ماں کے پیروں تلے جنت ہے روایت کی تحقیق

سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس حدیث کے بارے میں کہ ماں کے پیروں تلے جنت ہے کیا یہ روایت صحیح ہے یا نہیں؟

جواب :-

بسم اللہ الرحمن الرحیم
الجواب حامداً ومصلیاً
امام نسائیؒ نے اپنے سنن میں(3104) نمبر پر صحیح سند کے ساتھ اس کو ذکر کیا ہے:
"قال أخبرنا عبد الوهاب بن عبد الحكم الوراق، قال: حدثنا حجاج، عن ابن جريج، قال: أخبرني محمد بن طلحة وهو ابن عبد الله بن عبد الرحمن، عن أبيه طلحة، عن معاوية بن جاهمة السلمي، أن جاهمة جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، أردت أن أغزو وقد جئت أستشيرك، فقال: «هل لك من أم؟» قال: نعم، قال: «فالزمها، فإن الجنة تحت رجليها".
ترجمہ:"معاویہ بن جاہمہ سے روایت ہے کہ حضرت جاہمہ ؓ نبی کریم ﷺ کے پاس آئےاور عرض کیا:اے اللہ کے رسول ﷺ؛ میں جہاد کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، اور آپ سے مشورہ لینے کےلیے حاضر خدمت ہوا ہوں،آپ ﷺ نے ان سے پوچھا:کیا تمہاری ماں موجود ہے؟انہوں نے کہا:جی ہاں،فرمایا:انہیں کی خدمت میں لگے رہو،کیونکہ جنت ان کی دونوں قدموں کے نیچے ہے"۔
اور اسی طرح اس روایت کو امام ابن ماجہؒ نے اپنی سنن میں(2781) اورامام بیہقی ؒ نے شعب الایمان میں(7449)نمبر پر ذکر کیا ہے، اور امام حاکم نے المستدرک میں(2502) نمبر پراس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے ،نیز امام ذہبیؒ نے امام حاکم ؒ کی کی تائید کیا ہے۔
اور اس کے علاوہ ایک اور روایت ابو الشیخ اصبہانیؒ نے اپنی کتاب "الفوائد" میں (25) نمبر پر اس طرح ذکر کیا ہے:کہ
"قال حدثنا القاسم بن فورك، حدثنا محمد بن حرب، حدثنا منصور بن مهاجر، عن أبي النضر الأبار، عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «الجنة تحت أقدام الأمهات".
ترجمہ:"حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:"جنت ماؤں کے قدمون کے نیچے ہیں"۔
اور اسی روایت کو ابو القاسم اسماعیل بن محمد تیمیؒ نے"الترغيب والترهيب" میں(448)،اور خطیب بغدادیؒ نے" الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع" میں (1702) اورامام ابن جوزی ؒ نے "البر والصلة"میں (44) نمبر پر ذکر کیا ہے۔
لیکن اس روایت کی سند میں ابوالنضر الابار مجھول راوی ہےجیسا کہ ابن ابی حاتم ؒ الجرح والتعدیل میں (4/352) فرماتے ہیں:"قال أبي:هو مجهول " اور علامہ سخاوی ؒ المقاصد الحسنۃ میں (373) نمبر پرامام ابن طاھر المقدسی ؒ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں:"قال ابن طاهر: ومنصور وأبو النضر لا يعرفان، والحديث منكر".
اگر چہ اس روایت کی سند میں ضعف ہے لیکن پہلی روایت کی سندصحیح ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ واللہ اعلم بالصواب.
اشتیاق علی ذھبی
دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
27/جنوری /2023 الموافق 05/رجب / 1444ھ
الجواب صحیح
(حضرت مولانا) نورالحق (صاحب دامت برکاتہم)
رئیس دارالافتاء ومدیر جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
27/جنوری /2023 الموافق05/رجب / 1444ھ