غیرعالم شخص کا اورلوگوں کو وعظ ونصیحت کرنا
سوال :-
استفتاءکیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص جوباضابطہ عالم دین نہ ہو ،کیاوہ اورلوگوں کو وعظ ونصیحت کرسکتا ہے یا نہیں؟شریعت مطہرہ کی روشنی میں تفصیلی جواب دے کرثواب دارین حاصل کریں۔المستفتیمولاناخالدٹوپی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! وعظ ونصیحت کی دوصورتیں ہیں اور دونوں کاحکم باہم مختلف ہیں۔دونوں کی وضاحت ذیل کےسطور میں پیش خدمت ہے: پہلی صورت:وعظ ونصیحت کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص لوگوں میں بیان کرتا ہے اوراپنے بیان میں وہ اجتہادی واختلافی مسائل پرگفتگو کرتا ہےیا اپنے بیان میں وہ اُموراعتقادیہ سے بحث کرتا ہےیاقرآن مجید کی تفسیر اور احادیث مبارکہ کی تشریح کرتا ہے یاکسی فقہی جزئیہ کو بیان کرتے ہوئے کوئی حکم لگاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس صورت کا حکم یہ ہے کہ یہ کام صرف علمائے کرام کا ہے۔لہٰذا جو شخص باضابطہ عالم دین نہیں ہے اُس کے لیے اس قسم کا وعظ و نصیحت کرنا جائز نہیں ہے۔ دوسری صورت:وعظ ونصیحت کی دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص دین کے بنیادی مسائل کو بیان کرتا ہے جس کا اُسے علم حاصل ہے جیسے نماز ، روزہ،زکوٰۃ وغیرہ کی فرضیت کو بیان کرنا،یاکوئی شخص کسی معتبر عالم دین کی کوئی کتاب دیکھ کرلوگوں کو سناتا ہے جیسے تبلیغی احباب کا فضائل اعمال سے تعلیم وغیرہ کرنا،یاکوئی شخص کسی معتبر عالم کی روایت سے کوئی بات درست انداز میں بالکل ٹھیک بغیر کسی کمی بیشی کے بیان کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کے وعظ ونصیحت کا حکم یہ ہے کہ غیر عالم بھی یہ کرسکتا ہے اس کے لیے باضابطہ عالم ہونا ضروری نہیں ۔ الأمر بالمعروف يحتاج إلى خمسة أشياء، أولها: العلم لأن الجاهل لا يحسن الأمر بالمعروف. والثاني: أن يقصد وجه الله تعالى وإعلاء كلمته العليا. والثالث: الشفقة على المأمور فيأمره باللين والشفقة. والرابع أن يكون صبورا حليما. والخامس: أن يكون عاملا بما يأمره كي لا يدخل تحت قوله تعالى {لم تقولون ما لا تفعلون۔۔۔۔۔۔الخ الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:5،ص:353۔ ثم إنه إنما يأمر وينهى من كان عالما بما يأمر به وينهى عنه، وذلك يختلف باختلاف الشيء فإن كان من الواجبات الظاهرة أو المحرمات المشهورة كالصلاة والصيام والزكاة والزنا والخمر ونحوها، فكل المسلمين عالم بها، وإن كان من دقائق الأفعال والأقوال، وما يتعلق بالاجتهاد لم يكن للعوام مدخل فيه، لأن إنكاره على ذلك للعلماء، ثم العلماء إنما ينكرون ما أجمع عليه الأئمة، وأما المختلف فيه فلا إنكار فيه، لأن على أحد المذهبين كل مجتهد نصيب، وينبغي للآمر والناهي أن يرفق ليكون أقرب إلى تحصيل المطلوب، فقد قال الإمام الشافعي: من وعظ أخاه سرا فقد نصحه وزانه، ومن وعظه علانية فقد فضحه وشانه.۔۔۔۔۔الخ مرقاۃ المفاتیح، دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،ج:8،ص:3209۔ التذكير على المنابر للوعظ والاتعاظ سنة الأنبياء والمرسلين۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃالثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:421۔ حضرت مولاناظفراحمدعثمانی رحمہ اللہ کاقول امدادالاحکام میں ایک طویل استفتاء ہےجس کاخلاصہ یہ ہے کہ ایک غیرعالم شخص نے اپنے ایک وعظ میں ایک غلط فقہی مسئلہ کو بیان کیا تھا۔۔۔۔الخ سوال کے جواب میں حضرت مولاناظفراحمدعثمانی ؒ فرماتے ہیں: اس جاہل کووعظ کہناجائز نہیں،نہ مسلمانوں کواس کاوعظ سنناجائز ہے۔ امدادالاحکام،مکتبہ دارالعلوم کراچی،طبع جدید،1430ھ،ج:1،ص:216۔ حضرت مولانامفتی محمدشفیع صاحب رحمہ اللہ کافرمان سوال:اگرکوئی شخص جوعالم نہیں ہے کسی شرعی مسئلہ کے جوازیاعدم جوازکافتویٰ دے،اس کی نسبت کیا حکم ہے؟ جواب:بغیرعلم کے فتویٰ دینا حرام ہے،اورجوشخص اس کے غلط فتوے پرعمل کرے گااُس کاگناہ بھی اِس کے سررہے گا۔اور کفارہ اس گناہ کا یہ ہے کہ اپنے فتوے کے غلط ہونے کااعلان کرے اوراللہ تعالیٰ سے توبہ کرے۔ امدادالمفتین،دارالاشاعت،کراچی،2001ء،ج:2،ص:197۔ حضرت مولانامفتی سیدمحمدسلمان منصورپوری صاحب کا قول جاہل آدمی کااپنی طرف سے وعظ ونصیحت کرنااوربے سند باتیں کرنا درست نہیں۔البتہ اگر وہ اپنی طرف سے کوئی بات نہ کہےبلکہ کسی معتبرکتاب یاعالم کے حوالہ سے صحیح اورمستندباتیں نقل کرے تواس کی اجازت ہے۔ کتاب النوازل،المرکزالعلمی للنشروالتوزیع،مرادآباد،انڈیا،اشاعت اول،2014ء،ج:2،ص:395۔ حضرت مولانامفتی حمید اللہ جان صاحب رحمہ اللہ کا قول مذکورہ شخص اگر وعظ ونصیحت بیان کرتا ہے اورایسے مسائل بیان کرتا ہے جس کااس کو علم ہے مثلاً نماز اورروزہ کی فرضیت ،توایسے شخص کوان مسائل کی تبلیغ کرنااوروعظ ونصیحت کرنا جائز ہے۔اوراگر وعظ ونصیحت میں اختلافی اوراجتہادی مسائل بیان کرتا ہے جس کااس کو علم نہیں ہے ،توایسے شخص کے لیے تبلیغ کرنا جائز نہیں ہے۔۔۔الخ ارشاد المفتین،مکتبہ الحسن ،اردو بازار،لاہور،اشاعت ثانی،2017ء،ج:1،ص:351۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی
جواب :-
الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! وعظ ونصیحت کی دوصورتیں ہیں اور دونوں کاحکم باہم مختلف ہیں۔دونوں کی وضاحت ذیل کےسطور میں پیش خدمت ہے: پہلی صورت:وعظ ونصیحت کرنے کی ایک صورت یہ ہے کہ کوئی شخص لوگوں میں بیان کرتا ہے اوراپنے بیان میں وہ اجتہادی واختلافی مسائل پرگفتگو کرتا ہےیا اپنے بیان میں وہ اُموراعتقادیہ سے بحث کرتا ہےیاقرآن مجید کی تفسیر اور احادیث مبارکہ کی تشریح کرتا ہے یاکسی فقہی جزئیہ کو بیان کرتے ہوئے کوئی حکم لگاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس صورت کا حکم یہ ہے کہ یہ کام صرف علمائے کرام کا ہے۔لہٰذا جو شخص باضابطہ عالم دین نہیں ہے اُس کے لیے اس قسم کا وعظ و نصیحت کرنا جائز نہیں ہے۔ دوسری صورت:وعظ ونصیحت کی دوسری صورت یہ ہے کہ کوئی شخص دین کے بنیادی مسائل کو بیان کرتا ہے جس کا اُسے علم حاصل ہے جیسے نماز ، روزہ،زکوٰۃ وغیرہ کی فرضیت کو بیان کرنا،یاکوئی شخص کسی معتبر عالم دین کی کوئی کتاب دیکھ کرلوگوں کو سناتا ہے جیسے تبلیغی احباب کا فضائل اعمال سے تعلیم وغیرہ کرنا،یاکوئی شخص کسی معتبر عالم کی روایت سے کوئی بات درست انداز میں بالکل ٹھیک بغیر کسی کمی بیشی کے بیان کرتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ اس قسم کے وعظ ونصیحت کا حکم یہ ہے کہ غیر عالم بھی یہ کرسکتا ہے اس کے لیے باضابطہ عالم ہونا ضروری نہیں ۔ الأمر بالمعروف يحتاج إلى خمسة أشياء، أولها: العلم لأن الجاهل لا يحسن الأمر بالمعروف. والثاني: أن يقصد وجه الله تعالى وإعلاء كلمته العليا. والثالث: الشفقة على المأمور فيأمره باللين والشفقة. والرابع أن يكون صبورا حليما. والخامس: أن يكون عاملا بما يأمره كي لا يدخل تحت قوله تعالى {لم تقولون ما لا تفعلون۔۔۔۔۔۔الخ الفتاویٰ الہندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:5،ص:353۔ ثم إنه إنما يأمر وينهى من كان عالما بما يأمر به وينهى عنه، وذلك يختلف باختلاف الشيء فإن كان من الواجبات الظاهرة أو المحرمات المشهورة كالصلاة والصيام والزكاة والزنا والخمر ونحوها، فكل المسلمين عالم بها، وإن كان من دقائق الأفعال والأقوال، وما يتعلق بالاجتهاد لم يكن للعوام مدخل فيه، لأن إنكاره على ذلك للعلماء، ثم العلماء إنما ينكرون ما أجمع عليه الأئمة، وأما المختلف فيه فلا إنكار فيه، لأن على أحد المذهبين كل مجتهد نصيب، وينبغي للآمر والناهي أن يرفق ليكون أقرب إلى تحصيل المطلوب، فقد قال الإمام الشافعي: من وعظ أخاه سرا فقد نصحه وزانه، ومن وعظه علانية فقد فضحه وشانه.۔۔۔۔۔الخ مرقاۃ المفاتیح، دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الاولیٰ،1422ھ،ج:8،ص:3209۔ التذكير على المنابر للوعظ والاتعاظ سنة الأنبياء والمرسلين۔۔۔۔الخ ردالمحتار،دارالفکر،بیروت،الطبعۃالثانیۃ،1412ھ،ج:6،ص:421۔ حضرت مولاناظفراحمدعثمانی رحمہ اللہ کاقول امدادالاحکام میں ایک طویل استفتاء ہےجس کاخلاصہ یہ ہے کہ ایک غیرعالم شخص نے اپنے ایک وعظ میں ایک غلط فقہی مسئلہ کو بیان کیا تھا۔۔۔۔الخ سوال کے جواب میں حضرت مولاناظفراحمدعثمانی ؒ فرماتے ہیں: اس جاہل کووعظ کہناجائز نہیں،نہ مسلمانوں کواس کاوعظ سنناجائز ہے۔ امدادالاحکام،مکتبہ دارالعلوم کراچی،طبع جدید،1430ھ،ج:1،ص:216۔ حضرت مولانامفتی محمدشفیع صاحب رحمہ اللہ کافرمان سوال:اگرکوئی شخص جوعالم نہیں ہے کسی شرعی مسئلہ کے جوازیاعدم جوازکافتویٰ دے،اس کی نسبت کیا حکم ہے؟ جواب:بغیرعلم کے فتویٰ دینا حرام ہے،اورجوشخص اس کے غلط فتوے پرعمل کرے گااُس کاگناہ بھی اِس کے سررہے گا۔اور کفارہ اس گناہ کا یہ ہے کہ اپنے فتوے کے غلط ہونے کااعلان کرے اوراللہ تعالیٰ سے توبہ کرے۔ امدادالمفتین،دارالاشاعت،کراچی،2001ء،ج:2،ص:197۔ حضرت مولانامفتی سیدمحمدسلمان منصورپوری صاحب کا قول جاہل آدمی کااپنی طرف سے وعظ ونصیحت کرنااوربے سند باتیں کرنا درست نہیں۔البتہ اگر وہ اپنی طرف سے کوئی بات نہ کہےبلکہ کسی معتبرکتاب یاعالم کے حوالہ سے صحیح اورمستندباتیں نقل کرے تواس کی اجازت ہے۔ کتاب النوازل،المرکزالعلمی للنشروالتوزیع،مرادآباد،انڈیا،اشاعت اول،2014ء،ج:2،ص:395۔ حضرت مولانامفتی حمید اللہ جان صاحب رحمہ اللہ کا قول مذکورہ شخص اگر وعظ ونصیحت بیان کرتا ہے اورایسے مسائل بیان کرتا ہے جس کااس کو علم ہے مثلاً نماز اورروزہ کی فرضیت ،توایسے شخص کوان مسائل کی تبلیغ کرنااوروعظ ونصیحت کرنا جائز ہے۔اوراگر وعظ ونصیحت میں اختلافی اوراجتہادی مسائل بیان کرتا ہے جس کااس کو علم نہیں ہے ،توایسے شخص کے لیے تبلیغ کرنا جائز نہیں ہے۔۔۔الخ ارشاد المفتین،مکتبہ الحسن ،اردو بازار،لاہور،اشاعت ثانی،2017ء،ج:1،ص:351۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی محلہ سلیمان خیل (جبر)ٹوپی صوابی