفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:391۔ أن جواز البيع يدور مع حل الانتفاع۔۔۔الخ ردالمحتار،دار الفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:5،ص:51۔ وعرف بهذا أنه لا يكره بيع ما لم تقم المعصية به كبيع الجارية المغنية والكبش النطوح والحمامة الطيارة والعصير والخشب الذي يتخذ منه المعازف۔۔۔الخ النہرالفائق،دارالکتب العلمیہ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،ج:3،ص:268۔ وفي الفتاوى العتابية ولا بأس ببيع العصير ممن يتخذها خمرا ولا ببيع الأرض ممن يتخذها كنيسة كذا في التتارخانية. الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،۱۳۱۰ھ،ج:۳،ص:۱۱۶۔ ولو استأجر الذمي مسلما ليبني له بيعة أو كنيسة جاز ويطيب له الأجر. كذا في المحيط. الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،۱۳۱۰ھ،ج:۴،ص:۴۵۰۔ جوچیزبالذات معصیت کاآلہ نہ ہو،لیکن لوگ اس کااستعمال ناجائزطریقہ سے بھی کرتے ہوں،اس کی خریدوفروخت میں شرعاً کوئی قباحت نہیں ۔ فتاویٰ عثمانیہ،مکتبہ العصر،پشاور،اشاعت ہفتم،ج:۷،ص:۱۷۱۔ پوجا میں استعمال ہونے والے چراغ یا تانبا کی پلیٹ یالوٹا اورکٹوری وغیرہ بیچنے میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے،اوران اشیاءکوپوجامیں استعمال کرنے کی کوئی ذمہ داری بیچنے والے پر نہیں۔ کتاب النوازل،مکتبہ عزیزیہ،پشاور،اشاعت اول،2022ء،ج:17،ص:500۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ابوالاحراراُتلوی دارالافتاء جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی،صوابی