قبضہ کے بغیر ہبہ کا شرعی حکم

سوال :-
استفتاء کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک آدمی فوت ہو گیا۔اُس کے مرنے کے 20 سال بعد اس متوفی کے ورثاء اور دوستوں کو پتہ چلا کہ اس متوفی نے اپنے ان دوستوں کے نام کچھ زمین خریدی تھی۔اس خریداری کے بارے میں اس متوفی کے ورثاء اور ان دوستوں کو کوئی علم نہیں تھا،اب اس کے مرنے کے 20 سال بعد پتہ چلا ہے۔اب اس زمین پراس متوفی کے دوستوں کا حق بنتا ہے یا اس کے ورثاء کا؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کر ثواب دارین حاصل کریں۔جزاکم اللہ خیراً المستفتی بصیرمحمد حاجی خیل،موضع مینئی

جواب :-

الجواب باسم ملہم الصواب

حامداً ومصلیاً!

سوال کے جواب سے پہلے یہ جاننا چاہیئے کہ جب کوئی آدمی کسی دوسرے شخص کو کوئی چیز ہبہ،ہدیہ،گفٹ وغیرہ کے طور پر دیتا ہے تو اس دینے والے کو" واہب"جس کو دیتا ہے  اس کو" موہوب لہ" اور جو چیز دیتا ہے اسے "موہوب" کہا جاتا ہے۔اب شریعت کی رُو سے ہبہ کرنے کے بعد یہ ضروری ہوتا ہے کہ واہب اس موہوبہ چیز سے اپنے تمام تصرفات کو ختم کرے اور وہ موہوبہ چیزمکمل طور پرموہوب لہ کے قبضہ میں دےکراس کے حوالے کرے۔صرف کاغذات میں نام کردینے سے ہبہ مکمل نہیں ہوتابلکہ ہبہ کے تام اور مکمل ہونے کے لیے موہوبہ چیز پر موہوب لہ کا قبضہ اور تصرفات  بنیادی شرط ہے۔

اب اس وضاحت کے بعد صورت مسئولہ میں متوفی نے 20 سال پہلے جوزمین اپنے دوستوں کے نام خریدی تھی تو اس زمین کا قبضہ اس متوفی نے اپنے ان دوستوں کو نہیں دیا بلکہ ان دوستوں کو اس کے مرنے کے 20 سال بعد پتہ چلا ہے،اس وجہ سے یہ ہبہ تام اور مکمل نہیں ہوا۔اور جب یہ ہبہ مکمل نہیں ہوا ہے تو اب اس زمین پرمتوفی کے ورثاء کا حق ہے ،اس وجہ سے اس زمین کو متوفی کے ورثاء میں شرعی ضابطہ میراث کے مطابق تقسیم کیا جائے۔

 عَنْ عَائِشَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ أَبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ كَانَ نَحَلَهَا جَادَّ عِشْرِينَ وَسْقًا مِنْ مَالِهِ بِالْغَابَةِ، فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ قَالَ: " وَاللَّهِ يَا بُنَيَّةُ مَا مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ أَحَبُّ إِلَيَّ غِنًى بَعْدِي مِنْكِ، وَلَا أَعَزُّ عَلَيَّ فَقْرًا بَعْدِي مِنْكِ، وَإِنِّي كُنْتُ نَحَلْتُكِ جَادَّ عِشْرِينَ وَسْقًا، فَلَوْ كُنْتِ جَدَدْتِيهِ وَاحْتَزْتِيهِ كَانَ لَكِ. وَإِنَّمَا هُوَ الْيَوْمَ مَالُ وَارِثٍ، وَإِنَّمَا هُمَا أَخَوَاكِ، وَأُخْتَاكِ، فَاقْتَسِمُوهُ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ، قَالَتْ عَائِشَةُ، فَقُلْتُ: يَا أَبَتِ، وَاللَّهِ لَوْ كَانَ كَذَا وَكَذَا لَتَرَكْتُهُ، إِنَّمَا هِيَ أَسْمَاءُ، فَمَنِ الْأُخْرَى؟ فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: ذُو بَطْنِ بِنْتِ خَارِجَةَ، أُرَاهَا جَارِيَةً۔

مؤطا امام مالک،داراحیاء التراث العربی،بیروت،1406ھ،ج:2،ص:752،رقم الحدیث:41۔

(ولنا) إجماع الصحابةرضي الله عنهم فإنه روي أن سيدنا أبا بكر قال في مرض موته لسيدتنا عائشة رضي الله عنها إن أحب الناس إلي غنى أنت وأعزهم علي فقرا أنت وإني كنت نحلتك جداد عشرين وسقا من مالي بالعالية وإنك لم تكوني قبضتيه ولا جذيتيه وإنما هو اليوم مال الوارث اعتبر سيدنا الصديق رضي الله عنه القبض والقيمة في الهبة لثبوت الملك لأن الحيازة في اللغة جمع الشيء المفرق في حيز وهذا معنى القسمة لأن الأنصباء الشائعة قبل القسمة كانت متفرقة والقسمة تجمع كل نصيب في حيز وروي عن سيدنا عمررضي الله عنه قال ما بال أحدكم ينحل ولده نحلا لا يحوزها ولا يقسمها ويقول إن مت فهو له وإن مات رجعت إلي وأيم الله لا ينحل أحدكم ولده نحلى لا يحوزها ولا يقسمها فيموت إلا جعلتها ميراثا لورثته.والمراد من الحيازة القبض هنا

بدائع الصنائع،دارلکتب العلمیۃ،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1406ھ،ج:6،ص:120۔

بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة۔۔۔۔ (وقوله: بخلاف جعلته باسمك) قال في البحر: قيد بقوله: لك؛ لأنه لو قال: جعلته باسمك، لا يكون هبة؛ ولهذا قال في الخلاصة: لو غرس لابنه كرما إن قال: جعلته لابني، يكون هبة، وإن قال: باسم ابني، لا يكون هبة۔

الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:5،ص:689۔

ولو مات الواهب قبل قبض الموهوب له لا يتمكن من قبضه؛ لأنها صارت ملكا للورثة، كذا في فتح القدير.

الفتاویٰ الہندیہ،دارلفکر،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:2،ص:139۔

لا يثبت الملك للموهوب له إلا بالقبض هو المختار، هكذا في الفصول العمادية

 الفتاویٰ الہندیہ،دارلفکر،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:4،ص:378۔

(وتتم) الهبة (بالقبض) الكامل (ولو الموهوب شاغلا لملك الواهب لا مشغولا به) والأصل أن الموهوب إن مشغولا بملك الواهب منع تمامها، وإن شاغلا لا، فلو وهب جرابا فيه طعام الواهب أو دارا فيها متاعه، أو دابة عليها سرجه وسلمها كذلك لا تصح وبعكسه تصح في الطعام والمتاع والسرج فقط لأن كلا منها شاغل الملك لواهب لا مشغول به لأن شغله بغير ملك واهبه لا يمنع تمامها كرهن وصدقة لأن القبض شرط تمامها وتمامه في العمادية۔                     الدرالمختار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:5،ص:690۔

وَهِيَ مَشْرُوعَةٌ مَنْدُوبٌ إلَيْهَا بِالْإِجْمَاعِ وَشَرْطُهَا أَنْ يَكُونَ الْوَاهِبُ عَاقِلًا بَالِغًا حُرًّا وَالْمَوْهُوبُ لَهُ مُمَيِّزًا وَالْمَوْهُوبُ مَقْبُوضًا وَرُكْنُهَا الْإِيجَابُ وَالْقَبُولُ۔۔۔۔۔۔ (قَوْلُهُ وَشَرْطُهَا) قَالَ الْأَتْقَانِيُّ وَأَمَّا شَرْطُ جَوَازِهَا فَالْقَبْضُ حَتَّى لَا يَثْبُتَ الْمِلْكُ لِلْمَوْهُوبِ لَهُ عِنْدَنَا قَبْلَ الْقَبْضِ خِلَافًا لِابْنِ أَبِي لَيْلَى وَمَالِكٍ فَإِنَّهُ لَيْسَ بِشَرْطٍ عِنْدَهُمَا وَكَوْنُهَا غَيْرَ مَشَاعٍ إذَا كَانَتْ مِمَّا يَحْتَمِلُ الْقِسْمَةَ۔

تبیین الحقائق وحاشیۃ الشلبی،المطبعۃ الکبریٰ الامیریۃ،الطبعۃ الاولیٰ 1313ھ،ج:5،ص:91۔

ہبہ بلاقبض تام نہیں ہوتا ،چونکہ بیٹے نے صرف ایک ہی مکان پرقبضہ کیا تھا اس لیے دوسرا مکان جس میں اس کی ہمشیرہ رہتی تھی اس کاہبہ صحیح نہیں ہوا۔لہٰذا بیٹی کے حق میں باپ کا یہ ہبہ صحیح ونافذ ہے۔البتہ اگر دونوں مکانوں پر بیٹا قابض ہوگیا تھا توہبہ تام ہوچکا ،لہٰذا بیٹی کے حق میں دوسرے مکان کا ہبہ صحیح نہیں ہوگا۔

احسن الفتاویٰ،ایچ ایم سعید،کراچی،طبع ہفتم،1425ھ،ج:7،ص:253۔

ہبہ کی صحت کے لیے تین امور کاہونا ضروری ہے(1)ایجاب(2)قبول(3)قبض۔لہٰذا اگرباقاعدہ طور پر ان تین امور کا لحاظ رکھتے ہوئے ہبہ ہوچکا ہوتوبلاشک وشبہ وہ زمین کا مالک ہے،سرکاری کاغذات میں انتقال ہونے یا نہ ہونے سے شرعاً ہبہ پرکوئی فرق نہیں پڑتا۔

فتاویٰ حقانیہ،جامعہ دارالعلوم حقانیہ،اکوڑہ خٹک،طبع ہفتم،1431ھ،ج:6،ص:376

 

واللہ اعلم بالصواب

مفتی ابوالاحراراُتلوی

دارالافتاء

جامعہ امام محمدبن الحسن الشیبانی

محلہ سلیمان خیل(جبر)ٹوپی،صوابی