علماء کی توہین کا شرعی حکم

سوال :-
استفتاءسوال نمبر1:کیا بے عمل سید جب تک اس سے کفر صادر نہ ہوا ہو ،کیا اس کی تعظیم لازم ہے؟سوال نمبر 2:کیا کسی سید اور عالم کی بے عزتی کرنا کفر ہے؟المستفتیتوقیر0318-5343332

جواب :-

الجواب باسم ملھم الصواب حامداً ومصلیاً! نبی کریم ﷺکی طرف نسبت ہونے کی وجہ سے سادات کی شرافت نسبی یقیناً ایک بہت بڑی سعادت اور منقبت ہےجو اللہ تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی ہے۔اگر ایک سید حتی المقدورشریعت کاپابند ہواور شریعت کے مقتضیات کے مطابق عمل کرتا ہو،فسق وفجور سے کنارہ کشی کرتا ہوتو یقیناً اس شرافت نسبی کی وجہ سے وہ لائق تعظیم وتکریم ہے۔اور اگر خدانخواستہ کوئی سید احکامات شریعت کا پابند نہ ہو ،فسق وفجور اور بدکرداری میں مبتلا ہو اور اپنے عظیم شرافت نسبی کا لحاظ کیے بغیر سرِعام احکامات خداوندی سے بغاوت کرتا ہو توپھراس کے لیے صرف یہ شرافت نسبی کافی نہیں ۔اپنی بداعمالی کی وجہ سے اس صورت میں وہ لائق تعظیم و تکریم نہیں ہے،کیونکہ اس نے خود اپنی شرافت نسبی کو ختم کردیا ہے۔نبی کریم ﷺ کے خاندان میں آل علی رضی اللہ عنہ ، آل عباس رضی اللہ عنہ،آل حارث رضی اللہ عنہ،آل جعفر رضی اللہ عنہ اورآل عقیل رضی اللہ عنہ پر زکوٰۃ اور صدقات واجبہ شرافت نسبی کی وجہ سے حرام کیے گئے کیونکہ ان حضرات نے نبی کریم ﷺکی غلامی کو قبول کرکے اپنا تن من دھن اسلام پر قربان کردیا تھا۔بنوہاشم میں اُس وقت اور بھی بہت سارے حضرات موجود تھے مگر نبی کریم ﷺکی مخالفت کی وجہ سے ان کو آپ ﷺ کی قرابت سے الگ کردیا گیا،یہاں تک کہ ابولہب کی وہ اولاد جو بعد میں مسلمان ہوئی اُن پر بھی صدقات واجبہ کو حرام نہیں کیا گیا۔معلوم ہوا کہ کفر کی وجہ سے ان کی نسبی شرافت منقطع ہوگئی ہے۔اسی طرح روایات میں آیا ہے کہ قیامت کے دن جب امتی نبی کریم ﷺ پر پیش ہوں گے توایک جماعت کوروک دیا جائے گا ۔یہ دیکھ کرآپ ﷺ فرمائیں گے "اصحابی اصحابی" آپ ﷺ سے عرض کیا جائے گا "انک لاتدری مااحدثوابعدک"توآپ ﷺ فرمائیں گے"سحقاً سحقاً" باوجود امتی ہونے کے بدعات کرنے کی وجہ سےآپ ﷺ براءت کااظہار فرما رہے ہیں ،تومعلوم ہوا کہ شرافت نسبی کے ساتھ ساتھ عمل صالح اور اتباع شریعت بھی لازمی ہے۔اگراتباع شریعت نہ ہو تو صرف شرافت نسبی سبب تعظیم وتکریم نہیں ہے۔ لہٰذا جو سید فسق وفجور میں مبتلا ہو وہ لائق تعظیم نہیں ہے ،مگر کسی کی غیبت کرنے،کسی سے بدکلامی کرنے،کسی کو گالی دینے یاکسی سے فحش گوئی کرنے کی اسلام میں اجازت نہیں خواہ وہ سید ہو یا غیر سید۔اس وجہ سے بے عمل سید کی توہین کی بھی اجازت نہیں ہے بلکہ لازم ہے کہ انہیں نرمی کے ساتھ سمجھا کر اور انہیں شرافت نسبی یاد دلا کر صحیح راستے پر لانے کی کوشش کی جائے تاکہ اہل بیت کا یہ چشم وچراغ دنیا اورآخرت کی بے عزتی سےبچ جائے۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا، نَفَّسَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ، يَسَّرَ اللهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا، سَتَرَهُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ، وَمَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا، سَهَّلَ اللهُ لَهُ بِهِ طَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَمَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتٍ مِنْ بُيُوتِ اللهِ، يَتْلُونَ كِتَابَ اللهِ، وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ، إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمِ السَّكِينَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ، وَذَكَرَهُمُ اللهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ، وَمَنْ بَطَّأَ بِهِ عَمَلُهُ، لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نَسَبُهُ۔ صحیح مسلم،داراحیاء التراث العربی،بیروت،رقم الحدیث:2699۔ عَنْ أُمِّ سَلَمَةَ، زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهَا قَالَتْ: كُنْتُ أَسْمَعُ النَّاسَ يَذْكُرُونَ الْحَوْضَ، وَلَمْ أَسْمَعْ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمًا مِنْ ذَلِكَ، وَالْجَارِيَةُ تَمْشُطُنِي، فَسَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: أَيُّهَا النَّاسُ فَقُلْتُ لِلْجَارِيَةِ: اسْتَأْخِرِي عَنِّي، قَالَتْ: إِنَّمَا دَعَا الرِّجَالَ وَلَمْ يَدْعُ النِّسَاءَ، فَقُلْتُ: إِنِّي مِنَ النَّاسِ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَكُمْ فَرَطٌ عَلَى الْحَوْضِ، فَإِيَّايَ لَا يَأْتِيَنَّ أَحَدُكُمْ فَيُذَبُّ عَنِّي كَمَا يُذَبُّ الْبَعِيرُ الضَّالُّ، فَأَقُولُ: فِيمَ هَذَا؟ فَيُقَالُ: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ، فَأَقُولُ: سُحْقًا "۔ صحیح مسلم،داراحیاء التراث العربی،بیروت،رقم الحدیث:2295۔ وبه علم أن إطلاق بني هاشم مما لا ينبغي إذ لا تحرم عليهم كلهم بل على بعضهم ولهذا قال في الحواشي السعدية: إن آل أبي لهب ينسبون أيضا إلى هاشم وتحل لهم الصدقة.وأجاب في النهر بقوله وأقول قال في النافع بعد ذكر بني هاشم إلا من أبطل النص قرابته يعني به قوله صلى الله عليه وسلم "لا قرابة بيني وبين أبي لهب فإنه آثر علينا الأفجرين" وهذا صريح في انقطاع نسبته عن هاشم، وبه ظهر أن في اقتصار المصنف على بني هاشم كفاية، فإن من أسلم من أولاد أبي لهب غير داخل لعدم قرابته وهذا حسن جدا لم أر من نحا نحوه فتدبره. حاشیہ ابن عابدین،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1412ھ،ج:2،ص:350۔ فکیف یظن احدمن ذوی النسب، اذاانتھک حرمات اللہ تعالیٰ ولم یراع ماعلیہ وجب،ان یبقی لہ حرمۃ ومقام،عندہ علیہ الصلاۃ والسلام،ایزعم الغبی انہ اعظم حرمۃ من اللہ عند نبیہ کلا واللہ،بل قلبہ مغمور فی لجج الغفلۃ وساہ،فمن اعتقد ذالک یخشی علیہ سوء الخاتمۃ والعیاذ باللہ۔۔۔الخ العلم الظاہر فی نفع النسب الطاہر ،مشمولہ مجموعہ رسائل ابن عابدین،سہیل اکیڈمی لاہور،ج:1،ص:7۔ جواب نمبر2: کیا کسی سید اور عالم کی بے عزتی کرنا کفر ہے؟اس کی دو صورتیں ہیں۔ایک صورت تو یہ ہے کہ کسی ذاتی معاملہ کی وجہ سےکسی سیدیا عالم سے اختلاف ہوجائے (مثلاً کسی عالم یا سید کے ساتھ کوئی کاروباری لین دین کا معاملہ تھا اور اختلاف ہو گیا یا کوئی خاندانی رشتہ داری وغیرہ معاملات میں اختلاف ہوگیاوغیرہ وغیرہ)اور بات لڑائی جھگڑے یا گالم گلوچ تک پہنچ جائے تو اگرچہ ایسا کرنا بھی درست نہیں ہے کیونکہ کسی بھی مسلمان سے لڑنا جھگڑنا یا کسی مسلمان کو گالی دینا یا کسی مسلمان کی غیبت،چغلی وغیرہ کی اسلام میں اجازت نہیں ہےخواہ وہ سید ہو یا غیر سید اورخواہ وہ عالم ہو یا غیر عالم۔لیکن چونکہ اس صورت میں سید یاعالم کی جوبےعزتی کی جارہی ہے(جوکہ یقیناً نہیں کرنی چاہیئے)ایک دنیاوی معاملہ کی وجہ سے کی جارہی ہے تو اس صورت میں یہ کفر نہیں ہے۔ہاں مسلمان کی بے عزتی،اہانت مسلم،ایذائے مسلم وغیرہ جرائم کا گناہ ہوگا۔چنانچہ مولاناظفراحمدعثمانی صاحبؒ نے اسی بات کو بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: عالم کی سب وشتم سے کفرلازم نہیں آتا۔۔۔۔اورفقہاء کے بعض فتاویٰ سے جوسب عالم کا کفر ہونا معلوم ہوتا ہے اس کامطلب یہ ہے کہ جب کہ عالم کو اس طرح سب وشتم کرے جس سے علم شریعت کی توہین ہوجائے ۔اور دنیوی معاملات میں عالم سے لڑائی کرنا موجب توہین علم وشریعت نہیں ہے۔ امداد الاحکام،مکتبہ دارالعلوم کراچی،جنوری 2009ء،ج:1،ص:145۔ دوسری صورت یہ ہے کہ العیاذباللہ کوئی شخص کسی سید کی بے عزتی صرف اس وجہ سے کرتا ہے کہ وہ سید ہے اور نبی کریم ﷺ کےساتھ اس کی ایک نسبت ہے اور صرف اسی شرافت نسبی کی وجہ سے وہ العیاذباللہ اس سید کی بے عزتی کرتا ہے ۔اسی طرح کسی عالم دین کی توہین صرف اس کے عالم دین ہونے کی وجہ سے کرتا ہے تواس صورت میں اس کو فقہائے کرام نے موجبات کفر میں شمارکیا ہے،کیونکہ اس صورت میں اس سے توہین رسالت اور اہانت ِ علم دین کا پہلو نکلتا ہے۔اس وجہ سے یہ صورت انتہائی خطرناک ہے اور اس سے احتراز لازمی ہے۔ وفي البزازية فالاستخفاف بالعلماء لكونهم علماء استخفاف بالعلم والعلم صفة الله تعالى منحه فضلا على خيار عباده ليدلوا خلقه على شريعته نيابة عن رسله فاستخفافه بهذا يعلم أنه إلى من يعود فإن افتخر سلطان عادل بأنه ظل الله تعالى على خلقه يقول العلماء بلطف الله اتصفنا بصفته بنفس العلم فكيف إذا اقترن به العمل الملك عليك لولا عدلك فأين المتصف بصفته من الذين إذا عدلوا لم يعدلوا عن ظله والاستخفاف بالأشراف والعلماء كفر.ومن قال للعالم عويلم أو لعلوي عليوي قاصدا به الاستخفاف كفر.ومن أهان الشريعة أو المسائل التي لا بد منها كفر ومن بغض عالما من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر ولو شتم فم عالم فقيه أو علوي يكفر۔۔۔الخ مجمع الانھر،داراحیاء التراث العربی،بیروت،ج:1،ص:695۔ ومن أبغض عالما من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصدا الاستخفاف بالدين كفر لا إن لم يقصده۔۔۔الخ البحرالرائق،دارالکتاب الاسلامی،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،ج:5،ص:134۔ ومن أبغض عالما من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر ولو صغر الفقيه أو العلوي قاصدا الاستخفاف بالدين كفر لا إن لم يقصده۔۔۔الخ لسان الحکام فی معرفۃ الاحکام،البایی الحلبی،قاہرہ،الطبعۃ الثانیۃ،1973ء،ج:1،ص:415۔ في النصاب من أبغض عالما من غير سبب ظاهر خيف عليه الكفر، إذا قال لرجل مصلح: ديدا روى نزد من جنان است كه ديدار خوك يخاف عليه الكفر كذا في الخلاصة.ويخاف عليه الكفر إذا شتم عالما، أو فقيها من غير سبب، ويكفر بقوله لعالم ذكر الحمار في است علمك يريد علم الدين كذا في البحر الرائق۔۔۔۔.رجل يجلس على مكان مرتفع، ويسألون منه مسائل بطريق الاستهزاء، ثم يضربونه بالوسائد، وهم يضحكون يكفرون جميعا۔۔۔الخ الفتاویٰ الھندیۃ،دارالفکر،بیروت،الطبعۃ الثانیۃ،1310ھ،ج:2،ص:270۔ البتہ یہاں یہ امر بھی ملحوظ خاطر رہے کہ ہمارے فقہائے کرام نے جو اس طرح کے کلمات کو نقل کرنے کے بعد ان پرموجبات کفرکا حکم لگایا ہے تو اس سے مقصود لزوم کفر کا بیان ہوا کرتا ہے ،اور تکفیر کے لیے التزام کفر کی ضرورت ہوتی ہے لزوم کفر پر کفر کا فتویٰ نہیں لگتا۔تکفیر مسلم میں احتیاط بہت ضروری ہے۔جب تک معاملے کی پوری تحقیق نہ کی جائے اور تکفیر کے تمام اصول و ضوابط کا لحاظ نہ رکھا جائے تب تک صرف کتب فقہ میں اس طرح کے کلمات دیکھ کر کسی کو کافر کہنے کی اجازت نہیں ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ الفتاویٰ الخیریہ میں لکھا ہے کہ اس طرح کے الفاظ پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا جا سکتا۔چنانچہ لکھا ہے کہ: والذی تحرر انہ لا یفتی بتکفیر مسلم امکن حمل کلامہ علیٰ محمل حسن او کان فی کفرہ اختلاف ولو روایۃ ضعیفۃ،فعلیٰ ھٰذا فاکثر الفاظ التکفیر المذکورۃ لایفتی بالتکفیر بھا،ولقد الزمت نفسی ان لا افتی بشیئ منھا واللہ اعلم۔ الفتاویٰ الخیریۃ علیٰ ھامش الفتاویٰ تنقیح الحامدیۃ،مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ،کوئٹہ،ج:1،ص:177 اس وجہ سے اگر کسی جگہ العیاذباللہ کسی شخص سے اس طرح کے کلمات کا صدور ہوجائےتوخود اُسے کافر کہنے کی بجائے کسی مستند دارالافتاء سے رجوع کیا جائے۔ واللہ اعلم بالصواب مفتی ساجد خان اُتلوی مسئول دارالافتاء جامعہ امام محمد بن الحسن الشیبانی سلیمان خیل(جبر)ٹوپی صوابی