غار ثور میں حضرت ابو بکر صدیقؓ کو سانپ کے ڈسنے کے واقعہ کی تحقیق
سوال :-
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس روایت کے بارے میں کہ:مستفتی
جواب :-
بسم اللہ الرحمن الرحیم
"الجواب حامدا ومصلیا"
امام بیہقیؒ نےاپنی کتاب دلائل النبوہ 2/476میں امام ابن عساکر نے تاریخ دمشق30/81 میں امام لالکا ئ نے شرح أصول اعتقاد أهل السنہ والجماعۃمیں رقم (2426)پر اسی طرح امام مالکی نے المجالسۃ وجواهر العلم میںرقم(2238)پر ایک طویل قصہ ذکر کیا ہے "کہ ضبة بن محصنؒ نے حضرت عمر ؓسے نقل کیاہے کہ:
حضرت عمر ؓ نے فرمایا :اللہ کی قسم !حضرت ابو بکر صدیقؓ کی ایک رات اور دن حضرت عمرؓ کی تمام زندگی سے بہتر ہے کیا میں تمھیں آپؓ کی دن اور رات کا قصہ سناؤں ؟راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کیا جی ہاں !اے أمير المؤمنين ،توانہوں نے فرمایا آپؓ کی رات کی قصہ سنو ۔ جب آپؐ مکہ والوں سے روپوش ہو کر رات کو نکلے تو ابوبکر ؓ بھی آپؐ کے ساتھ چل پڑے ،ابوبکر ؓ کبھی تو آپؐ کے آگے چلتے ،اور کبھی آپؐ کے پیچھے ،اورکبھی آپؐ کے دائیں طرف ،اور کبھی آپ کے بائیں طرف چلتے تھے ،آپؐ نے ابوبکرؓسے فرمایا:اے ابوبکرؓ!یہ کیا ہے؟میں آپ کے اس طرح کرنے کو نہیں سمجھ سکا،ابوبکرؓنے عرض کیا :اے اللہ کے رسول!جب مجھے خیال ہوتا ہے کہ کوئ گھات میں بیٹھا ہوگاتو میں آپ کے آگے ہوجاتا ہو اور جب یہ خیال ہوتا ہے کہ کوئ پیچھے سے آرہا ہوگا تو میں آپ کے پیچھے ہوجاتا ہوں ،اور اسی خیال سے کبھی آپ کے دائیں ہوجاتا ہوں اور کبھی آپ کے بائیں ، مجھے آپ کے بارے میں اطمینان نہیں ہوتا،عمرؓ فرماتے ہیں کی رسول اللہﷺاس رات اپنی انگلیوں کے بل پر چلتے رہے یہاں تک کہ آپؐ کے پاؤں زخمی ہوگئے،جب ابوبکر ؓنے دیکھا کہ آپؐ کے پاؤں مبارک زخمی ہوچکے ہیں تو آپؐ کو کندھے پر اٹھالیا ،اور آپ ؐکو جلدی سے لیکر غار کے دہانے پہنچے،پھر آپؐ کو اتار کر کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے آپ غار میں داخل نہیں ہونگے یہاں تک میں آپ سے پہلے داخل ہوجاؤ ں اگر اس میں کوئ چیز ہو تو پہلے اس کا سامنا مجھ سے ہو چنانچہ ابوبکر ؓ غار میں داخل ہوئے لیکن ان کو کوئ چیز نظر نہیں آئی ،واپس پلٹ کر آپ ؐ کو لیکر غار میں داخل ہوئے اور غار میں ایک سوراخ تھا جس میں سانپ تھے ابوبکرؓ کو خوف ہوا کہ ان سوراخوں سے ایسی کوئ چیز نکل کر آپؐ کو تکلیف نہ پہنچادے چنانچہ ابوبکر ؓ نے پاؤں اس غار میں داخل کیاتو ابوبکر ؓکو
سانپوں نے ڈسنا شروع کیا، جس سے ان کے آنسو نیچے بہنے لگے ،اور آپؐ نے ان سے فرمایااے ابوبکر! غمگین مت ہو ،بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے چنانچہ اللہ تبارک وتعالی نے ابوبکر ؓپر اپنا سکینہ و اطمینان نازل فرمایا،تو یہ ان کی وہ رات تھی اب ان کے دن کاقصہ سنو۔۔۔۔
لیکن تمام سندیں سند میں موجود راوی فرات بن السائب پر آکر جمع ہوجاتی ہے جو انتہائ درجے کا ضعیف راوی ہے
فرات بن السائب پر ائمہ کا کلام:
امام بخاریؒ نے تاریخ اوسط میں( 2087)میں فرمایا ہے سكتوا عنه
نیزتاریخ کبیر میں( 583)پر منكر الحديث کہا ہے
امام یحی بن معینؒ نے تاريخ ابن معين (5080)پر ليس بشيءکہا ہے
امام نسائ ؒنے الضعفاء والمتروكون( 488) پر متروك الحديث کہا ہے
ابن ابي حاتم الجرح والتعديلمیں ضعيف الحديث منكر الحديث کہا ہے
امام ابن حبان ؒنے الثقات میں فرمایا ہے كان ممن يروي الموضوعات عن الأثبات ويأتي بالمعضلات عن الثقات لا يجوز الاحتجاج به ولا الرواية عنه ولا كتابة حديثه إلا على سبيل الاختبار کہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ثقہ لوگوں سے موضوعات نقل کرتے ہیں اور ثقہ لوگوں سے معضل روایات لاتے ہیں نہ تو اس سے دلیل پکڑنااور نہ اس سے روایت کرنا صحیح ہےاور نہ اس کی حدیث لکھنا جائز ہیں مگر اختبار کے طور پر ایسا کر سکتے ہیں
امام ابن عدی ؒنے الکامل میں( 1570)پر أحاديثه عن ميمون بن مهران مناكير کہا ہے
امام ابن حجر ؒنے لسان المیزان میں 6021)پر فرات بن سلیمان الرقی کے ترجمے میں واه ضعيفکہا ہے
لہذا غار ثور میں سانپ کا ابوبکر ؓکوڈسنے کی روایات کو بیان کرنا صحیح نہیں ہے البتہ یہ مضمون صحیح سندوں کے ساتھ ثابت ہے لیکن اس میں ڈسنے والی بات نہیں ہے جیسا کہ :
امام ابوبکر ابن ابی شیبہؒ نےاپنی مصنف میں رقم( 36617) پر عن رجل والی سندکے ساتھ نقل کیا ہے وكيع , عن نافع بن عمر , عن رجل , عن أبي بكر أنهما لما انتهيا , قال: إذا جحر , قال: فألقمه أبو بكر رجله، فقال: «يا رسول الله , إن كانت لدغة أو لسعة كانت بي»حضرت ابوبکرؓسے روایت ہے کہ جب آپؐ اورابوبکر صدیق ؓدونوں جب غار کو پہنچےتو ابوبکر ؓ تو ابوبکر ؓکو ایک سوراخ غارمیں دکھائ دیا تو ابوبکرؓنے سوراخ میں اپنا پاؤں داخل کردیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول!اگر کوئ چیز ڈنک مارے یا ڈسے تو وہ مجھے ڈسے۔ یہ روایت امام احمدؒنے فضائل الصحابہ میں(22)پرحافظ ابو القاسم لالکائ نے شرح اصول میں (2425)پر اور ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں30/81پر تخریج کی ہے
نیز یہی مضمون ایک دوسری سند کے ساتھ حضرت انسؓ سے بھی منقول ہے جسے حافظ ابوالقاسم لالکائؒ نے شرح اصول اعتقاد اھل السنہ والجماعہ میں(2327)پراور حافظ ابو نعیم اصبہانیؓ نےحلیۃالاولیاءمیں 1/33پر نقل کیا ہے
سابقہ تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ حافظ ذہبی ؒ نے میزان الاعتدال میں رقم (4804)پراس روایت کو قصہ گو صوفیوں کی گھڑی ہوی چیز کی مشابہ قرار دیا ہےاسی طرح علامہ سبط ابن العجمیؒ نے میں رقم(424)پراور علامہ ابن حجرؒنے لسان المیزان میں (1588)پر حافظ ذہبیؒ کے قول پر اکتفاء کیا ہے اس لئے سانپ کے ڈسنے کا مشہور واقعہ بیان کرنا صحیح نہیں ہے البتہ یہ بات درست ہے کہ ابوبکر صدیقؒ نے غار میں پاؤں داخل کیا تھا تاکہ آپ ؐکو کوئ موذی جانور نقصان نہ پہنچائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم بالصواب
حیدر علی مردان
دار الافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
2023/1/28الموافق5/رجب/ 1443ھ
الجواب صحیح
حضرت مولانا)نور الحق (صاحب دامت برکاتہم العالیہ)
ریئس دار الافتاء ومدیر جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ)
2023/1/28الموافق5/رجب /1443ھ
جواب :-
بسم اللہ الرحمن الرحیم
"الجواب حامدا ومصلیا"
امام بیہقیؒ نےاپنی کتاب دلائل النبوہ 2/476میں امام ابن عساکر نے تاریخ دمشق30/81 میں امام لالکا ئ نے شرح أصول اعتقاد أهل السنہ والجماعۃمیں رقم (2426)پر اسی طرح امام مالکی نے المجالسۃ وجواهر العلم میںرقم(2238)پر ایک طویل قصہ ذکر کیا ہے "کہ ضبة بن محصنؒ نے حضرت عمر ؓسے نقل کیاہے کہ:
حضرت عمر ؓ نے فرمایا :اللہ کی قسم !حضرت ابو بکر صدیقؓ کی ایک رات اور دن حضرت عمرؓ کی تمام زندگی سے بہتر ہے کیا میں تمھیں آپؓ کی دن اور رات کا قصہ سناؤں ؟راوی فرماتے ہیں میں نے عرض کیا جی ہاں !اے أمير المؤمنين ،توانہوں نے فرمایا آپؓ کی رات کی قصہ سنو ۔ جب آپؐ مکہ والوں سے روپوش ہو کر رات کو نکلے تو ابوبکر ؓ بھی آپؐ کے ساتھ چل پڑے ،ابوبکر ؓ کبھی تو آپؐ کے آگے چلتے ،اور کبھی آپؐ کے پیچھے ،اورکبھی آپؐ کے دائیں طرف ،اور کبھی آپ کے بائیں طرف چلتے تھے ،آپؐ نے ابوبکرؓسے فرمایا:اے ابوبکرؓ!یہ کیا ہے؟میں آپ کے اس طرح کرنے کو نہیں سمجھ سکا،ابوبکرؓنے عرض کیا :اے اللہ کے رسول!جب مجھے خیال ہوتا ہے کہ کوئ گھات میں بیٹھا ہوگاتو میں آپ کے آگے ہوجاتا ہو اور جب یہ خیال ہوتا ہے کہ کوئ پیچھے سے آرہا ہوگا تو میں آپ کے پیچھے ہوجاتا ہوں ،اور اسی خیال سے کبھی آپ کے دائیں ہوجاتا ہوں اور کبھی آپ کے بائیں ، مجھے آپ کے بارے میں اطمینان نہیں ہوتا،عمرؓ فرماتے ہیں کی رسول اللہﷺاس رات اپنی انگلیوں کے بل پر چلتے رہے یہاں تک کہ آپؐ کے پاؤں زخمی ہوگئے،جب ابوبکر ؓنے دیکھا کہ آپؐ کے پاؤں مبارک زخمی ہوچکے ہیں تو آپؐ کو کندھے پر اٹھالیا ،اور آپ ؐکو جلدی سے لیکر غار کے دہانے پہنچے،پھر آپؐ کو اتار کر کہا قسم ہے اس ذات کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے آپ غار میں داخل نہیں ہونگے یہاں تک میں آپ سے پہلے داخل ہوجاؤ ں اگر اس میں کوئ چیز ہو تو پہلے اس کا سامنا مجھ سے ہو چنانچہ ابوبکر ؓ غار میں داخل ہوئے لیکن ان کو کوئ چیز نظر نہیں آئی ،واپس پلٹ کر آپ ؐ کو لیکر غار میں داخل ہوئے اور غار میں ایک سوراخ تھا جس میں سانپ تھے ابوبکرؓ کو خوف ہوا کہ ان سوراخوں سے ایسی کوئ چیز نکل کر آپؐ کو تکلیف نہ پہنچادے چنانچہ ابوبکر ؓ نے پاؤں اس غار میں داخل کیاتو ابوبکر ؓکو
سانپوں نے ڈسنا شروع کیا، جس سے ان کے آنسو نیچے بہنے لگے ،اور آپؐ نے ان سے فرمایااے ابوبکر! غمگین مت ہو ،بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے چنانچہ اللہ تبارک وتعالی نے ابوبکر ؓپر اپنا سکینہ و اطمینان نازل فرمایا،تو یہ ان کی وہ رات تھی اب ان کے دن کاقصہ سنو۔۔۔۔
لیکن تمام سندیں سند میں موجود راوی فرات بن السائب پر آکر جمع ہوجاتی ہے جو انتہائ درجے کا ضعیف راوی ہے
فرات بن السائب پر ائمہ کا کلام:
امام بخاریؒ نے تاریخ اوسط میں( 2087)میں فرمایا ہے سكتوا عنه
نیزتاریخ کبیر میں( 583)پر منكر الحديث کہا ہے
امام یحی بن معینؒ نے تاريخ ابن معين (5080)پر ليس بشيءکہا ہے
امام نسائ ؒنے الضعفاء والمتروكون( 488) پر متروك الحديث کہا ہے
ابن ابي حاتم الجرح والتعديلمیں ضعيف الحديث منكر الحديث کہا ہے
امام ابن حبان ؒنے الثقات میں فرمایا ہے كان ممن يروي الموضوعات عن الأثبات ويأتي بالمعضلات عن الثقات لا يجوز الاحتجاج به ولا الرواية عنه ولا كتابة حديثه إلا على سبيل الاختبار کہ یہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ثقہ لوگوں سے موضوعات نقل کرتے ہیں اور ثقہ لوگوں سے معضل روایات لاتے ہیں نہ تو اس سے دلیل پکڑنااور نہ اس سے روایت کرنا صحیح ہےاور نہ اس کی حدیث لکھنا جائز ہیں مگر اختبار کے طور پر ایسا کر سکتے ہیں
امام ابن عدی ؒنے الکامل میں( 1570)پر أحاديثه عن ميمون بن مهران مناكير کہا ہے
امام ابن حجر ؒنے لسان المیزان میں 6021)پر فرات بن سلیمان الرقی کے ترجمے میں واه ضعيفکہا ہے
لہذا غار ثور میں سانپ کا ابوبکر ؓکوڈسنے کی روایات کو بیان کرنا صحیح نہیں ہے البتہ یہ مضمون صحیح سندوں کے ساتھ ثابت ہے لیکن اس میں ڈسنے والی بات نہیں ہے جیسا کہ :
امام ابوبکر ابن ابی شیبہؒ نےاپنی مصنف میں رقم( 36617) پر عن رجل والی سندکے ساتھ نقل کیا ہے وكيع , عن نافع بن عمر , عن رجل , عن أبي بكر أنهما لما انتهيا , قال: إذا جحر , قال: فألقمه أبو بكر رجله، فقال: «يا رسول الله , إن كانت لدغة أو لسعة كانت بي»حضرت ابوبکرؓسے روایت ہے کہ جب آپؐ اورابوبکر صدیق ؓدونوں جب غار کو پہنچےتو ابوبکر ؓ تو ابوبکر ؓکو ایک سوراخ غارمیں دکھائ دیا تو ابوبکرؓنے سوراخ میں اپنا پاؤں داخل کردیا اور عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول!اگر کوئ چیز ڈنک مارے یا ڈسے تو وہ مجھے ڈسے۔ یہ روایت امام احمدؒنے فضائل الصحابہ میں(22)پرحافظ ابو القاسم لالکائ نے شرح اصول میں (2425)پر اور ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں30/81پر تخریج کی ہے
نیز یہی مضمون ایک دوسری سند کے ساتھ حضرت انسؓ سے بھی منقول ہے جسے حافظ ابوالقاسم لالکائؒ نے شرح اصول اعتقاد اھل السنہ والجماعہ میں(2327)پراور حافظ ابو نعیم اصبہانیؓ نےحلیۃالاولیاءمیں 1/33پر نقل کیا ہے
سابقہ تفصیل کا حاصل یہ ہے کہ حافظ ذہبی ؒ نے میزان الاعتدال میں رقم (4804)پراس روایت کو قصہ گو صوفیوں کی گھڑی ہوی چیز کی مشابہ قرار دیا ہےاسی طرح علامہ سبط ابن العجمیؒ نے میں رقم(424)پراور علامہ ابن حجرؒنے لسان المیزان میں (1588)پر حافظ ذہبیؒ کے قول پر اکتفاء کیا ہے اس لئے سانپ کے ڈسنے کا مشہور واقعہ بیان کرنا صحیح نہیں ہے البتہ یہ بات درست ہے کہ ابوبکر صدیقؒ نے غار میں پاؤں داخل کیا تھا تاکہ آپ ؐکو کوئ موذی جانور نقصان نہ پہنچائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔واللہ اعلم بالصواب
حیدر علی مردان
دار الافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی
2023/1/28الموافق5/رجب/ 1443ھ
الجواب صحیح
حضرت مولانا)نور الحق (صاحب دامت برکاتہم العالیہ)
ریئس دار الافتاء ومدیر جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانیؒ)
2023/1/28الموافق5/رجب /1443ھ