قرنطینہ سینٹر کے مریضوں کے سامان سے چوری کرنا
سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں یہاں دوبئی میں ایک کمپنی میں ملازم ہوں۔ہمارے یہاں دوبئی گورنمنٹ کی طرف سے کرونا کی وجہ سے قرنطینہ سینٹر میں موجود لوگوں کے لیے کچھ سامان آتاہے ۔یہاں کچھ ورکرز ایسے ہیں جن کی ڈیوٹی یہ ہے کہ وہ اس سامان کو قرنطینہ سینٹر میں موجود لوگوں میں تقسیم کریں گے۔یہ ورکرز اس سامان میں سے مالٹے،سیب اور جوس وغیرہ چیزیں نکال لیتے ہیں اور سستے داموں کمپنی کے دوسرے ملازمین کے ہاتھوں فروخت کردیتے ہیں۔چونکہ یہاں فروٹ کی مارکیٹ قیمت کے مقابلےیہ ورکرزلوگ ان مالٹوں،سیب وغیرہ کو سستے داموں بیچتے ہیں اس وجہ سے کمپنی کے باقی لوگ ان سے یہ فروٹ یہ جانتے ہوئے بھی خرید لیتے ہیں کہ یہ چوری کے ہیں۔کیا ان ورکرز کے لیے قرنطینہ سینٹر کے سامان سے یہ فروٹ نکال کر دوسرے لوگوں کو بیچنا جائز ہے یا نہیں؟اورجن لوگوں کو یہ معلوم ہوں کہ یہ فروٹ چوری کے ہیں اُن لوگوں کے لیے اِن ورکرز سے یہ فروٹ خریدنا جائز ہے یا نہیں؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔المستفتیمحمدزیدحالاًمقیم دوبئی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداًومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق گورنمنٹ کی طرف سے قرنطینہ سینٹر میں موجود کرونا کے مریضوں کے لیے جو بھی سامان آتا ہے وہ سارا کا سارا سامان ان قرنطین شدہ لوگوں ہی کا ہے۔ان ورکرز کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس سامان کو پوری امانت داری کے ساتھ اُن لوگوں تک پہنچائے۔ورکرزکا اس سامان سے مالٹے،جوس یاسیب وغیرہ کسی بھی چیز کا نکالنا مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر شرعاً ناجائز ہے: 1:یہ چوری ہے اور شریعت مطہرہ کی رُو سے چوری کرنا حرام ہے۔ 2:یہ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی ہے جس کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔ 3:یہ امانت میں خیانت ہے جو کہ نفاق کی علامت ہے۔ 4:یہ دھوکہ دہی ہے جو کہ شرعاً ممنوع ہے۔ 5:اگر گورنمنٹ کے ارباب اختیار کو ان ورکرز کے اس کام کا پتہ چلا توان ورکرز کے لیے باعث ذلت ہوگا،اور کسی جرم قانونی کا مرتکب ہوکر اپنے آپ کو ذلت کے لیے پیش کرنے کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔ چوری کا مال جتنے ہاتھوں میں چلا جائے وہ حرام ہی رہتا ہے،اور اصل مالک کے علاوہ کوئی دوسرا اس کا مالک نہیں بنتا۔اس وجہ سے چوری کا مال فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔خریدنے والے کو اگرکسی چیز کے بارے میں یقینی طور پرمعلوم ہویاغالب گمان ہو کہ وہ چیز چوری کی ہے ،تواُس کے لیے وہ چیزخریدنا اوراستعمال کرنا جائز نہیں ہے اوراس کا منافع بھی حلال نہیں ہوگا۔ صورت مسئولہ میں چونکہ کمپنی کے دیگرملازمین کو یہ معلوم ہے کہ یہ مالٹے،سیب وغیرہ چوری کے ہیں ،اس وجہ سے ان کے لیے ورکرز سے مذکورہ چیزوں کا خریدنا جائز نہیں ہے۔ ان لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے رجوع الیٰ اللہ کرتے ہوئے سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ واستغفار کا اہتمام کریں۔اس کے بعدچوری کے مال سے جتنے بھی پیسے کمائے ہیں ،وہ پیسےقرنطینہ سینٹرجاکراُن کے اصل مالکوں کو لوٹائیں اور ُان سے معافی مانگیں۔اوراگراصل مالکوں کا اب پتہ نہیں چلتا،توچونکہ وہ گورنمنٹ کی طرف سے امداد تھا اس وجہ سے پھر وہ پیسے سرکار کو واپس کرناضروری ہیں۔اوراگرسرکارکوواپس کرنے میں ضررشدید پہنچنے کا اندیشہ ہوتوپھروہ رقم کسی بغیرنیت ثواب کے کسی مستحق زکوٰۃ کوصدقہ کریں اوراللہ تعالیٰ سے معافی طلب کریں،اورآئندہ کے لیے اپنے عمل کی اصلاح کرتے ہوئے اس خیانت، بددیانتی، چوری اورفرائض منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی جیسے قبیح وشنیع افعال سے حتی المقدوراحتراز کریں۔ 1۔فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ۔۔۔الخ سورۃ البقرۃ،آیت:283۔ 2۔حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًاوَإِنْ كَانَتْ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ فِيهِ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا، مَنْ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ۔هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ " حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الخَلَّالُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ،:هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ۔ سنن الترمذی، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، مصرالطبعةالثانية، 1395هـ،رقم الحدیث:2632۔ 3۔حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ الحَسَنِ، عَنْ جُنْدَبٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يُذِلَّ نَفْسَهُ قَالُوا: وَكَيْفَ يُذِلُّ نَفْسَهُ؟ قَالَ:يَتَعَرَّضُ مِنَ البَلَاءِ لِمَا لَا يُطِيقُ۔ سنن الترمذی،مطبعۃمصطفیٰ البابی،مصر،الطبعۃ الثانیۃ،1395ھ،رقم الحدیث:2254۔ 4۔حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى البِرِّ، وَإِنَّ البِرَّ يَهْدِي إِلَى الجَنَّةِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ حَتَّى يَكُونَ صِدِّيقًا. وَإِنَّ الكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الفُجُورِ، وَإِنَّ الفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا۔ صحیح البخاری،دارطوق النجاۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،رقم الحدیث:6094۔ 5۔حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ هَانِئٍ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَاتِمٍ الزَّاهِدُ، قَالَا: ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَزِينٍ السُّلَمِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَنْبَأَ مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ الزَّنْجِيُّ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمَدَنِيُّ، عَنْ شُرَحْبِيلَ، مَوْلَى الْأَنْصَارِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:مَنِ اشْتَرَى سَرِقَةً، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهَا سَرِقَةٌ، فَقَدْ شُرِكَ فِي عَارِهَا وَإِثْمِهَا۔شُرَحْبِيلُ هَذَا هُوَ ابْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ قَدْ رَوَى عَنْهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ بَعْدَ أَنْ كَانَ سَيِّئَ الرَّأْيِ فِيهِ وَالْحَدِيثُ صَحِيحٌ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ۔ مستدرک حاکم،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1411ھ،رقم الحدیث:2253۔ 6۔وَإِذْلَالُ النَّفْسِ حَرَامٌ، قَالَ: صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يُذِلَّ نَفْسَهُ۔ المبسوط للسرخسی،دارالمعرفۃ،بیروت،1414ھ،ج:5،ص:23۔ 7۔"جان وعزت کو خطرہ میں ڈالنا جائز نہیں"۔ احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید،کراچی،طبع چہارم،1425ھ،ج:8،ص:217۔ 8۔وقوله الحرب خدعة معناه إباحة الخداع في الحرب وإن كان محظورا في غيرها من الأمور۔ معالم السنن،المطبعۃ العلمیۃ،حلب،الطبعۃ الاولیٰ،1351ھ،ج:2،ص:269۔ 9۔فی الدر:الحرام ينتقل، فلو دخل بأمان وأخذ مال حربي بلا رضاه وأخرجه إلينا ملكه وصح بيعه، لكن لا يطيب له ولا للمشتري منه، بخلاف البيع الفاسد فإنه لا يطيب له لفساد عقده ويطيب للمشتري منه لصحة عقده. وفي حظر الأشباه: الحرمة تتعددمع العلم بها إلا في حق الوارث، وقيده في الظهيرية بأن لا يعلم أرباب الأموال۔۔۔۔الخ فی الشامیۃ: (قوله الحرام ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك، ويأتي تمامه قريبا۔۔۔۔۔۔۔۔۔وما نقل عن بعض الحنيفة من أن الحرام لا يتعدى ذمتين، سألت عنه الشهاب ابن الشلبي فقال: هو محمول على ما إذا لم يعلم بذلك، أما لو رأى المكاس مثلا يأخذ من أحد شيئا من المكس ثم يعطيه آخر ثم يأخذ من ذلك الآخر آخر فهو حرام اهـ. ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:5،ص:98۔ 10۔والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:5،ص:99۔ 11۔وعلى هذا قالوا لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:385۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجدخان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداًومصلیاً! صورت مسئولہ کے مطابق گورنمنٹ کی طرف سے قرنطینہ سینٹر میں موجود کرونا کے مریضوں کے لیے جو بھی سامان آتا ہے وہ سارا کا سارا سامان ان قرنطین شدہ لوگوں ہی کا ہے۔ان ورکرز کی ذمہ داری یہ ہے کہ اس سامان کو پوری امانت داری کے ساتھ اُن لوگوں تک پہنچائے۔ورکرزکا اس سامان سے مالٹے،جوس یاسیب وغیرہ کسی بھی چیز کا نکالنا مندرجہ ذیل وجوہات کی بناء پر شرعاً ناجائز ہے: 1:یہ چوری ہے اور شریعت مطہرہ کی رُو سے چوری کرنا حرام ہے۔ 2:یہ اپنے فرائض منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی ہے جس کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔ 3:یہ امانت میں خیانت ہے جو کہ نفاق کی علامت ہے۔ 4:یہ دھوکہ دہی ہے جو کہ شرعاً ممنوع ہے۔ 5:اگر گورنمنٹ کے ارباب اختیار کو ان ورکرز کے اس کام کا پتہ چلا توان ورکرز کے لیے باعث ذلت ہوگا،اور کسی جرم قانونی کا مرتکب ہوکر اپنے آپ کو ذلت کے لیے پیش کرنے کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔ چوری کا مال جتنے ہاتھوں میں چلا جائے وہ حرام ہی رہتا ہے،اور اصل مالک کے علاوہ کوئی دوسرا اس کا مالک نہیں بنتا۔اس وجہ سے چوری کا مال فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔خریدنے والے کو اگرکسی چیز کے بارے میں یقینی طور پرمعلوم ہویاغالب گمان ہو کہ وہ چیز چوری کی ہے ،تواُس کے لیے وہ چیزخریدنا اوراستعمال کرنا جائز نہیں ہے اوراس کا منافع بھی حلال نہیں ہوگا۔ صورت مسئولہ میں چونکہ کمپنی کے دیگرملازمین کو یہ معلوم ہے کہ یہ مالٹے،سیب وغیرہ چوری کے ہیں ،اس وجہ سے ان کے لیے ورکرز سے مذکورہ چیزوں کا خریدنا جائز نہیں ہے۔ ان لوگوں کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے رجوع الیٰ اللہ کرتے ہوئے سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ واستغفار کا اہتمام کریں۔اس کے بعدچوری کے مال سے جتنے بھی پیسے کمائے ہیں ،وہ پیسےقرنطینہ سینٹرجاکراُن کے اصل مالکوں کو لوٹائیں اور ُان سے معافی مانگیں۔اوراگراصل مالکوں کا اب پتہ نہیں چلتا،توچونکہ وہ گورنمنٹ کی طرف سے امداد تھا اس وجہ سے پھر وہ پیسے سرکار کو واپس کرناضروری ہیں۔اوراگرسرکارکوواپس کرنے میں ضررشدید پہنچنے کا اندیشہ ہوتوپھروہ رقم کسی بغیرنیت ثواب کے کسی مستحق زکوٰۃ کوصدقہ کریں اوراللہ تعالیٰ سے معافی طلب کریں،اورآئندہ کے لیے اپنے عمل کی اصلاح کرتے ہوئے اس خیانت، بددیانتی، چوری اورفرائض منصبی کی ادائیگی میں کوتاہی جیسے قبیح وشنیع افعال سے حتی المقدوراحتراز کریں۔ 1۔فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ الَّذِي اؤْتُمِنَ أَمَانَتَهُ وَلْيَتَّقِ اللَّهَ رَبَّهُ۔۔۔الخ سورۃ البقرۃ،آیت:283۔ 2۔حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:أَرْبَعٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ كَانَ مُنَافِقًاوَإِنْ كَانَتْ خَصْلَةٌ مِنْهُنَّ فِيهِ كَانَتْ فِيهِ خَصْلَةٌ مِنَ النِّفَاقِ حَتَّى يَدَعَهَا، مَنْ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ، وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ، وَإِذَا خَاصَمَ فَجَرَ، وَإِذَا عَاهَدَ غَدَرَ۔هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ " حَدَّثَنَا الحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الخَلَّالُ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ، عَنِ الأَعْمَشِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُرَّةَ، بِهَذَا الإِسْنَادِ نَحْوَهُ،:هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ۔ سنن الترمذی، شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي، مصرالطبعةالثانية، 1395هـ،رقم الحدیث:2632۔ 3۔حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ قَالَ: حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَاصِمٍ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ الحَسَنِ، عَنْ جُنْدَبٍ، عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:لَا يَنْبَغِي لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يُذِلَّ نَفْسَهُ قَالُوا: وَكَيْفَ يُذِلُّ نَفْسَهُ؟ قَالَ:يَتَعَرَّضُ مِنَ البَلَاءِ لِمَا لَا يُطِيقُ۔ سنن الترمذی،مطبعۃمصطفیٰ البابی،مصر،الطبعۃ الثانیۃ،1395ھ،رقم الحدیث:2254۔ 4۔حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:إِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِي إِلَى البِرِّ، وَإِنَّ البِرَّ يَهْدِي إِلَى الجَنَّةِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ حَتَّى يَكُونَ صِدِّيقًا. وَإِنَّ الكَذِبَ يَهْدِي إِلَى الفُجُورِ، وَإِنَّ الفُجُورَ يَهْدِي إِلَى النَّارِ، وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ عِنْدَ اللَّهِ كَذَّابًا۔ صحیح البخاری،دارطوق النجاۃ،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،رقم الحدیث:6094۔ 5۔حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ صَالِحِ بْنِ هَانِئٍ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ حَاتِمٍ الزَّاهِدُ، قَالَا: ثنا الْحَسَنُ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَزِينٍ السُّلَمِيُّ، ثنا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى، أَنْبَأَ مُسْلِمُ بْنُ خَالِدٍ الزَّنْجِيُّ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ مُحَمَّدٍ الْمَدَنِيُّ، عَنْ شُرَحْبِيلَ، مَوْلَى الْأَنْصَارِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:مَنِ اشْتَرَى سَرِقَةً، وَهُوَ يَعْلَمُ أَنَّهَا سَرِقَةٌ، فَقَدْ شُرِكَ فِي عَارِهَا وَإِثْمِهَا۔شُرَحْبِيلُ هَذَا هُوَ ابْنُ سَعْدٍ الْأَنْصَارِيُّ قَدْ رَوَى عَنْهُ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ بَعْدَ أَنْ كَانَ سَيِّئَ الرَّأْيِ فِيهِ وَالْحَدِيثُ صَحِيحٌ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ ۔ مستدرک حاکم،دارالکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1411ھ،رقم الحدیث:2253۔ 6۔وَإِذْلَالُ النَّفْسِ حَرَامٌ، قَالَ: صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ لِلْمُؤْمِنِ أَنْ يُذِلَّ نَفْسَهُ۔ المبسوط للسرخسی،دارالمعرفۃ،بیروت،1414ھ،ج:5،ص:23۔ 7۔"جان وعزت کو خطرہ میں ڈالنا جائز نہیں"۔ احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید،کراچی،طبع چہارم،1425ھ،ج:8،ص:217۔ 8۔وقوله الحرب خدعة معناه إباحة الخداع في الحرب وإن كان محظورا في غيرها من الأمور۔ معالم السنن،المطبعۃ العلمیۃ،حلب،الطبعۃ الاولیٰ،1351ھ،ج:2،ص:269۔ 9۔فی الدر:الحرام ينتقل، فلو دخل بأمان وأخذ مال حربي بلا رضاه وأخرجه إلينا ملكه وصح بيعه، لكن لا يطيب له ولا للمشتري منه، بخلاف البيع الفاسد فإنه لا يطيب له لفساد عقده ويطيب للمشتري منه لصحة عقده. وفي حظر الأشباه: الحرمة تتعددمع العلم بها إلا في حق الوارث، وقيده في الظهيرية بأن لا يعلم أرباب الأموال۔۔۔۔الخ فی الشامیۃ: (قوله الحرام ينتقل) أي تنتقل حرمته وإن تداولته الأيدي وتبدلت الأملاك، ويأتي تمامه قريبا۔۔۔۔۔۔۔۔۔وما نقل عن بعض الحنيفة من أن الحرام لا يتعدى ذمتين، سألت عنه الشهاب ابن الشلبي فقال: هو محمول على ما إذا لم يعلم بذلك، أما لو رأى المكاس مثلا يأخذ من أحد شيئا من المكس ثم يعطيه آخر ثم يأخذ من ذلك الآخر آخر فهو حرام اهـ. ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:5،ص:98۔ 10۔والحاصل أنه إن علم أرباب الأموال وجب رده عليهم، وإلا فإن علم عين الحرام لا يحل له ويتصدق به بنية صاحبه۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:5،ص:99۔ 11۔وعلى هذا قالوا لو مات الرجل وكسبه من بيع الباذق أو الظلم أو أخذ الرشوة يتورع الورثة، ولا يأخذون منه شيئا وهو أولى بهم ويردونها على أربابها إن عرفوهم، وإلا تصدقوا بها لأن سبيل الكسب الخبيث التصدق إذا تعذر الرد على صاحبه۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:385۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجدخان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی